ن لیگ نے سینیٹ کی 21 نشستیں جیتنے کا لائحہ عمل بنالیا
پنجاب سے11نشستوں لینے کیلیے شہبازشریف فوکل پرسن، بلوچستان میں مشکلات درپیش
حکمراں مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نے سینیٹ کے آئندہ انتخابات کے لیے حکمت عملی نہایت احتیاط سے ترتیب دی ہے اور امکان ہے کہ وہ ملک بھرسے 21نشستوں کے حصول میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے ہر صوبے میں مذاکرات کرنے اوراپنے امیدواروں کی فتح یقینی بنانے کے لیے نہ صرف فوکل پرسن مقرر کیا ہے بلکہ وفاقی وزرا کوبھی ان سے اشتراک رکھنے اور ممکنہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کی ہدایت کی ہے۔ پنجاب سے جہاں ن لیگ کو 371کے ایوان میں 312 کی اکثریت حاصل ہے، 11نشستوں کے حصول کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو فوکل پرسن مقرر کیا گیاہے جبکہ رانا ثنااللہ کی ذمے داری لگائی گئی ہے کہ کوئی ایم پی اے ادھرادھر نہ ہونے پائے۔ پارٹی 11میں سے 3 امیدواروں کی طرف سے خدشات کا شکارہے۔
312ارکان میں سے 120کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے جسے ن لیگ نے ٹکٹوں کی تقسیم میں نظرانداز کیا۔ چنانچہ ان میں سے اکثریت پیپلزپارٹی کے امیدوار ندیم افضل چن کو ووٹ دے سکتی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ن لیگ نے لائحہ عمل ترتیب دیاہے۔ پہلے مرحلے پرپی پی کو اپنا امیدوار دستبردار کرانے کی درخواست کی گئی جسے سابق صدر زرداری نے نہایت نرمی سے رد کردیا۔
ادھر رانا ثنااللہ صوبائی ارکان اسمبلی کو یہ باور کرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے امیدوار سلیم ضیا، نہال ہاشمی اور مشاہد اللہ خان کے انتخاب سے پارٹی کو فائدہ ہوگا اور مستقبل میں کراچی کی سیاست میں کام آئے گا۔ اس خطرے کے پیش نظر کہ کراچی سے متعلقہ امیدواروں کی اہلیت چیلنج کی جاسکتی ہے، ن لیگ نے کورنگ امیدواروں کا بھی انتظام کررکھا ہے تاکہ 11نشستوں کا ہدف پورا ہوسکے۔ دوسری جانب سندھ اسمبلی میں ن لیگ کے 8 ارکان ہیں۔ امکان ظاہرکیا جاتا ہے کہ اتحادی جماعتوں کی مددسے ایک امیدوار ظفرعلی شاہ منتخب ہوجائیں گے۔ اس حوالے سے نواز شریف پیرپگارا سے خود بات کریں گے۔ بلوچستان میں ن لیگ 6امیدواروں کی کامیابی کے حوالے سے گومگو کا شکارہے کیونکہ اطلاعات ہیں کہ 22ن لیگی ارکان میں سے اکثریت نے اتحادی جماعتوں پشتون خواملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور دیگرکو یقین دہانی کرادی ہے کہ وہ ن لیگ کے بجائے ان کے امیدوار کو خفیہ طورپر ووٹ دیں گے۔
ن لیگ کی اعلیٰ سطح کی قیادت نے اس سلسلے میں محمودخان اچکزئی، حاصل بزنجواور ڈاکٹر مالک سے رابطہ کیاہے تاہم اتحادی ابھی ہچکچاہٹ کا شکارہیں۔ ہفتے کو وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ان کی پارٹی اور پشتون خواملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی کے درمیان معاہدہ ہوا ہے کہ ڈھائی برس بعد بلوچستان حکومت بقیہ میعادکے لیے ن لیگ کے حوالے کردی جائے گی۔ رہی بات خیبرپختونخواکی تو 17ارکان اسمبلی کی حمایت سے ن لیگ ایک امیدوار لیفٹیننٹ جنرل(ر) صلاح الدین ترمذی کومنتخب کرالے گی۔ کے پی کے میں فوکل پرسن گورنرمہتاب خان عباسی ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے ہر صوبے میں مذاکرات کرنے اوراپنے امیدواروں کی فتح یقینی بنانے کے لیے نہ صرف فوکل پرسن مقرر کیا ہے بلکہ وفاقی وزرا کوبھی ان سے اشتراک رکھنے اور ممکنہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کی ہدایت کی ہے۔ پنجاب سے جہاں ن لیگ کو 371کے ایوان میں 312 کی اکثریت حاصل ہے، 11نشستوں کے حصول کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کو فوکل پرسن مقرر کیا گیاہے جبکہ رانا ثنااللہ کی ذمے داری لگائی گئی ہے کہ کوئی ایم پی اے ادھرادھر نہ ہونے پائے۔ پارٹی 11میں سے 3 امیدواروں کی طرف سے خدشات کا شکارہے۔
312ارکان میں سے 120کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے جسے ن لیگ نے ٹکٹوں کی تقسیم میں نظرانداز کیا۔ چنانچہ ان میں سے اکثریت پیپلزپارٹی کے امیدوار ندیم افضل چن کو ووٹ دے سکتی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ن لیگ نے لائحہ عمل ترتیب دیاہے۔ پہلے مرحلے پرپی پی کو اپنا امیدوار دستبردار کرانے کی درخواست کی گئی جسے سابق صدر زرداری نے نہایت نرمی سے رد کردیا۔
ادھر رانا ثنااللہ صوبائی ارکان اسمبلی کو یہ باور کرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے امیدوار سلیم ضیا، نہال ہاشمی اور مشاہد اللہ خان کے انتخاب سے پارٹی کو فائدہ ہوگا اور مستقبل میں کراچی کی سیاست میں کام آئے گا۔ اس خطرے کے پیش نظر کہ کراچی سے متعلقہ امیدواروں کی اہلیت چیلنج کی جاسکتی ہے، ن لیگ نے کورنگ امیدواروں کا بھی انتظام کررکھا ہے تاکہ 11نشستوں کا ہدف پورا ہوسکے۔ دوسری جانب سندھ اسمبلی میں ن لیگ کے 8 ارکان ہیں۔ امکان ظاہرکیا جاتا ہے کہ اتحادی جماعتوں کی مددسے ایک امیدوار ظفرعلی شاہ منتخب ہوجائیں گے۔ اس حوالے سے نواز شریف پیرپگارا سے خود بات کریں گے۔ بلوچستان میں ن لیگ 6امیدواروں کی کامیابی کے حوالے سے گومگو کا شکارہے کیونکہ اطلاعات ہیں کہ 22ن لیگی ارکان میں سے اکثریت نے اتحادی جماعتوں پشتون خواملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور دیگرکو یقین دہانی کرادی ہے کہ وہ ن لیگ کے بجائے ان کے امیدوار کو خفیہ طورپر ووٹ دیں گے۔
ن لیگ کی اعلیٰ سطح کی قیادت نے اس سلسلے میں محمودخان اچکزئی، حاصل بزنجواور ڈاکٹر مالک سے رابطہ کیاہے تاہم اتحادی ابھی ہچکچاہٹ کا شکارہیں۔ ہفتے کو وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ان کی پارٹی اور پشتون خواملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی کے درمیان معاہدہ ہوا ہے کہ ڈھائی برس بعد بلوچستان حکومت بقیہ میعادکے لیے ن لیگ کے حوالے کردی جائے گی۔ رہی بات خیبرپختونخواکی تو 17ارکان اسمبلی کی حمایت سے ن لیگ ایک امیدوار لیفٹیننٹ جنرل(ر) صلاح الدین ترمذی کومنتخب کرالے گی۔ کے پی کے میں فوکل پرسن گورنرمہتاب خان عباسی ہیں۔