کچھ عرصے تک برقرار رہنے والا دکھ انسانی صحت متاثر کرسکتا ہے طبی ماہرین
گزرجانے والے کی موت جتنی المناک ہوتی ہے، غم کے پیچیدہ ہونے کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں، ڈاکٹرز
دکھ اورغم وہ فطری انسانی رد عمل ہے جو لوگ اپنے کسی محبوب یا پیارے کے دنیا سے رخصت ہوجانے پر ظاہر کرتے ہیں۔
ایک خاتون ایم کیتھرین شیئر نے پچھلے ماہ دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں اپنی رپورٹ میں ایک ''پیچیدہ غم'' کا تصور پیش کیا ہے۔ ایک ایسا دکھ جو چھ مہینے کے بعد بھی باقی رہتا ہے اورانسانی صحت کو متاثر کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک 68 سالہ بیوہ کی مثال دی ہے جو اپنے شوہر کے مرنے کے چار سال بعد بھی اس غم کو نہیں بھلا سکی ہیں۔ وہ بیڈ کے بجائے جو وہ شوہر کے ساتھ شیئر کرتی تھیں، کوچ پر سوتی ہیں۔
انھوں نے بہت سی ایسی دوسری سرگرمیاں بھی چھوڑ دی ہیں جو شوہر کی یاد تازہ کرسکتی ہیں۔ ڈاکٹر شیئر کے خیال میں گزرجانے والے کی موت جتنی المناک ہوتی ہے، غم کے پیچیدہ ہونے کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے غمزدہ لوگوں کو ڈپریشن دور کرنے والی دوائیں بھی دی جاتی ہیں تاہم ڈاکٹر شیئر کے نزدیک یہ وقتی طور پر تو سکون پہنچا سکتی ہیں مگر اس مسئلے کا دیرپا حل نہیں ہیں۔
ایک خاتون ایم کیتھرین شیئر نے پچھلے ماہ دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں اپنی رپورٹ میں ایک ''پیچیدہ غم'' کا تصور پیش کیا ہے۔ ایک ایسا دکھ جو چھ مہینے کے بعد بھی باقی رہتا ہے اورانسانی صحت کو متاثر کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک 68 سالہ بیوہ کی مثال دی ہے جو اپنے شوہر کے مرنے کے چار سال بعد بھی اس غم کو نہیں بھلا سکی ہیں۔ وہ بیڈ کے بجائے جو وہ شوہر کے ساتھ شیئر کرتی تھیں، کوچ پر سوتی ہیں۔
انھوں نے بہت سی ایسی دوسری سرگرمیاں بھی چھوڑ دی ہیں جو شوہر کی یاد تازہ کرسکتی ہیں۔ ڈاکٹر شیئر کے خیال میں گزرجانے والے کی موت جتنی المناک ہوتی ہے، غم کے پیچیدہ ہونے کے امکانات اتنے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے غمزدہ لوگوں کو ڈپریشن دور کرنے والی دوائیں بھی دی جاتی ہیں تاہم ڈاکٹر شیئر کے نزدیک یہ وقتی طور پر تو سکون پہنچا سکتی ہیں مگر اس مسئلے کا دیرپا حل نہیں ہیں۔