’’سُپر کلاک‘‘
یہ کلاک آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافت کی آزمائش کرے گی
طبیعیات داں البرٹ آئن اسٹائن نے 1905ء میں اپنا مشہور زمانہ نظریۂ اضافت (Theory of Relativity) پیش کیا تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز تک تمام بڑے بڑے سائنس داں، مفکر اور فلسفی یہی کہتے رہے کہ مادّہ ایک ایسی شے ہے جسے نہ تو پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی تباہ کیا جاسکتا ہے۔ مادہ بے شک اپنی شکل تبدیل کر لیتا ہے، جسے قانون بقائے مادہ یعنی Law of Conservation of Matter بھی کہتے ہیں۔ اس قانون کے مطابق مادّہ اپنی شکل تبدیل کر سکتا ہے جیسے پانی برف کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے اور بھاپ کی بھی لیکن اس کے وجود کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم آئن سٹائن نے جب نظریۂ اضافت پیش کیا تو صدیوں پرانے سائنسی اصول ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گئے۔ آئن سٹائن چوں کہ اعلٰی پائے کا ریاضی داں تھا اس لیے اس نے مادے اور توانائی کے تعلق کو ایک کلیے E=mc2 سے ظاہر کیا۔ آئن سٹائن کا یہ کلیہ اس کی ذہنی کاوشوں کا نچوڑ تھا۔
اس کلیے کے مطابق اگر ایک گرام کمیت اور روشنی کی رفتار رکھنے والے مادّے کو تباہ کردیا جائے تو اس سے انتہائی کثیر مقدار میں توانائی خارج ہوگی۔ ایٹم بم اسی اصول کے تحت کام کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس نظریے کے مطابق وقت کے گزرنے کی رفتار کا انحصار کشش ثقل پر ہوتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق جیسے جیسے آپ زمین جیسے کسی بڑے سیارے کے قریب پہنچتے ہیں وقت کے گزرنے کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے۔
ایٹم کی دریافت کا سہرا بھی طبیعیات کے نوبیل انعام یافتہ آئن اسٹائن کے سر ہے ۔ ان کی یہ دریافت آگے چل کر کوانٹم تھیوری کی وجہ بنی جو فزکس کی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔
جرمن شہر ہافن میں سائنس داں اسی نظریۂ اضافیت میں مذکور ایک خلائی عمل کو جانچنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک ایٹمی گھڑی تخلیق کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ گھڑی وقت کی درست ترین پیمائش کرسکے گی۔
یہ سسٹم جسے ''سپر کلاک'' قرار دیا جا رہا ہے، دراصل دو ایٹمی گھڑیوں پر مشتمل ہو گا، جن کا لیزر اور مائیکروویو کے ذریعے زمین سے رابطہ ہو گا۔ یورپین اسپیس ایجنسی کے لیے تیار کیے جانے والے اس سپر کلاک کو ACES کا نام دیا گیا ہے یعنی ''اٹامک کلاک اینسمبل اِن اسپیس''۔ اس ایٹمی نظام کو 2017ء میں خلا میں پہنچایا جائے گا اور اسے زمین کے مدار میں گردش کرتے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے منسلک ''یورپیئن کولمبس ماڈیول'' سے جوڑا جائے گا۔
ACES کی درست پیمائش کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے ریکارڈ کیے جانے والے وقت میں 300 ملین سال کے بعد محض ایک سیکنڈ کا فرق پیدا ہونے کا امکان ہے۔
خلا میں پہنچائے جانے کے بعد سائنس دان آٹھ ماہ کے عرصے کے دوران ACES کے ذریعے ریکارڈ کیے گئے وقت کا موازنہ زمین پر موجود ایٹمی کلاک کے ساتھ کریں گے جس کے بعد آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کے بارے میں کوئی حتمی بات سامنے آ سکے گی۔
بیسویں صدی کے آغاز تک تمام بڑے بڑے سائنس داں، مفکر اور فلسفی یہی کہتے رہے کہ مادّہ ایک ایسی شے ہے جسے نہ تو پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی تباہ کیا جاسکتا ہے۔ مادہ بے شک اپنی شکل تبدیل کر لیتا ہے، جسے قانون بقائے مادہ یعنی Law of Conservation of Matter بھی کہتے ہیں۔ اس قانون کے مطابق مادّہ اپنی شکل تبدیل کر سکتا ہے جیسے پانی برف کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے اور بھاپ کی بھی لیکن اس کے وجود کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم آئن سٹائن نے جب نظریۂ اضافت پیش کیا تو صدیوں پرانے سائنسی اصول ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گئے۔ آئن سٹائن چوں کہ اعلٰی پائے کا ریاضی داں تھا اس لیے اس نے مادے اور توانائی کے تعلق کو ایک کلیے E=mc2 سے ظاہر کیا۔ آئن سٹائن کا یہ کلیہ اس کی ذہنی کاوشوں کا نچوڑ تھا۔
اس کلیے کے مطابق اگر ایک گرام کمیت اور روشنی کی رفتار رکھنے والے مادّے کو تباہ کردیا جائے تو اس سے انتہائی کثیر مقدار میں توانائی خارج ہوگی۔ ایٹم بم اسی اصول کے تحت کام کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس نظریے کے مطابق وقت کے گزرنے کی رفتار کا انحصار کشش ثقل پر ہوتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق جیسے جیسے آپ زمین جیسے کسی بڑے سیارے کے قریب پہنچتے ہیں وقت کے گزرنے کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے۔
ایٹم کی دریافت کا سہرا بھی طبیعیات کے نوبیل انعام یافتہ آئن اسٹائن کے سر ہے ۔ ان کی یہ دریافت آگے چل کر کوانٹم تھیوری کی وجہ بنی جو فزکس کی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔
جرمن شہر ہافن میں سائنس داں اسی نظریۂ اضافیت میں مذکور ایک خلائی عمل کو جانچنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ ایک ایٹمی گھڑی تخلیق کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ یہ گھڑی وقت کی درست ترین پیمائش کرسکے گی۔
یہ سسٹم جسے ''سپر کلاک'' قرار دیا جا رہا ہے، دراصل دو ایٹمی گھڑیوں پر مشتمل ہو گا، جن کا لیزر اور مائیکروویو کے ذریعے زمین سے رابطہ ہو گا۔ یورپین اسپیس ایجنسی کے لیے تیار کیے جانے والے اس سپر کلاک کو ACES کا نام دیا گیا ہے یعنی ''اٹامک کلاک اینسمبل اِن اسپیس''۔ اس ایٹمی نظام کو 2017ء میں خلا میں پہنچایا جائے گا اور اسے زمین کے مدار میں گردش کرتے انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے منسلک ''یورپیئن کولمبس ماڈیول'' سے جوڑا جائے گا۔
ACES کی درست پیمائش کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے ریکارڈ کیے جانے والے وقت میں 300 ملین سال کے بعد محض ایک سیکنڈ کا فرق پیدا ہونے کا امکان ہے۔
خلا میں پہنچائے جانے کے بعد سائنس دان آٹھ ماہ کے عرصے کے دوران ACES کے ذریعے ریکارڈ کیے گئے وقت کا موازنہ زمین پر موجود ایٹمی کلاک کے ساتھ کریں گے جس کے بعد آئن اسٹائن کے نظریہ اضافت کے بارے میں کوئی حتمی بات سامنے آ سکے گی۔