سیاست کے ساتھ سیاست منع ہے

یہ تحقیقات کرنا عدالت کا معاملہ عدالت کو وقت دیا جا نا چاہیے اوراس کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے

گزشتہ دنوں ایک جے آئی ٹی رپورٹ میڈیا کے ذریعے منظرعام پرلائی گئی۔ اس رپوٹ میں ایم کیو ایم کا نام لیے بغیر اس کے ملوث ہونے کا عندیہ دیا گیا کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں ایک سیاسی جماعت ملوث ہے وغیرہ وغیرہ ۔اگرناقدین اس رپورٹ کا ازسرے نومطالعہ کریں تو اس میں بہت سے سقم اورجھول دکھائی دیں گے۔مثال کے طور پر اس میں جس شخص کونامزدکیا گیا وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں نہیں ہے ۔مذکورہ شخص 2013 میں گرفتار ہوا لیکن اسلحے کے ایک مقدمے میںضمانت پر رہائی لے کرچلتا بنا ۔اس کا تاحال کوئی پتہ نہیں ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ پیش کرنے والے اداروں کو تین برس قبل اس رپورٹ کی اشاعت کو منظرعام پر نہ لانے کی کیا وجوہات رہیں؟ اس سے عوام الناس بالکل بے خبر ہیں اس رپورٹ میں جن انکشافات کوآج بڑے طمطراق کے ساتھ میڈیا ٹرائل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے وہ تین برس قبل کیوں پیش نہیں کیے گئے ؟یہ بات ہرذی شعورجانتا ہے کہ جب کوئی شخص کسی مقدمے میں گرفتارکیا جاتا ہے یا اس کوکسی مقدمے میں شامل تفتیش کیا جاتا ہے تو وہ اس وقت تک وہ ملزم کی حیثیت سے جانا جاتا ہے تاوقتیکہ عدالت کے ذریعے اس پر الزام ثابت نہیں ہوجاتا وہ ملزم ہی رہے گا،مجرم نہیں کہلائے گا ۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاسی تہذیب میں تحمل ، صبر اور ٹھہراؤ کا دوردور تک گزرنہیں ۔

جیسے ہی کوئی خبرمنظرعام پر آئی ہمارے ملک کے ذرایع ابلاغ تصدیق کیے بغیر اسے ایسی سنسنی خیزبنا ڈالتے ہیں کہ رگوں میں لہو جمنے لگتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے اگر کوئی خبر انھیں موصول ہوئی ہے تو اس کی تصدیق کرلی جائے آیا یہ درست ہے یا نہیں ۔بالکل اسی طر ح ہمارے ملک کے سیاست دانو ں کا حال واحوال ہے وہ بھی بڑے مزے لے لے کر اس خبرکی تشہیرکرتے نظرآتے ہیں اوراس کے ذریعے اپنی سیاست کو چمکانے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔مذکورہ جے آئی ٹی رپورٹ منظرعام پرآنے کے بعد اس کی جس طرح میڈیا ٹرائل کے ذریعے تشہیرکی گئی وہ کسی طرح بھی مہذب عمل کا خاصہ نہیں ۔بلاشبہ 259انسانی جانوں کے زندہ جلائے جانے کا معاملہ انتہائی گھمبیر اورافسوسناک ہے لیکن پہلے تحمل اورصبر کے ذریعے اس معا ملے کی شفاف تحقیقات کرلی جاتیں۔

یہ تحقیقات کرنا عدالت کا معاملہ عدالت کو وقت دیا جا نا چاہیے اوراس کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے لیکن یہاں ابھی معاملہ عدالت میں زیرسما عت ہی ہوا تھا کہ بھونچال پیداکردیا گیا ۔شیریں مزاری سیاست سے وابستہ ہیں کیا انھیں اس رپو رٹ کے متعلق کوئی الہام ہوگیا تھا کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن جیسے انسانیت سوز عمل میںواقعتا ایم کیوایم ملوث ہے؟ لیکن انھوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کو اس مکروفعل کا سرخیل ثابت کر نے کی بڑی بھونڈی کوشش کر ڈالی ۔جذبات کا مجروح ہونا فطری عمل کا خاصہ ہے ۔


ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ عمران خان میدان عمل میں کود پڑے اور انھوں نے جس انداز میں صوبہ سندھ کی دوسری اور ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیوایم کے رہنما وقائد الطاف حسین کے خلاف ریکیک جملوں اور نامناسب الفاظ کے جو تومار باندھے اس سے پورے ملک کی عوام اور بیرونی دنیا بخوبی واقف ہے۔عمران خان اچانک کراچی عوام کے چاہنے والے کیسے بن گے؟ جب یہ دل خراش واقعہ پیش آیا تھا تو ان کو اس وقت کراچی کے عوام کے دکھ اوردرد بانٹنے کی توفیق کیوں پیدا نہیں ہوئی ؟جس کا وہ آج ماتم فرما رہے ہیں ۔ عمران خان دھرنوں کی سیاست کے باعث ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے بے تاج بادشاہ بننے کے خواب دیکھ رہے تھے لیکن عین وقت پر ان کا جنون اس قدر بڑھا کہ انھیں شادی کرنی پڑگئی ۔

اب کیا ہوا ؟ وہ اچانک نمبرگیم کے دائرے سے باہرآچکے تھے بس یہی بات انھیں بڑی تلملا رہی تھی کہ کون سا موقع ہاتھ آئے کہ وہ دوبارہ سے نمبرگیم کی دہلیز پر قدم جمانے کے قابل ہو جائیں ۔اس سلسلے میں موصوف نے سانحہ پشاورکے آرمی پبلک اسکو ل پہنچنے کا پروگرام بنایا لیکن بدقسمتی سے انھیں وہاں وہ پزیرائی حاصل نہ ہوسکی جس کی وہ توقع کررہے تھے۔ پھر اسی طرح کی کچھ اورلایعنی سرگرمیوں میں حصہ لیا لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا ۔اب اچانک جے آئی ٹی رپورٹ منظرعام پرآنے کے بعد جیسے ان کی لاٹری کھل گئی ہے انھوں نے بڑی مہارت کے سا تھ یہ موقع اچک لیا اور پھر ایک بارنمبرگیم میں جادوئی کمالات دکھانے والی میڈیا کی چھڑی کے زیر اثر وہ ٹاپ پر پہنچنے کی لایعنی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ قائد الطاف حسین کے خلاف اتنا زہریلا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ اتنا توکوئی دشمن کے ساتھ بھی نہیں کرتا ہوگا ۔طریقہ یہ بھی ہوا کرتا ہے اگرکسی کے منہ سے سخت یا ناگوار جملہ ادا ہو بھی گیا ہو تو اس پرمہذبانہ طریقے کے ذریعے احتجاج ریکارڈ کرایا جاسکتا ہے۔

اعتراضات اختلافات بذات خود ایک صحت مندانہ عمل ہوا کرتے ہیں۔ اگر یہ عمل انسانی زندگی میں وقوع پذیر نہ ہوں تو زندگی کی سرگرمیاں ماند پڑجایا کرتی ہیں ، لیکن اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ سرے عام گالیوں اور ناشاستہ الفاظ کو ہی احتجاج کا ذریعہ بنا لیا جائے۔ ہم اپنی اس تحریر کے توسط سے عمران خان کو یہ مشورہ دینا چاہیں گے اب جب کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے معذرت خوانہ انداز اختیارکرتے ہوئے بڑے پن کا ثبوت دے دیا ہے تو اس پر پی ٹی آئی کی قیادت کو بھی اپنا دل کشادہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن عمران خان کے تیوردرست نظر نہیں آتے وہ اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ عمران خان پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں تب کہیں جا کر ان کو تنقید کرنے کا حق حاصل ہوسکتا ہے ۔

ایم کیو ایم پر ماضی میں بھی کافی جے آئی ٹیز بنائی گئی اور اب بھی بنائی جا رہی ہیں اورہوسکتا ہے آیندہ بھی بنائی جائیں لیکن ان کا حاصل نہ پہلے کبھی نکلا تھا نہ آیندہ نکلے گا ۔ہمیں امید ہے عمران خان سیاست میں سیاست کر نے سے گریز کریں گے اور نمبرگیم کو اپنی کامیابی کا زینہ ہرگز نہیں بنائیں گے ۔
Load Next Story