عزم اور سیکولرازم کی فتح
حقیقت یہ ہےکہ میراوزیراعلیٰ بننا دراصل غریبوں کی محبت و تعاون،سیکولرازم کی طاقت اورپارٹی کےغیر متزلزل عزم کا نتیجہ ہے۔
بالی وُڈ نے فلمسازی کے میدان میں بعض بڑے انوکھے اور منفرد تجربات کیے ہیں۔ یہ چونکا دینے والے بھی ہیں اور حیرت خیز بھی۔ بعض تجربات بھارتی کرپٹ سیاستدانوں پر کیے گئے ہیں اور بعض فلموں میں منشیات فروشوں اور مذہبی رہنماؤں کی معاشرے پر مضبوط گرفت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ''نائیک'' نامی فلم بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ اس کے ہدایت کار جے شنکر تھے۔
انیل کپور، امریش پوری اور رانی مکرجی نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا۔ امریش پوری نے ''بلراج چوہان'' کے نام سے وزیراعلیٰ کے طور پر کردار ادا کیا اور انیل کپور ''شیوا جی راؤ گائیکواڈ'' کے نام سے ٹی وی رپورٹر کی حیثیت میں کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ ''نائیک'' دراصل کھوجی صحافت اور بدعنوان سیاستدانوں کی باہمی کشمکش پر استوار کی گئی فلم کا نام ہے۔ کہانی کے ایک موڑ پر آکر انیل کپور (شیوا جی راؤ) کو ایک روز کے لیے وزارتِ اعلیٰ مل جاتی ہے۔
اب انھیں بطور وزیراعلیٰ ثابت کرنا ہے کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں کس طرح کرپشن اور کرپٹ عناصر کا خاتمہ کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے یہ اثر انگیز مووی دیکھی ہے، وہ گواہی دیں گے کہ ریاستِ دہلی کے بننے والے وزیراعلیٰ اروند کجریوال ''نائیک'' کے انیل کپور ہی لگتے ہیں: بدعنوانی سے نفرت کرنے والا، لینڈ مافیا کا دشمن، مذہبی بیوپاریوں سے اعراض برتنے والا، غریبوں کا ہمنوا، بے نواؤں کی آواز اور خاک نشینوں کا دستگیر۔ جے شنکر نے ''نائیک'' میں جس سیاستدان کا خواب دیکھا تھا، اب عملی اور حقیقی دنیا میں وہ خواب اروند کجریوال کی شکل میں سامنے آچکا ہے۔ چھیالیس سالہ اروند کجریوال ایک سال کے وقفے کے بعد دوبارہ دہلی کے وزیراعلیٰ بن چکے ہیں۔
ان کی کامیابی کو تین لفظوں کی داستان کہا جاسکتا ہے: Rise, Fall and Rise وہ ایک سال قبل جس تاریخ کو وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہوئے تھے، عین اسی تاریخ اور مہینے میں دوبارہ اس عہدے پر فائز ہوگئے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا: ''مَیں دوبارہ ضرور آؤں گا۔'' اور واقعتا وہ دوبارہ برسرِاقتدار آگئے ہیں۔ دہلی اسمبلی کی 70میں سے 67 نشستیں جیت کر۔ دس فروری 2015 کی دوپہر جونہی ان کی سیاسی جماعت، عام آدمی پارٹی، کی لینڈ سلائیڈ فتح کا اعلان سامنے آیا، کجریوال اپنے قریبی اور معتمد ساتھیوں کے ساتھ تین گھنٹے بعد ہی دہلی کے گورنر (نجیب جنگ) سے ملے اور انھیں ''عام آدمی پارٹی'' کی ریاستی حکومت بنانے کا کہہ دیا گیا۔
چار دن بعد اروند کجریوال، جو ایک زیریں متوسط الیکٹریکل انجینئر کے بیٹے ہیں، نے دہلی کے رام لیلا گراؤنڈ میں منعقدہ ایک غریبانہ سی تقریب میں وزارتِ علیا کا حلف اٹھا لیا۔ وہ کہتے ہیں: ''بی جے پی کا تعصب اور تکبر اسے لے ڈوبا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا وزیراعلیٰ بننا دراصل غریبوں کی محبت و تعاون، سیکولرازم کی طاقت اور پارٹی کے غیر متزلزل عزم کا نتیجہ ہے۔'' دشمنوں (کانگریس اور بی جے پی) نے کہا تھا کہ وزارتِ اعلیٰ کی شہ نشین کرسی سے گر کر وہ اب کبھی وزیراعلیٰ نہیں بن سکیں گے لیکن کجریوال نے بد خواہوں کے منہ بند کردیے۔ یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ان کا ریاستی انتخابات میں شاندار کامیابی سے ہمکنار ہونا دراصل سیکولرازم کی فتح ہے۔اروند کجریوال اور ان کے ساتھیوں نے پوری انتخابی مہم میں کسی بھی مذہب کا نام لینا ممنوع قرار دیے رکھا۔
ان کا منشور ہی تھا کہ ہندو مت، اسلام اور سکھ ازم کے نام پر ووٹ ہر گز ہر گز نہیں مانگیں جائیں گے کہ یہ عمل فرقہ واریت کو فروغ دینے کا باعث بنتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں جب جب مذہب کو اقتدار کے لیے سیاست میں شامل کیا گیا، نتائج خوش کن برآمد نہیں ہوئے۔ نریندر مودی نے مذہب کی بنیاد پر انتخابی کامیابی حاصل کرکے اقتدار تو حاصل کرلیا ہے لیکن اس کے نتائج نہایت بھیانک سامنے آرہے ہیں۔ آیندہ بھی یہ اسلوبِ سیاست بھارت کے لیے مہلک ہی ثابت ہوتا رہے گا۔
اروند کجریوال نے مودی کے برعکس خالصتاً سیکولرازم کا راستہ اختیار کیا۔ ان سے سب خوش ہیں۔ مسلمان بھی، ہندو اور سکھ بھی۔ سب نے انھیں اپنی محبتوں سے نوازا ہے۔ دہلی میں، ایک اندازے کے مطابق، بارہ فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ زوال اور دباؤ کے باوجود دہلی میں مسلمانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کانگریس کی رکن بھی رہیں اور انھوں نے نہرو اور گاندھی جی کے ساتھ مل کر آزادی کی تحریک میں زبردست کردار ادا کیا تھا۔ بھارت سرکار نے انھیں ''پدم بھوشن'' اور ''بھارت رتن'' ایسے اعلیٰ ترین ایوارڈز سے بھی نوازا اور ان کے نام کا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ انتخابی پہلو کو سامنے رکھا جائے تو دہلی میں مسلمانوں کابہت بڑا ووٹ بینک ہے۔ اروند کجریوال کو بعض لوگوں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ مسلمانوں سے براہ راست مذاکرات کریں اور ان کے بعض مفادات کا تحفظ کرنے کا وعدہ کرکے ووٹ مانگیں، جیسا کہ ماضی میں کانگریس یہ ڈھونگ رچاتی رہی ہے، لیکن اروند کجریوال نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے امام احمد بخاری کی پیشکش کو بھی مسترد کردیا۔
سات فروری 2015 کے ریاستی انتخابات کے انعقاد سے دو روز قبل دہلی کی شاہی جامعہ مسجد کے امام و خطیب سید احمد بخاری نے دلّی کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ کجریوال صاحب کی جماعت ''عام آدمی پارٹی'' کو ووٹ دیں مگر اروند کجریوال نے فوری طور پر یہ پیشکش ٹھکرا دی اور کہا: ''یہ فرقہ واریت ہے۔ ہمیں مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں چاہئیں۔'' احمد بخاری صاحب ماضی میں کانگریس کے شو بوائے رہے ہیں اور وہ ہمیشہ دہلی کے مسلمانوں سے اپیل کرتے رہے ہیں کہ وہ کانگریس کو ووٹ دیں۔
اب ہوا کا رخ بدلا تو احمد بخاری صاحب نے بھی سیاسی قبلہ بدل ڈالا۔ انھی حرکات کے سبب وہ اپنا اعتبار اور وقار کھو چکے ہیں۔ چنانچہ ان کے سگے بھائی جناب یحییٰ بخاری بھی ان کے مخالف ہوچکے ہیں۔ ''آل انڈیا سُنی علماء مسلم فیڈریشن'' کے مرکزی رہنما مولانا غلام قادر اور ''آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین'' کے صدر اسد الدین اویسی کی طرف سے بھی احمد بخاری پر سخت حملے ہورہے ہیں۔
اس بار، سات فروری 2015 کو دہلی اسمبلی کے انتخابات میں پانچ مسلمان امیدواروں کو AAP کی طرف سے ٹکٹ دیے گئے۔ ان میں چار کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ امان اللہ اوکھلا سے لڑے اور انھوں نے 64532ووٹ لے کر بی جے پی کے بہرام سنگھ کو شکست دی۔ حاجی اشراق، جنھیں پیار سے ''بھورے بھائی'' کہا جاتا ہے، نے مشرقی دہلی میں الیکشن لڑا اور 27887ووٹوں کی اکثریت سے اپنے حریف اور بی جے پی کے امیدوار سنجے جین کو ہرادیا۔ عاصم احمد خان نے موتی محل علاقے سے حصہ لیا اور کانگریس کے امیدوار شعیب اقبال کو 26096ووٹوں کے فرق سے چِت کردیا۔ بلی ماراں کے علاقے سے عمران حسین کھڑے تھے اور انھوں نے بی جے پی کے امیدوار اشام لال کو 33877ووٹوں کی اکثریت سے شکست دی ہے۔
''عام آدمی پارٹی'' کے ان چاروں مسلمان امیدواروں (امان اللہ، حاجی اشراق، عاصم احمد خان اور عمران حسین) کی شاندار فتح کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ دہلی کے مسلمانوں نے اس بار یک جہت ہو کر ووٹنگ کا فریضہ ادا کیا ہے۔ ان کی امیدوں اور آدرشوں کا مرکز مسلمان ہی نہیں، اروند کجریوال کی پارٹی کے ہندو امیدوار بھی تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ اروند کجریوال کے سیکولرسٹ کردار سے بھارتی، خصوصاً دہلی کے مسلمانوں کے دلوں میں نئے سرے سے روشنی اور آس کے اَن گنت چراغ جَل اٹھے ہیں۔
ماضی میں کانگریس کے سیکولرازم نے تو بھارتی مسلمانوں سے صریح فریب ہی کیا ہے اور حال میں بی جے پی کی بنیاد پرستی نے انھیں خوف اور ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اروند کجریوال کا غیر مذہبی ہونا بھارتی مسلمانوں کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ خدا کرے وہ امام احمد بخاری ایسے لوگوں کی دست برد سے محفوظ رہیں۔ یہ سیکولرازم کی فتح ہے کہ اروند کجریوال نے وزیراعلیٰ بن کر گزشتہ روز اپنی کابینہ تشکیل دی تو اس میں ایک مسلمان کو بھی وزارت کا قلمدان سونپا ہے۔
انیل کپور، امریش پوری اور رانی مکرجی نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا۔ امریش پوری نے ''بلراج چوہان'' کے نام سے وزیراعلیٰ کے طور پر کردار ادا کیا اور انیل کپور ''شیوا جی راؤ گائیکواڈ'' کے نام سے ٹی وی رپورٹر کی حیثیت میں کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ ''نائیک'' دراصل کھوجی صحافت اور بدعنوان سیاستدانوں کی باہمی کشمکش پر استوار کی گئی فلم کا نام ہے۔ کہانی کے ایک موڑ پر آکر انیل کپور (شیوا جی راؤ) کو ایک روز کے لیے وزارتِ اعلیٰ مل جاتی ہے۔
اب انھیں بطور وزیراعلیٰ ثابت کرنا ہے کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں کس طرح کرپشن اور کرپٹ عناصر کا خاتمہ کرتے ہیں۔ جن لوگوں نے یہ اثر انگیز مووی دیکھی ہے، وہ گواہی دیں گے کہ ریاستِ دہلی کے بننے والے وزیراعلیٰ اروند کجریوال ''نائیک'' کے انیل کپور ہی لگتے ہیں: بدعنوانی سے نفرت کرنے والا، لینڈ مافیا کا دشمن، مذہبی بیوپاریوں سے اعراض برتنے والا، غریبوں کا ہمنوا، بے نواؤں کی آواز اور خاک نشینوں کا دستگیر۔ جے شنکر نے ''نائیک'' میں جس سیاستدان کا خواب دیکھا تھا، اب عملی اور حقیقی دنیا میں وہ خواب اروند کجریوال کی شکل میں سامنے آچکا ہے۔ چھیالیس سالہ اروند کجریوال ایک سال کے وقفے کے بعد دوبارہ دہلی کے وزیراعلیٰ بن چکے ہیں۔
ان کی کامیابی کو تین لفظوں کی داستان کہا جاسکتا ہے: Rise, Fall and Rise وہ ایک سال قبل جس تاریخ کو وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے مستعفی ہوئے تھے، عین اسی تاریخ اور مہینے میں دوبارہ اس عہدے پر فائز ہوگئے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا: ''مَیں دوبارہ ضرور آؤں گا۔'' اور واقعتا وہ دوبارہ برسرِاقتدار آگئے ہیں۔ دہلی اسمبلی کی 70میں سے 67 نشستیں جیت کر۔ دس فروری 2015 کی دوپہر جونہی ان کی سیاسی جماعت، عام آدمی پارٹی، کی لینڈ سلائیڈ فتح کا اعلان سامنے آیا، کجریوال اپنے قریبی اور معتمد ساتھیوں کے ساتھ تین گھنٹے بعد ہی دہلی کے گورنر (نجیب جنگ) سے ملے اور انھیں ''عام آدمی پارٹی'' کی ریاستی حکومت بنانے کا کہہ دیا گیا۔
چار دن بعد اروند کجریوال، جو ایک زیریں متوسط الیکٹریکل انجینئر کے بیٹے ہیں، نے دہلی کے رام لیلا گراؤنڈ میں منعقدہ ایک غریبانہ سی تقریب میں وزارتِ علیا کا حلف اٹھا لیا۔ وہ کہتے ہیں: ''بی جے پی کا تعصب اور تکبر اسے لے ڈوبا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا وزیراعلیٰ بننا دراصل غریبوں کی محبت و تعاون، سیکولرازم کی طاقت اور پارٹی کے غیر متزلزل عزم کا نتیجہ ہے۔'' دشمنوں (کانگریس اور بی جے پی) نے کہا تھا کہ وزارتِ اعلیٰ کی شہ نشین کرسی سے گر کر وہ اب کبھی وزیراعلیٰ نہیں بن سکیں گے لیکن کجریوال نے بد خواہوں کے منہ بند کردیے۔ یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ ان کا ریاستی انتخابات میں شاندار کامیابی سے ہمکنار ہونا دراصل سیکولرازم کی فتح ہے۔اروند کجریوال اور ان کے ساتھیوں نے پوری انتخابی مہم میں کسی بھی مذہب کا نام لینا ممنوع قرار دیے رکھا۔
ان کا منشور ہی تھا کہ ہندو مت، اسلام اور سکھ ازم کے نام پر ووٹ ہر گز ہر گز نہیں مانگیں جائیں گے کہ یہ عمل فرقہ واریت کو فروغ دینے کا باعث بنتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں جب جب مذہب کو اقتدار کے لیے سیاست میں شامل کیا گیا، نتائج خوش کن برآمد نہیں ہوئے۔ نریندر مودی نے مذہب کی بنیاد پر انتخابی کامیابی حاصل کرکے اقتدار تو حاصل کرلیا ہے لیکن اس کے نتائج نہایت بھیانک سامنے آرہے ہیں۔ آیندہ بھی یہ اسلوبِ سیاست بھارت کے لیے مہلک ہی ثابت ہوتا رہے گا۔
اروند کجریوال نے مودی کے برعکس خالصتاً سیکولرازم کا راستہ اختیار کیا۔ ان سے سب خوش ہیں۔ مسلمان بھی، ہندو اور سکھ بھی۔ سب نے انھیں اپنی محبتوں سے نوازا ہے۔ دہلی میں، ایک اندازے کے مطابق، بارہ فیصد مسلمان رہتے ہیں۔ زوال اور دباؤ کے باوجود دہلی میں مسلمانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ کانگریس کی رکن بھی رہیں اور انھوں نے نہرو اور گاندھی جی کے ساتھ مل کر آزادی کی تحریک میں زبردست کردار ادا کیا تھا۔ بھارت سرکار نے انھیں ''پدم بھوشن'' اور ''بھارت رتن'' ایسے اعلیٰ ترین ایوارڈز سے بھی نوازا اور ان کے نام کا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ انتخابی پہلو کو سامنے رکھا جائے تو دہلی میں مسلمانوں کابہت بڑا ووٹ بینک ہے۔ اروند کجریوال کو بعض لوگوں نے مشورہ دیا تھا کہ وہ مسلمانوں سے براہ راست مذاکرات کریں اور ان کے بعض مفادات کا تحفظ کرنے کا وعدہ کرکے ووٹ مانگیں، جیسا کہ ماضی میں کانگریس یہ ڈھونگ رچاتی رہی ہے، لیکن اروند کجریوال نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے امام احمد بخاری کی پیشکش کو بھی مسترد کردیا۔
سات فروری 2015 کے ریاستی انتخابات کے انعقاد سے دو روز قبل دہلی کی شاہی جامعہ مسجد کے امام و خطیب سید احمد بخاری نے دلّی کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ کجریوال صاحب کی جماعت ''عام آدمی پارٹی'' کو ووٹ دیں مگر اروند کجریوال نے فوری طور پر یہ پیشکش ٹھکرا دی اور کہا: ''یہ فرقہ واریت ہے۔ ہمیں مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں چاہئیں۔'' احمد بخاری صاحب ماضی میں کانگریس کے شو بوائے رہے ہیں اور وہ ہمیشہ دہلی کے مسلمانوں سے اپیل کرتے رہے ہیں کہ وہ کانگریس کو ووٹ دیں۔
اب ہوا کا رخ بدلا تو احمد بخاری صاحب نے بھی سیاسی قبلہ بدل ڈالا۔ انھی حرکات کے سبب وہ اپنا اعتبار اور وقار کھو چکے ہیں۔ چنانچہ ان کے سگے بھائی جناب یحییٰ بخاری بھی ان کے مخالف ہوچکے ہیں۔ ''آل انڈیا سُنی علماء مسلم فیڈریشن'' کے مرکزی رہنما مولانا غلام قادر اور ''آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین'' کے صدر اسد الدین اویسی کی طرف سے بھی احمد بخاری پر سخت حملے ہورہے ہیں۔
اس بار، سات فروری 2015 کو دہلی اسمبلی کے انتخابات میں پانچ مسلمان امیدواروں کو AAP کی طرف سے ٹکٹ دیے گئے۔ ان میں چار کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔ امان اللہ اوکھلا سے لڑے اور انھوں نے 64532ووٹ لے کر بی جے پی کے بہرام سنگھ کو شکست دی۔ حاجی اشراق، جنھیں پیار سے ''بھورے بھائی'' کہا جاتا ہے، نے مشرقی دہلی میں الیکشن لڑا اور 27887ووٹوں کی اکثریت سے اپنے حریف اور بی جے پی کے امیدوار سنجے جین کو ہرادیا۔ عاصم احمد خان نے موتی محل علاقے سے حصہ لیا اور کانگریس کے امیدوار شعیب اقبال کو 26096ووٹوں کے فرق سے چِت کردیا۔ بلی ماراں کے علاقے سے عمران حسین کھڑے تھے اور انھوں نے بی جے پی کے امیدوار اشام لال کو 33877ووٹوں کی اکثریت سے شکست دی ہے۔
''عام آدمی پارٹی'' کے ان چاروں مسلمان امیدواروں (امان اللہ، حاجی اشراق، عاصم احمد خان اور عمران حسین) کی شاندار فتح کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ دہلی کے مسلمانوں نے اس بار یک جہت ہو کر ووٹنگ کا فریضہ ادا کیا ہے۔ ان کی امیدوں اور آدرشوں کا مرکز مسلمان ہی نہیں، اروند کجریوال کی پارٹی کے ہندو امیدوار بھی تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ اروند کجریوال کے سیکولرسٹ کردار سے بھارتی، خصوصاً دہلی کے مسلمانوں کے دلوں میں نئے سرے سے روشنی اور آس کے اَن گنت چراغ جَل اٹھے ہیں۔
ماضی میں کانگریس کے سیکولرازم نے تو بھارتی مسلمانوں سے صریح فریب ہی کیا ہے اور حال میں بی جے پی کی بنیاد پرستی نے انھیں خوف اور ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اروند کجریوال کا غیر مذہبی ہونا بھارتی مسلمانوں کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ خدا کرے وہ امام احمد بخاری ایسے لوگوں کی دست برد سے محفوظ رہیں۔ یہ سیکولرازم کی فتح ہے کہ اروند کجریوال نے وزیراعلیٰ بن کر گزشتہ روز اپنی کابینہ تشکیل دی تو اس میں ایک مسلمان کو بھی وزارت کا قلمدان سونپا ہے۔