مکھی کا آبپاشی نظام
ہر سال سردیوں کے موسم میں نہروں، کھالوں کی کھدائی کی جاتی تھی تاکہ باقی سارا سال پانی اسی مقدار میں موثر ہوسکے
KARACHI:
یہ انگریز بھی کمال کے لوگ تھے،ان سے سو اختلافات ہی سہی لیکن جوکچھ انھوں نے ہمیں دیا،ہم اس کوفراموش نہیں کرسکتے،ویسے بھی تاریخ سے انصاف کسی چیزکا حقیقی تجزیہ اس کے مثبت اورمنفی پہلوؤں کو زیر نظر رکھ کرکیاجاتا ہے۔مانا کہ انھوں نے ہمیں غلام بنایا،لیکن کیا ہمارے میرجعفر اورمیرصادق جیسے لوگ اس میں ملوث نہ تھے،جوآج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
سو انھوں نے ہمیں ملکی انفرا اسٹرکچر بنا کردے دیا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ68 سالوں میں ہم نے اورکیا بھی کیا ہے سوائے جھوٹے وعدوں کے۔ البتہ انگریزوں کا بنایا ہوا انفرا اسٹرکچر اب آخری سانسیں لے رہا ہے اور ہم کہیں اور لگے ہوئے ہیں۔''مکھی '' کا خطہ، جو اپنی مٹی کی زرخیری کی وجہ سے بے مثال تھا۔جھیلوں کے بچھائے جال سے لے کرگھنی جھاڑیوں والے جنگل اور پھر کئی اقسام کے جانور، رنگ برنگے پودوں سے مالا مال تھا۔
اس وقت کے انگریز حکمرانوں کی عقابی نظر اس پر بھی پڑی، توسندھ کا سب سے بڑا آبپاشی نیٹ ورک بھی اسی علاقے میں بنایا۔اس سے پہلے یہاں صرف جھیلیں تھیں، نہروں کا نام نہ تھا،قریبی آباد گاؤں میں کنویں ہوا کرتے تھے جن کے نشانات آج بھی کہیں کہیں موجود ہیں۔سکھر بیراج سے نکلتا ہوا،سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی نارا کینال جس کے بہاؤ کو سیدھا کرنے کے لیے انگریزآبپاشی افسروں نے یہاں کے مقامی لوگوں سے مشورہ کیا تو انھیں جواب ملاکہ یہ ناممکن ہے کہ ناراکے بہاؤکوسیدھا کیا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ صدیوں کے قدرتی بہاؤ سے اگر کوئی چھیڑچھاڑ ہوئی تو پانی کبھی بھی،کسی وقت بھی ناراض ہو کر پورا علاقہ ڈبو سکتا ہے۔
انگریزوں نے مقامی لوگوں کی اس لوک دانش کو مان لیا۔سالوں بعد اب جب چائنیز نے ایسا کرنا چاہا توگڑبڑ ہوگئی اور پھر واپس انھیں پرانے بہاؤ پرکام کرنا پڑ رہا ہے ۔ یہی تو لوک دانش ہے جو صدیوں کے تجربات پر مشتمل ہوتی ہے اس کے الٹ ہوگا تو نتیجہ بھی الٹا آئے گا۔ اس نارا میںسے 1892 میں خیرپور اور سانگھڑ کے سنگم پر واقع جمڑاؤ کے مقام سے جمڑاؤ کینال نکلی تو سانگھڑ،نوابشاہ،مٹیاری، ٹنڈوالھیار، میرپورخاص اضلاع کی زمینوں کو آباد کرنے لگی۔جب مقامی لوگوں نے زمینیں آبادکرنے کی بجائے مال مویشیوں کو ترجیح دی تو مشرقی پنجاب سے آرائیں برادری کے لوگ یہاں زمینیں آباد کرنے کے لیے لائے گئے، جن کے چک آج بھی اس پورے علاقے میں موجود ہیں۔اسی ناراکینال سے جمڑاؤ سے 45,40 کلومیٹر جنوب میں پکسری کے مقام پر ایک اورکینال مٹھڑاؤں نکالی گئی۔
جو سانگھڑ، عمرکوٹ سے ہوتی ہوئی تھرپارکرمیں اربابوں کی زمینوں تک چلی جاتی ہے۔ اس کینال کے کنارے شیشم ، املی، بڑ، پیپل کے لمبے اورگھنے درخت آج بھی یاد آتے ہیں،جن پرچڑھ کر طالب علمی کے زمانے میں ہم اسی کینال میں چھلانگیں لگاتے تھے اور پھر تھک کر گھنی چھاؤں کے نیچے سانس لیتے تھے۔ آج وہ بھی آنکھوں سے اوجھل ہوچکے ہیں۔البتہ باکھوڑو موری کا فطری حسن آج بھی برقرار ہے۔سخت گرمیوں میں جب بجلی بھی آنکھ مچولی کرتی ہے، تو لوگ اسی طرف رخ کرتے ہیں اور درختوں کے نیچے بیٹھ کر بہتے پانی کا نظارہ کرتے ہیں، پکوڑے کھاتے ہیں اور چائے کی چسکیاں لیتے ہیں۔
مٹھڑاؤکینال کومقامی لوگ بان کہتے ہیں کیونکہ بان نامی انگریز انجینئر نے اسے ڈیزائن کیا تھا ۔ اس مٹھڑاؤ کینال کے شانہ بشانہ کھپروکینال بھی نکالی گئی،جوگھومتی پھرتی اچھڑو تھر کے بڑے شہر کھپرو سے ملتی ہے۔ ان کینالوں سے کئی سیو واٹر ڈسٹری بیوٹرز نکالی گئیں اورہر ایک ڈسٹری بیوٹری سے کئی واٹر کورسز نکالے گئے ۔یوں سندھ کا سب سے بڑا کمانڈ ایریا ان ہی کی بدولت وجود میں آیا۔ جہاں کئی آبپاشی ملازم رکھے گئے ۔انگریزوں کے دور میں ان کینالوں اور ڈسٹری بیوٹریزکے پشتوں کی بحالی کے لیے بیلدار ہمہ وقت لگے رہتے تھے۔بہار کے موسم میں درخت لگاتے تھے روز صبح اور شام کو پشتوں پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مال مویشی پشتوں کے قریب قدرتی چراگاہوں میں جاتے تو ان کے مالکوں سے پنچری (ٹیکس) لیا جاتا جسے انھی کینالوں پر خرچ کیا جاتا یوں سارا نظام برقرار رہتا ۔
لیکن بقول علی محمد پشتے رہے نہ کینال سٹم توازن میں رہا، اب تو جس کے پاس لاٹھی ہے پانی پر پہلا حق اس کا ہے ۔ ماڈیولز کی پیمائش کی ضرورت نہیں، آبپاشی داروغہ کوکچھ ہزار دو اور پانی اپنی مرضی کا لو باقی زمینداروں کی زمینں پانی کے لیے روتی رہیں اب کوئی پانی کا چھڑکاؤ نہیں کرتا نہ درخت لگاتا ہے۔ البتہ اگر کوئی گذر بسر کے لیے قریبی جنگل سے لکڑیاں لیجائے تو اس سے بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے چاہے وہ سائیکل پر ہو یا گدھا گاڑی پر ۔
ہر سال سردیوں کے موسم میں نہروں، کھالوں کی کھدائی کی جاتی تھی تاکہ باقی سارا سال پانی اسی مقدار میں موثر ہوسکے ۔ پھر ہر واٹرکورس کے پانی کی مقرر مقدار دینے کے لیے ماڈیولز بنائے گئے ۔ جب سالانہ نہروں اور کھالوں کی کھدائی ہوتی تو مناظر دیکھنے جیسے ہوتے ۔ کھدائی کا بھی مقابلہ ہوتا اور دیگیں بھی پکائی جاتی ۔اگر ساون کے موسم میں برسات زیادہ ہوتی تو نہروں پر پانی کا دباؤکم کرنے کے لیے چھنڈنوں (آؤٹ لیٹس ) کے ذریعے پانی مخصوص علاقوں میں بہایا جاتا، جہاں کوئی اتنی خاص آبادی نہ ہوتی۔ ایسے علاقے ماحولیاتی طور سے زرخیز رہے یہ جو مکھی کا شہد ،تیتر،بارہ سنگھے، مچھلی، سائیبیریائی پرندے، بھیڑیئے،مگرمچھ،گیدڑ وغیرہ کی باتیں ہم کرتے تھے وہ اسی کا شاخسانہ تھیں ۔ اب وہ جھنڈ نہیں رہے، اجڑگئے ہیں صرف سوکھے پیڑ رہ گئے ہیں۔
وہ مخصوص علاقے انسانی آبادی سے بھرگئے ہیں ، جھاڑیوں کی جگہ زمینیں آباد ہوچکی ہیں ۔ نہروں کی حالت یہ ہے کہ اگر زیادہ برسات ہوتی ہے ، تو ہر دو سے دس میل پر بند ٹوٹنے کا خطرہ موجود رہتا ہے اور بے بس لوگ چلاتے رہتے کئی اللہ اللہ کر کے بچ جاتے ہیں، کئی اپنی قوت بازو سے بند باندھ لیتے ہیں توکئی سیلابی پانی کی زد میں آکر زندگی کا کل سرمایہ بھی کھو دیتے ہیں اور وقت حکومت صرف جھوٹے دعوے کرتی رہتی ہے کہیں امداد پہنچتی ہے توکہیں ایک تنکہ بھی نہیں پہنچتا۔ لوگوں کی نظریں آسمان پر ہوتی ہیں کہ کوئی مسیحا اتر آئے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب ان نہروں اور کینالوں میں کئی بااثر افراد نے لفٹ مشینیں لگائی ہیں اور غیر قانونی واٹر کورس نکالے گئے ہیں جو 24 گھنٹے پانی دینے کو تیار ہوتے ہیں باقی دو چار ایکڑ والا زمیندار قانون کے نام پر مارا جا رہا ہے ۔
اس علاقے میں آبپاشی نظام کا اتنا بڑا حال ہوتے ہوئے بھی کئی زمینیں سوکھی پڑی ہیں تو کئی سیم وتھور میں قید ہوتی جا رہی ہیں۔ اس سیم و تھور کو کنٹرول کرنے کے لیے سیم نالے بنائے گئے ، ٹیوب ویل لگائے گئے تو زمینوں میں کچھ بہتری آنے لگی لیکن بد انتظامی کے نتیجے میں سیم نالوں کے پیٹ مٹی سے بھرتے گئے اور ٹیوب ویل ناکارہ ہوتے گئے۔ نتیجے میں زمینیں دوبارہ غیر آباد ہو رہی ہیں اور برسات میں تو یہ سیم نالے لوگوں کے لیے عذاب بن جاتے ہیں، شہر اورگاؤں ان کے پانی ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں ۔ 2011ء کے سیلابوں میں ان سیم نالوں نے اتنی تباہی مچائی کہ لوگ راتوں رات ہجرت کر گئے ، زمینیں، گھر، مال مویشی ڈوب گئے صرف ہرطرف پانی ہی پانی نظر آ رہا تھا ۔
اس قدرتی المیے پر ہم سانگھڑکے رائٹرز نے مضامین اورکہانیاں لکھیں ، جنھیں پانی ہی پانی کی کتابی شکل دی ۔ اب تو ٹیوب ویلس کے لیے مخصوص ٹرانسفارمرز اور بجلی کی تاریں بھی چوری کر لی گئی ہیں۔ یوں یہ پورا نظام بھی ناکارہ ہو چکا ہے ، کسی دور میں ہرا بھرا سبز علاقہ اب اجڑتا جا رہا ہے یہ سارا کچھ آبپاشی محکمے کا کیا دھرا ہے۔ انھیں تو کوئی پرواہ نہیں لیکن ہم جیسے حساس دل روتے رہتے ہیں کہ چار پیسوں کی خاطر اس پورے علاقے کی زرخیزی کو داؤ پر لگایا گیا ہے بلکہ پورے آبپاشی نظام کو لپیٹا گیا ہے ۔کاش ہم لوگوں کا اتنا ویژن ہوکہ ہم اپنے ملک کو تباہ کرنے کی بجائے آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے سوچیں ۔
یہ انگریز بھی کمال کے لوگ تھے،ان سے سو اختلافات ہی سہی لیکن جوکچھ انھوں نے ہمیں دیا،ہم اس کوفراموش نہیں کرسکتے،ویسے بھی تاریخ سے انصاف کسی چیزکا حقیقی تجزیہ اس کے مثبت اورمنفی پہلوؤں کو زیر نظر رکھ کرکیاجاتا ہے۔مانا کہ انھوں نے ہمیں غلام بنایا،لیکن کیا ہمارے میرجعفر اورمیرصادق جیسے لوگ اس میں ملوث نہ تھے،جوآج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔
سو انھوں نے ہمیں ملکی انفرا اسٹرکچر بنا کردے دیا، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ68 سالوں میں ہم نے اورکیا بھی کیا ہے سوائے جھوٹے وعدوں کے۔ البتہ انگریزوں کا بنایا ہوا انفرا اسٹرکچر اب آخری سانسیں لے رہا ہے اور ہم کہیں اور لگے ہوئے ہیں۔''مکھی '' کا خطہ، جو اپنی مٹی کی زرخیری کی وجہ سے بے مثال تھا۔جھیلوں کے بچھائے جال سے لے کرگھنی جھاڑیوں والے جنگل اور پھر کئی اقسام کے جانور، رنگ برنگے پودوں سے مالا مال تھا۔
اس وقت کے انگریز حکمرانوں کی عقابی نظر اس پر بھی پڑی، توسندھ کا سب سے بڑا آبپاشی نیٹ ورک بھی اسی علاقے میں بنایا۔اس سے پہلے یہاں صرف جھیلیں تھیں، نہروں کا نام نہ تھا،قریبی آباد گاؤں میں کنویں ہوا کرتے تھے جن کے نشانات آج بھی کہیں کہیں موجود ہیں۔سکھر بیراج سے نکلتا ہوا،سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی نارا کینال جس کے بہاؤ کو سیدھا کرنے کے لیے انگریزآبپاشی افسروں نے یہاں کے مقامی لوگوں سے مشورہ کیا تو انھیں جواب ملاکہ یہ ناممکن ہے کہ ناراکے بہاؤکوسیدھا کیا جا سکتا ہے ۔ کیونکہ صدیوں کے قدرتی بہاؤ سے اگر کوئی چھیڑچھاڑ ہوئی تو پانی کبھی بھی،کسی وقت بھی ناراض ہو کر پورا علاقہ ڈبو سکتا ہے۔
انگریزوں نے مقامی لوگوں کی اس لوک دانش کو مان لیا۔سالوں بعد اب جب چائنیز نے ایسا کرنا چاہا توگڑبڑ ہوگئی اور پھر واپس انھیں پرانے بہاؤ پرکام کرنا پڑ رہا ہے ۔ یہی تو لوک دانش ہے جو صدیوں کے تجربات پر مشتمل ہوتی ہے اس کے الٹ ہوگا تو نتیجہ بھی الٹا آئے گا۔ اس نارا میںسے 1892 میں خیرپور اور سانگھڑ کے سنگم پر واقع جمڑاؤ کے مقام سے جمڑاؤ کینال نکلی تو سانگھڑ،نوابشاہ،مٹیاری، ٹنڈوالھیار، میرپورخاص اضلاع کی زمینوں کو آباد کرنے لگی۔جب مقامی لوگوں نے زمینیں آبادکرنے کی بجائے مال مویشیوں کو ترجیح دی تو مشرقی پنجاب سے آرائیں برادری کے لوگ یہاں زمینیں آباد کرنے کے لیے لائے گئے، جن کے چک آج بھی اس پورے علاقے میں موجود ہیں۔اسی ناراکینال سے جمڑاؤ سے 45,40 کلومیٹر جنوب میں پکسری کے مقام پر ایک اورکینال مٹھڑاؤں نکالی گئی۔
جو سانگھڑ، عمرکوٹ سے ہوتی ہوئی تھرپارکرمیں اربابوں کی زمینوں تک چلی جاتی ہے۔ اس کینال کے کنارے شیشم ، املی، بڑ، پیپل کے لمبے اورگھنے درخت آج بھی یاد آتے ہیں،جن پرچڑھ کر طالب علمی کے زمانے میں ہم اسی کینال میں چھلانگیں لگاتے تھے اور پھر تھک کر گھنی چھاؤں کے نیچے سانس لیتے تھے۔ آج وہ بھی آنکھوں سے اوجھل ہوچکے ہیں۔البتہ باکھوڑو موری کا فطری حسن آج بھی برقرار ہے۔سخت گرمیوں میں جب بجلی بھی آنکھ مچولی کرتی ہے، تو لوگ اسی طرف رخ کرتے ہیں اور درختوں کے نیچے بیٹھ کر بہتے پانی کا نظارہ کرتے ہیں، پکوڑے کھاتے ہیں اور چائے کی چسکیاں لیتے ہیں۔
مٹھڑاؤکینال کومقامی لوگ بان کہتے ہیں کیونکہ بان نامی انگریز انجینئر نے اسے ڈیزائن کیا تھا ۔ اس مٹھڑاؤ کینال کے شانہ بشانہ کھپروکینال بھی نکالی گئی،جوگھومتی پھرتی اچھڑو تھر کے بڑے شہر کھپرو سے ملتی ہے۔ ان کینالوں سے کئی سیو واٹر ڈسٹری بیوٹرز نکالی گئیں اورہر ایک ڈسٹری بیوٹری سے کئی واٹر کورسز نکالے گئے ۔یوں سندھ کا سب سے بڑا کمانڈ ایریا ان ہی کی بدولت وجود میں آیا۔ جہاں کئی آبپاشی ملازم رکھے گئے ۔انگریزوں کے دور میں ان کینالوں اور ڈسٹری بیوٹریزکے پشتوں کی بحالی کے لیے بیلدار ہمہ وقت لگے رہتے تھے۔بہار کے موسم میں درخت لگاتے تھے روز صبح اور شام کو پشتوں پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی مال مویشی پشتوں کے قریب قدرتی چراگاہوں میں جاتے تو ان کے مالکوں سے پنچری (ٹیکس) لیا جاتا جسے انھی کینالوں پر خرچ کیا جاتا یوں سارا نظام برقرار رہتا ۔
لیکن بقول علی محمد پشتے رہے نہ کینال سٹم توازن میں رہا، اب تو جس کے پاس لاٹھی ہے پانی پر پہلا حق اس کا ہے ۔ ماڈیولز کی پیمائش کی ضرورت نہیں، آبپاشی داروغہ کوکچھ ہزار دو اور پانی اپنی مرضی کا لو باقی زمینداروں کی زمینں پانی کے لیے روتی رہیں اب کوئی پانی کا چھڑکاؤ نہیں کرتا نہ درخت لگاتا ہے۔ البتہ اگر کوئی گذر بسر کے لیے قریبی جنگل سے لکڑیاں لیجائے تو اس سے بھی ٹیکس وصول کیا جاتا ہے چاہے وہ سائیکل پر ہو یا گدھا گاڑی پر ۔
ہر سال سردیوں کے موسم میں نہروں، کھالوں کی کھدائی کی جاتی تھی تاکہ باقی سارا سال پانی اسی مقدار میں موثر ہوسکے ۔ پھر ہر واٹرکورس کے پانی کی مقرر مقدار دینے کے لیے ماڈیولز بنائے گئے ۔ جب سالانہ نہروں اور کھالوں کی کھدائی ہوتی تو مناظر دیکھنے جیسے ہوتے ۔ کھدائی کا بھی مقابلہ ہوتا اور دیگیں بھی پکائی جاتی ۔اگر ساون کے موسم میں برسات زیادہ ہوتی تو نہروں پر پانی کا دباؤکم کرنے کے لیے چھنڈنوں (آؤٹ لیٹس ) کے ذریعے پانی مخصوص علاقوں میں بہایا جاتا، جہاں کوئی اتنی خاص آبادی نہ ہوتی۔ ایسے علاقے ماحولیاتی طور سے زرخیز رہے یہ جو مکھی کا شہد ،تیتر،بارہ سنگھے، مچھلی، سائیبیریائی پرندے، بھیڑیئے،مگرمچھ،گیدڑ وغیرہ کی باتیں ہم کرتے تھے وہ اسی کا شاخسانہ تھیں ۔ اب وہ جھنڈ نہیں رہے، اجڑگئے ہیں صرف سوکھے پیڑ رہ گئے ہیں۔
وہ مخصوص علاقے انسانی آبادی سے بھرگئے ہیں ، جھاڑیوں کی جگہ زمینیں آباد ہوچکی ہیں ۔ نہروں کی حالت یہ ہے کہ اگر زیادہ برسات ہوتی ہے ، تو ہر دو سے دس میل پر بند ٹوٹنے کا خطرہ موجود رہتا ہے اور بے بس لوگ چلاتے رہتے کئی اللہ اللہ کر کے بچ جاتے ہیں، کئی اپنی قوت بازو سے بند باندھ لیتے ہیں توکئی سیلابی پانی کی زد میں آکر زندگی کا کل سرمایہ بھی کھو دیتے ہیں اور وقت حکومت صرف جھوٹے دعوے کرتی رہتی ہے کہیں امداد پہنچتی ہے توکہیں ایک تنکہ بھی نہیں پہنچتا۔ لوگوں کی نظریں آسمان پر ہوتی ہیں کہ کوئی مسیحا اتر آئے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب ان نہروں اور کینالوں میں کئی بااثر افراد نے لفٹ مشینیں لگائی ہیں اور غیر قانونی واٹر کورس نکالے گئے ہیں جو 24 گھنٹے پانی دینے کو تیار ہوتے ہیں باقی دو چار ایکڑ والا زمیندار قانون کے نام پر مارا جا رہا ہے ۔
اس علاقے میں آبپاشی نظام کا اتنا بڑا حال ہوتے ہوئے بھی کئی زمینیں سوکھی پڑی ہیں تو کئی سیم وتھور میں قید ہوتی جا رہی ہیں۔ اس سیم و تھور کو کنٹرول کرنے کے لیے سیم نالے بنائے گئے ، ٹیوب ویل لگائے گئے تو زمینوں میں کچھ بہتری آنے لگی لیکن بد انتظامی کے نتیجے میں سیم نالوں کے پیٹ مٹی سے بھرتے گئے اور ٹیوب ویل ناکارہ ہوتے گئے۔ نتیجے میں زمینیں دوبارہ غیر آباد ہو رہی ہیں اور برسات میں تو یہ سیم نالے لوگوں کے لیے عذاب بن جاتے ہیں، شہر اورگاؤں ان کے پانی ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں ۔ 2011ء کے سیلابوں میں ان سیم نالوں نے اتنی تباہی مچائی کہ لوگ راتوں رات ہجرت کر گئے ، زمینیں، گھر، مال مویشی ڈوب گئے صرف ہرطرف پانی ہی پانی نظر آ رہا تھا ۔
اس قدرتی المیے پر ہم سانگھڑکے رائٹرز نے مضامین اورکہانیاں لکھیں ، جنھیں پانی ہی پانی کی کتابی شکل دی ۔ اب تو ٹیوب ویلس کے لیے مخصوص ٹرانسفارمرز اور بجلی کی تاریں بھی چوری کر لی گئی ہیں۔ یوں یہ پورا نظام بھی ناکارہ ہو چکا ہے ، کسی دور میں ہرا بھرا سبز علاقہ اب اجڑتا جا رہا ہے یہ سارا کچھ آبپاشی محکمے کا کیا دھرا ہے۔ انھیں تو کوئی پرواہ نہیں لیکن ہم جیسے حساس دل روتے رہتے ہیں کہ چار پیسوں کی خاطر اس پورے علاقے کی زرخیزی کو داؤ پر لگایا گیا ہے بلکہ پورے آبپاشی نظام کو لپیٹا گیا ہے ۔کاش ہم لوگوں کا اتنا ویژن ہوکہ ہم اپنے ملک کو تباہ کرنے کی بجائے آنے والی نسلوں کی بہتری کے لیے سوچیں ۔