طالب علموں تک خود پہنچنے والے ’تیرتے اسکول‘
بنگلا دیش میں تیرتی کشتیوں پر قائم اسکول طالبعلموں کو تعلیم کے ساتھ کلینک اور لائبریریوں کی سہولیات بھی موجود ہیں۔
کیا آپ نے ایسا اسکول دیکھا ہے جو ہر طالب علم کے گھر جائے اور تمام طالب علموں کو لے کر آنے کے بعد ایک جگہ ٹھہر کر پڑھائی شروع کرے جی ہاں یہ بالکل سچ ہے کیوں کہ بنگلا دیش میں تیرتی کشتیوں پر قائم اسکول نہ صرف طالب علموں کو تعلیم فراہم کررہے ہیں بلکہ ان پر کلینک اور لائبریریوں کی سہولیات بھی موجود ہیں۔
بنگلا دیش میں ہر سال مون سون بارشوں سے اس کے سیکڑوں چھوٹے بڑے دریا پانی سے بھر جاتے ہیں اور سیلاب کا پانی ایک عرصے تک موجود رہتا ہے، اس سے زندگی کے روزمرہ کے کام تو متاثر ہوتے ہیں لیکن ہزاروں بچوں کی تعلیم کئی ماہ تک معطل ہوکر رہ جاتی ہے۔
بنگلادیش کی غیرسرکاری تنظیم شدولائی سوانائیورسنگھشت نے کشتی اسکولوں کا ایک بیڑہ تیار کیا ہے اوران میں سے ہر کشتی دریا کنارے رہنے والے طالب علموں کے گاؤں سے گزرتی ہوئی بچوں کواس میں بٹھاتی ہے اور آخری طالب علم کو لے کر ایک جگہ رک جاتی ہے اور پھر کسی عام اسکول کی طرح کشتی اسکول میں پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، خاص طور پر ڈیزائن کردہ ان تیرتے اسکولوں کی چھتوں پر سولر سیلز نصب ہیں اور اس طرح روشنی ہونے سے شام دیر تک بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
کشتی میں کلینک، لائبریری اور سولر ورکشاپس کی سہولیات بھی ہیں جس کے باعث ان کشتیوں پر طالب علموں کو کمپیوٹرکلاسیں بھی فراہم کی جارہی ہیں جن کے لیے سولر پینلز سے بجلی فراہم کی جاتی ہے، ان کشتیوں پر رضاکار ٹیچرز، ڈاکٹر اور طبی عملہ موجود رہتا ہے۔ کشتی اسکول میں کلاس روم کے علاوہ وائرلیس انٹرنیٹ، لیپ ٹاپ اور ایک چھوٹی لائبریری بھی موجود ہوتی ہے۔
فی الحال اس تنظیم کے پاس 54 کشتیاں ہیں جن میں تیرتے ہوئے ٹریننگ سینٹر بھی شامل ہیں اور وائرلیس انٹرنیٹ تک کی سہولیات بھی موجود ہیں۔ اب تک ان سہولیات سے 97,000 طالب علم اور عام شہری فائدہ اٹھارہے ہیں جب کہ ساتھ ہی ان کشتیوں پر عوام کو موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلاب کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔
ان انوکھے اسکولوں کو بنانے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ دریا اور پانی تعلیم میں رکاوٹ نہیں بلکہ یہ تو انفارمیشن ، علم اور ٹیکنالوجی کے راستے ہیں، اس پروگرام کی افادیت کے بعد اب نائیجیریا، کمبوڈیا، فلپائن، ویت نام اور زیمبیا نے بھی ایسے کشتی اسکول تیار کیے ہیں۔
پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کا شور ہے اور کہا جارہا ہے کہ اگلے چند عشروں میں مالدیپ اور بنگلا دیش اس سے شدید متاثر ہوں گے، بنگلا دیش میں سالانہ سیلابوں سے پانی زمین کو نگل لیتا ہے اور مہینوں تک زمین دکھائی نہیں دیتی، ہرسال مون سون کی بارشیں اور سیلاب سے کئی ہفتوں تک گویا زندگی تھم کر رہ جاتی، رپورٹس کے مطابق پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلیوں ( کلائمٹ چینج) سے متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے۔
ان منصوبوں پر کام کرنے والی اس غیر سرکاری تنظیم شدولائی سوانائیورسنگھشت کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس کی خدمات کے اعتراف پر ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
بنگلا دیش میں ہر سال مون سون بارشوں سے اس کے سیکڑوں چھوٹے بڑے دریا پانی سے بھر جاتے ہیں اور سیلاب کا پانی ایک عرصے تک موجود رہتا ہے، اس سے زندگی کے روزمرہ کے کام تو متاثر ہوتے ہیں لیکن ہزاروں بچوں کی تعلیم کئی ماہ تک معطل ہوکر رہ جاتی ہے۔
بنگلادیش کی غیرسرکاری تنظیم شدولائی سوانائیورسنگھشت نے کشتی اسکولوں کا ایک بیڑہ تیار کیا ہے اوران میں سے ہر کشتی دریا کنارے رہنے والے طالب علموں کے گاؤں سے گزرتی ہوئی بچوں کواس میں بٹھاتی ہے اور آخری طالب علم کو لے کر ایک جگہ رک جاتی ہے اور پھر کسی عام اسکول کی طرح کشتی اسکول میں پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، خاص طور پر ڈیزائن کردہ ان تیرتے اسکولوں کی چھتوں پر سولر سیلز نصب ہیں اور اس طرح روشنی ہونے سے شام دیر تک بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
کشتی میں کلینک، لائبریری اور سولر ورکشاپس کی سہولیات بھی ہیں جس کے باعث ان کشتیوں پر طالب علموں کو کمپیوٹرکلاسیں بھی فراہم کی جارہی ہیں جن کے لیے سولر پینلز سے بجلی فراہم کی جاتی ہے، ان کشتیوں پر رضاکار ٹیچرز، ڈاکٹر اور طبی عملہ موجود رہتا ہے۔ کشتی اسکول میں کلاس روم کے علاوہ وائرلیس انٹرنیٹ، لیپ ٹاپ اور ایک چھوٹی لائبریری بھی موجود ہوتی ہے۔
فی الحال اس تنظیم کے پاس 54 کشتیاں ہیں جن میں تیرتے ہوئے ٹریننگ سینٹر بھی شامل ہیں اور وائرلیس انٹرنیٹ تک کی سہولیات بھی موجود ہیں۔ اب تک ان سہولیات سے 97,000 طالب علم اور عام شہری فائدہ اٹھارہے ہیں جب کہ ساتھ ہی ان کشتیوں پر عوام کو موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلاب کے نقصانات سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔
ان انوکھے اسکولوں کو بنانے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ دریا اور پانی تعلیم میں رکاوٹ نہیں بلکہ یہ تو انفارمیشن ، علم اور ٹیکنالوجی کے راستے ہیں، اس پروگرام کی افادیت کے بعد اب نائیجیریا، کمبوڈیا، فلپائن، ویت نام اور زیمبیا نے بھی ایسے کشتی اسکول تیار کیے ہیں۔
پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کا شور ہے اور کہا جارہا ہے کہ اگلے چند عشروں میں مالدیپ اور بنگلا دیش اس سے شدید متاثر ہوں گے، بنگلا دیش میں سالانہ سیلابوں سے پانی زمین کو نگل لیتا ہے اور مہینوں تک زمین دکھائی نہیں دیتی، ہرسال مون سون کی بارشیں اور سیلاب سے کئی ہفتوں تک گویا زندگی تھم کر رہ جاتی، رپورٹس کے مطابق پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلیوں ( کلائمٹ چینج) سے متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے۔
ان منصوبوں پر کام کرنے والی اس غیر سرکاری تنظیم شدولائی سوانائیورسنگھشت کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے اس کی خدمات کے اعتراف پر ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔