تھرپارکر معصوم بچوں کا قبرستان کیوں
محض 42 دنوں میں106 بچوں سمیت 109 افراد بھوک و پیاس سے زندگی کی بازی ہار گئے اور اب بھی 52 بچے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
پاکستان کے عوام اور خواص میں ایک حد فاضل گزشتہ 67 برس سے کھنچی ہوئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ تمام تر مصائب و الم صرف عوام کے نصیب میں لکھ دیے گئے ہیں۔ یوں تو پاکستان کے تمام شہروں اور دیہات میں عوام کو بنیادی ضروریات زندگی اور مسائل کا سامنا ہے لیکن سندھ کے سب سے بڑے صحرا میں تھرپارکر کے باسی شدید ترین غذائی قلت کا شکار ہیں جن کی بھوک کا احساس روزانہ ٹنوں کھانا ضایع کرنے والی اشرافیہ کو ہو ہی نہیں سکتا ورنہ اب تک قحط زدہ تھر کے عوام کی دادرسی کی جا چکی ہوتی۔
لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ تھر میں ہر چند سال بعد رونما ہونے والاقحط اور بیماریاں اب ڈیرہ جمائے بیٹھی ہیں ۔ تھرپارکر میں نہ صرف غذائی قلت برقرار ہے بلکہ گزشتہ روز مزید 5 بچے جاں بحق ہوگئے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا ایشیا کا سب سے بڑا سولر آر او پلانٹ جس سے امید ظاہر کی جارہی تھی کہ شہریوں کی پیاس بجھانے میں کارگر ثابت ہوگا لیکن اس پلانٹ سے تھر کے عوام کو 2 ہفتے بعد بھی میٹھا پانی فراہم نہ کیا جاسکا جس کے باعث پینے کے پانی کی قلت کا مسئلہ بھی ہنوز برقرار ہے۔ محض 42 دنوں میں 106 بچوں سمیت 109 افراد بھوک و پیاس سے زندگی کی بازی ہار گئے اور اب بھی 52 بچے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
سیکڑوں بچوں کی ہلاکتوں کے باوجود انتظامیہ کی بے حسی قائم ہے اور گندم کی تقسیم کے پانچویں مرحلے کو 3 ماہ گزر جانے کے باوجود مکمل نہیں کیا جاسکا، اطلاع کے مطابق حاملہ ماؤں اور بچوں کو کمبل اور کھجوروں کی تقسیم سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ صحرائے تھر کے متاثرین قحط کو مختلف شہروں اور این جی اوز کی جانب سے بھجوائی جانے والی امداد اور گندم کا وزیروں کے گوداموں میں گل سڑجانے کے اسکینڈل بھی منظر عام پر ہیں۔ لیکن قومی اور صوبائی حکومتوں کی بے حسی قابل افسوس ہے۔
صحرائے تھر پاکستان کا ہی ایک حصہ ہے، بے شک سندھ حکومت نے اس معاملے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن تمام تر ذمے داری صرف صوبائی حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی، وفاق کو بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ہنگامی بنیادوں پر تھرپارکر کے متاثرین کو اس غذائی قلت سے نجات دلانا ہوگی۔
لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ تھر میں ہر چند سال بعد رونما ہونے والاقحط اور بیماریاں اب ڈیرہ جمائے بیٹھی ہیں ۔ تھرپارکر میں نہ صرف غذائی قلت برقرار ہے بلکہ گزشتہ روز مزید 5 بچے جاں بحق ہوگئے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا ایشیا کا سب سے بڑا سولر آر او پلانٹ جس سے امید ظاہر کی جارہی تھی کہ شہریوں کی پیاس بجھانے میں کارگر ثابت ہوگا لیکن اس پلانٹ سے تھر کے عوام کو 2 ہفتے بعد بھی میٹھا پانی فراہم نہ کیا جاسکا جس کے باعث پینے کے پانی کی قلت کا مسئلہ بھی ہنوز برقرار ہے۔ محض 42 دنوں میں 106 بچوں سمیت 109 افراد بھوک و پیاس سے زندگی کی بازی ہار گئے اور اب بھی 52 بچے اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
سیکڑوں بچوں کی ہلاکتوں کے باوجود انتظامیہ کی بے حسی قائم ہے اور گندم کی تقسیم کے پانچویں مرحلے کو 3 ماہ گزر جانے کے باوجود مکمل نہیں کیا جاسکا، اطلاع کے مطابق حاملہ ماؤں اور بچوں کو کمبل اور کھجوروں کی تقسیم سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ صحرائے تھر کے متاثرین قحط کو مختلف شہروں اور این جی اوز کی جانب سے بھجوائی جانے والی امداد اور گندم کا وزیروں کے گوداموں میں گل سڑجانے کے اسکینڈل بھی منظر عام پر ہیں۔ لیکن قومی اور صوبائی حکومتوں کی بے حسی قابل افسوس ہے۔
صحرائے تھر پاکستان کا ہی ایک حصہ ہے، بے شک سندھ حکومت نے اس معاملے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن تمام تر ذمے داری صرف صوبائی حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی، وفاق کو بھی اس معاملے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ہنگامی بنیادوں پر تھرپارکر کے متاثرین کو اس غذائی قلت سے نجات دلانا ہوگی۔