کیا پاکستان اوپنرزکے بغیر کھیلے گا
با خبر ذریعوں سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے سلیکٹروں نے اس باراپنی ٹیم اوپنرزکے بغیرکھلانے کا فیصلہ کیا ہے
با خبر ذریعوں سے معلوم ہوا ہے کہ ہمارے سلیکٹروں نے اس باراپنی ٹیم اوپنرزکے بغیرکھلانے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ عام طور پر جب اوپنرزکھیلتے ہیں اوراچھے اوپنگ اسٹینڈ کے بغیرآؤٹ ہوجاتے ہیں تو پھرلائن لگ جاتی ہے اورپوری ٹیم بیٹھ جاتی ہے۔
اس لیے اس بارہماری اننگز اوپنرز کے بغیر شروع ہوگی بلکہ ون ڈاؤن پلیئرز اننگز شروع کریں گے۔ اگرچہ کچھ ون ڈاؤن پلیئرز ناک بھوں چڑھا رہے ہیں یہ کہہ کر کہ انھیں نئی گیند کو فیس کرنے کا تجربہ نہیں ہے۔ حالانکہ در حقیقت انھیں نئی گیند کھیلنے کا زیادہ تجربہ ہے کیوں کہ اکثر اوپنرز آؤٹ ہوجاتے ہیں اور نئی گیند ون ڈاؤن بیٹسمینوں کو ہی کھیلنی پڑتی ہے۔
لیکن اوپنرز حضرات زیادہ خوش نہ ہوں جلد یا بدیر انھیں بھی بیٹنگ کرنی ہوگی۔ سلیکٹرز حضرات انھیں ایک سر پرائز کے طور پر سامنے لائیں گے اس وقت جب مخالف ٹیم بڑی خوش ہو رہی ہوگی کہ اس نے پاکستان کی اچھی خاصی وکٹیں حاصل کرلی ہیں تو ان کے ارمانوں پر اوس ڈالنے کے لیے پاکستان ٹرمپ کارڈ کے طور پر اپنا اسٹار اوپننگ بیٹسمین میدان میں بھیج دے گا۔
ایسی بات نہیں صرف ایسی ٹیم ہی نہیں اوپنرز کے اپنی مقررہ جگہ پر نہ کھیلنے سے مخالف ٹیم بھی ڈسٹرب ہوگی بلکہ ایک دفعہ کو تو وہ سکتے میں آجائے گی کہ اپنے ریگولر بولروں سے بولنگ اوپن کرائے یا نہیں۔ یا دوچار اوورز تک پاکستان کے اوپنرزکا انتظارکرتی رہے۔ نئی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اسی اچھی خاصی کانفرنس کرنی پڑے گی۔
مخالف ٹیم یہ بھی سوچے گی کہ کیوں نہ شروع میں وہ پرانی گیند سے ہی بولنگ شروع کرائے اور پھر جب اوپنرزکھیلنے آئیں اس وقت نئی گیند کا آپشن استعمال کرے کیوں کہ جب ہمارے مایہ ناز اوپنرز کھیلنے آئیں گے توگیند پرانی ہوچکی ہوگی اور انھیں چوکے چھکے لگانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔
نئی لائن اپ میں ون ڈاؤن اور مڈل آرڈر بیٹسمینوں کا کردار قدرتی طور پر زیادہ اہمیت اختیار کرلے گا۔ انھیں زیادہ ذمے داری سے بیٹنگ کرنی ہوگی۔ تاہم انھیں یہ ڈھارس اور اطمینان ضرور ہوگا کہ ابھی اوپنرز باقی ہیں بقول شاعر:
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
مڈل آرڈر بیٹنگ مخالف ٹیم کو خاصی مایوسی میں بھی مبتلا کرسکتی ہے کہ جب ون ڈاؤن بیٹسمین جس کا نام ہی''ون ڈاؤن'' ہے اتنی اچھی بیٹنگ کررہا ہے تو آنے والے اوپنرز نجانے کیا قیامت ڈھائیں گے۔
اب یہ توکرکٹ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں کہ کیا ورلڈ کپ کا کوئی قانون ایسا ہے جو پاکستانی سلیکٹروں کو یہ حکمت عملی اپنانے اور اپنی اننگز اوپنرز کے بجائے نائٹ واچ مین سے شروع کرانے سے روک سکتا ہے ایک کرکٹ ایکسپرٹ نے جو بوجوہ اپنا نام صیغہ راز میں رکھنا چاہتے ہیں یہ بات کہی کہ ہر ٹیم کی مینجمنٹ کو اپنی بیٹنگ لائن اپ کے نام پہلے سے دینے پڑتے ہیں لیکن کسی حیلے بہانے سے پاکستانی کپتان اپنے بیٹسمینوں کو آگے پیچھے کرسکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اپنے کھلاڑیوں کے نام بھی تبدیل کرسکتا ہے کیوں کہ یہ عمران، میانداد اورانضمام الحق کا زمانہ نہیں ہے کہ لوگ کھلاڑیوں کو اچھی طرح پہچانتے ہوں۔ در اصل پاکستانی بیٹسمین اتنے تواتر سے بدلتے رہتے ہیں کہ کرکٹ کے شائقین کو ان کے نام اور حلیہ یاد رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔
پھر جب اوپنرزکو پاکستان تک میں لوگ اتنا زیادہ نہیں پہچانتے تو بیرون ملک ان کے پہچانے جانے کے امکان خاصے کم ہیں۔ ویسے بھی ہیلمٹ پہنے ہوئے بیٹسمین کو شناخت کرنا خاصا دشوار ہوگیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ پاکستانی بیٹسمینوں سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بیٹنگ کے دوران صرف واٹر ٹائم کے دوران وہ بھی بہت چھپ چھپا کر اپنے ہیلمٹ اتاریں یا ان کے چہرے پر مصنوعی داڑھی،مونچھیں لگاکر ان کا حلیہ بدلا جاسکتا ہے۔
ایک اور کرکٹ ایکسپرٹ نے اپنا نام پتہ خفیہ رکھنے کی شرط پر (انھیں خطرہ ہے کہ لوگ انھیں مارنے پیٹنے ان کے گھرچلے جائیںگے) یہ تجویز پیش کی کہ اس وقت جب وکٹیں گر رہی ہوں تو کسی دوسرے نام سے میانداد اورانضمام کو بیٹنگ کے لیے بھیج دیا جائے کیوں کہ وہ اب بھی اچھی خاصی بیٹنگ کرسکتے ہیں۔ صرف ان کی جگہ فیلڈنگ ینگسٹرز سے کروا لی جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر''مکسڈ'' ٹیمیں کھیل رہی ہوتیں اوربرقع پہننے کی اجازت ہوتی تو یہ کام آسانی سے ہوسکتا تھا۔انھوں نے ایک مرتبہ پھر اپنا نام پتہ خفیہ رکھنے کی شرط پر ہمارے کرکٹ کالم کی بڑی تعریف کی اورخوشی سے ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ کرکٹ کا اتنا بڑا ایکسپرٹ جو اپنا نام بتانے کا روادار نہیں ہماری تعریف کررہاہے۔
ایک اور ایکسپرٹ تو جیسے ہتھے سے اکھڑ گئے کہنے لگے کیوں کہ ہمارے ٹیل اینڈرز بولنگ کے ساتھ ساتھ بیٹنگ بھی زیادہ اچھی کرتے ہیں لہٰذا ٹیم کو ''لوٹ پلٹ'' دیا جائے یعنی ٹیل اینڈرز سے بیٹنگ شروع کرائی جائے۔ اس لیے ان کے خیال میں شروع میں وکٹیں گنوانے کا زیادہ دکھ نہیں ہوگا اور مخالف ٹیم کی ساری پلاننگ اور حکمت عملی دھری کی دھری رہ جائے گی۔
ایک اور تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جب بھی کوئی بیٹسمین کھیلنے کے لیے کریز پر جائے تو اس کی شرٹ پر ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈ لگادیا جائے جس میں مسلسل یہ ریکارڈنگ بج رہی ہو کہ یہ ٹیسٹ نہیں ون ڈے ہے۔ تمہیں ہرگیند پر رن بنانا ہے۔
قدرتی طور پر ہر میچ میں ٹاس کی ہارجیت اہم کردار ادا کرے گی۔ جو ٹیم ٹاس جیتے گی اس کا اپر ہینڈ ہوگا۔کیوں کہ اس کا کپتان وکٹ کی حالت دیکھ کر بہتر فیصلہ کرسکے گا کہ خود بیٹنگ کی جائے یا مخالف ٹیم سے کرائی جائے جب ہم نے اس سلسلے میں کرکٹ کے ایک ماہر سے ان کی رائے پوچھی تو انھوں نے ایک عجیب وغریب تجویز پیش کی کہ یہ ورلڈ کپ تو خیر سے شروع ہوچکا آیندہ سے ایک روزہ میچ بھی دو دو اننگز کے ہونے چاہئیں۔ یعنی ایک ملک کی آدھی ٹیم پہلے اور باقی ٹیم دوسرے ملک کی آدھی ٹیم کے کھیلنے کے بعد بیٹنگ کرے۔ اس طرح ٹاس جیتنے ہارنے کا نفع نقصان دونوں ٹیموں میں برابر برابر تقسیم ہوجائے گا۔
بہرکیف مذاق اپنی جگہ پاکستانی سلیکٹروں نے (صرف ہمیں چھوڑ کر) بہت اچھی ٹیم ورلڈ کپ بھیجی ہے جو (اگر معجزہ ہوجائے) تو ورلڈ کپ جیت سکتی ہے یا کم از کم فائنل میں پہنچ سکتی ہے۔ خاص طور پر ہمارا اٹیک خاصا طاقت ور ہے جو کسی بھی بڑی سے بڑی ٹیم کو کم اسکور پر آؤٹ کرسکتا ہے۔ بیٹنگ لائن اپ بھی مجموعی طور پر اتنی بری نہیں ہے شاہد آفریدی کی صورت میں ایک بہترین آل راؤنڈر بھی ٹیم میں شامل ہے۔
ایک اورسازگار پہلو یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم جیسی بھی ہو بھارت کے خلاف قومی جذبے سے سرشار متحد ہوکرکھیلتی ہے اور پورا زور لگا دیتی ہے یہی حال بھارتی ٹیم کا بھی ہے وہ بھی اسے اپنے وقارکا مسئلہ سمجھتے ہوئے کھیلتی ہے۔ ویسے بھی بظاہر کاغذ پر کمزور نظر آنے والی ٹیم کسی بھی دن کسی بڑی سے بڑی طاقت ور سے طاقت ور ٹیم کو ہرا سکتی ہے۔ یہی کرکٹ کے کھیل کا حسن ہے۔
اس لیے اس بارہماری اننگز اوپنرز کے بغیر شروع ہوگی بلکہ ون ڈاؤن پلیئرز اننگز شروع کریں گے۔ اگرچہ کچھ ون ڈاؤن پلیئرز ناک بھوں چڑھا رہے ہیں یہ کہہ کر کہ انھیں نئی گیند کو فیس کرنے کا تجربہ نہیں ہے۔ حالانکہ در حقیقت انھیں نئی گیند کھیلنے کا زیادہ تجربہ ہے کیوں کہ اکثر اوپنرز آؤٹ ہوجاتے ہیں اور نئی گیند ون ڈاؤن بیٹسمینوں کو ہی کھیلنی پڑتی ہے۔
لیکن اوپنرز حضرات زیادہ خوش نہ ہوں جلد یا بدیر انھیں بھی بیٹنگ کرنی ہوگی۔ سلیکٹرز حضرات انھیں ایک سر پرائز کے طور پر سامنے لائیں گے اس وقت جب مخالف ٹیم بڑی خوش ہو رہی ہوگی کہ اس نے پاکستان کی اچھی خاصی وکٹیں حاصل کرلی ہیں تو ان کے ارمانوں پر اوس ڈالنے کے لیے پاکستان ٹرمپ کارڈ کے طور پر اپنا اسٹار اوپننگ بیٹسمین میدان میں بھیج دے گا۔
ایسی بات نہیں صرف ایسی ٹیم ہی نہیں اوپنرز کے اپنی مقررہ جگہ پر نہ کھیلنے سے مخالف ٹیم بھی ڈسٹرب ہوگی بلکہ ایک دفعہ کو تو وہ سکتے میں آجائے گی کہ اپنے ریگولر بولروں سے بولنگ اوپن کرائے یا نہیں۔ یا دوچار اوورز تک پاکستان کے اوپنرزکا انتظارکرتی رہے۔ نئی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اسی اچھی خاصی کانفرنس کرنی پڑے گی۔
مخالف ٹیم یہ بھی سوچے گی کہ کیوں نہ شروع میں وہ پرانی گیند سے ہی بولنگ شروع کرائے اور پھر جب اوپنرزکھیلنے آئیں اس وقت نئی گیند کا آپشن استعمال کرے کیوں کہ جب ہمارے مایہ ناز اوپنرز کھیلنے آئیں گے توگیند پرانی ہوچکی ہوگی اور انھیں چوکے چھکے لگانے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔
نئی لائن اپ میں ون ڈاؤن اور مڈل آرڈر بیٹسمینوں کا کردار قدرتی طور پر زیادہ اہمیت اختیار کرلے گا۔ انھیں زیادہ ذمے داری سے بیٹنگ کرنی ہوگی۔ تاہم انھیں یہ ڈھارس اور اطمینان ضرور ہوگا کہ ابھی اوپنرز باقی ہیں بقول شاعر:
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
مڈل آرڈر بیٹنگ مخالف ٹیم کو خاصی مایوسی میں بھی مبتلا کرسکتی ہے کہ جب ون ڈاؤن بیٹسمین جس کا نام ہی''ون ڈاؤن'' ہے اتنی اچھی بیٹنگ کررہا ہے تو آنے والے اوپنرز نجانے کیا قیامت ڈھائیں گے۔
اب یہ توکرکٹ ماہرین ہی بتاسکتے ہیں کہ کیا ورلڈ کپ کا کوئی قانون ایسا ہے جو پاکستانی سلیکٹروں کو یہ حکمت عملی اپنانے اور اپنی اننگز اوپنرز کے بجائے نائٹ واچ مین سے شروع کرانے سے روک سکتا ہے ایک کرکٹ ایکسپرٹ نے جو بوجوہ اپنا نام صیغہ راز میں رکھنا چاہتے ہیں یہ بات کہی کہ ہر ٹیم کی مینجمنٹ کو اپنی بیٹنگ لائن اپ کے نام پہلے سے دینے پڑتے ہیں لیکن کسی حیلے بہانے سے پاکستانی کپتان اپنے بیٹسمینوں کو آگے پیچھے کرسکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اپنے کھلاڑیوں کے نام بھی تبدیل کرسکتا ہے کیوں کہ یہ عمران، میانداد اورانضمام الحق کا زمانہ نہیں ہے کہ لوگ کھلاڑیوں کو اچھی طرح پہچانتے ہوں۔ در اصل پاکستانی بیٹسمین اتنے تواتر سے بدلتے رہتے ہیں کہ کرکٹ کے شائقین کو ان کے نام اور حلیہ یاد رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔
پھر جب اوپنرزکو پاکستان تک میں لوگ اتنا زیادہ نہیں پہچانتے تو بیرون ملک ان کے پہچانے جانے کے امکان خاصے کم ہیں۔ ویسے بھی ہیلمٹ پہنے ہوئے بیٹسمین کو شناخت کرنا خاصا دشوار ہوگیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ پاکستانی بیٹسمینوں سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بیٹنگ کے دوران صرف واٹر ٹائم کے دوران وہ بھی بہت چھپ چھپا کر اپنے ہیلمٹ اتاریں یا ان کے چہرے پر مصنوعی داڑھی،مونچھیں لگاکر ان کا حلیہ بدلا جاسکتا ہے۔
ایک اور کرکٹ ایکسپرٹ نے اپنا نام پتہ خفیہ رکھنے کی شرط پر (انھیں خطرہ ہے کہ لوگ انھیں مارنے پیٹنے ان کے گھرچلے جائیںگے) یہ تجویز پیش کی کہ اس وقت جب وکٹیں گر رہی ہوں تو کسی دوسرے نام سے میانداد اورانضمام کو بیٹنگ کے لیے بھیج دیا جائے کیوں کہ وہ اب بھی اچھی خاصی بیٹنگ کرسکتے ہیں۔ صرف ان کی جگہ فیلڈنگ ینگسٹرز سے کروا لی جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر''مکسڈ'' ٹیمیں کھیل رہی ہوتیں اوربرقع پہننے کی اجازت ہوتی تو یہ کام آسانی سے ہوسکتا تھا۔انھوں نے ایک مرتبہ پھر اپنا نام پتہ خفیہ رکھنے کی شرط پر ہمارے کرکٹ کالم کی بڑی تعریف کی اورخوشی سے ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے کہ کرکٹ کا اتنا بڑا ایکسپرٹ جو اپنا نام بتانے کا روادار نہیں ہماری تعریف کررہاہے۔
ایک اور ایکسپرٹ تو جیسے ہتھے سے اکھڑ گئے کہنے لگے کیوں کہ ہمارے ٹیل اینڈرز بولنگ کے ساتھ ساتھ بیٹنگ بھی زیادہ اچھی کرتے ہیں لہٰذا ٹیم کو ''لوٹ پلٹ'' دیا جائے یعنی ٹیل اینڈرز سے بیٹنگ شروع کرائی جائے۔ اس لیے ان کے خیال میں شروع میں وکٹیں گنوانے کا زیادہ دکھ نہیں ہوگا اور مخالف ٹیم کی ساری پلاننگ اور حکمت عملی دھری کی دھری رہ جائے گی۔
ایک اور تجویز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ جب بھی کوئی بیٹسمین کھیلنے کے لیے کریز پر جائے تو اس کی شرٹ پر ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈ لگادیا جائے جس میں مسلسل یہ ریکارڈنگ بج رہی ہو کہ یہ ٹیسٹ نہیں ون ڈے ہے۔ تمہیں ہرگیند پر رن بنانا ہے۔
قدرتی طور پر ہر میچ میں ٹاس کی ہارجیت اہم کردار ادا کرے گی۔ جو ٹیم ٹاس جیتے گی اس کا اپر ہینڈ ہوگا۔کیوں کہ اس کا کپتان وکٹ کی حالت دیکھ کر بہتر فیصلہ کرسکے گا کہ خود بیٹنگ کی جائے یا مخالف ٹیم سے کرائی جائے جب ہم نے اس سلسلے میں کرکٹ کے ایک ماہر سے ان کی رائے پوچھی تو انھوں نے ایک عجیب وغریب تجویز پیش کی کہ یہ ورلڈ کپ تو خیر سے شروع ہوچکا آیندہ سے ایک روزہ میچ بھی دو دو اننگز کے ہونے چاہئیں۔ یعنی ایک ملک کی آدھی ٹیم پہلے اور باقی ٹیم دوسرے ملک کی آدھی ٹیم کے کھیلنے کے بعد بیٹنگ کرے۔ اس طرح ٹاس جیتنے ہارنے کا نفع نقصان دونوں ٹیموں میں برابر برابر تقسیم ہوجائے گا۔
بہرکیف مذاق اپنی جگہ پاکستانی سلیکٹروں نے (صرف ہمیں چھوڑ کر) بہت اچھی ٹیم ورلڈ کپ بھیجی ہے جو (اگر معجزہ ہوجائے) تو ورلڈ کپ جیت سکتی ہے یا کم از کم فائنل میں پہنچ سکتی ہے۔ خاص طور پر ہمارا اٹیک خاصا طاقت ور ہے جو کسی بھی بڑی سے بڑی ٹیم کو کم اسکور پر آؤٹ کرسکتا ہے۔ بیٹنگ لائن اپ بھی مجموعی طور پر اتنی بری نہیں ہے شاہد آفریدی کی صورت میں ایک بہترین آل راؤنڈر بھی ٹیم میں شامل ہے۔
ایک اورسازگار پہلو یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم جیسی بھی ہو بھارت کے خلاف قومی جذبے سے سرشار متحد ہوکرکھیلتی ہے اور پورا زور لگا دیتی ہے یہی حال بھارتی ٹیم کا بھی ہے وہ بھی اسے اپنے وقارکا مسئلہ سمجھتے ہوئے کھیلتی ہے۔ ویسے بھی بظاہر کاغذ پر کمزور نظر آنے والی ٹیم کسی بھی دن کسی بڑی سے بڑی طاقت ور سے طاقت ور ٹیم کو ہرا سکتی ہے۔ یہی کرکٹ کے کھیل کا حسن ہے۔