انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر ہے
یہی وجہ ہے کہ دہشتگردی کے سیکڑوں مقدمات سالہا سال سے التوا کا شکار ہیں۔
مذہبی سیاسی جماعتوں کی درون خانہ اور وکلاء کی عیاں مخالفت کے علی الرغم ملٹری کورٹس نے باقاعدہ کام کا آغاز کر دیا ہے۔ حساس نوعیت کے ایک درجن کے قریب مقدمات سماعت کے لیے ارسال کر دیے گئے۔ امکان ہے جب تک یہ سطور قارئین کے زیرنظر آئیں گی فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کا آغاز ہو چکا ہو گا۔
بحیثیت تجزیہ نگار اگر فوجی عدالتوں بارے راقم کی رائے پوچھی جائے تو بنا سوچے سمجھے جواب مخالفت میں ہو گا۔ اس حیثیت میں میری رائے آئین کے تابع ہے۔ اگرچہ مذکورہ کورٹس کو 21 ویں ترمیم کے ذریعے آئینی تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے اور ملک کی ستر سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت فوجی عدالتوں کو شرف قبولیت بخشا ہے۔ اس کے باوجود یہ عدالتیں آئین کی روح' بنیادی انسانی حقوق کے منافی اور موجودہ عدالتی نظام پر کھلا عدم اعتماد ہے۔ ان عدالتوں کا مقصد دہشتگردوں' تخریب کاروں' سنگین جرائم میں ملوث ملزموں کو فوری اور کڑی سزا دینا بتایا جا رہا ہے اور یہ مقصد مروجہ عدالتی نظام میں بہتری لا کر بھی حاصل کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لیے متوازی عدالتی نظام کی قطعی ضرورت نہ تھی۔
بطور شہری اگر اس حوالے سے اس طالب علم سے سوال کیا جائے تو سیدھا سادا جواب ''موجودہ صورتحال میں ملٹری کورٹس کا قیام ناگزیر'' ہو گا۔ ہمارا تمام سسٹم کینسر اور تمام سرکاری ادارے دیمک زدہ ہو چکے ہیں۔ یہ سسٹم اس قدر ابتری کا شکار ہے جسے دنوں میں درست کرنا ممکن نہیں۔ مروجہ عدالتی سسٹم بھی بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ جج اور تفتیشی افسر دہشتگردوں کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دہشتگردی کے سیکڑوں مقدمات سالہا سال سے التوا کا شکار ہیں۔ فوجی عدالتیں دو سال کے لیے ہیں میری رائے میں اس عرصے میں حکومت کو عدالتی نظام سمیت دیگر شعبوں میں اصلاح اور بہتری کا موقع میسر آ جائے گا۔ اس لیے اگر ہمیں اپنے بچے' شہری' ادارے' ملک بچانا ہے تو سماج دشمن عناصر کو فی الفور کڑی سے کڑی سزا دے کر عبرت کا نشان بنانا ہو گا اور موجودہ عدالتی نظام کے ذریعے ایسا ممکن نہیں۔ یہ محض قیاس آرائی نہیں ایک کھلی حقیقت ہے جس کا اعتراف ان کو بھی ہے جو ان عدالتوں کی کھلم کھلا مخالفت کر رہے ہیں۔
رہے وکلاء تو ان کا اصل مسئلہ آئین نہیں بلکہ روزی روٹی ہے۔ موقف ان کا بہت سادہ' قابل فہم اور کسی حد تک قابل قبول ہے کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام' آئین کی صریح خلاف ورزی اور رائج الوقت عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے لیکن درحقیقت مقدمات کی طوالت کی بڑی وجہ وکلاء بھی ہیں اور فوجی عدالتوں میں وکلاء گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔ مرضی کے فیصلے لینا ناممکن ہے۔ ججوں پر دباؤ ڈالنا' تاریخ پر تاریخ لینا تو بالکل ہی خارج از امکان ہے اور پھر آج تک یہ معمہ کہ وکلاء کو ان عدالتوں میں پیش ہونے کی اجازت بھی ہو گی یا وکیل کے بغیر ہی ملزم کو دفاع کا حق دیا جائے گا حل طلب ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو یہ وکلاء کے پیٹ پر لات کے مترادف ہو گا۔
مروجہ عدالتی نظام میں حصول انصاف کے لیے وکیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور بھاری فیس لے کر وکیل حضرات مجرم کو بے گناہ اور مظلوم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے قانونی موشگافیوں' جھوٹے گواہوں اور تاخیری حربوں کا سہارا لیتے ہیں۔تفتیشی افسر کی بولی لگا کر حقائق مسخ' وکیل کو بھاری فیس دے کر مقدمہ کو اتنا طول دیا جاتا ہے کہ مدعی ناامید ہو کر پیروی سے ہی دستبردار ہو جاتا ہے اور آخر کار اکثر مجرم وکلاء اور تفتیشی کی مہربانی سے یا تو باعزت بری ہو جاتے ہیں یا سنگین جرم معمولی جرم میں بدل دیا جاتا ہے اور معمولی سزا کے بعد مجرم آزاد ہو جاتے ہیں مگر فوجی عدالتوں میں مقدمات کو طول دینے' ڈھیلی ڈھالی' نامکمل تفتیش کی شاید گنجائش نہیں۔ اس لیے وکلاء کے پیٹ میں آئین کا مروڑ اٹھنا شروع ہو گیا۔
رہے وہ آئینی و سیاسی بزرجمہر جن کے نزدیک موجودہ عدالتی نظام میں بہتری لا کر فوری سزاؤں کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ان سے سوال ہے کیا بدعنوان' بددیانت' بدانتظام' منافقت سے لتھڑے نظام کو محض عدالتوں کو درست کرنے سے راست رو کرنا ممکن ہے؟ جب ڈرائیور ہی بدنیت' بدکردار اور خائن ہو تو کیونکر امن' ترقی' خوشحالی' سلامتی کی منزل حاصل اور فوری انصاف مہیا کیا جا سکتا ہے۔
محض پتے اور شاخیں کاٹنے سے شجر قومی کو نہ تو پروان چڑھایا جا سکتا ہے' نہ سایہ دار اور نہ ہی برگ و بار لانا ممکن ہے۔ جب تک دہشتگردی' تخریب کاری' سماج دشمنی کی جڑ نہیں کاٹی جائے گی۔ ببول کو سیراب کرنے والوں کے ہاتھ نہیں قلم کیے جائیں گے۔ سمند اور سمن کی کھیتی' مروا اور کروا کے پھول' موتیا اور چنبیلی کی بیلیں فصل نہیں دیں گی۔
آج دنیا میں ہم سے بڑا کوئی ظالم نہیں جو مذہب کے نام پر بچوں کو مار رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں' اسپتالوں میں خودکش حملے ہو رہے ہیں۔ اتحاد و یگانگت کے بجائے تفریق اور تقسیم کا سبق عام کیا جا رہا ہے۔ ہم سے زیادہ لامذہب شاید روئے زمین پر کوئی نہیں جو مذہب کے نام پر انسانیت کا قتل عام کر رہے ہیں اور دعویٰ مسلمان ہونے کا
''خدا کے بندو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے۔''
ہمارا ایمان پیسہ' مذہب پیسہ 'مقصد پیسہ' خدا پر یقین نہ آخرت پر ایقان' ہم نے قرآن و سنت کو فراموش کر دیا۔ صدیقؓ و عمرؓ سے ناطہ توڑ لیا۔ ہم نے لنکن' چرچل' بدھا' گاندھی' کنفیوشس' گوئٹے یہاں تک کہ اقبالؒ و جناحؒ کو بھی نہیں مانا۔
اب کسے رہنما کرے کوئی
ہمارا حال بقول غالبؔ یہ ہو چکا ہے کہ
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ان ہی پراعتماد کر کے جئے جا رہے ہیں جو ہماری بربادی' تباہی اور افلاس کے ذمے دار ہیں۔ ایسے نظام انصاف میں فوجی عدالتیں عام شہری کے لیے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی کرن ہیں۔ وہ جن کے بچے راہ وفا میں مارے گئے وہ سہاگنیں جن کی مانگ کا سندھور اجڑ گیا' وہ بچے جو یتیم ہو گئے' ان کو موجودہ عدالتی نظام سے سالوں بعد بھی انصاف نہیں مل سکتا کہ مروجہ نظام انصاف سرمائے سے جڑا ہوا ہے اور جب نظام انصاف میں سرمایہ در آئے تو غریب ہمیشہ انصاف سے محروم رہتا ہے اور سرمایہ دار ''انصاف'' خرید لیتا ہے۔ ایسے میں ضرورت ایک عمر فاروقؓ اور علی المرتضیٰؓ کی جو امیرالمومنین ہونے کے باوجود ملزم کی حیثیت سے قاضی کے سامنے کھڑے ہوں اور فوجی عدالتیں ایسے ہی فوری انصاف کے لیے ہیں جہاں فوری فیصلے ہوں۔
''امن ملے میرے بچوں کو اور ملے انصاف''
اور اب انصاف نے راستہ بدل لیا ہے اور اب انصاف ہو گا' بروقت اور سرعام ہو گا اور اگر احتساب بھی ایسے ہی فوری شروع ہو جائے تو پھر انصاف کے مندر میں بھگوان گواہی دینے آئیں گے۔
بحیثیت تجزیہ نگار اگر فوجی عدالتوں بارے راقم کی رائے پوچھی جائے تو بنا سوچے سمجھے جواب مخالفت میں ہو گا۔ اس حیثیت میں میری رائے آئین کے تابع ہے۔ اگرچہ مذکورہ کورٹس کو 21 ویں ترمیم کے ذریعے آئینی تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے اور ملک کی ستر سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت فوجی عدالتوں کو شرف قبولیت بخشا ہے۔ اس کے باوجود یہ عدالتیں آئین کی روح' بنیادی انسانی حقوق کے منافی اور موجودہ عدالتی نظام پر کھلا عدم اعتماد ہے۔ ان عدالتوں کا مقصد دہشتگردوں' تخریب کاروں' سنگین جرائم میں ملوث ملزموں کو فوری اور کڑی سزا دینا بتایا جا رہا ہے اور یہ مقصد مروجہ عدالتی نظام میں بہتری لا کر بھی حاصل کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لیے متوازی عدالتی نظام کی قطعی ضرورت نہ تھی۔
بطور شہری اگر اس حوالے سے اس طالب علم سے سوال کیا جائے تو سیدھا سادا جواب ''موجودہ صورتحال میں ملٹری کورٹس کا قیام ناگزیر'' ہو گا۔ ہمارا تمام سسٹم کینسر اور تمام سرکاری ادارے دیمک زدہ ہو چکے ہیں۔ یہ سسٹم اس قدر ابتری کا شکار ہے جسے دنوں میں درست کرنا ممکن نہیں۔ مروجہ عدالتی سسٹم بھی بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ جج اور تفتیشی افسر دہشتگردوں کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دہشتگردی کے سیکڑوں مقدمات سالہا سال سے التوا کا شکار ہیں۔ فوجی عدالتیں دو سال کے لیے ہیں میری رائے میں اس عرصے میں حکومت کو عدالتی نظام سمیت دیگر شعبوں میں اصلاح اور بہتری کا موقع میسر آ جائے گا۔ اس لیے اگر ہمیں اپنے بچے' شہری' ادارے' ملک بچانا ہے تو سماج دشمن عناصر کو فی الفور کڑی سے کڑی سزا دے کر عبرت کا نشان بنانا ہو گا اور موجودہ عدالتی نظام کے ذریعے ایسا ممکن نہیں۔ یہ محض قیاس آرائی نہیں ایک کھلی حقیقت ہے جس کا اعتراف ان کو بھی ہے جو ان عدالتوں کی کھلم کھلا مخالفت کر رہے ہیں۔
رہے وکلاء تو ان کا اصل مسئلہ آئین نہیں بلکہ روزی روٹی ہے۔ موقف ان کا بہت سادہ' قابل فہم اور کسی حد تک قابل قبول ہے کہ فوجی عدالتیں متوازی عدالتی نظام' آئین کی صریح خلاف ورزی اور رائج الوقت عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے لیکن درحقیقت مقدمات کی طوالت کی بڑی وجہ وکلاء بھی ہیں اور فوجی عدالتوں میں وکلاء گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔ مرضی کے فیصلے لینا ناممکن ہے۔ ججوں پر دباؤ ڈالنا' تاریخ پر تاریخ لینا تو بالکل ہی خارج از امکان ہے اور پھر آج تک یہ معمہ کہ وکلاء کو ان عدالتوں میں پیش ہونے کی اجازت بھی ہو گی یا وکیل کے بغیر ہی ملزم کو دفاع کا حق دیا جائے گا حل طلب ہے اور اگر ایسا ہو گیا تو یہ وکلاء کے پیٹ پر لات کے مترادف ہو گا۔
مروجہ عدالتی نظام میں حصول انصاف کے لیے وکیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور بھاری فیس لے کر وکیل حضرات مجرم کو بے گناہ اور مظلوم کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے قانونی موشگافیوں' جھوٹے گواہوں اور تاخیری حربوں کا سہارا لیتے ہیں۔تفتیشی افسر کی بولی لگا کر حقائق مسخ' وکیل کو بھاری فیس دے کر مقدمہ کو اتنا طول دیا جاتا ہے کہ مدعی ناامید ہو کر پیروی سے ہی دستبردار ہو جاتا ہے اور آخر کار اکثر مجرم وکلاء اور تفتیشی کی مہربانی سے یا تو باعزت بری ہو جاتے ہیں یا سنگین جرم معمولی جرم میں بدل دیا جاتا ہے اور معمولی سزا کے بعد مجرم آزاد ہو جاتے ہیں مگر فوجی عدالتوں میں مقدمات کو طول دینے' ڈھیلی ڈھالی' نامکمل تفتیش کی شاید گنجائش نہیں۔ اس لیے وکلاء کے پیٹ میں آئین کا مروڑ اٹھنا شروع ہو گیا۔
رہے وہ آئینی و سیاسی بزرجمہر جن کے نزدیک موجودہ عدالتی نظام میں بہتری لا کر فوری سزاؤں کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ ان سے سوال ہے کیا بدعنوان' بددیانت' بدانتظام' منافقت سے لتھڑے نظام کو محض عدالتوں کو درست کرنے سے راست رو کرنا ممکن ہے؟ جب ڈرائیور ہی بدنیت' بدکردار اور خائن ہو تو کیونکر امن' ترقی' خوشحالی' سلامتی کی منزل حاصل اور فوری انصاف مہیا کیا جا سکتا ہے۔
محض پتے اور شاخیں کاٹنے سے شجر قومی کو نہ تو پروان چڑھایا جا سکتا ہے' نہ سایہ دار اور نہ ہی برگ و بار لانا ممکن ہے۔ جب تک دہشتگردی' تخریب کاری' سماج دشمنی کی جڑ نہیں کاٹی جائے گی۔ ببول کو سیراب کرنے والوں کے ہاتھ نہیں قلم کیے جائیں گے۔ سمند اور سمن کی کھیتی' مروا اور کروا کے پھول' موتیا اور چنبیلی کی بیلیں فصل نہیں دیں گی۔
آج دنیا میں ہم سے بڑا کوئی ظالم نہیں جو مذہب کے نام پر بچوں کو مار رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں' اسپتالوں میں خودکش حملے ہو رہے ہیں۔ اتحاد و یگانگت کے بجائے تفریق اور تقسیم کا سبق عام کیا جا رہا ہے۔ ہم سے زیادہ لامذہب شاید روئے زمین پر کوئی نہیں جو مذہب کے نام پر انسانیت کا قتل عام کر رہے ہیں اور دعویٰ مسلمان ہونے کا
''خدا کے بندو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے۔''
ہمارا ایمان پیسہ' مذہب پیسہ 'مقصد پیسہ' خدا پر یقین نہ آخرت پر ایقان' ہم نے قرآن و سنت کو فراموش کر دیا۔ صدیقؓ و عمرؓ سے ناطہ توڑ لیا۔ ہم نے لنکن' چرچل' بدھا' گاندھی' کنفیوشس' گوئٹے یہاں تک کہ اقبالؒ و جناحؒ کو بھی نہیں مانا۔
اب کسے رہنما کرے کوئی
ہمارا حال بقول غالبؔ یہ ہو چکا ہے کہ
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ان ہی پراعتماد کر کے جئے جا رہے ہیں جو ہماری بربادی' تباہی اور افلاس کے ذمے دار ہیں۔ ایسے نظام انصاف میں فوجی عدالتیں عام شہری کے لیے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی کرن ہیں۔ وہ جن کے بچے راہ وفا میں مارے گئے وہ سہاگنیں جن کی مانگ کا سندھور اجڑ گیا' وہ بچے جو یتیم ہو گئے' ان کو موجودہ عدالتی نظام سے سالوں بعد بھی انصاف نہیں مل سکتا کہ مروجہ نظام انصاف سرمائے سے جڑا ہوا ہے اور جب نظام انصاف میں سرمایہ در آئے تو غریب ہمیشہ انصاف سے محروم رہتا ہے اور سرمایہ دار ''انصاف'' خرید لیتا ہے۔ ایسے میں ضرورت ایک عمر فاروقؓ اور علی المرتضیٰؓ کی جو امیرالمومنین ہونے کے باوجود ملزم کی حیثیت سے قاضی کے سامنے کھڑے ہوں اور فوجی عدالتیں ایسے ہی فوری انصاف کے لیے ہیں جہاں فوری فیصلے ہوں۔
''امن ملے میرے بچوں کو اور ملے انصاف''
اور اب انصاف نے راستہ بدل لیا ہے اور اب انصاف ہو گا' بروقت اور سرعام ہو گا اور اگر احتساب بھی ایسے ہی فوری شروع ہو جائے تو پھر انصاف کے مندر میں بھگوان گواہی دینے آئیں گے۔