واپڈا کے 58 برس
عام طور پر اس طرح کی سرکاری اور ادارہ جاتی بریفنگزز میں زیادہ زور اعداد و شمار اور حاصل کردہ کامیابیوں پر دیا جاتا ہے
ایک زمانہ تھا کہ واپڈا ہاؤس لاہور کا آڈیٹوریم شہر کا سب سے خوبصورت اور آباد آڈیٹوریم ہوا کرتا تھا اور اس کی عمارت بھی قیام پاکستان کے بعد بننے والی عمارتوں میں ایک خاص انفرادیت کی حامل تھی۔ ستر کی دہائی میں ہم نے پنجاب آرٹ کونسل کی طرف سے اس آڈیٹوریم میں کئی شاندار تقریبات کا اہتمام کیا ۔
جن میں احمد ندیم قاسمی مرحوم سے خاص طور پر لکھوایا گیا ایک اسٹیج ڈرامہ ''آدمی ذات'' اور اقبال صدی کے حوالے سے دو عظیم الشان مشاعرے میری خوبصورت ترین یادوں کا حصہ ہیں پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اسے بند کردیا گیا اور یہ بندش اس قدر طویل ہوگئی کہ آہستہ آہستہ لوگ بھول ہی گئے کہ اس عمارت میں ایک خوبصورت ہال بھی ہوا کرتا تھا۔ کوئی تیس برس کے وقفے کے بعد دو ماہ قبل واپڈا کے موجودہ چیئرمین برادرم ظفر محمود کی طرف سے ایک تقریب میں شرکت کی دعوت ملی جس میں مقام تقریب واپڈا آڈیٹوریم درج تھا۔ ہال کے اندر قدم رکھتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے ٹائم مشین کے ذریعے وقت کو دوبارہ تیس برس قبل کے کسی لمحے میں مجسم کردیا ہو۔
کم و بیش ہر چیز ویسی ہی تھی جیسا میں نے اسے آخری بار دیکھا تھا۔ چند دن قبل ظفر بھائی کا پہلے خط اور پھر فون آیا کہ 10 فروری کو واپڈا کے 58 ویں یوم تاسیس کے موقعے پر اسی آڈیٹوریم میں ایک تقریب کا اہتمام ہے جس کے لیے ایک دن قبل پاکستان بھر سے اہل قلم کے نمایندوں کی ایک میٹنگ ہوگی جس کا انتظام عطاء الحق قاسمی کے ذمے ہے اور غائیت اس کی یہ ہے کہ لکھاری اور دانشور حضرات نہ صرف واپڈا کو درپیش عوامی اور معاشرتی مسائل کے سلسلے میں اس کی رہنمائی کریں بلکہ مسائل اور معاملات کو سمجھ کر عوام اور واپڈا کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں بھی اس کا ہاتھ بٹائیں۔
مجھے اس روز آکسفورڈ یونیورسٹی پریس والوں کے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ہونا تھا۔ سو میں نے اس میٹنگ میں شمولیت سے تو معذرت کا اظہار کیا مگر ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ یوم تاسیس کی تقریب میں انشاء اللہ ضرور شامل ہوں گا۔
ہماری بیورو کریسی کا عمومی رویہ اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کے فروغ اور ترویج کے حوالے سے ہمیشہ عدم توجہ، ہتک اور مخالفت کا رہا ہے کہ بقول یوسفی صاحب ہمارے بیوروکریٹ صحیح اردو پر غلط انگریزی کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بہت سے اہم اور نام ور لکھاریوں کا تعلق سول سروسز سے پہلے بھی رہا ہے اور اب بھی ہے، فوری طور پر جو چند نام ذہن میں آرہے ہیں ان میں قدرت اللہ شہاب، مختار مسعود، منظور الٰہی شیخ، ڈاکٹر صفدر محمود، عبدالعزیز خالد، محبوب خزاں، مسعود مفتی، مرتضیٰ برلاس، الطاف گوہر، پروین شاکر، سید ہاشم رضا، مصطفی زیدی، اکرم ذکی، طارق محمود، اوریا مقبول جان، محمد اظہار الحق، یحییٰ امجد، حمید سیٹھی، اکبر ایس احمد، جمیل الدین عالی اور واپڈا کے موجودہ چیئرمین ظفر محمود شامل ہیں۔
ظفر محمود اس سے قبل تجارت کے وفاقی سیکریٹری کے عہدے پر فائز تھے لیکن ادبی دنیا انھیں، ان کے ناول 23 دن کے حوالے سے زیادہ جانتی ہے کہ چند برس قبل شایع ہونے والے اس جدید تکنیک میں لکھے گئے ناول کو بہت سراہا گیا تھا۔ خود میرا ان سے ذاتی تعارف بھی اسی ناول کی وساطت سے ہوا تھا۔ یہ ذکر اس لیے بیچ میں آیا کہ ایک تو ان کی تقریر بہت ٹیکنیکل معلومات کی حامل ہونے کے باوجود بہت واضح اور پراثر تھی اور دوسرے یہ کہ میری معلومات کے مطابق وہ اس ادارے کے پہلے چیئرمین ہیں جنہوں نے ادیبوں اور دانشوروں کو بھی نہ صرف اعتماد میں لیا بلکہ ان سے اپنے وسائل اور مسائل اور میڈیا اور عوام میں واپڈا سے متعلق قائم شدہ غلط تصورات کی تفصیل اور ان کی روک تھام کے طریقوں پر بھی کھل کر بات کی۔ میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ بھی ان کا بذات خود ادیب ہونا ہے۔
عام طور پر اس طرح کی سرکاری اور ادارہ جاتی بریفنگزز میں زیادہ زور اعداد و شمار اور حاصل کردہ کامیابیوں پر دیا جاتا ہے جو اکثر ''نام نہاد'' کے زمرے میں آتی ہیں یا پھر ایسے منصوبوں کے ڈھول پیٹے جاتے ہیں جن میں تحقیق، معلومات، کمٹمنٹ اور حقیقت پسندی کی شدید کمی ہوتی ہے۔
انھوں نے اپنی گفتگو کے آغاز ہی میں ایک بہت دلچسپ واقعہ سنایا کہ جب انھوں نے ایک سندھی اخبار کے ایڈیٹر کو یہ بتایا کہ 2007 سے بجلی کی تقسیم، پیداوار، قیمت اور ضیاع وغیرہ سے اب واپڈا کا کوئی تعلق نہیں کہ یہ شعبے اب لیسکو، فیسکو، پیپکو اور اسی طرح کے کئی اور ''کو'' کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ سو اس کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ بھی انھی کو ملنا چاہیے تو ایڈیٹر صاحب نے مسکرا کر کہا کہ ہمیں تو واپڈا کو گالی دینے میں ہی مزا آتا ہے۔
پروگرام کے آغاز میں ایک ڈاکیومینٹری دکھائی گئی جس میں پانی کے قدرتی وسائل، ان کی گزرگاہوں اور ان علاقوں کی تفصیل بتائی گئی تھی جہاں پانی کو ذخیرہ کرنے اور اس سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے زیر غور ہیں۔ معلوم ہوا کہ صرف گلگت اور اسکردو سے ملحقہ پہاڑی علاقوں میں ان منصوبوں کے ذریعے 40 ہزارمیگاواٹ بجلی ہائیڈل ٹیکنالوجی سے پیدا کی جاسکتی ہے جو موجودہ تھرمل اور غیر ملکی کمپنیوں کے تیل سے چلنے والے منصوبوں کی نسبت اپنی لاگت پوری کرنے کے بعد بیس گنا تک سستی ہوسکتی ہے جب کہ ان کی وجہ سے فوری طور پر فی یونٹ قیمت میں 50% کمی ہوجائے گی۔
اس منصوبے کو INDUS CASCADE کا نام دیا گیا تھا جب کہ اسی نوع کے قدرے چھوٹے منصوبے ملک کے دیگرحصوں میں بھی زیر غور ہیں۔ ظفر محمود کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کوئلے اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کے کئی منصوبوں اور امکانات کی بات کی اور یہ بھی بتایا کہ آیندہ پاور ہاؤسز درآمدی گیس کی پائپ لائنوں پر بنائے جائیں گے تاکہ لائن لاسز میں کمی کی جاسکے جوکہ فی الوقت چوری کی جانے والی بجلی کی مقدار کو شامل کرکے 26% سے زیادہ ہیں یعنی صارف کو صرف شدہ بجلی کی جو قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اس میں سے 26% اس تک پہنچتی ہی نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت جتنی بجلی سارے ملک میں پیدا ہوتی تھی آج کل کم و بیش اتنی ہی بجلی صرف موبائل فونز چارج کرنے پر خرچ ہوتی ہے اور یہ کہ دو ڈیم اور پانچ بیراج جو واپڈا نے مکمل کیے ان کی لاگت عوام پر نہیں ڈالی گئی جس سے نہ صرف واپڈا کے وسائل میں کمی واقع ہوئی بلکہ عوام میں بھی پانی بجلی اور گیس کو ضایع کرنے کا رجحان جڑ پکڑگیا۔ ایک زمانے میں لوگ ایک مگ بھر پانی سے شیو بنالیا کرتے تھے اب پوری شیو کے درمیان نلکہ چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح چولہے پر کوئی ہنڈیا ہو یا نہ ہو گیس آن رہتی ہے، گیزر چلتے رہتے ہیں اور ساری دنیا کے برعکس ہماری مارکیٹیں رات ایک بجے تک کھلی رہتی ہیں جب کہ ذرا سی توجہ سے ہم توانائی کے ان وسائل کی معقول حد تک بچت کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام تک یہ شعور مؤثر انداز میں پہنچانے کے لیے لکھاری اور دانش ور آگے آئیں اور واپڈا کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے بھی آسانیاں پیدا کریں۔ ادیبوں کی سفارشات میں ''ہونا چاہیے'' سے زیادہ ''کیسے کیا جائے'' پر زور دیا گیا تھا اس پر مجھے برادر عزیز عطا الحق قاسمی کا وہ مشہور اور بامعنی اور برمحل شعر بہت یاد آیا جسے میاں شہباز شریف اپنی بیشتر تقاریر میں استعمال کرتے ہیں کہ
ظلم بچے جَن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہیے
کسی نے اس پر بہت دلچسپ تبصرہ کچھ یوں کیا کہ شاعر کی حد تک تو یہ خواہش بالکل جائز اور درست ہے کہ وہ عوامی حقوق سے متعلق کسی چیز کا مطالبہ کرے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جن لوگوں کے ذمے ان مطالبات اور عوامی آرزوؤں کو پورا کرنا اور انھیں عملی شکل دینا ہے وہ بھی اپنا سارا زور ''چاہیے'' پر ہی صرف کرتے ہیں۔ سو ایسے میں واپڈا کے چیئرمین اور خواجہ آصف کی یہ بات اچھی لگی کہ انھوں نے گلوؤں شکوؤں، الزام تراشیوں، وضاحتوں اور ''ہونا چاہیے'' کے بجائے ''کررہے ہیں'' اور ''کریں گے'' پر زور دیا۔ حکومت اور پالیسی ساز اداروں کا کام مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔ صرف ان کی گنتی کرنا نہیں میر صاحب کا کیا اچھا اور خیال افروز شعر ہے کہ
کس طرح آہ قعرِ مذلّت سے میں اٹھوں
افتادہ تر جو مجھ سے مرا دستگیر ہو!
جن میں احمد ندیم قاسمی مرحوم سے خاص طور پر لکھوایا گیا ایک اسٹیج ڈرامہ ''آدمی ذات'' اور اقبال صدی کے حوالے سے دو عظیم الشان مشاعرے میری خوبصورت ترین یادوں کا حصہ ہیں پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اسے بند کردیا گیا اور یہ بندش اس قدر طویل ہوگئی کہ آہستہ آہستہ لوگ بھول ہی گئے کہ اس عمارت میں ایک خوبصورت ہال بھی ہوا کرتا تھا۔ کوئی تیس برس کے وقفے کے بعد دو ماہ قبل واپڈا کے موجودہ چیئرمین برادرم ظفر محمود کی طرف سے ایک تقریب میں شرکت کی دعوت ملی جس میں مقام تقریب واپڈا آڈیٹوریم درج تھا۔ ہال کے اندر قدم رکھتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے ٹائم مشین کے ذریعے وقت کو دوبارہ تیس برس قبل کے کسی لمحے میں مجسم کردیا ہو۔
کم و بیش ہر چیز ویسی ہی تھی جیسا میں نے اسے آخری بار دیکھا تھا۔ چند دن قبل ظفر بھائی کا پہلے خط اور پھر فون آیا کہ 10 فروری کو واپڈا کے 58 ویں یوم تاسیس کے موقعے پر اسی آڈیٹوریم میں ایک تقریب کا اہتمام ہے جس کے لیے ایک دن قبل پاکستان بھر سے اہل قلم کے نمایندوں کی ایک میٹنگ ہوگی جس کا انتظام عطاء الحق قاسمی کے ذمے ہے اور غائیت اس کی یہ ہے کہ لکھاری اور دانشور حضرات نہ صرف واپڈا کو درپیش عوامی اور معاشرتی مسائل کے سلسلے میں اس کی رہنمائی کریں بلکہ مسائل اور معاملات کو سمجھ کر عوام اور واپڈا کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں بھی اس کا ہاتھ بٹائیں۔
مجھے اس روز آکسفورڈ یونیورسٹی پریس والوں کے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ہونا تھا۔ سو میں نے اس میٹنگ میں شمولیت سے تو معذرت کا اظہار کیا مگر ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ یوم تاسیس کی تقریب میں انشاء اللہ ضرور شامل ہوں گا۔
ہماری بیورو کریسی کا عمومی رویہ اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں کے فروغ اور ترویج کے حوالے سے ہمیشہ عدم توجہ، ہتک اور مخالفت کا رہا ہے کہ بقول یوسفی صاحب ہمارے بیوروکریٹ صحیح اردو پر غلط انگریزی کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بہت سے اہم اور نام ور لکھاریوں کا تعلق سول سروسز سے پہلے بھی رہا ہے اور اب بھی ہے، فوری طور پر جو چند نام ذہن میں آرہے ہیں ان میں قدرت اللہ شہاب، مختار مسعود، منظور الٰہی شیخ، ڈاکٹر صفدر محمود، عبدالعزیز خالد، محبوب خزاں، مسعود مفتی، مرتضیٰ برلاس، الطاف گوہر، پروین شاکر، سید ہاشم رضا، مصطفی زیدی، اکرم ذکی، طارق محمود، اوریا مقبول جان، محمد اظہار الحق، یحییٰ امجد، حمید سیٹھی، اکبر ایس احمد، جمیل الدین عالی اور واپڈا کے موجودہ چیئرمین ظفر محمود شامل ہیں۔
ظفر محمود اس سے قبل تجارت کے وفاقی سیکریٹری کے عہدے پر فائز تھے لیکن ادبی دنیا انھیں، ان کے ناول 23 دن کے حوالے سے زیادہ جانتی ہے کہ چند برس قبل شایع ہونے والے اس جدید تکنیک میں لکھے گئے ناول کو بہت سراہا گیا تھا۔ خود میرا ان سے ذاتی تعارف بھی اسی ناول کی وساطت سے ہوا تھا۔ یہ ذکر اس لیے بیچ میں آیا کہ ایک تو ان کی تقریر بہت ٹیکنیکل معلومات کی حامل ہونے کے باوجود بہت واضح اور پراثر تھی اور دوسرے یہ کہ میری معلومات کے مطابق وہ اس ادارے کے پہلے چیئرمین ہیں جنہوں نے ادیبوں اور دانشوروں کو بھی نہ صرف اعتماد میں لیا بلکہ ان سے اپنے وسائل اور مسائل اور میڈیا اور عوام میں واپڈا سے متعلق قائم شدہ غلط تصورات کی تفصیل اور ان کی روک تھام کے طریقوں پر بھی کھل کر بات کی۔ میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ بھی ان کا بذات خود ادیب ہونا ہے۔
عام طور پر اس طرح کی سرکاری اور ادارہ جاتی بریفنگزز میں زیادہ زور اعداد و شمار اور حاصل کردہ کامیابیوں پر دیا جاتا ہے جو اکثر ''نام نہاد'' کے زمرے میں آتی ہیں یا پھر ایسے منصوبوں کے ڈھول پیٹے جاتے ہیں جن میں تحقیق، معلومات، کمٹمنٹ اور حقیقت پسندی کی شدید کمی ہوتی ہے۔
انھوں نے اپنی گفتگو کے آغاز ہی میں ایک بہت دلچسپ واقعہ سنایا کہ جب انھوں نے ایک سندھی اخبار کے ایڈیٹر کو یہ بتایا کہ 2007 سے بجلی کی تقسیم، پیداوار، قیمت اور ضیاع وغیرہ سے اب واپڈا کا کوئی تعلق نہیں کہ یہ شعبے اب لیسکو، فیسکو، پیپکو اور اسی طرح کے کئی اور ''کو'' کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ سو اس کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ بھی انھی کو ملنا چاہیے تو ایڈیٹر صاحب نے مسکرا کر کہا کہ ہمیں تو واپڈا کو گالی دینے میں ہی مزا آتا ہے۔
پروگرام کے آغاز میں ایک ڈاکیومینٹری دکھائی گئی جس میں پانی کے قدرتی وسائل، ان کی گزرگاہوں اور ان علاقوں کی تفصیل بتائی گئی تھی جہاں پانی کو ذخیرہ کرنے اور اس سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے زیر غور ہیں۔ معلوم ہوا کہ صرف گلگت اور اسکردو سے ملحقہ پہاڑی علاقوں میں ان منصوبوں کے ذریعے 40 ہزارمیگاواٹ بجلی ہائیڈل ٹیکنالوجی سے پیدا کی جاسکتی ہے جو موجودہ تھرمل اور غیر ملکی کمپنیوں کے تیل سے چلنے والے منصوبوں کی نسبت اپنی لاگت پوری کرنے کے بعد بیس گنا تک سستی ہوسکتی ہے جب کہ ان کی وجہ سے فوری طور پر فی یونٹ قیمت میں 50% کمی ہوجائے گی۔
اس منصوبے کو INDUS CASCADE کا نام دیا گیا تھا جب کہ اسی نوع کے قدرے چھوٹے منصوبے ملک کے دیگرحصوں میں بھی زیر غور ہیں۔ ظفر محمود کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے کوئلے اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کے کئی منصوبوں اور امکانات کی بات کی اور یہ بھی بتایا کہ آیندہ پاور ہاؤسز درآمدی گیس کی پائپ لائنوں پر بنائے جائیں گے تاکہ لائن لاسز میں کمی کی جاسکے جوکہ فی الوقت چوری کی جانے والی بجلی کی مقدار کو شامل کرکے 26% سے زیادہ ہیں یعنی صارف کو صرف شدہ بجلی کی جو قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اس میں سے 26% اس تک پہنچتی ہی نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت جتنی بجلی سارے ملک میں پیدا ہوتی تھی آج کل کم و بیش اتنی ہی بجلی صرف موبائل فونز چارج کرنے پر خرچ ہوتی ہے اور یہ کہ دو ڈیم اور پانچ بیراج جو واپڈا نے مکمل کیے ان کی لاگت عوام پر نہیں ڈالی گئی جس سے نہ صرف واپڈا کے وسائل میں کمی واقع ہوئی بلکہ عوام میں بھی پانی بجلی اور گیس کو ضایع کرنے کا رجحان جڑ پکڑگیا۔ ایک زمانے میں لوگ ایک مگ بھر پانی سے شیو بنالیا کرتے تھے اب پوری شیو کے درمیان نلکہ چلتا رہتا ہے۔
اسی طرح چولہے پر کوئی ہنڈیا ہو یا نہ ہو گیس آن رہتی ہے، گیزر چلتے رہتے ہیں اور ساری دنیا کے برعکس ہماری مارکیٹیں رات ایک بجے تک کھلی رہتی ہیں جب کہ ذرا سی توجہ سے ہم توانائی کے ان وسائل کی معقول حد تک بچت کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام تک یہ شعور مؤثر انداز میں پہنچانے کے لیے لکھاری اور دانش ور آگے آئیں اور واپڈا کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ عوام کے لیے بھی آسانیاں پیدا کریں۔ ادیبوں کی سفارشات میں ''ہونا چاہیے'' سے زیادہ ''کیسے کیا جائے'' پر زور دیا گیا تھا اس پر مجھے برادر عزیز عطا الحق قاسمی کا وہ مشہور اور بامعنی اور برمحل شعر بہت یاد آیا جسے میاں شہباز شریف اپنی بیشتر تقاریر میں استعمال کرتے ہیں کہ
ظلم بچے جَن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہیے
کسی نے اس پر بہت دلچسپ تبصرہ کچھ یوں کیا کہ شاعر کی حد تک تو یہ خواہش بالکل جائز اور درست ہے کہ وہ عوامی حقوق سے متعلق کسی چیز کا مطالبہ کرے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جن لوگوں کے ذمے ان مطالبات اور عوامی آرزوؤں کو پورا کرنا اور انھیں عملی شکل دینا ہے وہ بھی اپنا سارا زور ''چاہیے'' پر ہی صرف کرتے ہیں۔ سو ایسے میں واپڈا کے چیئرمین اور خواجہ آصف کی یہ بات اچھی لگی کہ انھوں نے گلوؤں شکوؤں، الزام تراشیوں، وضاحتوں اور ''ہونا چاہیے'' کے بجائے ''کررہے ہیں'' اور ''کریں گے'' پر زور دیا۔ حکومت اور پالیسی ساز اداروں کا کام مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔ صرف ان کی گنتی کرنا نہیں میر صاحب کا کیا اچھا اور خیال افروز شعر ہے کہ
کس طرح آہ قعرِ مذلّت سے میں اٹھوں
افتادہ تر جو مجھ سے مرا دستگیر ہو!