ترقی کا راز قومی زبان میں تعلیم

جب ہم دنیا پر طائرانہ اور گہری نظر ڈالتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں جس بھی ملک نے ترقی کی ہے

جب ہم دنیا پر طائرانہ اور گہری نظر ڈالتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں جس بھی ملک نے ترقی کی ہے اس کی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوتی ہے اور ان وجوہات ترقی میں جو بات نمایاں طور پر سامنے آئی ہے وہ قومی یا مادری زبان میں ذریعہ تعلیم ہے جن بھی ممالک نے کسی اور زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا ہے وہ ہنوز ترقی سے بہت پیچھے ہیں یا ان کی ترقی کی رفتار بہت ہی کم ہے۔ پاکستان میں کم و بیش 33 کے لگ بھگ مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں جب کہ دنیا میں اس وقت کوئی 3064 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

اسلام نے بھی زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کے لیے گرانقدر ترغیب دی ہیں اور آج دنیا میں وہی آدمی سب سے کامیاب آدمی سمجھا جاتا ہے جو کہ سب سے زیادہ زبانیں جانتا ہو۔ جرمنی، فرانس، اٹلی اور چین کی زندہ اور نادر مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ چین کے صدر گزشتہ دنوں بھارت کے دورے پر گئے تو وہ چینی زبان میں ہی فخر سے بات کرتے ہیں جب کہ ہمارے وزیراعظم جب بھی کسی ملک کے دورے پر جاتے ہیں تو انگریزی میں بات کرتے ہیں جس سے قدرتی بات یہی کہ وہ نہ تو اپنی بات انھیں سمجھا سکتے ہیں اور نہ ہی یہ صحیح معنوں میں یعنی موثر انداز میں اپنا ماضی الضمیر ہی ادا نہیں کر سکتے۔

اسی طرح دیگر ممالک کے صدور یا وزرائے اعظم جب ہمارے ہاں آتے ہیں تو بھی وہ اپنی قومی زبان میں ہی بات کرتے ہیں اور پھر ہمیں مترجم کا سہارا لینا پڑتا ہے یہ تو ہے ایک تصویر جب کہ دوسری تصویر یہ ہے کہ ہماری نسل ایک بڑے مخمصے میں گرفتار ہے کہ وہ کدھر جائیں کہ انگریزی میں وہ کمال حاصل ہی نہیں ہوتا ہے جو کہ اپنی قومی یعنی مادری زبان میں پڑھنے سے ہوتا ہے آج ہماری ساری نسل اس مسئلے سے دوچار ہے کہ وہ کیا کریں؟ انگریزی نے ہمارے ہاں ایسے خونی پنجے گاڑے ہیں کہ اب اس سے جان بچانا انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے۔

کیونکہ مادری زبان اردو یا قومی زبان اردو ذریعہ تعلیم انگریزی بھلا اس میں ہماری نئی نسل یا ہم کیسے ترقی کر سکتے ہیں خود میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ تمام مضامین میں محنت و مشقت کر کے 80 سے 90 نمبر لیے جا سکتے ہیں مگر انگریزی میں ایسا ممکن نہیں ہے کل خود میرے ساتھ یہ ہوا اور آج میرے بیٹے کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ اس نے انگریزی میں اتنے نمبر نہ لے سکا جتنے وہ دوسرے مضامین میں لیے ہیں۔ یہ رپورٹ بھی اسی بنا پر درست یعنی بالکل صحیح کہی جا سکتی ہے کہ میٹرک میں ہر سال 40 فی صد بچے انگریزی کی بھینٹ (فیل) چڑھ جاتے ہیں انٹرمیڈیٹ میں یہی تناسب 60 فی صد تک جا پہنچتا ہے جب کہ ڈگری کے امتحانات میں یہ صورتحال اور بھی خوفناک ہو جاتی ہے کہ 75 فی صد طلبا کو انگریزی نگل جاتی ہے۔

آج کل آئین سے غداری یا آئین شکنی کا بڑا چرچا ہے جب کہ ہمارے اسی آئین 1973ء کے مطابق یعنی اس کی ذیلی دفعہ 251 میں یہ بات واضح کر دی گئی تھی کہ اس مملکت خداداد کی زبان نہ صرف اردو ہو گی بلکہ آیندہ 15 برسوں میں اس ملک کا تمام نظام اردو میں ہی کر دیا جائے گا مگر ان باتوں پر آج تلک عمل درآمد نہ ہو سکا ۔ کمال حیرت ہے کہ انڈیا میں تو اردو سے نفرت اس بنا پر کی جاتی ہے کہ یہ ہماری یعنی مسلمانوں یا پاکستانیوں کی قومی زبان ہے جب کہ ہمارے ہاں اردو سے نفرت کس بنا پر کی جاتی ہے اور بلکہ کی جا رہی ہے کوئی بتلاؤ تو سہی کہ ہم کسی کو بتلائیں کیا۔ حیرت ہے انڈیا نے تو ہماری دشمنی میں ہی اردو کو دیس نکالا دینے کے لیے ہی تو اسے ہماری زبان یا مسلمانوں کی زبان قرار دے کر انڈیا بدر کرنے کی ناکام کوشش کی مگر اردو کی شان دیکھیں کہ اردو آج بھی ہندوستان میں زندہ ہے اور اردو ادبی ورثہ جنم لے رہا ہے۔


ہمارے ہاں اردو کو آج تلک وہ مقام اور پذیرائی نہ مل سکی جس کی یہ حقدار تھی مگر یہ ایک الگ بات ہے کہ اردو کی شان نہ تو پاکستان میں کم ہو سکی اور نہ ہی انڈیا میں بلکہ الحمد اللہ کہ اردو زبان ساری دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے اور بی بی سی لندن، امریکا اور کئی ممالک سے اردو زبان میں پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ یہ کہنے میں غالباً حق بجانب ہوں کہ جو حکمران جو جماعتیں اور جو لوگ اردو کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں وہ دراصل اردو سے دشمنی نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ ملک اور قوم کی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور اس طرح سے یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان اور پاکستانی قوم ترقی کر سکے۔

یہ صرف اردو کی بات نہیں ہے یہ صرف اردو کے مستقبل کی ہی بات نہیں ہے بلکہ یہ ملک اور قوم کی بقا اور ترقی کا مسئلہ ہے آج ہم ترقی یافتہ ممالک کی فہرست پر نظر ڈالیں تو یہ ممالک دکھائی دیں گے کہ چین، جاپان، جرمنی، اٹلی، فرانس، کوریا، ترکی، ملائشیا وغیرہ ان ممالک نے جو کہ آج ایشیائی ٹائیگرز بنے ہوئے ہیں تعلیم کے میدان میں بے بہا ترقی کی ہے اور یہ ترقی انگریزی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی قومی زبان میں تعلیم کا نصاب ہونے کی وجہ سے ترقی کی ہے ہم بطور کالم نگار، بطور انسان انگریزی کے خلاف نہیں ہیں ہمیں ایک مضمون کے طور پر انگریزی کو بہرحال بادل نخواستہ رکھنا ہی پڑے گا مگر اردو کو اس کا جائز قومی مقام دیے بغیر ہم نہ تو ترقی کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہم ایشیا کے ٹائیگر ممالک میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں اگر ہم یعنی حکمران، ضرب مخالف اور تمام سیاسی جماعتیں اور پریشر گروپس یہ چاہتے ہیں کہ ہم بطور قوم یا ملک ترقی کر لیں تو اس کے لیے نہ صرف ہمیں اپنی قومیGDP میں اضافہ کرنا پڑے گا۔

تعلیم کے بجٹ میں بلکہ اردو کو فوراً اس کا جائز اور وہ اہم مقام بھی دینا پڑے گا جو اس کا حق ہے تمام جماعتوں نے اپنے اپنے منشور میں یہ لکھا تھا اور سارے ملک میں قوم کے سامنے بڑے بڑے جلسوں میں یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم تعلیم کے لیے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کریں گے۔ بعض سیاسی جماعتوں نے تو یہ اضافہ 4 فی صد سے بھی زیادہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی جو ہنوز تشنہ طلب ہے اس لیے ہم ان سطور میں اردو کو اس کا جائز مقام دلانے کے لیے اور اردو کے ضمن میں آئین شکنی ختم کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو یہ کہیں گے کہ وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپنا اپنا کردار مثبت اور تعمیری انداز میں ادا کریں۔

آج حزب مخالف کے سربراہ یہ کردار ادا کر کے پاکستان کی تاریخ میں نہ صرف اپنا نام روشن کر سکتے ہیں بلکہ ملک اور قوم کے لیے ایک مثالی فریضہ بھی ادا کر سکتے ہیں ہم حکمران طبقہ سے بھی اس ضمن میں اپنا کردار مثبت اور تعمیری انداز میں ادا کرنے کے لیے ضروری اور قانونی کارروائی کرنے کی التماس کرتے ہیں تا کہ اس طرح سے ہم بھی ترقی کر کے اقوام عالم میں اپنا نام پیدا کر سکیں اور ہماری ترقی کا خواب پورا ہو سکے۔

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
Load Next Story