جب عوام قانون ہاتھ میں لیتے ہیں
ہم جس نظام میں زندگی گزار رہے ہیں نیم قبائلی جاگیردارانہ کہلاتا ہے
پچھلے چند دنوں کے دوران دو قسم کی بڑی سنگین لیکن گہرے مضمرات رکھنے والی خبریں میڈیا میں آتی رہی ہیں ایک یہ کہ کراچی، حیدرآباد، سکھر، فیصل آباد، لاہور میں عوام نے ڈاکوؤں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر اس قدر دھنائی کی کہ کئی ڈاکو عوام کے اس تشدد سے ہلاک ہو گئے۔ دوسری خبروں کے مطابق کئی پولیس اہلکار ڈکیتیوں اور دوسرے جرائم میں ملوث پائے گئے اور انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ دونوں خبریں ایک دوسرے سے اس قدر ہم آہنگ ہیں کہ ان کی گیرائی گہرائی کا اندازہ مشکل ہے لیکن بہرحال یہ اپنی نوعیت کی دلچسپ لیکن سنگین خبریں ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آتی ہیں اور وہ سکہ ہے ہمارا رائج الوقت نظام۔
ہم جس نظام میں زندگی گزار رہے ہیں نیم قبائلی جاگیردارانہ کہلاتا ہے لیکن ملک میں ہونے والی صنعتی ترقی نے اس نظام کو ایک طرح سے نیم سرمایہ دارانہ بھی بنا دیا ہے اور اس ملغوبے میں سرمایہ دارانہ نظام کی وہ ساری برائیاں در آئی ہیں جو اس کی سرشت میں شامل ہیں مثلاً چوری، ڈاکے اغوا، بددیانتی، کرپشن، ضمیر فروشی، جسم فروشی وغیرہ وغیرہ۔ اس نظام میں ایک ایسا دلچسپ خودکار میکنزم موجود ہے جس کے مطالعے اور مشاہدے سے اس نظام کے ایسے حیرت انگیز خدوخال سامنے آتے ہیں جس پر عام آدمی سوچنے کی زحمت نہیں کرتا۔ یہ نظام چور پیدا کرتا ہے تو چوکیدار بھی پیدا کرتا ہے یہ نظام مجرم پیدا کرتا ہے تو قانون، انصاف کو بھی جنم دیتا ہے۔
یہ نظام ایک طرف جرائم پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف وکلا پیدا کرتا ہے اور وکلا کی قانونی قابلیت عموماً مجرموں کو بے گناہ ثابت کرنے میں صرف ہو جاتی ہے اور وہ وکیل اپنے پیشے کا ماہر وکیل مانا جاتا ہے جو قاتل کو بے گناہ ثابت کر دے۔ یوں قانون اور انصاف مظلوموں کو انصاف دلانے کے بجائے اس نظام میں مجرموں ظالموں کی حفاظت کرتے انھیں تحفظ دلاتے نظر آتے ہیں۔یہ نظام ایک طرف کرپشن پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف اینٹی کرپشن کے ادارے پیدا کرتا ہے اور انھیں بھی کرپشن کے گڑھ میں بدل دیتا ہے۔ یہ نظام موبائل فون پیدا کرتا ہے تو موبائل فون چھیننے والے بھی پیدا کر دیتا ہے۔
یہ نظام موٹر بائیک اور کاریں پیدا کرتا ہے تو موٹر بائیک اور کاریں چھیننے والے گروہ بھی پیدا کر دیتا ہے۔یہ نظام مہنگائی پیدا کرتا ہے تو اسمگلنگ بھی پیدا کر دیتا ہے۔ یہ نظام ہتھیار پیدا کرتا ہے تو ساتھ ہی ان کی نکاسی کے لیے جنگیں بھی پیدا کر دیتا ہے۔ یہ نظام قومی مفادات کا فلسفہ پیدا کرتا ہے تو اس کے تحفظ کے لیے لاکھوں فوجی اور محکمہ دفاع بھی پیدا کر دیتا ہے۔ یہ سارے کام خود کار طریقے سے انجام پاتے ہیں جن پر بہت کم لوگوں کی نظر جاتی ہے ہر شخص اس نظام کی آٹو میٹک مشینری میں ایک پرزے کی طرح کام کرتا ہے، کیا اسے ہم اس نظام کا حسن کہیں یا بدصورتی، کیا ہم اسے اس نظام کی خوبی کہیں یا خرابی؟
ہم نے اپنے کالم کا آغاز عوام کے ہاتھوں ڈاکوؤں پر تشدد اور ڈاکوؤں کی ہلاکت کے بڑھتے ہوئے واقعات سے کیا تھا کہ آج کا تازہ ایکسپریس آ گیا۔ کراچی ایڈیشن کے میٹروپولیٹن صفحے پر ایک پانچ کالمی خبر ہے جس کی ہیڈنگ کچھ یوں ہے ''لانڈھی'' اہل خانہ نے گھر میں داخل ہو کر لوٹ مار کرنے والے دو ڈاکوؤں کو ہلاک کر دیا۔''
اس قسم کے واقعات کا ایک سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ عوام کا قانون اور انصاف سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ حکومت پر ہی عوام کا اعتماد نہیں رہا۔ اور جب قانون انصاف اور حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے تو ملک ایک ایسی انارکی کی طرف چلا جاتا ہے جس کی کوئی نظریاتی ڈائریکشن نہ ہو تو یہ انارکی انقلاب فرانس کی طرف چلی جاتی ہے اور اس نظام کے سرپرستوں کے خون سے سڑکیں سرخ ہو جاتی ہیں اور اگر اس ظلم کے نظام کو نظریاتی قیادت میسر ہو جائے تو یہ ابھار 1917ء اور 1949ء کی طرف چلا جاتا ہے۔
1789ء میں فرانس کی حالت پاکستان جیسی ہی تھی جاگیردار طبقہ کے مظالم سے فرانس کے عوام کی زندگی عذاب بن گئی تھی ملک میں قانون اور انصاف کے ادارے ناکام اور بے معنی ہو کر رہ گئے تھے حکمران طبقہ اپنا سارا وقت قومی دولت کی لوٹ مار میں صرف کر رہا تھا ریاستی مشینری ناکام ہو گئی تھی۔ انارکی غیر منظم بغاوت میں بدل گئی تھی عوام اور ریاستی فوجوں کے درمیان تصادم کا سلسلہ جاری تھا۔ عوام نے حکومت کے متوازی اپنی ایک بلدیاتی حکومت بنا لی تھی اور اپنی ایک ملیشیا بھی قائم کر لی تھی۔ 14 جولائی کو عوام کے ہجوم سڑکوں پر نکل آئے وہ سرکاری عمارتیں توڑ کر ہتھیار حاصل کرنے کے در پے تھے ایک مسلح ہجوم نے پیرس کے ایک بڑے شاہی قلعے بیسٹل پر حملہ کر دیا اور قلعے میں موجود ہتھیاروں کے ذخیرے پر قبضہ کر لیا۔ 14 جولائی 1789ء تک پیرس کا بیشتر حصہ باغیوں کے قبضے میں آ گیا تھا۔
جب یہ خبریں پھیل گئیں تو جاگیرداروں کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے کسان مسلح ہو کر جاگیرداروں اور وڈیروں کے محلات میں گھس گئے اور پھر صدیوں سے غریب عوام پر خدا بن کر حکومت کرنے اور لوٹ مار کرنے والوں کے محلات کی عوام نے اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس بغاوت کی سب سے بڑی وجہ عوام کی قانون اور انصاف سے مایوسی تھی اسی مایوسی کی وجہ سے عوام نے قانون اور انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس دور میں قانون اور انصاف کی کارکردگی اور حرمت کا اندازہ اس شرمناک حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ جاگیردار عدالتی عہدے فروخت کرتے تھے اور خریدے ہوئے منصف اور جج عوام سے کس طرح کا انصاف کر سکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
ہمارے ملک کے حالات کا 1789ء کے فرانس کے حالات سے موازنہ کریں تو 19-20 کے فرق کے ساتھ ہمارے ملک کا حال 1789ء کے فرانس سے ملتا جلتا ہی نظر آئے گا۔ جگہ جگہ مختلف حوالوں سے احتجاج ہو رہا ہے۔ ٹائر جلائے جا رہے ہیں، دھرنوں کے ذریعے سڑکیں بند کی جا رہی ہیں۔ ڈاکوؤں کو پکڑ کر انھیں ہلاک کیا جا رہا ہے۔ یہ حالات انارکی کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں اگر عوام کو انصاف نہ ملا انھیں مہنگائی، بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ کے عذابوں سے نجات نہ ملی، قانون اور انصاف عوام کی توقعات پر پورے نہ اتر سکے، عوام کی جان و مال کو تحفظ نہ ملا، لوٹ مار کا بازار اسی طرح گرم رہا تو کیا یہ صورت حال 1789ء کے غیر منظم خونی انقلاب کی طرف نہیں جا سکتی؟
ہم جس نظام میں زندگی گزار رہے ہیں نیم قبائلی جاگیردارانہ کہلاتا ہے لیکن ملک میں ہونے والی صنعتی ترقی نے اس نظام کو ایک طرح سے نیم سرمایہ دارانہ بھی بنا دیا ہے اور اس ملغوبے میں سرمایہ دارانہ نظام کی وہ ساری برائیاں در آئی ہیں جو اس کی سرشت میں شامل ہیں مثلاً چوری، ڈاکے اغوا، بددیانتی، کرپشن، ضمیر فروشی، جسم فروشی وغیرہ وغیرہ۔ اس نظام میں ایک ایسا دلچسپ خودکار میکنزم موجود ہے جس کے مطالعے اور مشاہدے سے اس نظام کے ایسے حیرت انگیز خدوخال سامنے آتے ہیں جس پر عام آدمی سوچنے کی زحمت نہیں کرتا۔ یہ نظام چور پیدا کرتا ہے تو چوکیدار بھی پیدا کرتا ہے یہ نظام مجرم پیدا کرتا ہے تو قانون، انصاف کو بھی جنم دیتا ہے۔
یہ نظام ایک طرف جرائم پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف وکلا پیدا کرتا ہے اور وکلا کی قانونی قابلیت عموماً مجرموں کو بے گناہ ثابت کرنے میں صرف ہو جاتی ہے اور وہ وکیل اپنے پیشے کا ماہر وکیل مانا جاتا ہے جو قاتل کو بے گناہ ثابت کر دے۔ یوں قانون اور انصاف مظلوموں کو انصاف دلانے کے بجائے اس نظام میں مجرموں ظالموں کی حفاظت کرتے انھیں تحفظ دلاتے نظر آتے ہیں۔یہ نظام ایک طرف کرپشن پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف اینٹی کرپشن کے ادارے پیدا کرتا ہے اور انھیں بھی کرپشن کے گڑھ میں بدل دیتا ہے۔ یہ نظام موبائل فون پیدا کرتا ہے تو موبائل فون چھیننے والے بھی پیدا کر دیتا ہے۔
یہ نظام موٹر بائیک اور کاریں پیدا کرتا ہے تو موٹر بائیک اور کاریں چھیننے والے گروہ بھی پیدا کر دیتا ہے۔یہ نظام مہنگائی پیدا کرتا ہے تو اسمگلنگ بھی پیدا کر دیتا ہے۔ یہ نظام ہتھیار پیدا کرتا ہے تو ساتھ ہی ان کی نکاسی کے لیے جنگیں بھی پیدا کر دیتا ہے۔ یہ نظام قومی مفادات کا فلسفہ پیدا کرتا ہے تو اس کے تحفظ کے لیے لاکھوں فوجی اور محکمہ دفاع بھی پیدا کر دیتا ہے۔ یہ سارے کام خود کار طریقے سے انجام پاتے ہیں جن پر بہت کم لوگوں کی نظر جاتی ہے ہر شخص اس نظام کی آٹو میٹک مشینری میں ایک پرزے کی طرح کام کرتا ہے، کیا اسے ہم اس نظام کا حسن کہیں یا بدصورتی، کیا ہم اسے اس نظام کی خوبی کہیں یا خرابی؟
ہم نے اپنے کالم کا آغاز عوام کے ہاتھوں ڈاکوؤں پر تشدد اور ڈاکوؤں کی ہلاکت کے بڑھتے ہوئے واقعات سے کیا تھا کہ آج کا تازہ ایکسپریس آ گیا۔ کراچی ایڈیشن کے میٹروپولیٹن صفحے پر ایک پانچ کالمی خبر ہے جس کی ہیڈنگ کچھ یوں ہے ''لانڈھی'' اہل خانہ نے گھر میں داخل ہو کر لوٹ مار کرنے والے دو ڈاکوؤں کو ہلاک کر دیا۔''
اس قسم کے واقعات کا ایک سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ عوام کا قانون اور انصاف سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ حکومت پر ہی عوام کا اعتماد نہیں رہا۔ اور جب قانون انصاف اور حکومت پر عوام کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے تو ملک ایک ایسی انارکی کی طرف چلا جاتا ہے جس کی کوئی نظریاتی ڈائریکشن نہ ہو تو یہ انارکی انقلاب فرانس کی طرف چلی جاتی ہے اور اس نظام کے سرپرستوں کے خون سے سڑکیں سرخ ہو جاتی ہیں اور اگر اس ظلم کے نظام کو نظریاتی قیادت میسر ہو جائے تو یہ ابھار 1917ء اور 1949ء کی طرف چلا جاتا ہے۔
1789ء میں فرانس کی حالت پاکستان جیسی ہی تھی جاگیردار طبقہ کے مظالم سے فرانس کے عوام کی زندگی عذاب بن گئی تھی ملک میں قانون اور انصاف کے ادارے ناکام اور بے معنی ہو کر رہ گئے تھے حکمران طبقہ اپنا سارا وقت قومی دولت کی لوٹ مار میں صرف کر رہا تھا ریاستی مشینری ناکام ہو گئی تھی۔ انارکی غیر منظم بغاوت میں بدل گئی تھی عوام اور ریاستی فوجوں کے درمیان تصادم کا سلسلہ جاری تھا۔ عوام نے حکومت کے متوازی اپنی ایک بلدیاتی حکومت بنا لی تھی اور اپنی ایک ملیشیا بھی قائم کر لی تھی۔ 14 جولائی کو عوام کے ہجوم سڑکوں پر نکل آئے وہ سرکاری عمارتیں توڑ کر ہتھیار حاصل کرنے کے در پے تھے ایک مسلح ہجوم نے پیرس کے ایک بڑے شاہی قلعے بیسٹل پر حملہ کر دیا اور قلعے میں موجود ہتھیاروں کے ذخیرے پر قبضہ کر لیا۔ 14 جولائی 1789ء تک پیرس کا بیشتر حصہ باغیوں کے قبضے میں آ گیا تھا۔
جب یہ خبریں پھیل گئیں تو جاگیرداروں کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے کسان مسلح ہو کر جاگیرداروں اور وڈیروں کے محلات میں گھس گئے اور پھر صدیوں سے غریب عوام پر خدا بن کر حکومت کرنے اور لوٹ مار کرنے والوں کے محلات کی عوام نے اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس بغاوت کی سب سے بڑی وجہ عوام کی قانون اور انصاف سے مایوسی تھی اسی مایوسی کی وجہ سے عوام نے قانون اور انصاف کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس دور میں قانون اور انصاف کی کارکردگی اور حرمت کا اندازہ اس شرمناک حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ جاگیردار عدالتی عہدے فروخت کرتے تھے اور خریدے ہوئے منصف اور جج عوام سے کس طرح کا انصاف کر سکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
ہمارے ملک کے حالات کا 1789ء کے فرانس کے حالات سے موازنہ کریں تو 19-20 کے فرق کے ساتھ ہمارے ملک کا حال 1789ء کے فرانس سے ملتا جلتا ہی نظر آئے گا۔ جگہ جگہ مختلف حوالوں سے احتجاج ہو رہا ہے۔ ٹائر جلائے جا رہے ہیں، دھرنوں کے ذریعے سڑکیں بند کی جا رہی ہیں۔ ڈاکوؤں کو پکڑ کر انھیں ہلاک کیا جا رہا ہے۔ یہ حالات انارکی کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں اگر عوام کو انصاف نہ ملا انھیں مہنگائی، بجلی، گیس کی لوڈ شیڈنگ کے عذابوں سے نجات نہ ملی، قانون اور انصاف عوام کی توقعات پر پورے نہ اتر سکے، عوام کی جان و مال کو تحفظ نہ ملا، لوٹ مار کا بازار اسی طرح گرم رہا تو کیا یہ صورت حال 1789ء کے غیر منظم خونی انقلاب کی طرف نہیں جا سکتی؟