فریدہ کا قصور کیا تھا

دونوں بہنیں ہر طرح کے خطرات سے بے نیاز ہو کر اپنے علاقے کی عورتوں کی ترقی کے لیے کام کررہی تھیں۔

مہ ناز رحمن

''انھوں نے مار ڈالا، سر سے پائوں تک حجاب میں ڈھکی ہوئی لیپ ٹاپ پرکام کرتی ہوئی فریدہ آفریدی کو۔'' یہ خبر خواتین محاذ عمل اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی دیگر تنظیموں پر بجلی بن کے گری۔ انھوں نے خیبر پختون خواہ کے گورنر اور فاٹا کے پولیٹکل ایجنٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس قتل کی ذمے داری قبول کریں اور غربت، ناخواندگی اور بیماریوں کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے لوگوں کی زندگی کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ انتہا پسند عناصر کی جانب سے صرف عورتوں کو نہیں بلکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے مردوں کو بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔

پاکستانی خواتین فریدہ کے لیے انصاف مانگتی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس کے قاتلوں کو بے نقاب کیا جائے اور انھیں کڑی سزا دی جائے۔ ان مذہبی علماء کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جو مذہبی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکنوں اور خواتین کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں۔ یہ موت کے فتوے جاری کرتے ہیں اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔

ہم پوچھتے ہیں کہ کیا فاٹا، پاٹا اورکوہستان پاکستان کا حصّہ نہیں ہیں۔ تو پھر وہاں پاکستان کے آئین اور قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا۔ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو دیگر ترقی پسند مسلم ممالک کی روش اور قوانین سے سبق سیکھنا چاہیے،جہاں مقامی علماء کو فتوے جاری کرنے اور مساجد میں خطبات کے ذریعے نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں ہے۔

فریدہ آفریدی سویرا نامی تنظیم کی بانی رکن تھی۔ اس کی جدوجہد ناخواندگی اور عورت دشمن ظالمانہ رسوم و رواج کے خلاف تھی۔ اس کے بہیمانہ قتل نے ساری پاکستانی عورتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر انھوں نے ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کی تو ان کا بھی یہی انجام ہوگا۔

خواتین محاذ عمل نے مطالبہ کیا ہے کہ عدلیہ اس واقعے کا نوٹس لے اور حکومت عورتوں کے خلاف اس طرح کے غیر آئینی اقدامات کا سدباب کرے۔ پاکستانی عورتیں خاموش نہیں بیٹھیں گی اور نہ ہی ہم عورتوں اور غیر مسلم شہریوں اور غریبوں کے لیے مساوی حقوق کی جدوجہد سے دست بردار ہوں گی۔

فریدہ کو اس بے دردی سے کیوں مارا گیا۔ اس کا قصور کیا تھا۔ یہی نہ کہ وہ اپنے علاقے کی عورتوں کے حالات سنوارنا چاہتی تھی۔ وہ اس علاقے میں کام کررہی تھی جہاں لوگ عورتوں کے حقوق کے تصور سے بھی ناآشنا ہیں۔ اپنی ان کوششوں کی قیمت اسے جان دے کر چکانی پڑی۔ وہ پشاور میں اپنے گھر حیات آباد سے خیبر ایجنسی میں جمرود جارہی تھی کہ طالبان کی گولیوں کا نشانہ بن گئی۔ اس کی موت سے ہم صرف ایک انسانی حقوق کی کارکن سے محروم نہیں ہوئے بلکہ عسکریت پسندوں نے باقی لوگوں کو بھی یہ پیغام دیا کہ انھیں ان علاقوں میں کام کرنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے۔

فریدہ کے قتل کے بعد فاٹا کے علاقے میں اصلاحات کی ضرورت اور بھی شدّت کے ساتھ ابھر کے آئی ہے کیونکہ فاٹا میں پاکستان کے قوانین کی عمل داری نہیں ہے۔ وہاں کام کرنے والوں کو وہ حقوق نہیں ملتے جن کی ضمانت پاکستان کے آئین میں دی گئی ہے۔ اس لیے عسکریت پسند وہاں دندناتے پھرتے ہیں۔ گزشتہ سال پاکستان کے انسانی حقوق کے کمیشن کے لیے کام کرنے والے ظرتیف خاں آفریدی کو جمرود میں مار دیا گیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فاٹا میں این جی او ایکٹوسٹس کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انھیں مغرب کے ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ فضل اﷲ نے پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف کتنی زبردست مہم چلائی تھی۔ اس کا دعویٰ تھا کہ ان قطروں کو پلانے کا مقصد مردوں کو بانجھ بنانا ہے۔ فریدہ آفریدی جیسے لوگ اس ملک کے لیے تعلیم کو عام کرنے کا اہم کام کررہے تھے۔ ایسے لوگوں کو حکومت کی طرف سے بہترین تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ فاٹا میں فوج کو فریدہ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے۔ انتہاپسندوں سے نمٹنے کے لیے عام سرکاری ادارے کافی نہیں بلکہ وہاں ملٹری آپریشن کرنا ہوگا۔


گزشتہ سال ستمبر میں لوگوں کو دو بہنوں نورزیہ اور فریدہ آفریدی کے بارے میں معلوم ہوا، جنھوں نے پاکستان کے انتہائی قدامت پسند اور پدرسری علاقے میں اپنی این جی او قائم کی تھی۔ یہ علاقہ افغانستان کی سرحد سے صرف پچاس میل دور تھا۔ ایک غیر ملکی تنظیم ان دو بہنوں کے کام سے اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے انھیں خط لکھ کر ان کے ساتھ شراکت میں کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان نو عمر بہنوں کی امید، توانائی، رجائیت اور مقامی ثقافتی مسائل کے بارے میں حساسیت سب ہی کو متاثر کرتی تھی۔ غیر ملکی تنظیم سیف ورلڈ نے انھیں اپنا پارٹنر بنالیا اور اپنی ویب سائٹ پر ان کی سہ ماہی سرگرمیاں ڈالنا شروع کردیں۔ اپریل میں انھیں سویرا کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی اور جب مئی میں بھی ان کی طرف سے کوئی خبر نہیں آئی تو سیف ورلڈ کی خواتین پریشان ہوگئیں۔ وہ جانتی تھیں کہ حالیہ مہینوں میں پشاور کے گردونواح میں قتل و غارت کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں اور فاٹا میں پاکستانی قوانین نہیں چلتے۔ سیف ورلڈ کی جین کے کانوں میں آج بھی نورزیہ کے الفاظ گونجتے ہیں۔

''ہم نے اپنے والدین کو بتادیا ہے کہ ہم اپنی مذہبی اور ثقافتی روایات کے مطابق کام کریں گے۔ ہم نے انھیں یقین دلایا ہے کہ ہم اپنے کام کی وجہ سے کبھی خاندان کی عزت پر حرف نہیں آنے دیں گے۔'' دونوں بہنیں ہر طرح کے خطرات سے بے نیاز ہو کر اپنے علاقے کی عورتوں کی ترقی کے لیے کام کررہی تھیں۔

فریدہ نے ایک دفعہ ایک اخباری نمایندے کو بتایا تھا ''ہمارے پدرسری معاشرے میں کس حد تک عدم مساوات اور قبائلیوں کا عورتوں کے بارے میں عمومی رویہ کیا ہے، ہماری حکومت کو اس کا بالکل احساس نہیں ہے۔ مئی کے اواخر میں جین نے پاکستان میں اپنے ایک جاننے والے کے ذریعے دونوں بہنوں کی خیریت معلوم کروائی تو اسے یقین دلایا گیا کہ وہ بالکل خیریت سے ہیں۔ کئی دنوں بعد انھوں نے اپنی ایک سرگرمی کی اطلاع بھیجی جس نے سب کو حیرت زدہ کردیا، ''عورتیں صوبۂ خیبر اور خیبر ایجنسی میں امن اور سلامتی کو فروغ دے رہی ہیں۔'' یہ خبر 13 جون کو شایع ہوئی۔ سویرا کو تنازع کے حل اور قیامِ امن کے لیے فنڈنگ دی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں اسلام اور پاکستان کے آئین کے مطابق عورتوں کو ان کے سماجی اور سیاسی حقوق کے بارے میں آگاہی بھی فراہم کرنا تھی۔ ان کا کام بہت اچھا چل رہا تھا۔ انھوں نے سیلاب کے دوران متاثرہ خاندانوں کی مدد بھی کی تھی۔

اب جین بھی مطمئن ہوگئی تھی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ جب اس نے فریدہ کی تنظیمی سرگرمیوں کی خبر شایع کی تھی تب ہی سے فریدہ کو اپنے کام کے حوالے سے دھمکیاں ملنا شروع ہوگئی تھیں۔ اس نے پاکستان ٹائمز کے ایک صحافی کو بتایا تھا ''ہوسکتا ہے مجھے پشاور میں ہی مار دیا جائے۔''

فریدہ کی موت نے ہم سب کو ہلا کے رکھ دیا ہے لیکن اس الم ناک موت نے ہمارے حوصلے پسپا نہیں کیے ہیں بلکہ ہمیں آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کیا ہے۔

فریدہ کی عمر صرف 24 سال تھی لیکن وہ قبائلی معاشرے کی ایک بہادر، ذہین اور شاندار شخصیت ہونے کے ساتھ قبائلی عورتوں کی ایک جرأت مند آواز تھی۔ اس ترقی پسند آواز کو قاتلانہ حملے کے ذریعے خاموش کردیا گیا۔ وہ اپنی تنظیم کے ذریعے عورتوں کے لیے سماجی تبدیلی اور اقتصادی نجات کی خواہاں تھی۔

گزشتہ ماہ پشاور میں غزالہ جاوید کو قتل کردیا گیا تھا جو ایک مشہور گلوکارہ تھی۔ معلوم نہیں معصوم لوگوں کی ہلاکتوں کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔
Load Next Story