میسیج باکس یوں بھی محفل سجائی جاتی ہے
اونچائی سے نیچے دیکھتے ہوئے جانے کن خوش نصیبوں کو بلندی کا احساس ہوتا ہے
اونچائی سے نیچے دیکھتے ہوئے جانے کن خوش نصیبوں کو بلندی کا احساس ہوتا ہے، میں نے تو جب بھی پانچویں منزل پر بنے اپنے فلیٹ کی کھڑکی سے نیچے جھانکا لوگوں سے دوری کے خیال نے مجھے گھیر لیا۔ اس وقت بھی یہی خیال مجھے جکڑے تھا۔ ہمیشہ کی طرح اپنے فلیٹ کی واحد کھڑکی سے جھانکتے ہوئے مجھے لگ رہا تھا کہ کائنات میں بس تین ہی عناصر ہیں؛ زمین پر پیروں کی جنبش اور پہیوں کی رفتار سے لپٹی رواں دواں زندگی، میرے شہر کے دھوئیں اور مٹی سے میلے ہوجانے والے آسمان کا سناٹا اور میرا دو کمروں کا فلیٹ۔۔۔۔۔۔
یہ میری زندگی میں کُھلتی تیسری کھڑکی تھی، جو صرف اس وقت کھلتی تھی جب بجلی غائب ہو، دوسری کھڑکیاں تھیں کمپیوٹر اور ٹی وی۔ سڑک پر بوڑھے راہ گیر کی سست روی سے اکتا کر ایک کار تواتر سے چیخنے لگی، دہاڑتے جنریٹرز کے ردھم میں یہ چیخ سماعت کو کتنی بُری لگ رہی تھی۔ میں نے کھڑکی سے پیچھے ہٹ کر موبائل فون کی روشنی وال کلاک پر ڈالی، نو بج کر پینتالیس منٹ۔۔۔۔بس پندرہ منٹ میں بجلی آجائے گی، جس سے میرے گھر کی ساری رونق وابستہ ہے۔
لمحے گھسٹ گھسٹ کر گزر رہے تھے، میری نظریں کھڑکی سے پار تیز رو کاروں اور گھڑی کی ٹک ٹک کرتی کاہل سوئیوں کے درمیان بار بار سفر طے کر رہی تھیں۔
ٹیوب لائٹ بزززز کی بھنبھناہٹ کے ساتھ جلی بجھی اور آخر مستقل جل اٹھی۔ ٹیوب لائٹ میں پہلی چمک جاگتے ہی میرا ہاتھ سوئچ بورڈ پر گیا۔ کمپیوٹر بڑی دھیرج سے آن ہونے کے مراحل طے کر رہا تھا، اسکرین پر اپنا عکس دیکھ کر میں نے نظریں ہٹالیں۔ ایسے چہرے آئینوں سے گریز کرتے ہیں۔
اگر آپ مجھے ذرا سا بھی جانتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کمپیوٹر آن ہوتے میری پہلی سرگرمی کیا ہوگی، مگر آپ مجھے نہیں جانتے، مجھے جانتا کون ہے۔ اور اس نہ جاننے میں قصور میرا ہی ہے، لوگوں سے میرا میل ملاپ رہا ہی کتنا۔ ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے بہن بھائی کے رشتوں سے ناآشنا، ہڈیوں پر کھال چڑھے جسم، کوئی چار فٹے قد اور گہرے سانولے رنگ کے باعث لوگوں کے مذاق کا نشانہ، نتیجہ محفلوں اور سنگتوں کا خوف، سو میرا وجود مجھ میں گم ہوکر رہ گیا۔ میری شادی بھی بس ایک رسم تھی، شریک حیات نے اپنی گہری سیا ہ رنگت اور صرف میٹرک پاس ہونے کے باعث مولوی کے سامنے قبول ہے تو کہہ دیا، لیکن ہم ایک دوسرے کو دل سے قبول نہ کرسکے۔ پھر میٹرک کے سرٹیفیکٹ نے بی اے کی ڈگری کے ساتھ دس سال گزاردیے۔ جب ایک دن اچانک اس کا دل بند ہوا، تو میرے دل میں جدائی کا دکھ بس کچھ دنوں کے لیے اترا، اور پھر یہ برتن خالی کا خالی۔ اس دوران زندگی میں بس ایک خوش گوار تبدیلی آئی، جس کا نام ہے کمپیوٹر، بھلا اس ڈبے سے مجھے کیا لینا دینا، میرا حاصل تو اس سے جُڑی انٹرنیٹ کی دنیا تھی، اور پھر یہ دنیا سُکڑ سمٹ کر فیس بک تک محدود ہوگئی۔ اب اس نیلی سفید دنیا میں میرے لیے سارے رنگ تھے، دوستیاں، قربتیں، محبتیں۔ لگ بھگ ساری رات میرے سامنے میسیج باکس کھلے رہتے اور گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کمپیوٹر کا ڈیسک ٹاپ روشن ہوتے ہی میری پہلی سرگرمی ہوتی فیس بک پر لاگ آن ہونا۔
فیس بک کُھلتے ہی، ہمیشہ کی طرح، میری توجہ کا مرکز میسیج باکس پر سُرخ چوکھٹے میں چمکتے سفید ہندسے بن گئے۔ بیس پیغامات میرے منتظر تھے۔ بیس سالہ طالب علم ذیشان، جس کی آئی ڈی ''اسمارٹ بوائے'' تھی، کا پیغام سب سے اوپر تھا، ''ہائے فرحت، کہاں ہو؟'' پچھلے مہینے ساٹھ کے ہونے والے یونی ورسٹی کے استاد فرمان احمد فرما رہے تھے، ''کیسی ہے میری جان''، رسالے ''اسلام کی آواز'' کے مدیر عنایت ظہور نے اپنی ایک ناقابل اشاعت سیلفی میسیج کی تھی، جس میں اس کے چہرے کے علاوہ سب کچھ تھا، وہ کہہ رہا تھا،''اب تو آجاؤ۔'' عورتوں کو ہراساں کرنے کے مسئلے سے نبردآزما این جی او ''عورت حفاظت'' کے سربراہ جلال اکبر ایڈووکیٹ نے عورت مرد کی خلوت کی جلوت پر مبنی ایک انتہائی ہیجان خیز وڈیو کلپ کا تحفہ بھیجا تھا۔
شاعر نصیر اُفق اپنی بیوی کی بے اعتنائی کا قصہ سنا رہا تھا، جسے سنتے سنتے گذشتہ رات مجھے نیند آگئی تھی اور میں نے کمپیوٹر بند کرکے خود کو بستر کے حوالے کردیا تھا۔ نصیراُفق سے گفتگو کرتے ابھی چند روز ہی ہوئے تھے۔ اس لیے وہ ابھی پوری طرح کھلا نہیں تھا، بل کہ یوں کہیے کہ اس نے ابھی تک خود کو مجھ پر کُھلا نہیں چھوڑا تھا۔ برطانیہ میں مقیم تاجر حارث ملک نے پردیس پہنچنے کے بعد کسی گوری سے اپنے پہلے جسمانی تعلق کی لذت انگیز کہانی تمام تفصیلات کے ساتھ میرے کمپیوٹر بند کرنے سے ٹھیک ایک منٹ پہلے مکمل کی تھی، پوچھ رہا تھا،''آپ بھی تو اپنے بارے میں کچھ بتائیں''،''بولیں ناں'' کہاں گئیں ں ںںں۔'' کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر اور ادیب سلمان مہر، ایک بڑے اخبار سے وابستہ صحافی فیض سانول، ڈاکٹر شاہد جیلانی۔۔۔۔۔اور باقی نئے لوگ، جو مجھ سے بات کرنے کے خواہش مند تھے، تاکہ دوستی کی خواہش کا اظہار کرسکیں، جس کی تکمیل کے ساتھ پھر تمناؤں کا سلسلہ دراز ہوتا رہے۔
فیس بک اور خاص طور پر اس کے چھوٹے سے میسیج باکس کی بہت وسیع اور رنگوں بھری دنیا میں کئی سال گزارنے کے بعد مجھے تجربہ ہوگیا تھا کہ کس سوال کا کیا جواب دینا ہے اور سمعی اور بصری رابطے سے کیسے بچنا ہے۔
''اپنی تصویر تو دکھائیے''
اس مطالبے پر میرا جواب ہوتا،''پلیز ایک روایت پسند گھرانے کی گھریلو عورت کی مجبوری سمجھیے۔ آپ پر اعتبار ہے، میں خود چاہتی ہوں کہ اپنا آپ، آپ کو دکھادوں، مگر ڈر لگتا ہے۔ جس دن میرے دل نے کہہ دیا، فرحت! یہی وہ شخص ہے جس کی تجھے تلاش تھی، تو میں آپ کے کہے بغیر اپنی تصویریں آپ کو دکھا دوں گی، مجبور مت کیجیے گا پلیز۔'' میری اپنا آپ دکھا دینے کی بے تابانہ خواہش جسے بیان کرتے ہوئے ''اپنا آپ'' واوین میں ہوتا، فوری اثر کرتی، تصویر دیکھنے کا خواہش مند اپنے مطالبے سے دستبردار ہوجاتا۔
''آپ کا موبائل نمبر کیا ہے، اپنی خوب صورت آواز سنائیے ناں''
اس خواہش پر میرا جواب عورت کے رنج والم کی پوری کہانی لیے ہوتا۔
''اب میں آپ کو کیا بتاؤں، ہر طرف شک کے پہرے ہیں، میرے پاس موبائل فون ہے نہ اسے استعمال کرنے کی اجازت، یہ تو میرے ان پڑھ شوہر کو پتا نہیں کہ فیس بک کس بلا کا نام ہے، ورنہ تو مجھے کمپیوٹر سے بھی محروم کردے۔ آپ کیا جانیں عورت ہونا کیا ہوتا ہے، وہ بھی ہمارے معاشرے میں۔ مجھ جیسی تعلیم یافتہ عورت ایک ان پڑھ شخص کے ساتھ کیسے دن کاٹ رہی ہے آپ اندازہ ہی نہیں کرسکتے، مرد ہیں ناں۔''
خواہش کا مکرر اظہار تو ایک طرف رہا میرے ''زخم ہرے کردینے'' پر مجھ سے معذرت کی جاتی اور بڑی دیر تک ہم دردی کا اظہار کیا جاتا۔
فیس بک کے دریچے نے مجھ پر میری ذات کے کتنے ہی در وا کر دیے تھے، اس سے ناتا جوڑ کر ہی مجھے اپنی ذہانت کا اندازہ ہوا تھا، مجھے پتا چلا تھا کہ مجھ میں لوگوں سے بات کرتے ہوئے انھیں متاثر کرنے کی صلاحیت ہے، مجھے اپنی حاضرجوابی اور زبردست حس مزاح سے آشنائی ہوئی تھی۔ میری تنہائی نے مجھے کتابوں اور رسالوں کا رسیا بنادیا تھا، یہ شوق اب میرے بہت کام آرہا تھا، لفظ، برتنے کی صورت میں، چونکا دینے والے خیالات کی شکل میں۔ فیس بک پر میری پروفائل پکچر ہی مجھے ذہین اور جمالیاتی حس سے مالامال بتانے کے لیے کافی تھی۔ یہ ایک خوب صورت نیم عریاں عورت کی تصویر تھی، آنکھیں بند، چہرے پر نارسائی کے کرب میں ڈوبا خمار، سوتی جاگتی کیفیت میں بڑا دل فریب زاویہ بناتا جسم۔۔۔۔۔اس تصویر میں لوگوں کے سمجھنے اور اندازے لگانے کے لیے بہت کچھ تھا۔ بس تو اپنے اصل نام فرحت نثار کے علاوہ اپنی ہر شناخت اوجھل رکھ کر بنایا جانے والا یہ پیج اپنی آمد کے ساتھ ہی فرینڈ ریکوئسٹس سے بھر گیا تھا۔
پھر میری رومانوی اشعار، تنہائی کا شکار عورت کی عکاسی کرتی تصاویر کی شیئرنگ، فیس بک کی مختلف پوسٹس پر میرے دل چسپ کمنٹس، ان سب نے میرا ایک خاص تاثر بنا دیا تھا، ''اداسی میں لپٹی ایک تنہا عورت، جو ذہین بھی ہے اور شوخ بھی'' جلال اکبر ایڈووکیٹ نے مجھ سے اپنی پہلی گفتگو میں جب میری شخصیت کو لفظوں میں ڈھالا تھا، تو مجھے بے حد خوشی ہوئی تھی۔
گفتگو کے لیے میرا انتخاب وہ لوگ ہوتے تھے جن کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہوتا تھا، کہانیاں، واقعات، مشاہدات، ذاتی زندگی کے گفتنی اور ناگفتنی تجربے۔ رسمی بات چیت تو بہت سے لوگوں سے ہوئی، لیکن مستقل گفتگو کے لیے میں نے چھانٹ چھانٹ کر ان لوگوں کو چُنا تھا جو وہ کچھ کہنے اور سُننے کے لیے بے تاب ہوں جس سے ان کا سماجی مرتبہ انھیں روکے ہوئے ہے، دانش ور، شاعر، ادیب، صحافی، جامعات کے استاد، بزنس مین، بہ ظاہر بڑے بردبار، بہت سنجیدہ، عامیانہ پن سے میلوں دور، لیکن اندر سے۔۔۔۔۔۔۔۔جب میرے چند دہکاتے جملوں کے بعد وہ بھڑکتے اور لاوا بھرے پہاڑ کی طرح چھلکتے تھے تو پرتیں کھلتی چلی جاتی تھیں۔
رات کے آخری پہروں میں سوال جواب اور خیالات کا تبادلہ کرتے کرتے بس میرا اتنا کہنا ہوتا،''بہت تھک گئی ہوں بدن ٹوٹ رہا ہے'' پھر تو دوسری طرف سے دہکتے لفظوں اور مہکتی پیش کشوں کا سیال بہہ کر میرا میسیج باکس بھرنے لگتا، یہ سلسلہ بڑی مشکل سے آئندہ روز گفتگو کے وعدے پر رکتا۔ بردبار، با وقار، سنجیدہ اور متین شخصیت میرے سامنے ایک بار اپنی متانت کا پردہ اتارتی تو سارے پردے اترتے چلے جاتے۔ یوں میرے میسیج باکسز میں اظہار کو ترستے تجربات اور قصے جمع ہوتے رہتے۔ حقیقی کہانیاں، اکثر پورے سچ، اگر یہ سب جھوٹ بھی ہو تو میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ لوگ اپنے اصل چہرے کے ساتھ میرے سامنے آرہے ہیں، عموماً ایک ہی چہرے کے ساتھ۔
میں نے تمام پیغامات پڑھے۔ جن سے میرا تعلق کئی ماہ پر محیط تھا ان کی زندگی اور شخصیت مجھ پر کُھل چکی تھی، ان سے اب کترانا اور گفتگو کے اصرار پر ان فرینڈ کردینا تھا۔ مجھے پھر انتخاب کا عمل درپیش تھا۔ پیغامات پڑھتے اور پروفائل دیکھتے ہوئے چناؤ ہو ہی گیا۔
فرہاد دانش، شاعر، افسانہ اور ادبی رسالے ''لفظ'' کا مدیر۔ کہہ رہا تھا،''سلام عرض ہے، ایک تنہا آدمی سے ہم کلام ہونا پسند کریں گی؟''
اور میں نے ہم کلام ہونا پسند کیا۔
''وعلیکم سلام، جی''
''شکریہ، آپ نے جواب دینے کے قابل سمجھا'' وہ آن لائن تھا۔
''ہم سے کلام کی خواہش کیوں جناب!'' میں نے نسوانی ناز دکھایا۔
''بس مجھے لگا کہ آپ بھی میری طرح ان لوگوں میں اجنبی ہیں، سو خوب گزرے گی جو۔۔۔۔۔''
''اُونھ'' اف میری بے اعتنائی۔
''آپ کیا کرتی ہیں'' وہی بوسیدہ سوال۔
''ہاؤس وائف ہوں، گھر کی چار دیواری میں قید، روایتی بیوی'' کیسی اکساہٹ تھی کیسے بلاوے تھے ان لفظوں میں۔
''آپ کا کرب ان لفظوں سے عیاں ہے، دیواریں گرائی جاسکتی ہیں''
''ممکن نہیں، آپ مرد ہیں ایک عورت کی مجبوری نہیں سمجھ سکتے۔ آپ کیا جانیں ایک پڑھی لکھی بیوی بس میٹرک پاس شوہر کے ساتھ کیسے بسر کرتی ہے، آپ کو کیا پتا پابندیوں میں جینا کتنا مشکل ہے'' میں نے اس کے لیے امکانات بڑھائے۔
''کیا دکھ ہے آپ کا، مجھے بتاکر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیجیے''
''ابھی میں آپ کے نام کے سوا کیا جانتی ہوں کہ اپنی زندگی کے وہ گوشے آپ پر عیاں کردوں جو سب سے چھپا کر رکھے ہیں''
''میں نے درد جھیلے ہیں، اس لیے دوسروں کے درد سمجھ سکتا ہوں''
''کیسا درد، ایسا کیا ہوا آپ کے ساتھ''
اور پھر وہ کُھلتا چلا گیا۔ سوتیلی ماں کے سلوک سے محبوبہ کی بے رخی اور بیوی کے تُرش رویوں تک، اس کے سارے دکھڑے ساری تلخیاں لفظ لفظ میں میسیج باکس میں گرنے لگیں۔
میرے ہم دردی کے بول اسے ''ہدف'' پالینے کا یقین دلاتے رہے۔
کوئی چار بجے تھے جب میری پلکوں نے نیند کا بوجھ محسوس کیا۔
''اب میں چلتی ہوں، کل بات ہوگی'' میں نے جواب دیکھے بغیر فیس بک سے لاگ آف ہوکر کمپیوٹر بند کردیا۔
بستر پر جانے سے پہلے میں نے صبح ساتھ بجے کا الارم لگایا اور دعا کی کہ وقت پر آنکھ کھل جائے ۔ میرے شعبے کا سربراہ ایک ہفتے میں دو بار مجھے دیر سے آنے پر تنبیہ کرچکا تھا۔ دوسری مرتبہ تو اس نے صاف صاف کہہ دیا تھا،''اپنی ٹائمنگ ٹھیک کرلو، ورنہ اسٹور کیپر کی اسامی کے لیے کمپنی کو بہت لوگ مل جائیں گے۔''
اس تنبیہ کے بارے میں سوچتے سوچتے جانے کب میں سو گیا۔
یہ میری زندگی میں کُھلتی تیسری کھڑکی تھی، جو صرف اس وقت کھلتی تھی جب بجلی غائب ہو، دوسری کھڑکیاں تھیں کمپیوٹر اور ٹی وی۔ سڑک پر بوڑھے راہ گیر کی سست روی سے اکتا کر ایک کار تواتر سے چیخنے لگی، دہاڑتے جنریٹرز کے ردھم میں یہ چیخ سماعت کو کتنی بُری لگ رہی تھی۔ میں نے کھڑکی سے پیچھے ہٹ کر موبائل فون کی روشنی وال کلاک پر ڈالی، نو بج کر پینتالیس منٹ۔۔۔۔بس پندرہ منٹ میں بجلی آجائے گی، جس سے میرے گھر کی ساری رونق وابستہ ہے۔
لمحے گھسٹ گھسٹ کر گزر رہے تھے، میری نظریں کھڑکی سے پار تیز رو کاروں اور گھڑی کی ٹک ٹک کرتی کاہل سوئیوں کے درمیان بار بار سفر طے کر رہی تھیں۔
ٹیوب لائٹ بزززز کی بھنبھناہٹ کے ساتھ جلی بجھی اور آخر مستقل جل اٹھی۔ ٹیوب لائٹ میں پہلی چمک جاگتے ہی میرا ہاتھ سوئچ بورڈ پر گیا۔ کمپیوٹر بڑی دھیرج سے آن ہونے کے مراحل طے کر رہا تھا، اسکرین پر اپنا عکس دیکھ کر میں نے نظریں ہٹالیں۔ ایسے چہرے آئینوں سے گریز کرتے ہیں۔
اگر آپ مجھے ذرا سا بھی جانتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کمپیوٹر آن ہوتے میری پہلی سرگرمی کیا ہوگی، مگر آپ مجھے نہیں جانتے، مجھے جانتا کون ہے۔ اور اس نہ جاننے میں قصور میرا ہی ہے، لوگوں سے میرا میل ملاپ رہا ہی کتنا۔ ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے بہن بھائی کے رشتوں سے ناآشنا، ہڈیوں پر کھال چڑھے جسم، کوئی چار فٹے قد اور گہرے سانولے رنگ کے باعث لوگوں کے مذاق کا نشانہ، نتیجہ محفلوں اور سنگتوں کا خوف، سو میرا وجود مجھ میں گم ہوکر رہ گیا۔ میری شادی بھی بس ایک رسم تھی، شریک حیات نے اپنی گہری سیا ہ رنگت اور صرف میٹرک پاس ہونے کے باعث مولوی کے سامنے قبول ہے تو کہہ دیا، لیکن ہم ایک دوسرے کو دل سے قبول نہ کرسکے۔ پھر میٹرک کے سرٹیفیکٹ نے بی اے کی ڈگری کے ساتھ دس سال گزاردیے۔ جب ایک دن اچانک اس کا دل بند ہوا، تو میرے دل میں جدائی کا دکھ بس کچھ دنوں کے لیے اترا، اور پھر یہ برتن خالی کا خالی۔ اس دوران زندگی میں بس ایک خوش گوار تبدیلی آئی، جس کا نام ہے کمپیوٹر، بھلا اس ڈبے سے مجھے کیا لینا دینا، میرا حاصل تو اس سے جُڑی انٹرنیٹ کی دنیا تھی، اور پھر یہ دنیا سُکڑ سمٹ کر فیس بک تک محدود ہوگئی۔ اب اس نیلی سفید دنیا میں میرے لیے سارے رنگ تھے، دوستیاں، قربتیں، محبتیں۔ لگ بھگ ساری رات میرے سامنے میسیج باکس کھلے رہتے اور گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کمپیوٹر کا ڈیسک ٹاپ روشن ہوتے ہی میری پہلی سرگرمی ہوتی فیس بک پر لاگ آن ہونا۔
فیس بک کُھلتے ہی، ہمیشہ کی طرح، میری توجہ کا مرکز میسیج باکس پر سُرخ چوکھٹے میں چمکتے سفید ہندسے بن گئے۔ بیس پیغامات میرے منتظر تھے۔ بیس سالہ طالب علم ذیشان، جس کی آئی ڈی ''اسمارٹ بوائے'' تھی، کا پیغام سب سے اوپر تھا، ''ہائے فرحت، کہاں ہو؟'' پچھلے مہینے ساٹھ کے ہونے والے یونی ورسٹی کے استاد فرمان احمد فرما رہے تھے، ''کیسی ہے میری جان''، رسالے ''اسلام کی آواز'' کے مدیر عنایت ظہور نے اپنی ایک ناقابل اشاعت سیلفی میسیج کی تھی، جس میں اس کے چہرے کے علاوہ سب کچھ تھا، وہ کہہ رہا تھا،''اب تو آجاؤ۔'' عورتوں کو ہراساں کرنے کے مسئلے سے نبردآزما این جی او ''عورت حفاظت'' کے سربراہ جلال اکبر ایڈووکیٹ نے عورت مرد کی خلوت کی جلوت پر مبنی ایک انتہائی ہیجان خیز وڈیو کلپ کا تحفہ بھیجا تھا۔
شاعر نصیر اُفق اپنی بیوی کی بے اعتنائی کا قصہ سنا رہا تھا، جسے سنتے سنتے گذشتہ رات مجھے نیند آگئی تھی اور میں نے کمپیوٹر بند کرکے خود کو بستر کے حوالے کردیا تھا۔ نصیراُفق سے گفتگو کرتے ابھی چند روز ہی ہوئے تھے۔ اس لیے وہ ابھی پوری طرح کھلا نہیں تھا، بل کہ یوں کہیے کہ اس نے ابھی تک خود کو مجھ پر کُھلا نہیں چھوڑا تھا۔ برطانیہ میں مقیم تاجر حارث ملک نے پردیس پہنچنے کے بعد کسی گوری سے اپنے پہلے جسمانی تعلق کی لذت انگیز کہانی تمام تفصیلات کے ساتھ میرے کمپیوٹر بند کرنے سے ٹھیک ایک منٹ پہلے مکمل کی تھی، پوچھ رہا تھا،''آپ بھی تو اپنے بارے میں کچھ بتائیں''،''بولیں ناں'' کہاں گئیں ں ںںں۔'' کینیڈا میں مقیم ڈاکٹر اور ادیب سلمان مہر، ایک بڑے اخبار سے وابستہ صحافی فیض سانول، ڈاکٹر شاہد جیلانی۔۔۔۔۔اور باقی نئے لوگ، جو مجھ سے بات کرنے کے خواہش مند تھے، تاکہ دوستی کی خواہش کا اظہار کرسکیں، جس کی تکمیل کے ساتھ پھر تمناؤں کا سلسلہ دراز ہوتا رہے۔
فیس بک اور خاص طور پر اس کے چھوٹے سے میسیج باکس کی بہت وسیع اور رنگوں بھری دنیا میں کئی سال گزارنے کے بعد مجھے تجربہ ہوگیا تھا کہ کس سوال کا کیا جواب دینا ہے اور سمعی اور بصری رابطے سے کیسے بچنا ہے۔
''اپنی تصویر تو دکھائیے''
اس مطالبے پر میرا جواب ہوتا،''پلیز ایک روایت پسند گھرانے کی گھریلو عورت کی مجبوری سمجھیے۔ آپ پر اعتبار ہے، میں خود چاہتی ہوں کہ اپنا آپ، آپ کو دکھادوں، مگر ڈر لگتا ہے۔ جس دن میرے دل نے کہہ دیا، فرحت! یہی وہ شخص ہے جس کی تجھے تلاش تھی، تو میں آپ کے کہے بغیر اپنی تصویریں آپ کو دکھا دوں گی، مجبور مت کیجیے گا پلیز۔'' میری اپنا آپ دکھا دینے کی بے تابانہ خواہش جسے بیان کرتے ہوئے ''اپنا آپ'' واوین میں ہوتا، فوری اثر کرتی، تصویر دیکھنے کا خواہش مند اپنے مطالبے سے دستبردار ہوجاتا۔
''آپ کا موبائل نمبر کیا ہے، اپنی خوب صورت آواز سنائیے ناں''
اس خواہش پر میرا جواب عورت کے رنج والم کی پوری کہانی لیے ہوتا۔
''اب میں آپ کو کیا بتاؤں، ہر طرف شک کے پہرے ہیں، میرے پاس موبائل فون ہے نہ اسے استعمال کرنے کی اجازت، یہ تو میرے ان پڑھ شوہر کو پتا نہیں کہ فیس بک کس بلا کا نام ہے، ورنہ تو مجھے کمپیوٹر سے بھی محروم کردے۔ آپ کیا جانیں عورت ہونا کیا ہوتا ہے، وہ بھی ہمارے معاشرے میں۔ مجھ جیسی تعلیم یافتہ عورت ایک ان پڑھ شخص کے ساتھ کیسے دن کاٹ رہی ہے آپ اندازہ ہی نہیں کرسکتے، مرد ہیں ناں۔''
خواہش کا مکرر اظہار تو ایک طرف رہا میرے ''زخم ہرے کردینے'' پر مجھ سے معذرت کی جاتی اور بڑی دیر تک ہم دردی کا اظہار کیا جاتا۔
فیس بک کے دریچے نے مجھ پر میری ذات کے کتنے ہی در وا کر دیے تھے، اس سے ناتا جوڑ کر ہی مجھے اپنی ذہانت کا اندازہ ہوا تھا، مجھے پتا چلا تھا کہ مجھ میں لوگوں سے بات کرتے ہوئے انھیں متاثر کرنے کی صلاحیت ہے، مجھے اپنی حاضرجوابی اور زبردست حس مزاح سے آشنائی ہوئی تھی۔ میری تنہائی نے مجھے کتابوں اور رسالوں کا رسیا بنادیا تھا، یہ شوق اب میرے بہت کام آرہا تھا، لفظ، برتنے کی صورت میں، چونکا دینے والے خیالات کی شکل میں۔ فیس بک پر میری پروفائل پکچر ہی مجھے ذہین اور جمالیاتی حس سے مالامال بتانے کے لیے کافی تھی۔ یہ ایک خوب صورت نیم عریاں عورت کی تصویر تھی، آنکھیں بند، چہرے پر نارسائی کے کرب میں ڈوبا خمار، سوتی جاگتی کیفیت میں بڑا دل فریب زاویہ بناتا جسم۔۔۔۔۔اس تصویر میں لوگوں کے سمجھنے اور اندازے لگانے کے لیے بہت کچھ تھا۔ بس تو اپنے اصل نام فرحت نثار کے علاوہ اپنی ہر شناخت اوجھل رکھ کر بنایا جانے والا یہ پیج اپنی آمد کے ساتھ ہی فرینڈ ریکوئسٹس سے بھر گیا تھا۔
پھر میری رومانوی اشعار، تنہائی کا شکار عورت کی عکاسی کرتی تصاویر کی شیئرنگ، فیس بک کی مختلف پوسٹس پر میرے دل چسپ کمنٹس، ان سب نے میرا ایک خاص تاثر بنا دیا تھا، ''اداسی میں لپٹی ایک تنہا عورت، جو ذہین بھی ہے اور شوخ بھی'' جلال اکبر ایڈووکیٹ نے مجھ سے اپنی پہلی گفتگو میں جب میری شخصیت کو لفظوں میں ڈھالا تھا، تو مجھے بے حد خوشی ہوئی تھی۔
گفتگو کے لیے میرا انتخاب وہ لوگ ہوتے تھے جن کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہوتا تھا، کہانیاں، واقعات، مشاہدات، ذاتی زندگی کے گفتنی اور ناگفتنی تجربے۔ رسمی بات چیت تو بہت سے لوگوں سے ہوئی، لیکن مستقل گفتگو کے لیے میں نے چھانٹ چھانٹ کر ان لوگوں کو چُنا تھا جو وہ کچھ کہنے اور سُننے کے لیے بے تاب ہوں جس سے ان کا سماجی مرتبہ انھیں روکے ہوئے ہے، دانش ور، شاعر، ادیب، صحافی، جامعات کے استاد، بزنس مین، بہ ظاہر بڑے بردبار، بہت سنجیدہ، عامیانہ پن سے میلوں دور، لیکن اندر سے۔۔۔۔۔۔۔۔جب میرے چند دہکاتے جملوں کے بعد وہ بھڑکتے اور لاوا بھرے پہاڑ کی طرح چھلکتے تھے تو پرتیں کھلتی چلی جاتی تھیں۔
رات کے آخری پہروں میں سوال جواب اور خیالات کا تبادلہ کرتے کرتے بس میرا اتنا کہنا ہوتا،''بہت تھک گئی ہوں بدن ٹوٹ رہا ہے'' پھر تو دوسری طرف سے دہکتے لفظوں اور مہکتی پیش کشوں کا سیال بہہ کر میرا میسیج باکس بھرنے لگتا، یہ سلسلہ بڑی مشکل سے آئندہ روز گفتگو کے وعدے پر رکتا۔ بردبار، با وقار، سنجیدہ اور متین شخصیت میرے سامنے ایک بار اپنی متانت کا پردہ اتارتی تو سارے پردے اترتے چلے جاتے۔ یوں میرے میسیج باکسز میں اظہار کو ترستے تجربات اور قصے جمع ہوتے رہتے۔ حقیقی کہانیاں، اکثر پورے سچ، اگر یہ سب جھوٹ بھی ہو تو میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ لوگ اپنے اصل چہرے کے ساتھ میرے سامنے آرہے ہیں، عموماً ایک ہی چہرے کے ساتھ۔
میں نے تمام پیغامات پڑھے۔ جن سے میرا تعلق کئی ماہ پر محیط تھا ان کی زندگی اور شخصیت مجھ پر کُھل چکی تھی، ان سے اب کترانا اور گفتگو کے اصرار پر ان فرینڈ کردینا تھا۔ مجھے پھر انتخاب کا عمل درپیش تھا۔ پیغامات پڑھتے اور پروفائل دیکھتے ہوئے چناؤ ہو ہی گیا۔
فرہاد دانش، شاعر، افسانہ اور ادبی رسالے ''لفظ'' کا مدیر۔ کہہ رہا تھا،''سلام عرض ہے، ایک تنہا آدمی سے ہم کلام ہونا پسند کریں گی؟''
اور میں نے ہم کلام ہونا پسند کیا۔
''وعلیکم سلام، جی''
''شکریہ، آپ نے جواب دینے کے قابل سمجھا'' وہ آن لائن تھا۔
''ہم سے کلام کی خواہش کیوں جناب!'' میں نے نسوانی ناز دکھایا۔
''بس مجھے لگا کہ آپ بھی میری طرح ان لوگوں میں اجنبی ہیں، سو خوب گزرے گی جو۔۔۔۔۔''
''اُونھ'' اف میری بے اعتنائی۔
''آپ کیا کرتی ہیں'' وہی بوسیدہ سوال۔
''ہاؤس وائف ہوں، گھر کی چار دیواری میں قید، روایتی بیوی'' کیسی اکساہٹ تھی کیسے بلاوے تھے ان لفظوں میں۔
''آپ کا کرب ان لفظوں سے عیاں ہے، دیواریں گرائی جاسکتی ہیں''
''ممکن نہیں، آپ مرد ہیں ایک عورت کی مجبوری نہیں سمجھ سکتے۔ آپ کیا جانیں ایک پڑھی لکھی بیوی بس میٹرک پاس شوہر کے ساتھ کیسے بسر کرتی ہے، آپ کو کیا پتا پابندیوں میں جینا کتنا مشکل ہے'' میں نے اس کے لیے امکانات بڑھائے۔
''کیا دکھ ہے آپ کا، مجھے بتاکر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیجیے''
''ابھی میں آپ کے نام کے سوا کیا جانتی ہوں کہ اپنی زندگی کے وہ گوشے آپ پر عیاں کردوں جو سب سے چھپا کر رکھے ہیں''
''میں نے درد جھیلے ہیں، اس لیے دوسروں کے درد سمجھ سکتا ہوں''
''کیسا درد، ایسا کیا ہوا آپ کے ساتھ''
اور پھر وہ کُھلتا چلا گیا۔ سوتیلی ماں کے سلوک سے محبوبہ کی بے رخی اور بیوی کے تُرش رویوں تک، اس کے سارے دکھڑے ساری تلخیاں لفظ لفظ میں میسیج باکس میں گرنے لگیں۔
میرے ہم دردی کے بول اسے ''ہدف'' پالینے کا یقین دلاتے رہے۔
کوئی چار بجے تھے جب میری پلکوں نے نیند کا بوجھ محسوس کیا۔
''اب میں چلتی ہوں، کل بات ہوگی'' میں نے جواب دیکھے بغیر فیس بک سے لاگ آف ہوکر کمپیوٹر بند کردیا۔
بستر پر جانے سے پہلے میں نے صبح ساتھ بجے کا الارم لگایا اور دعا کی کہ وقت پر آنکھ کھل جائے ۔ میرے شعبے کا سربراہ ایک ہفتے میں دو بار مجھے دیر سے آنے پر تنبیہ کرچکا تھا۔ دوسری مرتبہ تو اس نے صاف صاف کہہ دیا تھا،''اپنی ٹائمنگ ٹھیک کرلو، ورنہ اسٹور کیپر کی اسامی کے لیے کمپنی کو بہت لوگ مل جائیں گے۔''
اس تنبیہ کے بارے میں سوچتے سوچتے جانے کب میں سو گیا۔