عقل مند کو اشارہ
تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ بھی طے نہ ہوا تھا۔ نہ اسیروں کی رہائی اور نہ کراچی و لاہور سے مارشل لا اٹھانا۔
NEW DEHLI:
وزیراعظم کو ایک مقبول شخصیت کے علاوہ جہاندیدہ بھی کہہ سکتے ہیں، ان کے حکومت میں رہنے کے طویل تجربے سے کون انکار کرسکتا ہے۔ ان کی پارٹی پاکستان کے سب سے زیادہ آزمودہ کار لوگوں کی پارٹی کہی جاتی ہے۔ مسئلہ وہ الزام رہا کہ انھوں نے انتخاب دھاندلی سے جیتا ہے، دوسرے نمبر پر ووٹ لینے والوں کا یہ دعویٰ کہ حکومت بے ایمانی کرکے پاور میں آئی ہے۔ کسی کو بھی شک نہیں کہ وزیراعظم اور ان کی پارٹی برسر اقتدار نہیں آئیں گے۔ مسئلہ 35 کے ہندسے کا رہا۔ دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی نے اتنی سیٹیں جیتیں اور دھاندلی کا شک بھی اتنی نشستوں کا رہا۔ اس سے وزیراعظم کی حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ممکن ہے ان کے حامی دو تنہائی کے بجائے سادہ اکثریت میں ہوتے۔
پرائم منسٹر نے الزامات پر توجہ نہ دی۔ ان کا کہنا رہا کہ ہر ہارنے والا دھاندلی کا الزام لگاتا ہے۔ اپوزیشن 70 کے الیکشن کے شفاف ہونے کی بات کرتی، وزیراعظم کا سرکاری معاملات طے کرنے کے تجربے میں دور دور تک کوئی ثانی نہیں۔ سابق فوجی صدر کے ساتھ آٹھ سال تک کام کرنے کا تجربہ اضافی مانا جاتا۔ ایک عشرے تک پاکستان پر حکومت کرنے والے جنرل کے ساتھ وزیراعظم کے تعلق کی گہرائی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سرپرستی کی بدولت ان کی شخصیت بین الاقوامی مقام حاصل کر گئی۔
دھاندلی کا الزام لگانے والوں کی مقبولیت سے کسی کو انکار نہ تھا لیکن کسی کی مقبولیت پرائم منسٹر اور ان کی پارٹی کی سی نہیں بالکل نہیں سب سے بڑے صوبے میں وہ اس سے قبل بھی تن تنہا مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرچکے تھے۔ ان کے خاندان کے اہم فرد کو وزیراعظم کا آبائی صوبہ چلانے کا اعزاز حاصل رہا۔ وزیراعظم کی ذہین صاحبزادی کے وہ کئی مرتبہ بطور والد آئیڈیل قرار پاچکے تھے۔ وزیراعظم کے دونوں بیٹے بیرون ملک میں مقیم رہے۔ ایک طرف دو تہائی اکثریت تو دوسری طرف احتجاج، ایک طرف وزیراعظم کی پارٹی اسمبلی میں تو دوسری جانب دوسرے نمبر پر ووٹ لینے والے اسمبلیوں سے باہر، وہ سڑکوں پر رہے اور الزام کو اہمیت نہ دینے پر سڑکوں پر پھر آنے کی دھمکی حکومتی وزرا کے کانوں میں آتی دیکھی گئی۔
اپوزیشن کا الزام وزیراعظم کے اپنے حلقے پر بھی رہا۔ یہ آج بھی طے ہے کہ کوئی انھیں ان کی آبائی نشست سے نہیں ہراسکتا تھا۔ پھر بھی ایک الزام بار بار دہرایا جاتا۔ الزام لگانے والوں کی 36 اور وزیراعظم کی 155 سیٹوں میں بڑا فرق رہا۔ انتخابی جلسوں اور تجزیوں میں اتنا فرق نظر نہیں آرہا تھا۔ پریس کانفرنس میں جعلی ووٹنگ، انتظامیہ کی ملی بھگت اور پولیس کے تعاون کے ثبوت پیش کیے جاتے، جعلی بیلٹ پیپرز کی بات کی جاتی اور ان پر دستخط اور مہر کے تذکرے ہوتے، بعض پولنگ بوتھوں کے گوشوارے ظاہر کرتے کہ حکمران پارٹی کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ہے۔
الیکشن میں ہرائے جانے کا الزام لگانے والے میدان میں نکل آئے۔ جلسے، جلوس اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جب احتجاج پچاس دن سے آگے بڑھا تو سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک پریشان ہوئے۔ جمہوری ممالک کے دباؤ سے حکومت کے رویے میں تبدیلی آئی۔ اربوں ڈالر کا ملک کو نقصان ہوچکا تھا۔ ملک میں تین ماہ سے غیر یقینی کی فضا طاری تھی۔ اب جلسے جلوسوں کو نوے دنوں سے زیادہ وقت گزرچکا تھا۔ یوں ایک مرتبہ احتجاج کرنے والوں کی آرمی چیف سے گفتگو ہوئی۔
بات چیت کا باضابطہ آغاز ہوا۔ کتنی نشستوں پر دھاندلی ہوئی ہے؟ دس بیس یا چالیس پچاس دھاندلی کو ماننا حکمرانوں کے لیے کڑوی گولی رہی۔ مذاکرات کی تیسری نشست بھی تین گھنٹے جاری رہی۔ پانچویں نشست دو گھنٹے جاری رہی۔ الزام لگایا گیا کہ حکومت کا رویہ غیر مصالحانہ ہے اب احتجاج کا مکمل خاتمہ ہوگیا اور مذاکرات جاری تھے۔ شکایت کنندہ کہتے کہ مذاکرات کو بلا وجہ طول دیا جا رہا ہے۔ حکومت کہتی کہ ہم تو تیار ہیں لیکن اپوزیشن نت نئے مطالبات لا رہی ہے۔ دو آدمیوں کی ذیلی کمیٹی بنی۔ چھٹی نشست دو گھنٹے جاری رہی۔
مذاکرات طویل ہوتے گئے تو احتجاج کرنے والوں نے ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کی دھمکی دی۔ کمیٹی کے ایک اجلاس میں حکومتی رکن کا رویہ بدلا ہوا تھا۔ انھوں نے اپوزیشن کی بات مان لی لیکن کہا کہ وہ وزیراعظم کے مشورے کے بغیر کوئی جواب نہیں دے سکتے۔حکومتی نائبین کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات سامنے آئے۔ یوں ذیلی کمیٹی کے مذاکرات ٹوٹ گئے۔ وزیراعظم نے پھر بات چیت کی پیشکش کی۔ دسواں اور گیارہواں دور ہوا۔ دونوں کا ایک نیا ڈرافٹ تیار کیا گیا۔
حکومت اور اپوزیشن کی باتوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ تجزیہ نگار و کالم نگار جلد از جلد دستخط کرکے مارشل لا سے بچنے کی وارننگ دیتے دکھائی دیے بارہویں نشست جمعہ کی رات آٹھ سے اگلے دن ہفتے کی صبح تک جاری رہی۔ حکومتی ٹیم مطالبات کو آئین سے ہٹ کر قرار دیتی رہی۔ حکومت کے کچھ وزراء نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ تحریک دم توڑ گئی ہے۔ نرم رویہ اختیار کرنے سے وہ مزید مضبوط ہوںگے۔
کالم آدھے سے زیادہ آپ پڑھ چکے ہیں ایک سوال ابھی تک آپ کے ذہن میں مچل رہا ہے کہ یہ تاریخ بیان کی جا رہی ہے یا حالات حاضرہ پر گفتگو ہو رہی ہے؟ یقین کریں کہ یہ واقعات 1977 کے ہیں جب قومی اتحاد کی تحریک کے بعد ان کے ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات ہو رہے تھے۔ اس وقت کی اپوزیشن کے مطالبات بہت سخت تھے۔ تحریک یقیناً توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور مسلسل ہڑتالیں اپنے اندر لیے ہوئے تھی۔ اسمبلیاں توڑنے، نئے انتخابات کروانے کے مطالبات تھے جو کچھ حد تک ہی تسلیم کرلیے گئے تھے اور وہ بھی زبانی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ بھی طے نہ ہوا تھا۔ نہ اسیروں کی رہائی اور نہ کراچی و لاہور سے مارشل لا اٹھانا۔ نہ الیکشن کی تاریخ اور نہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری، نہ نئی حکومت کے خدوخال اور نہ بھٹو حکومت کے استعفے کے بعد کے معاملات سچ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو دھاندلی کے الزامات کے بعد بہت زیادہ مشکلات تھیں۔
آپ یہ طے کرچکے ہیں کہ ہم نے نصف سے زیادہ کالم میں تاریخ بیان کی ہے صرف اور صرف حالات حاضرہ کو سمجھنے کے لیے یہ بات بھی واضح ہے کہ آج نواز حکومت کو دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے ان مشکلات کا سامنا نہیں جو ماضی میں بھٹو حکومت کو تھا۔ کیا نتائج کے حوالے سے اکیسویں صدی کے وزیراعظم کو بھی آسانی حاصل ہے؟ کیا بیسویں صدی کے بھٹو کی تاریخ نہیں دہرائی جاسکتی؟ ہم تاریخ سے کچھ سبق حاصل کررہے ہیں؟ یہ آخری سوال ہی سب سے اہم سوال ہے جس کا جواب ہمیں صحیح راستہ دکھاسکتا ہے۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ اس مایوس کن حقیقت کے باوجود ہم امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ سبق سیکھنے کے لیے لازمی ہے کہ یہ جانا جائے کہ بھٹو دور میں انتخابی دھاندلی کے الزامات اور مذاکرات میں ناکامی کے بعد کیا ہوا؟ نئی نسل تاریخ کی اس المناکی کو جانے بغیر فیصلہ نہیں کرسکتی کہ حکومت پر عمران خان کی دھاندلی کے الزام کی تلوار کیا کچھ رنگ دکھا سکتی ہے۔ کیا تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے؟
آدھے سے زیادہ کالم پڑھنے تک محسوس ہوتا تھا کہ ہم تاریخ نہیں بلکہ حالات حاضرہ پر گفتگو کررہے ہیں اتنی ملتی جلتی باتوں نے کہاں سے الگ راستہ اختیار کیا۔ 77 میں بھٹو حکومت کا خاتمہ کرکے مارشل لا لگادیاگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ چلاکر پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ یہ تھی وہ المناکی جس کی ابتدا انتخابی دھاندلی سے ہوئی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر پارٹی کا سربراہ اپنے امیدواروں سے کہتا کہ دھاندلی کا سوچیں بھی نہیں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب ہماری یہ باتیں تاریخ کے دھارے کے مخالف سمت میں چل رہی ہیں۔ ہم چاہیںگے کہ ہمارے حکمران تاریخ سے سبق حاصل کریں۔ ہم دعا بھی کررہے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو نہ دہرائے۔ آیا ہماری اس بات میں ہے کسی عقل مند کو اشارہ؟
وزیراعظم کو ایک مقبول شخصیت کے علاوہ جہاندیدہ بھی کہہ سکتے ہیں، ان کے حکومت میں رہنے کے طویل تجربے سے کون انکار کرسکتا ہے۔ ان کی پارٹی پاکستان کے سب سے زیادہ آزمودہ کار لوگوں کی پارٹی کہی جاتی ہے۔ مسئلہ وہ الزام رہا کہ انھوں نے انتخاب دھاندلی سے جیتا ہے، دوسرے نمبر پر ووٹ لینے والوں کا یہ دعویٰ کہ حکومت بے ایمانی کرکے پاور میں آئی ہے۔ کسی کو بھی شک نہیں کہ وزیراعظم اور ان کی پارٹی برسر اقتدار نہیں آئیں گے۔ مسئلہ 35 کے ہندسے کا رہا۔ دوسرے نمبر پر آنے والی پارٹی نے اتنی سیٹیں جیتیں اور دھاندلی کا شک بھی اتنی نشستوں کا رہا۔ اس سے وزیراعظم کی حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ممکن ہے ان کے حامی دو تنہائی کے بجائے سادہ اکثریت میں ہوتے۔
پرائم منسٹر نے الزامات پر توجہ نہ دی۔ ان کا کہنا رہا کہ ہر ہارنے والا دھاندلی کا الزام لگاتا ہے۔ اپوزیشن 70 کے الیکشن کے شفاف ہونے کی بات کرتی، وزیراعظم کا سرکاری معاملات طے کرنے کے تجربے میں دور دور تک کوئی ثانی نہیں۔ سابق فوجی صدر کے ساتھ آٹھ سال تک کام کرنے کا تجربہ اضافی مانا جاتا۔ ایک عشرے تک پاکستان پر حکومت کرنے والے جنرل کے ساتھ وزیراعظم کے تعلق کی گہرائی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سرپرستی کی بدولت ان کی شخصیت بین الاقوامی مقام حاصل کر گئی۔
دھاندلی کا الزام لگانے والوں کی مقبولیت سے کسی کو انکار نہ تھا لیکن کسی کی مقبولیت پرائم منسٹر اور ان کی پارٹی کی سی نہیں بالکل نہیں سب سے بڑے صوبے میں وہ اس سے قبل بھی تن تنہا مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرچکے تھے۔ ان کے خاندان کے اہم فرد کو وزیراعظم کا آبائی صوبہ چلانے کا اعزاز حاصل رہا۔ وزیراعظم کی ذہین صاحبزادی کے وہ کئی مرتبہ بطور والد آئیڈیل قرار پاچکے تھے۔ وزیراعظم کے دونوں بیٹے بیرون ملک میں مقیم رہے۔ ایک طرف دو تہائی اکثریت تو دوسری طرف احتجاج، ایک طرف وزیراعظم کی پارٹی اسمبلی میں تو دوسری جانب دوسرے نمبر پر ووٹ لینے والے اسمبلیوں سے باہر، وہ سڑکوں پر رہے اور الزام کو اہمیت نہ دینے پر سڑکوں پر پھر آنے کی دھمکی حکومتی وزرا کے کانوں میں آتی دیکھی گئی۔
اپوزیشن کا الزام وزیراعظم کے اپنے حلقے پر بھی رہا۔ یہ آج بھی طے ہے کہ کوئی انھیں ان کی آبائی نشست سے نہیں ہراسکتا تھا۔ پھر بھی ایک الزام بار بار دہرایا جاتا۔ الزام لگانے والوں کی 36 اور وزیراعظم کی 155 سیٹوں میں بڑا فرق رہا۔ انتخابی جلسوں اور تجزیوں میں اتنا فرق نظر نہیں آرہا تھا۔ پریس کانفرنس میں جعلی ووٹنگ، انتظامیہ کی ملی بھگت اور پولیس کے تعاون کے ثبوت پیش کیے جاتے، جعلی بیلٹ پیپرز کی بات کی جاتی اور ان پر دستخط اور مہر کے تذکرے ہوتے، بعض پولنگ بوتھوں کے گوشوارے ظاہر کرتے کہ حکمران پارٹی کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ہے۔
الیکشن میں ہرائے جانے کا الزام لگانے والے میدان میں نکل آئے۔ جلسے، جلوس اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جب احتجاج پچاس دن سے آگے بڑھا تو سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک پریشان ہوئے۔ جمہوری ممالک کے دباؤ سے حکومت کے رویے میں تبدیلی آئی۔ اربوں ڈالر کا ملک کو نقصان ہوچکا تھا۔ ملک میں تین ماہ سے غیر یقینی کی فضا طاری تھی۔ اب جلسے جلوسوں کو نوے دنوں سے زیادہ وقت گزرچکا تھا۔ یوں ایک مرتبہ احتجاج کرنے والوں کی آرمی چیف سے گفتگو ہوئی۔
بات چیت کا باضابطہ آغاز ہوا۔ کتنی نشستوں پر دھاندلی ہوئی ہے؟ دس بیس یا چالیس پچاس دھاندلی کو ماننا حکمرانوں کے لیے کڑوی گولی رہی۔ مذاکرات کی تیسری نشست بھی تین گھنٹے جاری رہی۔ پانچویں نشست دو گھنٹے جاری رہی۔ الزام لگایا گیا کہ حکومت کا رویہ غیر مصالحانہ ہے اب احتجاج کا مکمل خاتمہ ہوگیا اور مذاکرات جاری تھے۔ شکایت کنندہ کہتے کہ مذاکرات کو بلا وجہ طول دیا جا رہا ہے۔ حکومت کہتی کہ ہم تو تیار ہیں لیکن اپوزیشن نت نئے مطالبات لا رہی ہے۔ دو آدمیوں کی ذیلی کمیٹی بنی۔ چھٹی نشست دو گھنٹے جاری رہی۔
مذاکرات طویل ہوتے گئے تو احتجاج کرنے والوں نے ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کی دھمکی دی۔ کمیٹی کے ایک اجلاس میں حکومتی رکن کا رویہ بدلا ہوا تھا۔ انھوں نے اپوزیشن کی بات مان لی لیکن کہا کہ وہ وزیراعظم کے مشورے کے بغیر کوئی جواب نہیں دے سکتے۔حکومتی نائبین کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات سامنے آئے۔ یوں ذیلی کمیٹی کے مذاکرات ٹوٹ گئے۔ وزیراعظم نے پھر بات چیت کی پیشکش کی۔ دسواں اور گیارہواں دور ہوا۔ دونوں کا ایک نیا ڈرافٹ تیار کیا گیا۔
حکومت اور اپوزیشن کی باتوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ تجزیہ نگار و کالم نگار جلد از جلد دستخط کرکے مارشل لا سے بچنے کی وارننگ دیتے دکھائی دیے بارہویں نشست جمعہ کی رات آٹھ سے اگلے دن ہفتے کی صبح تک جاری رہی۔ حکومتی ٹیم مطالبات کو آئین سے ہٹ کر قرار دیتی رہی۔ حکومت کے کچھ وزراء نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ تحریک دم توڑ گئی ہے۔ نرم رویہ اختیار کرنے سے وہ مزید مضبوط ہوںگے۔
کالم آدھے سے زیادہ آپ پڑھ چکے ہیں ایک سوال ابھی تک آپ کے ذہن میں مچل رہا ہے کہ یہ تاریخ بیان کی جا رہی ہے یا حالات حاضرہ پر گفتگو ہو رہی ہے؟ یقین کریں کہ یہ واقعات 1977 کے ہیں جب قومی اتحاد کی تحریک کے بعد ان کے ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات ہو رہے تھے۔ اس وقت کی اپوزیشن کے مطالبات بہت سخت تھے۔ تحریک یقیناً توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور مسلسل ہڑتالیں اپنے اندر لیے ہوئے تھی۔ اسمبلیاں توڑنے، نئے انتخابات کروانے کے مطالبات تھے جو کچھ حد تک ہی تسلیم کرلیے گئے تھے اور وہ بھی زبانی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ بھی طے نہ ہوا تھا۔ نہ اسیروں کی رہائی اور نہ کراچی و لاہور سے مارشل لا اٹھانا۔ نہ الیکشن کی تاریخ اور نہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری، نہ نئی حکومت کے خدوخال اور نہ بھٹو حکومت کے استعفے کے بعد کے معاملات سچ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو دھاندلی کے الزامات کے بعد بہت زیادہ مشکلات تھیں۔
آپ یہ طے کرچکے ہیں کہ ہم نے نصف سے زیادہ کالم میں تاریخ بیان کی ہے صرف اور صرف حالات حاضرہ کو سمجھنے کے لیے یہ بات بھی واضح ہے کہ آج نواز حکومت کو دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے ان مشکلات کا سامنا نہیں جو ماضی میں بھٹو حکومت کو تھا۔ کیا نتائج کے حوالے سے اکیسویں صدی کے وزیراعظم کو بھی آسانی حاصل ہے؟ کیا بیسویں صدی کے بھٹو کی تاریخ نہیں دہرائی جاسکتی؟ ہم تاریخ سے کچھ سبق حاصل کررہے ہیں؟ یہ آخری سوال ہی سب سے اہم سوال ہے جس کا جواب ہمیں صحیح راستہ دکھاسکتا ہے۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ اس مایوس کن حقیقت کے باوجود ہم امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ سبق سیکھنے کے لیے لازمی ہے کہ یہ جانا جائے کہ بھٹو دور میں انتخابی دھاندلی کے الزامات اور مذاکرات میں ناکامی کے بعد کیا ہوا؟ نئی نسل تاریخ کی اس المناکی کو جانے بغیر فیصلہ نہیں کرسکتی کہ حکومت پر عمران خان کی دھاندلی کے الزام کی تلوار کیا کچھ رنگ دکھا سکتی ہے۔ کیا تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے؟
آدھے سے زیادہ کالم پڑھنے تک محسوس ہوتا تھا کہ ہم تاریخ نہیں بلکہ حالات حاضرہ پر گفتگو کررہے ہیں اتنی ملتی جلتی باتوں نے کہاں سے الگ راستہ اختیار کیا۔ 77 میں بھٹو حکومت کا خاتمہ کرکے مارشل لا لگادیاگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ چلاکر پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ یہ تھی وہ المناکی جس کی ابتدا انتخابی دھاندلی سے ہوئی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر پارٹی کا سربراہ اپنے امیدواروں سے کہتا کہ دھاندلی کا سوچیں بھی نہیں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب ہماری یہ باتیں تاریخ کے دھارے کے مخالف سمت میں چل رہی ہیں۔ ہم چاہیںگے کہ ہمارے حکمران تاریخ سے سبق حاصل کریں۔ ہم دعا بھی کررہے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو نہ دہرائے۔ آیا ہماری اس بات میں ہے کسی عقل مند کو اشارہ؟