کالم کالام اور مٹلٹان

کالام بھی مقام تو بہت اچھا ہے لیکن اپنی بے پناہ غربت کے لیے بھی...

barq@email.com

کالام سے تو ایک دنیا واقف ہے۔ سوات کے اس پُرفضاء مقام کے بارے میں بڑے شہروں کے فارغ البال لوگوں کی جوان اولادیں سب سے زیادہ جانتی ہیں بلکہ یوں کہئے کہ

ہو گا کوئی ایسا بھی جو غالب کو نہ جانے

شاعر تو وہ اچھا ہے پر بدنام بہت ہے

کالام بھی مقام تو بہت اچھا ہے لیکن اپنی بے پناہ غربت کے لیے بھی چار دانگ عالم میں مشہور ہے۔ جن دنوں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور غیر ممالک کے سیاح یہاں آ کر اپنی دولت مندی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہاں کے روح پرور صحت افزاء اور فرحت بخش موسم سے لطف اٹھاتے ہیں، انھی دنوں یہاں کے اکثر باشندے انھی سیاحوں کے شہروں میں مزدوری کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنا جنت نظیر وطن چھوڑ کر گرم میدانی تنوروں میں پسینہ بہانے والے یہ لوگ جانتے ہی نہیں کہ ان کا وطن کیا ہے کیونکہ پیٹ کا دوزخ جنت کو بھی جہنم بنا دیتا ہے۔

ہے اب اس معمورہ میں قحط غم الفت اسد

ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھائیں گے کیا

خیر یہ تو نسل آدم کا مستقل رونا اور دائمی روگ ہے کہ جن مقامات کو سیاح جنت سمجھ کر سیر کرنے جاتے ہیں وہاں کے باشندے وہاں سے بھاگ کر دوزخ میں عذاب جھیلتے ہیں۔ ایک وقت میں ہم نے سوات کے مقام ''مرغزار'' پر ایک نظم لکھی تھی جو ایک حقیقی واقعہ پر مبنی تھی۔ ایک غیرملکی سیاح خاتون مقامی عورتوں کی تصاویر بنا رہی تھی جو غذائی اجناس سر پر رکھے پہاڑ پر چڑھ رہی تھیں، پھٹے پرانے کپڑوں اور ننگے پاؤں پہاڑ چڑھنے والی یہ عورتیں ان سیاح بیگمات کے لیے عجوبہ تھیں کیونکہ دونوں پہاڑی خواتین اجناس کے ساتھ ساتھ ایک میلا کچیلا بچہ بھی اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے تھیں اور حاملہ بھی تھیں۔


سیاح خاتون کا لباس بھی نامکمل تھا اور سواتی خواتین کا بھی لیکن ایک کی وجہ فیشن اور دوسری کی غربت تھی ۔۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے عجوبہ تھیں لیکن وجوہات مختلف تھیں بہرحال یہ تو انسانیت کا پرانا خاندانی روگ ہے کہ کسی کو کیا میسر نہیں اور کسی کو کیا ۔۔۔ جن کو کھانا میسر ہے، ان کو پہاڑی مناظر چاہیے ہوتے ہیں جن کو مناظر نصیب ہوتے ہیں ان کو نان شبینہ میسر نہیں ہوتا جن کے دانت ہوتے ہیں وہ ''چنے'' مانگتے ہیں جن کے پاس چنے ہوتے ہیں ان کے دانت نہیں ہوتے، کوئی سردی سے کانپ رہا ہوتا ہے تو کسی کو گرمی جلا رہی ہوتی ہے۔ کوئی زیادہ پیٹ بھرنے سے دکھ میں ہے تو کسی کو خالی پیٹ کاٹے ڈال رہا ہے۔ کوئی کہتا ہے کیا کھاؤں، کوئی کہتا ہے کیا کیا کھاؤں ۔۔۔ کسی کو ''کھانے'' کے لیے زندگی میسر نہیں ہے اور کسی کو زندگی کے لیے کھانا میسر نہیں ہے۔

پیاس، محرومی، نارسائی، ترسنا انسان کا سب سے بڑا روگ اور دائمی دکھ ہے۔ مٹلٹان بھی ایک ایسی جگہ ہے جو مشہور و معروف کالام سے چند کلومیٹر اوپر ایک نہایت ہی خوب صورت جگہ ہے، کالام تو ایک گزرگاہ ہے لیکن مٹلٹان ایک خوب صورت وادی ہے جہاں کوئی دو چار روز پہلے وزیر اعلیٰ کے پی کے نے ایک بجلی گھر کا افتتاح کیا، اب یہ بجلی گھر کب بنے گا، کب نہیں بنے گا یا بنے گا بھی کہ نہیں کیونکہ پاکستان دو مونہے سانپوں کا ملک ہے۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا اور ایک اچھی بھلی چیز اچانک غائب ہو کر کہیں اور چلی جاتی ہے لیکن اتنا تو ہوا کہ کالام مٹلٹان کے لوگ کچھ تھوڑی سی تسکین تو پا گئے، پشتو میں کہاوت ہے کہ عید سے زیادہ اس کے آنے کی امید دل خوش کن ہوتی ہے یہاں کے لوگ اب کم از کم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ

امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی

وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

مٹلٹان جتنا خود عجیب اور انتہائی ''غریب'' ہے۔ اتنا ہی ہمارے ساتھ اس کے تعلقات بھی عجیب و غریب ہیں۔ پہلی مرتبہ جب یہاں کے ریسٹ ہاؤس میں ہماری پہلی رات تھی تب رات کے آٹھ بجے ریسٹ ہاؤس کے چوکیدار نے آکر خبر دی کہ سنا ہے ضیاء الحق کا طیارہ کریش ہو گیا، کچھ فاصلے پر ایک اسکول کے اساتذہ رہتے تھے جو نیچے کے علاقوں مردان چارسدہ کے تھے۔

ان کے پاس ریڈیو تھا وہاں جا کر تصدیق ہوئی کہ واقعی ضیاء الحق اب دنیا میں نہیں رہے۔ اگرچہ ضیاء الحق ہم کو کبھی پسند نہیں رہے بلکہ ناپسندیدہ شخصیت تھے لیکن موت کسی کی بھی ہو ۔۔۔ خوشی کی خبر نہیں ہوتی، اگلی صبح ہمارا کچھ سرکاری افسروں کے ساتھ جیپ میں ''مہوڈنڈ'' جانے کا پروگرام بنا لیکن اس حادثے کی وجہ سے وہ پروگرام ملتوی ہو گیا اور ہم واپس آگئے، پچھلے سے پچھلے سال اسی ریسٹ ہاؤس میں رات کو فوجی صوبیدار نے خبر سنائی کہ میاں افتخار حسین کا بیٹا قتل ہو گیا، میاں صاحب کے ساتھ ہمارے تعلقات کچھ بھی رہے ہوں لیکن اس کا بیٹا میاں راشد حسین اپنے بیٹوں جیسا تھا اور تقریباً ایک ہی گاؤں کا معاملہ تھا، اس لیے چل پڑے، واپس آئے دو دن گزرے تو وہ سیلاب عظیم برپا ہوا جس نے پورے صوبے کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا، اب تین سال بعد گئے تو کالام کو پہچان ہی نہ سکے کیونکہ نہ وہ کالام باقی رہا تھا اور نہ بحرین سے کالام تک کی سڑک موجود تھی۔ سب کچھ بالکل ہی نیا اور بدلا ہوا تھا، بڑے بڑے ہوٹلوں کی عمارتیں جیسے کسی نے جادو کے زور سے غائب کر دی ہوں اور اب وہاں دریا بہہ رہا تھا،

آنکھوں میں عبرت کے مناظر سمیٹتے ہوئے ہم اپنے خاص مقام مٹلٹان پہنچ گئے اونچائی پر ہونے کی وجہ سے وہاں تو سیلاب نے تباہ کاری نہیں مچائی تھی لیکن یہاں کی قدیم ترین اور جدی پشتی غربت تو موجود تھی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ خونخوار اور جاں لیوا ہو گئی تھی۔ مٹلٹان کو ہم نے عجیب و غریب کہا ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کیونکہ مٹلٹان جتنا زیادہ خوب صورت ہے اتنا ہی بلکہ اس سے کچھ زیادہ بدصورت بھی ہے، کم از کم یہاں رہنے والوں کی زندگی تو دنیا کی کریہہ ترین اور بدصورت ترین زندگی ہے، باقی سب کچھ تو اپنی جگہ ۔۔۔۔ زندگی کی سب سے اولین ضرورت اور سہولت بھی یہاں میسر نہیں ہے۔ پندرہ بیس ہزار کی آبادی کے لیے اسپتال تو کیا کوئی ڈسپنسری بھی موجود نہیں ہے چنانچہ مریض کو جب یہاں سے کالام وغیرہ لے جایا جاتا ہے خصوصاً زچگی کے کیس تو راستے ہی میں تمام ہو جاتے ہیں کیونکہ دس پندرہ کلومیٹر کا یہ فاصلہ ایک ہفت خواں سر کرنے سے کم نہیں ہے۔

انتہائی اونچے نیچے ناہموار راستے پر پرانی جیپوں کی سواری میسر ہے جو بجائے خود جان لینے کے لیے کافی ہوتی ہے، یوں تو اس علاقے کا ایم این اے بھی ہے۔ ایم پی اے بھی ہے اور پچھلے دنوں وزیر اعلیٰ کے ساتھ صوبے کی پوری جنٹری یہاں آئی تھی لیکن اس طرف کسی کا دھیان کبھی نہیں گیا کہ کم از کم اس پندرہ بیس ہزار کی آبادی کے لیے بنیادی صحت کی کوئی سہولت تو فراہم کریں، یہ حساب تو ہم لگا نہیں پائے کہ سال میں کتنے مریض ان راستوں میں تمام ہو جاتے ہیں لیکن یہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان مریضوں میں زندہ بچ جانے والے خوش نصیب بہت کم ہوتے ہیں، زیادہ تر اسپتال کے بجائے ملک عدم پہنچ جاتے ہیں۔
Load Next Story