دہشت گردوں کے عزائم
ہمارے ملک میں وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا رہتا ہے کہ جس پر زبردست مباحثے ہوتے رہتے ہیں
ایک چوہا میکدے میں خونخوار بِلی سے بچنے کی خاطر دیوانہ وار دوڑ رہا تھا کہ اچانک ایک ایسے پیالے میں جا گرا جو شراب سے بھرا ہوا تھا، چوہے نے ڈبکیاں لگانے کے ساتھ چار پانچ گھونٹ بھی پی لیے، پھر پیالے کے کنارے پر چڑھ کر اِدھر اْدھر دیکھا، ایک ہچکی لی اور بہ آوازِ بلند چیخا ''اری او ڈرپوک بِلی! کہاں چھپ گئی، ہمت ہے تو سامنے آ'' یہ تو تھا شراب کا نشہ، نشہ صرف شراب ہی کا نہیں ہوتا بلکہ نشہ اقتدار، طاقت، دولت، حرص، ہوس، رعونت اور شہرت کا بھی ہوتا ہے۔ نشہ کسی بھی چیزکا ہو اندھا بنا دیتا ہے، نشے کو انسان کے لیے اسی لیے ممنوع قرار دیا گیا ہے کہ یہ عقل کو ماؤف کر دیتا ہے، یہ اچھے برے، غلط صحیح، حرام حلال کی تمیز کو مٹا دیتا ہے۔
ہمارے ملک میں وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا رہتا ہے کہ جس پر زبردست مباحثے ہوتے رہتے ہیں، ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہوتا ہے، ٹی وی چینلز کو تو کوئی ایشو چاہیے، باقی دہی کی لسی بنانے میں ان کے اینکرز پہلے ہی بہت مہارت رکھتے ہیں، اخبارات کے کالم بھی قصے کہانیوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں یا پھر ملک میں ہونے والے سارے بحث مباحثوں کا نچوڑ۔ پھر عوام کو بھی اظہار رائے کا کوئی حق حاصل ہے، سب قصے کہانیاں اور خبریں تبصرے پڑھ سن کر یہ بھی چورن چٹنی بنانے کے ماہر ہو چکے ہیں۔
دو ماہ قبل پشاور میں ایک سانحہ پیش آیا جس کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ نے ایک نئی صورت اختیار کی، اسکول کے معصوم بچوں کے ساتھ تو جو ہونا تھا سو ہوا، ان کے والدین، بہن بھائیوں اور رشتے داروں پر جو گزرنی تھی گزر گئی، 'سیاست کاروں ' نے موقعے سے جو فائدہ اٹھانا تھا اٹھا لیا، جسے 'سیاہ ست' چمکانی تھی چمکا لی، اقتدار کے نشے میں دھت رہنماؤں نے من کی جو بھڑاس نکالنی تھی نکال لی، جن انتہا پسند قوتوں نے اس سانحے کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنا تھا، وہ بھی ان کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہو گئے، مذہبی رجحانات، مذہبی تعلیمات، مذہبی بنیاد پرستی کو خوف کی علامت بنانے والوں نے اس سانحے کے ذریعے تعلیم کو بھی دہشت زدہ بنانے کا عمل شروع کر دیا۔
ملالہ یوسف زئی پر حملے سے لے کر سانحہ پشاور تک (بارہ اکتوبر 2012ء تا سولہ دسمبر 2014ء) تقریباً دو سال، دو مہینے کے دوران ایک علم دوست معصوم بچی جسے شہید کرانے کے لیے ملا فضل اللہ نے دس دہشت گردوں کی ڈیوٹی لگائی تھی، مگر 'کمال قدرت' کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے تھے اور وہ معصوم بچی اس گروہ کو شکست دے کر 'اسی کمال قدرت' سے ساری دنیا کے لیے رول ماڈل بن گئی اور نوبل انعام کی حقدار قرار پائی اور اب اس کی تحریک بین الاقوامی درجہ اختیار کر چکی ہے، یہاں تک کہ حالیہ دنوں ایک بین الاقوامی جریدے نے ملالہ کو انجلینا جولی کے بعد مشہور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ یہ سارا کریڈٹ مولوی فضل اللہ کو ہی جاتا ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد خود کو غیر محفوظ سمجھنے والے پاکستانی طالب علم بچے اور بچیاں ملالہ یوسفزئی کو ہی اپنا مسیحا اور نجات دہندہ سمجھنے لگے ہیں۔ وہ ملالہ کو پاکستان کی وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔
جب کہ ملالہ خود بھی پاکستان کی وزیر اعظم بن کر ملک کی صحیح معنوں میں خدمت کرنے کی خواہش کا اظہار پہلے ہی کر چکی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ ہمارے ملک کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو بھی ایک موقعے پر ملالہ یوسفزئی کو وزیراعظم پاکستان دیکھنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ بات کہیں اور چل نکلی، بالکل اسی طرح جس طرح امریکا میں نائن الیون کے واقعے کے بعد 'دہشت گردی' نے پاکستان کا رخ کیا اور پھر 'بنیاد پرستی' اور 'انتہا پسندی' کے مراحل طے کرتے ہوئے عراق، لیبیا اور دیگر اسلامی ممالک تک اپنے پر پھیلائے، اور امریکا کو وہاں قدم جمانے کا موقع دیا۔
کیوں نہ قربان جائیے ایسی 'اسلامی تحریکوں' پر جنہوں نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کو ہی نیست و نابود کرنے کا عزم کیا ہوا ہے، مقاصد بھی انھی کے پورے کرتے ہیں جن سے 'دشمنی' کے ڈھونگ رچاتے ہیں، ان سے بھی زیادہ داد کے مستحق تو وہ 'عُلمے فُضلے' ہیں جو اکابرین اسلام کا روپ دھار کر پاکستان کے عوام کے برین واش کرتے ہیں، جنہوں نے ڈالروں کے چکر میں پڑ کر امن کے داعی مذہب کا چہرہ مسخ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
بالکل اسی طرح جس طرح دہشت گردی ہزاروں میلوں کا سفر لمحوں میں طے کرتی ہوئی امریکا سے پاکستان پہنچی تھی، اس دہشتگردی نے اپنی توپوں کا رخ تعلیم کی طرف موڑ لیا تھا، مگر جو کام مکمل کرنے میں اسے کچھ وقت درکار تھا، حکومت نے بہت جلد پایہ تکمیل تک پہنچا دیا، تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور ان کے والدین کو اتنا خوفزدہ تو دہشتگرد بھی نہیں کر سکے تھے جتنا سیکیورٹی کی فراہمی اور دہشتگردوں کو تہس نہس کرنے کے حکومت کے مکرر دعوؤں نے کر دیا۔ دہشت گردوں کا یہ کام جب حکومت نے اپنے ذمے لے لیا تو دہشتگردوں نے وقت ضایع کرنے کے بجائے شیعہ، سنی منافرت بھڑکانے کی کوششیں شروع کر دیں، راولپنڈی میں نمازیوں کو شہید کرنے کے بعد شکار پور کو اپنا شکار بنایا، اللہ کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے بے قصوروں کو لقمہ اجل بنا کر بھی فتنہ و فساد پھیلانے کے مقاصد پورے نہ کر سکے تو پشاور میں امام بارگاہ سے منسلک مسجد پر حملہ کر دیا۔
ان وحشتوں کے سفر اور دہشتوں کی آزادیوں کو دیکھ یہ اندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہیں رہنا چاہیے کہ اس نام نہاد مذہبی جنویت، بہروپ جمہوریت اور 'انجینئرڈ سیاسی قیات' کے اصل عزائم کیا ہو سکتے ہیں؟ حکومت اپنی سنجیدگی جتلاتی رہے یا ایمانداری کا یقین دلاتی رہے، یہ جو کچھ ہو رہا ہے کیا عوام کو نظر نہیں آ رہا؟ حکمران دہشت گردوں کو ملیا میٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، دہشت گردی کا موجب بننے والے عوامل کے تدارک کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟، کوئی خبر نہیں۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ملزمان یا خود کش حملہ آوروں کے جائے وقوعہ سے ملنے والے اعضا سے آج تک ان کا کوئی ریکارڈ کیوں نہیں مل سکا؟، اگر یہ حملہ آور دوسرے ممالک سے آتے ہیں تو کیسے؟ ملک میں موجود غیرقانونی تارکین وطن کے کوائف کے اندراج میں حکومت ڈیڑھ سال تک کیوں کامیاب نہیں ہو سکی؟
ان تارکین وطن کی رجسٹریشن کے لیے قائم ادارے نیشنل ایلینز رجسٹریشن اتھارٹی(نارا) کو فعال کرنے کے بجائے سرے سے ختم کر دینے کے مقاصد کیا تھے؟ کیا حکومت نے ابھی تک جعل سازی سے حاصل کیے گئے شناختی کارڈ منسوخ کرانے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا؟ اگر نہیں، تو کیوں؟ شاید اسی لیے کہ حکومت قیام امن میں سنجیدہ نہیں یا پھر ملک دشمن قوتوں کے آگے بے بس ہے، ورنہ کہاں ہیں وہ بجلی کے منصوبے؟ ریکوڈک میں سونے کی کانیں؟ تھر کے کوئلے سے پچاس ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار؟ اور اب چنیوٹ میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی باتیں کہیں اقتدار کو طول دینے کی حکومتی چالیں تو نہیں؟ کہ عوام کو نت نئے سہانے سپنے دکھا دکھا کر ٹیکسوں پر ٹیکس لگاتے جائیں اور بحرانوں پر بحران بڑھاتے جائیں۔
ہمارے ملک میں وقفے وقفے سے کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا رہتا ہے کہ جس پر زبردست مباحثے ہوتے رہتے ہیں، ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہوتا ہے، ٹی وی چینلز کو تو کوئی ایشو چاہیے، باقی دہی کی لسی بنانے میں ان کے اینکرز پہلے ہی بہت مہارت رکھتے ہیں، اخبارات کے کالم بھی قصے کہانیوں سے بھرے پڑے ہوتے ہیں یا پھر ملک میں ہونے والے سارے بحث مباحثوں کا نچوڑ۔ پھر عوام کو بھی اظہار رائے کا کوئی حق حاصل ہے، سب قصے کہانیاں اور خبریں تبصرے پڑھ سن کر یہ بھی چورن چٹنی بنانے کے ماہر ہو چکے ہیں۔
دو ماہ قبل پشاور میں ایک سانحہ پیش آیا جس کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ نے ایک نئی صورت اختیار کی، اسکول کے معصوم بچوں کے ساتھ تو جو ہونا تھا سو ہوا، ان کے والدین، بہن بھائیوں اور رشتے داروں پر جو گزرنی تھی گزر گئی، 'سیاست کاروں ' نے موقعے سے جو فائدہ اٹھانا تھا اٹھا لیا، جسے 'سیاہ ست' چمکانی تھی چمکا لی، اقتدار کے نشے میں دھت رہنماؤں نے من کی جو بھڑاس نکالنی تھی نکال لی، جن انتہا پسند قوتوں نے اس سانحے کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنا تھا، وہ بھی ان کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہو گئے، مذہبی رجحانات، مذہبی تعلیمات، مذہبی بنیاد پرستی کو خوف کی علامت بنانے والوں نے اس سانحے کے ذریعے تعلیم کو بھی دہشت زدہ بنانے کا عمل شروع کر دیا۔
ملالہ یوسف زئی پر حملے سے لے کر سانحہ پشاور تک (بارہ اکتوبر 2012ء تا سولہ دسمبر 2014ء) تقریباً دو سال، دو مہینے کے دوران ایک علم دوست معصوم بچی جسے شہید کرانے کے لیے ملا فضل اللہ نے دس دہشت گردوں کی ڈیوٹی لگائی تھی، مگر 'کمال قدرت' کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے تھے اور وہ معصوم بچی اس گروہ کو شکست دے کر 'اسی کمال قدرت' سے ساری دنیا کے لیے رول ماڈل بن گئی اور نوبل انعام کی حقدار قرار پائی اور اب اس کی تحریک بین الاقوامی درجہ اختیار کر چکی ہے، یہاں تک کہ حالیہ دنوں ایک بین الاقوامی جریدے نے ملالہ کو انجلینا جولی کے بعد مشہور ترین شخصیت قرار دیا ہے۔ یہ سارا کریڈٹ مولوی فضل اللہ کو ہی جاتا ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد خود کو غیر محفوظ سمجھنے والے پاکستانی طالب علم بچے اور بچیاں ملالہ یوسفزئی کو ہی اپنا مسیحا اور نجات دہندہ سمجھنے لگے ہیں۔ وہ ملالہ کو پاکستان کی وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔
جب کہ ملالہ خود بھی پاکستان کی وزیر اعظم بن کر ملک کی صحیح معنوں میں خدمت کرنے کی خواہش کا اظہار پہلے ہی کر چکی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ ہمارے ملک کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو بھی ایک موقعے پر ملالہ یوسفزئی کو وزیراعظم پاکستان دیکھنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ بات کہیں اور چل نکلی، بالکل اسی طرح جس طرح امریکا میں نائن الیون کے واقعے کے بعد 'دہشت گردی' نے پاکستان کا رخ کیا اور پھر 'بنیاد پرستی' اور 'انتہا پسندی' کے مراحل طے کرتے ہوئے عراق، لیبیا اور دیگر اسلامی ممالک تک اپنے پر پھیلائے، اور امریکا کو وہاں قدم جمانے کا موقع دیا۔
کیوں نہ قربان جائیے ایسی 'اسلامی تحریکوں' پر جنہوں نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کو ہی نیست و نابود کرنے کا عزم کیا ہوا ہے، مقاصد بھی انھی کے پورے کرتے ہیں جن سے 'دشمنی' کے ڈھونگ رچاتے ہیں، ان سے بھی زیادہ داد کے مستحق تو وہ 'عُلمے فُضلے' ہیں جو اکابرین اسلام کا روپ دھار کر پاکستان کے عوام کے برین واش کرتے ہیں، جنہوں نے ڈالروں کے چکر میں پڑ کر امن کے داعی مذہب کا چہرہ مسخ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
بالکل اسی طرح جس طرح دہشت گردی ہزاروں میلوں کا سفر لمحوں میں طے کرتی ہوئی امریکا سے پاکستان پہنچی تھی، اس دہشتگردی نے اپنی توپوں کا رخ تعلیم کی طرف موڑ لیا تھا، مگر جو کام مکمل کرنے میں اسے کچھ وقت درکار تھا، حکومت نے بہت جلد پایہ تکمیل تک پہنچا دیا، تعلیم حاصل کرنے والے بچوں اور ان کے والدین کو اتنا خوفزدہ تو دہشتگرد بھی نہیں کر سکے تھے جتنا سیکیورٹی کی فراہمی اور دہشتگردوں کو تہس نہس کرنے کے حکومت کے مکرر دعوؤں نے کر دیا۔ دہشت گردوں کا یہ کام جب حکومت نے اپنے ذمے لے لیا تو دہشتگردوں نے وقت ضایع کرنے کے بجائے شیعہ، سنی منافرت بھڑکانے کی کوششیں شروع کر دیں، راولپنڈی میں نمازیوں کو شہید کرنے کے بعد شکار پور کو اپنا شکار بنایا، اللہ کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے بے قصوروں کو لقمہ اجل بنا کر بھی فتنہ و فساد پھیلانے کے مقاصد پورے نہ کر سکے تو پشاور میں امام بارگاہ سے منسلک مسجد پر حملہ کر دیا۔
ان وحشتوں کے سفر اور دہشتوں کی آزادیوں کو دیکھ یہ اندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہیں رہنا چاہیے کہ اس نام نہاد مذہبی جنویت، بہروپ جمہوریت اور 'انجینئرڈ سیاسی قیات' کے اصل عزائم کیا ہو سکتے ہیں؟ حکومت اپنی سنجیدگی جتلاتی رہے یا ایمانداری کا یقین دلاتی رہے، یہ جو کچھ ہو رہا ہے کیا عوام کو نظر نہیں آ رہا؟ حکمران دہشت گردوں کو ملیا میٹ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، دہشت گردی کا موجب بننے والے عوامل کے تدارک کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟، کوئی خبر نہیں۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ملزمان یا خود کش حملہ آوروں کے جائے وقوعہ سے ملنے والے اعضا سے آج تک ان کا کوئی ریکارڈ کیوں نہیں مل سکا؟، اگر یہ حملہ آور دوسرے ممالک سے آتے ہیں تو کیسے؟ ملک میں موجود غیرقانونی تارکین وطن کے کوائف کے اندراج میں حکومت ڈیڑھ سال تک کیوں کامیاب نہیں ہو سکی؟
ان تارکین وطن کی رجسٹریشن کے لیے قائم ادارے نیشنل ایلینز رجسٹریشن اتھارٹی(نارا) کو فعال کرنے کے بجائے سرے سے ختم کر دینے کے مقاصد کیا تھے؟ کیا حکومت نے ابھی تک جعل سازی سے حاصل کیے گئے شناختی کارڈ منسوخ کرانے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا؟ اگر نہیں، تو کیوں؟ شاید اسی لیے کہ حکومت قیام امن میں سنجیدہ نہیں یا پھر ملک دشمن قوتوں کے آگے بے بس ہے، ورنہ کہاں ہیں وہ بجلی کے منصوبے؟ ریکوڈک میں سونے کی کانیں؟ تھر کے کوئلے سے پچاس ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار؟ اور اب چنیوٹ میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی باتیں کہیں اقتدار کو طول دینے کی حکومتی چالیں تو نہیں؟ کہ عوام کو نت نئے سہانے سپنے دکھا دکھا کر ٹیکسوں پر ٹیکس لگاتے جائیں اور بحرانوں پر بحران بڑھاتے جائیں۔