غیرت کے قانون اور عورت
غیرت کے نام پر قتل پاکستان، انڈیا اور بہت سے اسلامی ممالک میں عام سی بات ہے۔
غیر اخلاقی عمل کی بات کی جائے تو فوراََ ہمارے اذہان میں اختلافی صنف کے یعنی مرد اور عورت کے حوالے سے ایسی سرگرمیاں آتی ہیں جن کو ہمارے رسم و رواج اور روایات کی ساختوں میں ناقابلِ معافی جرم کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے، مگر یہاں غیراخلاقی عمل سے میری مراد وہ فعل ہیں جو صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر کے سماجوں میں ہوتے رہے ہیں اور ان سب میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ یہ فعل، غیر اخلاقی روایات، رسم و رواج، عزت اور غیرت کی بنیاد پر کیے جاتے رہے ہیں، پاکستان اور ہندوستان میں اب بھی جاری ہیں۔
خاندانی شناخت کا تصور، برادری کا تصور، رنگ و نسل کا تصور ہمیں دوسروں کے حوالے سے احساسِ برتری یا کمتری کا شکار کر سکتا ہے، ہمارے لیے فخر یا شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ساختوں پر مبنی اذہان والے افراد دنیا کے کسی بھی سماج میں جائیں گے تو ان کے ذہن میں سوچ کی مخصوص ساخت سماج کی مختلف ساخت سے باہم آمیز ہونے کی بجائے نہ چاہتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں آویزش کا باعث یا مختلف سماج میں حیرت زدہ کر دینے والی سرگرمی کا باعث بنے گی۔
غیرت کے نام پر قتل پاکستان، انڈیا اور بہت سے اسلامی ممالک میں عام سی بات ہے۔ نجانے کیوں خاندان کی غیرت کو خطرہ ہمیشہ سے عورت ہی سے رہا ہے جہاں عورت کی فلاح و بہبود کی بات ہو خاندان کی غیرت اور نازک عزت خطرے میں آ جاتی ہے اور خاندان کی عزت بچانے کے لیے عورت کا قتل کر دیا جاتا ہے ۔ عزت اور غیرت کے نام پر اس ظلم و جبر کو اکثر معاشروں میں مذہبی و سماجی روایات کی پشت پناہی ہوتی ہے اور ایسے قتل کے کیس کو رعایتی کھاتے میں رکھ کر کم سے کم سزا سنائی جاتی ہے۔ کیونکہ غیرت اچانک جاگ جاتی ہے تو ایسے قتل کی سزا اتنی سخت نہیں ملتی جتنی دوسرے قتل کی ملتی ہے جس کی منصوبہ سازی کے شواہد عدالت میں ثابت ہو جائیں، حالانکہ غیرت کے نام پر اچانک کیے جانے والے قتل بھی پورے ارادے کا نتیجہ ہوتے ہیں جو کسی عورت کے گھر والوں نے خود کو عدالتی سطح پر قانون سے بچانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ سازی کر کے کیے ہوتے ہیں۔
ایسے قتل کی وجہ زمین جائیداد کا حصول بھی ہوتی ہے اور بعض واقعات میں جب مردوں کے گھر سے باہر لڑائی جھگڑوں کے نتیجے میں ان کے ہاتھوں قتل ہو جانے والے مخالف پارٹی کے مرد بھی ہوتے ہیں، جن کے ساتھ مقدمہ برابر کرنے کے لیے یا خود کو بچانے کے لے اپنے ہی گھر کی کسی عورت اور بعض زمیندار گھرانوں میں ملازموں میں سے کسی کو خود قتل کر دیا جاتا ہے، تا کہ غیرت کے نام پر دی جانے والی قانونی پشت پناہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو بچا سکیں۔ غیرت کے نام پر درج مقدمات میں مدعی اکثر باپ خود ہوتا ہے یا گھر ہی کا کوئی فرد جو کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اپنی بیٹی یا بہن کے قاتل باپ یا بھائی کو معاف کر کے کیس ہی خارج کرا دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ غیر اخلاقی فعل پاکستان کے اکثر علاقوں میں ہوتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملنے والی رعایتی سزا نے مجرمانہ اذہان کو یہ راہ دکھائی ہے کہ وہ اگر گھر سے باہر قتل کریں تو اس کی سزا سے بچنے کا آسان ذریعہ ان کے گھر کے اندر موجود معصوم عورت کی موت بن سکتی ہے۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ مردو ں کی غیرت بیٹوں یا بھائیوں کے کسی ایسے فعل پر کیوں نہیں جاگتی یا ہرٹ ہوتی؟ اس سوال کے جواب بھی دو ہیں اور عورت کے غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی وجوہات بھی دو ہی ہیں۔ ایک بنیادی اور مادی وجہ عورت کے جسم کی وہ ساخت ہے جو صدیوں کی سماجی عملی سرگرمیوں کے نتیجے میں کسی مضبوطی میں نہیں ڈھل پاتی۔ دوسری وجہ اس کی جذباتی کمزوری ہوتی ہے، کیونکہ جذبات اور احساسات کے حوالے سے اپنے بہن بھائیوں، والدین اور اپنے گھر سے جس میں وہ زیادہ وقت اپنی عمر کا گزارتی ہے، ایک مضبوط رشتہ رکھتی ہے۔ احساسات و جذبات کی اپنے خاندان سے وابستہ یہ مضبوطی ہی در حقیقت عورت کی کمزوری ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب غیرت کے نام پر اس کو غیر اخلاقی سطح پر قتل کرنے کے لیے اس کے اپنے ہی بھائی یا باپ کا ہاتھ اُٹھتا ہے وہ اسے ایک تو جسمانی سطح پر کمزور ہونے کی وجہ سے بھی روک نہیں سکتی، مگر یہ بھی ایک دردمندانہ حقیقت ہے کہ بیٹیاں اور بہنیں اگر روکنے کی طاقت رکھتی بھی ہوں، تو بھی اپنے باپ، بھائی یا شوہر کے لیے موجود پیار، احساسات اور جذبات کی ہتھکڑیاں جوان کے دستِ دل میں پڑی ہوتی ہیں ان کے کھلے ہاتھوں کو احساسات کی زنجیر سے باندھے رکھتی ہیں۔ جب کہ ایسا ہی غیر اخلاقی فعل مرد اپنے بھائی، بیٹے یا داماد سے نہیں کریں گئے، کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ایک تو وہ جسمانی طاقت میں ان کے مساوی ہے تو دوسرا اس کے احساسات و جذبات بھی انھی کی طرح بے رحم اور جھگڑ الو ہوتے ہیں۔ اسی لیے لڑکے غیرت اور عزت کی بھینٹ نہیں چڑھائے جاتے۔
جب کہ کوئی لڑکی کسی بھی سطح پر اپنی مرضی سے کوئی بندھن باندھتی ہے یا بیچاری کچھ بھی نہیں کرتی تو بھی سب سے پہلے اس کے انسانی اور شرعی حق کو استعمال کرنے کی شرح منفی انداز میں اس طور کی جاتی ہے کہ ساری ذلت اور نفرت عورت کے لیے لوگوں اور اس کے رشتوں میں پیدا ہوتی ہے جب کہ اس عمل میں شریک اس کا ساتھی لڑکا اگر نشانہ بنتا ہے تو صرف لڑکی کے غیرت گزیدہ گھرانے کے ہاتھوں بنتا ہے، کبھی یہ نہیں ہوا کہ لڑکے کے کسی لڑکی کو ورغلانے یا اپنی مرضی سے شادی کر لینے کے عمل پر اس کے خاندان والوں کو کوئی شرمندگی ہوئی ہو، دوسری طرف لڑکی کے گھر والے اگر معاف کرنے کا ارادہ رکھتے بھی ہو تو محلے اور سماج کی اخلاقی پولیس اور عزت کے ٹھیکدار ان کا جینا اس قدر حرام کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی انسانیت کو سلا کر اندر کے غیرت مند جانور کو جگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ غیرت مند جانور ہمیشہ بیٹی کو قتل کرتا ہے مگر وہی کام اگر لڑکے نے کیا ہو تو نہ تو ان کی انسانیت مرتی ہے اور نہ ہی اندر کا غیرت مند جانور جاگتا ہے۔ کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ کسی نے اپنے بیٹے کو اس لیے قتل کیا ہو کہ اس نے ان کی عزت اور غیرت کا جنازہ نکال دیا کسی کی لڑکی سے اپنی پسند کی شادی کر کے ۔۔ غیرت کے نام پر صرف عورت اس لیے قتل ہوتی ہے کہ اسے قتل کر دینا اور پھر اس کے بعد قانون سے بچ جانا مردوں کے لیے آسان ہے۔ مرد اس لیے غیرت کے نام پر قتل نہیں ہوتے کہ واپس اسی طاقت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
بات بات پر مذہب کے نام پر شور مچانے والوں سے سوال ہے کہ کیا دینی احکامات کی ان کے نزدیک اس وقت کوئی حیثیت نہیں رہتی جب یہ اپنے مذہبی احکامات کے خلاف اپنی بیٹی کو صرف اس لیے قتل کرتے ہیں، کہ وہ ان کے بنائے ہوئے سماجی، عزت اور خاندانی شناخت کے غیرت کے قوانین کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بجائے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے میں اپنے مذہبی و شرعی حق کو استعمال کرتی ہے۔ تو آخری فیصلہ ہمارے سماج میں ، خاندانی غیرت اور عزت کے نام پر بنائے گئے ان مفروضوں اور معیارات کا ہوتا ہے یا مذہبی احکامات کا؟ ایسے ظالمانہ اقدامات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے قانون ساز ادارے اس رعایت کا خاتمہ کریں جو بے گناہ بچیوں کی زندگیوں کے خاتمے کا سبب بنتی ہے اور مجرمانہ اذہان کو بآسانی ان کے قتل پر آمادہ کرتی ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے سماج میں خواتین کے حوالے سے اخلاقی انقلاب کی ضرورت اس لیے ہے کہ یہ سوچ کے زاویے اور احساسات کے ان دھاروں کا رخ موڑ سکے جو غیرت کے نام پر بہائے جانے والے خون کو غیر اخلاقی دریا میں بہا دینا معمول کی سرگرمی شمار کرتے ہیں اور یہ اسی صورت ہو گا جب ہم اپنی تمام قسم کی خیالیات کو معروضی حقیقت میں سماج کے اندر عملی سطح پر پرکھیں گے یا ان میں پائے جانے والے تضادات کو نمایاں کر کے ان کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر غور کر کے عملی اقدامات کو ممکن بنائیں گے۔
خاندانی شناخت کا تصور، برادری کا تصور، رنگ و نسل کا تصور ہمیں دوسروں کے حوالے سے احساسِ برتری یا کمتری کا شکار کر سکتا ہے، ہمارے لیے فخر یا شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ساختوں پر مبنی اذہان والے افراد دنیا کے کسی بھی سماج میں جائیں گے تو ان کے ذہن میں سوچ کی مخصوص ساخت سماج کی مختلف ساخت سے باہم آمیز ہونے کی بجائے نہ چاہتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں آویزش کا باعث یا مختلف سماج میں حیرت زدہ کر دینے والی سرگرمی کا باعث بنے گی۔
غیرت کے نام پر قتل پاکستان، انڈیا اور بہت سے اسلامی ممالک میں عام سی بات ہے۔ نجانے کیوں خاندان کی غیرت کو خطرہ ہمیشہ سے عورت ہی سے رہا ہے جہاں عورت کی فلاح و بہبود کی بات ہو خاندان کی غیرت اور نازک عزت خطرے میں آ جاتی ہے اور خاندان کی عزت بچانے کے لیے عورت کا قتل کر دیا جاتا ہے ۔ عزت اور غیرت کے نام پر اس ظلم و جبر کو اکثر معاشروں میں مذہبی و سماجی روایات کی پشت پناہی ہوتی ہے اور ایسے قتل کے کیس کو رعایتی کھاتے میں رکھ کر کم سے کم سزا سنائی جاتی ہے۔ کیونکہ غیرت اچانک جاگ جاتی ہے تو ایسے قتل کی سزا اتنی سخت نہیں ملتی جتنی دوسرے قتل کی ملتی ہے جس کی منصوبہ سازی کے شواہد عدالت میں ثابت ہو جائیں، حالانکہ غیرت کے نام پر اچانک کیے جانے والے قتل بھی پورے ارادے کا نتیجہ ہوتے ہیں جو کسی عورت کے گھر والوں نے خود کو عدالتی سطح پر قانون سے بچانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ سازی کر کے کیے ہوتے ہیں۔
ایسے قتل کی وجہ زمین جائیداد کا حصول بھی ہوتی ہے اور بعض واقعات میں جب مردوں کے گھر سے باہر لڑائی جھگڑوں کے نتیجے میں ان کے ہاتھوں قتل ہو جانے والے مخالف پارٹی کے مرد بھی ہوتے ہیں، جن کے ساتھ مقدمہ برابر کرنے کے لیے یا خود کو بچانے کے لے اپنے ہی گھر کی کسی عورت اور بعض زمیندار گھرانوں میں ملازموں میں سے کسی کو خود قتل کر دیا جاتا ہے، تا کہ غیرت کے نام پر دی جانے والی قانونی پشت پناہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو بچا سکیں۔ غیرت کے نام پر درج مقدمات میں مدعی اکثر باپ خود ہوتا ہے یا گھر ہی کا کوئی فرد جو کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اپنی بیٹی یا بہن کے قاتل باپ یا بھائی کو معاف کر کے کیس ہی خارج کرا دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ غیر اخلاقی فعل پاکستان کے اکثر علاقوں میں ہوتا رہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملنے والی رعایتی سزا نے مجرمانہ اذہان کو یہ راہ دکھائی ہے کہ وہ اگر گھر سے باہر قتل کریں تو اس کی سزا سے بچنے کا آسان ذریعہ ان کے گھر کے اندر موجود معصوم عورت کی موت بن سکتی ہے۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ مردو ں کی غیرت بیٹوں یا بھائیوں کے کسی ایسے فعل پر کیوں نہیں جاگتی یا ہرٹ ہوتی؟ اس سوال کے جواب بھی دو ہیں اور عورت کے غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کی وجوہات بھی دو ہی ہیں۔ ایک بنیادی اور مادی وجہ عورت کے جسم کی وہ ساخت ہے جو صدیوں کی سماجی عملی سرگرمیوں کے نتیجے میں کسی مضبوطی میں نہیں ڈھل پاتی۔ دوسری وجہ اس کی جذباتی کمزوری ہوتی ہے، کیونکہ جذبات اور احساسات کے حوالے سے اپنے بہن بھائیوں، والدین اور اپنے گھر سے جس میں وہ زیادہ وقت اپنی عمر کا گزارتی ہے، ایک مضبوط رشتہ رکھتی ہے۔ احساسات و جذبات کی اپنے خاندان سے وابستہ یہ مضبوطی ہی در حقیقت عورت کی کمزوری ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب غیرت کے نام پر اس کو غیر اخلاقی سطح پر قتل کرنے کے لیے اس کے اپنے ہی بھائی یا باپ کا ہاتھ اُٹھتا ہے وہ اسے ایک تو جسمانی سطح پر کمزور ہونے کی وجہ سے بھی روک نہیں سکتی، مگر یہ بھی ایک دردمندانہ حقیقت ہے کہ بیٹیاں اور بہنیں اگر روکنے کی طاقت رکھتی بھی ہوں، تو بھی اپنے باپ، بھائی یا شوہر کے لیے موجود پیار، احساسات اور جذبات کی ہتھکڑیاں جوان کے دستِ دل میں پڑی ہوتی ہیں ان کے کھلے ہاتھوں کو احساسات کی زنجیر سے باندھے رکھتی ہیں۔ جب کہ ایسا ہی غیر اخلاقی فعل مرد اپنے بھائی، بیٹے یا داماد سے نہیں کریں گئے، کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ایک تو وہ جسمانی طاقت میں ان کے مساوی ہے تو دوسرا اس کے احساسات و جذبات بھی انھی کی طرح بے رحم اور جھگڑ الو ہوتے ہیں۔ اسی لیے لڑکے غیرت اور عزت کی بھینٹ نہیں چڑھائے جاتے۔
جب کہ کوئی لڑکی کسی بھی سطح پر اپنی مرضی سے کوئی بندھن باندھتی ہے یا بیچاری کچھ بھی نہیں کرتی تو بھی سب سے پہلے اس کے انسانی اور شرعی حق کو استعمال کرنے کی شرح منفی انداز میں اس طور کی جاتی ہے کہ ساری ذلت اور نفرت عورت کے لیے لوگوں اور اس کے رشتوں میں پیدا ہوتی ہے جب کہ اس عمل میں شریک اس کا ساتھی لڑکا اگر نشانہ بنتا ہے تو صرف لڑکی کے غیرت گزیدہ گھرانے کے ہاتھوں بنتا ہے، کبھی یہ نہیں ہوا کہ لڑکے کے کسی لڑکی کو ورغلانے یا اپنی مرضی سے شادی کر لینے کے عمل پر اس کے خاندان والوں کو کوئی شرمندگی ہوئی ہو، دوسری طرف لڑکی کے گھر والے اگر معاف کرنے کا ارادہ رکھتے بھی ہو تو محلے اور سماج کی اخلاقی پولیس اور عزت کے ٹھیکدار ان کا جینا اس قدر حرام کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی انسانیت کو سلا کر اندر کے غیرت مند جانور کو جگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ غیرت مند جانور ہمیشہ بیٹی کو قتل کرتا ہے مگر وہی کام اگر لڑکے نے کیا ہو تو نہ تو ان کی انسانیت مرتی ہے اور نہ ہی اندر کا غیرت مند جانور جاگتا ہے۔ کبھی یہ نہیں سنا گیا کہ کسی نے اپنے بیٹے کو اس لیے قتل کیا ہو کہ اس نے ان کی عزت اور غیرت کا جنازہ نکال دیا کسی کی لڑکی سے اپنی پسند کی شادی کر کے ۔۔ غیرت کے نام پر صرف عورت اس لیے قتل ہوتی ہے کہ اسے قتل کر دینا اور پھر اس کے بعد قانون سے بچ جانا مردوں کے لیے آسان ہے۔ مرد اس لیے غیرت کے نام پر قتل نہیں ہوتے کہ واپس اسی طاقت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
بات بات پر مذہب کے نام پر شور مچانے والوں سے سوال ہے کہ کیا دینی احکامات کی ان کے نزدیک اس وقت کوئی حیثیت نہیں رہتی جب یہ اپنے مذہبی احکامات کے خلاف اپنی بیٹی کو صرف اس لیے قتل کرتے ہیں، کہ وہ ان کے بنائے ہوئے سماجی، عزت اور خاندانی شناخت کے غیرت کے قوانین کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بجائے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے میں اپنے مذہبی و شرعی حق کو استعمال کرتی ہے۔ تو آخری فیصلہ ہمارے سماج میں ، خاندانی غیرت اور عزت کے نام پر بنائے گئے ان مفروضوں اور معیارات کا ہوتا ہے یا مذہبی احکامات کا؟ ایسے ظالمانہ اقدامات کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے قانون ساز ادارے اس رعایت کا خاتمہ کریں جو بے گناہ بچیوں کی زندگیوں کے خاتمے کا سبب بنتی ہے اور مجرمانہ اذہان کو بآسانی ان کے قتل پر آمادہ کرتی ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے سماج میں خواتین کے حوالے سے اخلاقی انقلاب کی ضرورت اس لیے ہے کہ یہ سوچ کے زاویے اور احساسات کے ان دھاروں کا رخ موڑ سکے جو غیرت کے نام پر بہائے جانے والے خون کو غیر اخلاقی دریا میں بہا دینا معمول کی سرگرمی شمار کرتے ہیں اور یہ اسی صورت ہو گا جب ہم اپنی تمام قسم کی خیالیات کو معروضی حقیقت میں سماج کے اندر عملی سطح پر پرکھیں گے یا ان میں پائے جانے والے تضادات کو نمایاں کر کے ان کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر غور کر کے عملی اقدامات کو ممکن بنائیں گے۔