کرکٹ ڈپلومیسی کا نیا ریشمی رومال

کیا امریکا بہادر پاکستان کو خوش کرنے کے لیے بالواسطہ آگے بڑھا ہے یا اسے محض آئی واش کہا جا سکتا ہے؟

tanveer.qaisar@express.com.pk

KARACHI:
کیا پاکستان، افغانستان اور بھارت اپنے متنازعہ اور الجھے ہوئے مسائل اب کرکٹ ڈپلومیسی کے پردے میں حل کرنا چاہتے ہیں؟ کرکٹ کے تازہ عالمی سیزن میں جنوب مشرقی ایشیا کے ان تینوں ممالک کے سربراہ نئے لہجے میں قریب آنے کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ بہت ہو چکی سر پھٹول اور بہت ہو چکی بلیم گیم۔ اب ہاتھ اور دل آگے بڑھانے چاہئیں۔ یہ انداز و اطوار فطری ہیں یا امریکی دباؤ کا نتیجہ؟ وزیراعظم پاکستان جناب نواز شریف کو صدرِ امریکا بارک اوباما کے حوصلہ افزا فون کے دوسرے ہی روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا جس ''محبت'' سے فون آیا ہے اور کرکٹ کے حوالے سے جن نیک خواہشات و جذبات کا اظہار کیا گیا ہے، اسے غیر معمولی تبدیلی کا عنوان قرار دیا جا سکتا ہے۔

کیا امریکا بہادر پاکستان کو خوش کرنے کے لیے بالواسطہ آگے بڑھا ہے یا اسے محض آئی واش کہا جا سکتا ہے؟ پاکستان کو امریکا سے بجا طور پر بہت سے گلے شکوے ہیں، اس لیے شبہے کا اظہار بلا وجہ نہیں۔ خصوصاً گزشتہ برس ستمبر کے دوران، نیو یارک میں، امریکی حکومت نے ہمارے وزیراعظم سے جس سرد مہری اور مودی سے جس گرمجوشی کا برتاؤ کیا، اس سے پاکستان اور نواز شریف کے جذبات پر اوس پڑنا بے جا نہیں تھا۔ پھر پچھلے ماہ امریکی صدر نے جس ذوق و شوق سے بھارت کا سہ روزہ دورہ کیا، اپنے میزبان ملک کو جس دلداری سے نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بنایا اور پھر بھارت کو سلامتی کونسل کی رکنیت دینے کا جو عندیہ دیا، پاکستان اور اہلِ پاکستان کو یہ منظر اچھا نہ لگا؛ چنانچہ اس پس منظر میں پاکستان، امریکا سے بین السطور گلہ کرتا ہے تو اسے غیر فطری نہیں کہا جا سکتا۔

بھارت یاترا کے حوالے سے دو سابق امریکی صدور، کلنٹن اور بُش، نے جس طرح سے پاکستان کو نظر انداز کیا تھا، بارک اوباما کے تازہ دورئہ بھارت نے ان زخموں کو پھر سے ہرا کر دیا تھا۔ اس دوران، خلا کو پُر کرنے کے لیے، پاکستان نے بجا طور پر چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید تیزی بھی پیدا کی ہے اور پاکستان نے روس سے بھی دفاعی اور معاشی معاملات میں ازسرِ نو سلسلہ جنبانی شروع کر دیا۔ پاکستانی حکام کا یہ فیصلہ مستحسن قرار دیا جانا چاہیے۔ روس اور چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے امریکا کو یقینا تشویش میں مبتلا کیا ہو گا، اگرچہ پاکستان بھرپور انداز میں امریکا سے بے رخی کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔

تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ بارہ فروری 2015ء کو جب امریکی صدر اوباما نے ہمارے وزیراعظم کو نصف گھنٹے پر محیط فون کیا تو اس میں مذکورہ پس منظر بھی، کسی نہ کسی شکل میں، کارفرما تھا؟ صدرِ امریکا نے اگر اپنے فون میں مبینہ طور پر پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں چاہت اور تعاون کی خصوصاً تعریف کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سویلین حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ایک ہی صفحے پر ہے اور یہ بھی کہ اخلاص کے ساتھ افغانستان کے ساتھ معاملات طے پا رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف ''ضربِ عضب'' آپریشن سے گویا امریکا بھی مطمئن ہے اور اس آپریشن کے اہداف مشکوک و متنازعہ بھی نہیں رہے۔ افغانستان کے جو نوجوان فوجی افسر ٹریننگ کے لیے پاکستان آئے ہیں، اس نئے تناظر میں بھی امریکا اطمینان کا اظہار کر رہا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان سے امریکی و نیٹو فوجیں نکلتے ہی پھر سے خانہ جنگی کا آغاز ہو جائے۔

اس سلسلے میں امریکا کی طرف سے افغان طالبان کو دہشت گرد گروہ نہ کہنے کا نیا بیان چونکا دینے والا تو یقینا ہے لیکن اس میں پاکستان اور دیگر ممالک کے لیے ایک واضح پیغام بھی پوشیدہ ہے۔ اگر اس نئے امریکی بیان کو پاکستان کا حالیہ دورہ کرنے والے چینی وزیرِخارجہ وانگ ژی کے اس بیان سے جوڑ کر پڑھا جائے کہ چین، افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان صلح کروانے کے لیے تیار ہے تو نئی تصویر مزید واضح ہو جاتی ہے۔ چینی وزیرِخارجہ وانگ ژی کے اس تازہ بیان کی معنویت اس خبر میں بھی پوشیدہ ہے کہ چند ہفتے قبل افغان طالبان کے ایک وفد نے مبینہ طور پر چین کا دورہ بھی کیا ہے۔

یہ کئی رُخا پیش منظر ہمیں بتاتا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امریکا کو پاکستان کی کس قدر ضرورت ہے۔ اسی ضمن میں دو مثالوں کو بھی پیش نگاہ رکھنا ہو گا: اول، جنرل راحیل شریف کا تنہا دورئہ افغانستان اور دوم، افغان صدر جناب اشرف غنی کا دورئہ پاکستان کے دوران خصوصی طور پر راولپنڈی میں جی ایچ کیو کا وزٹ۔ بتایا جاتا ہے کہ اس دورے میں پاکستان اور افغانستان کے لیڈروں نے اکٹھے مل کر اسلام آباد میں کرکٹ کا ایک دوستانہ میچ بھی دیکھا جس میں دونوں ممالک کے کرکٹروں نے حصہ لیا تھا۔


یہ دونوں ممالک کی نئی باہمی گرمجوشی اور کرکٹ ڈپلومیسی کا مظہر تھا۔ پاکستان کو مگر زیرِ تہ رنج ہے کہ افغانستان نے ابھی تک بہت سے پاکستانیوں کے قاتل اور دہشت گرد ملّا فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے نہیں کیا۔ ممکن ہے ہمارے وزیراعظم نے اوباما کی طرف سے آنے والے نئے فون میں اس طرف بھی اشارہ کیا ہو۔ انھوں نے صدرِ امریکا کو مبینہ طور پر یہ بات تو جرأت سے کہہ ڈالی ہے کہ بھارت سلامتی کونسل کارکن بننے کا اہل نہیں۔

ہمارے اخبارات نے اس جرأت پر سرخیاں جمائی ہیں لیکن کسی نے اس راز کی پردہ کشائی نہیں کی کہ یہ الفاظ سن کر امریکی صدر نے ہمارے وزیراعظم کو جواباً کیا کہا؟ کیا اوباما نے بھارت کی نااہلی تسلیم کر لی ہے؟ اور یہ کہ ہماری اس درخواست کو بھی کس قدر شرفِ قبولیت بخشا گیا ہے کہ پاکستان کو بھی، بھارت کی مانند، نیوکلیئر سپلائر گروپ کا رکن بنایا جائے؟

ایسے میں بھارتی وزیراعظم لب کشا ہوئے ہیں۔ ایک طویل خاموشی کے بعد۔ مُودی جی نے جناب نواز شریف کو فون کیا ہے اور کرکٹ ورلڈ کپ کے حوالے سے میٹھی میٹھی باتیں کی ہیں۔ جواب میں انھیں بھی شیریں بیانی ملی ہے۔ کرکٹ ڈپلومیسی کے حوالے ہی سے سہی۔ 1987ء میں جنرل ضیاء نے بھی اسی کرکٹ ڈپلومیسی کے تحت دونوں ممالک کی شدید ترشی اور کشیدگی کم کرنے کی ایک سعی کی تھی اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی 2011ء میں مشرقی پنجاب جا کر وزیراعظم منموہن سنگھ کے ساتھ ایک کرکٹ میچ کا نظارہ کیا تھا لیکن بھارت کا پرنالہ اپنی جگہ رہا۔

پاکستان پر تہمتیں لگانے کا سلسلہ بند ہوا نہ بھارت، پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ ہو سکا۔ اس بار مگر کرکٹ ڈپلومیسی کا آغاز ہماری طرف سے نہیں، بھارت کی طرف سے ہوا ہے۔ تیرہ فروری 2015ء کو نریندر مودی نے یوں تو ہمارے وزیراعظم کے ساتھ ساتھ افغانستان و سری لنکا کے صدور اور بنگلہ دیش کی وزیراعظم کو بھی فون کیا کہ یہ چاروں ممالک ''سارک'' کے رکن ہیں اور اب کرکٹ ورلڈ کپ کے حصول کے لیے میدان میں ہیں لیکن ہمیں خوشی اس بات کی ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے اپنا نیا سیکریٹری خارجہ (ایس جے شنکر) پاکستان بھجوانے کی بات کی ہے۔ یہی ''بات'' پاکستان کے مطلب کی ہے۔

کرکٹ ڈپلومیسی کے ریشمی رومال میں لپٹا مودی کا یہ بیان عین ان لمحات میں آیا ہے جب افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے کے سربراہ نے میڈیا کو ایک بھرپور بریفنگ میں شرحِ صدر کے ساتھ یہ انکشاف کیا کہ پاکستان میں خود کش بمباری اور دہشت گردی کی وارداتوں میں بھارت کا ہاتھ ہے اور یہ کہ دہشت گردوں (از قسم ٹی ٹی پی کے ملا فضل اللہ) کو بھارت کی طرف سے مالی اعانت حاصل ہے۔ ان حالات میں نریندر مودی کا وزیراعظم پاکستان کو فون اور ٹوئٹر پر پیغام غیر معمولی ہی گردانا جائے گا۔ یہ مودی جی ہی تو تھے جنہوں نے گزشتہ برس اگست میں طے شدہ پاک بھارت سیکریٹری خارجہ مذاکرات منسوخ کر دیے تھے۔

اس دوران پاکستان پر یقینا دباؤ آتے رہے کہ بھارت سے مذاکراتی تعلقات کا ٹوٹا دھاگہ پھر سے جوڑا جائے لیکن پاکستان بجا طور پر اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا کہ مذاکرات کا سلسلہ بھارت نے توڑا تھا، اب وہی اسے جوڑنے کا ذمے دار ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ امریکی صدر نے بھی اپنے دورئہ بھارت میں نریندر مودی کو پاکستان سے اس قطع تعلقی کا کچھ احساس دلایا ہو گا۔ یقینا بھارتی وزیراعظم کو بھی اپنی زیادتی اور غلطی کا ادراک ہوا ہو گا۔ یوں ان کا وزیراعظم نواز شریف کو فون کرنا اور اپنے نئے سیکریٹری خارجہ کو پاکستان بھجوانے کا عندیہ دینا جہاں پاکستانی مؤقف کی جیت ہے، وہاں یہ منظر اس بات کی بھی شہادت دے رہا ہے کہ امریکی صدر پاکستان کو نظر انداز کرنے کے تاثر کو زائل کرنے کی بھی کوششیں کر رہے ہیں۔
Load Next Story