لیگ اسپن بولنگ مشکل ترین آرٹ ہے انتخاب عالم
کچھ بیٹسمین حسدنہ کرتے تومیری کپتانی میں ٹیم انگلینڈ اورآسٹریلیا کوان کے گھرمیں ہرادیتی، سابق کپتان
کرکٹ میں ان کی کارگزاری کی مختلف جہتیں ہیں۔ کرکٹر کی حیثیت سے انھوں نے بولنگ، بیٹنگ اور کپتانی میں ایسا کچھ خاص ضرور کیا، جو تاریخ میں ان کا نام زندہ رکھنے کو کافی ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد وہ منیجر اور کوچ کے طور پر قومی ٹیم کا طویل عرصہ حصہ رہے، اور اس سارے دور میں پاکستان نے بہت سی یادگار فتوحات حاصل کیں، جن میں نمایاں تر 92ء کے ورلڈکپ میں کامیابی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں اونچے عہدوں پر فائز رہے، سردست ڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکٹ ہیں۔
ٹیسٹ کیپ حاصل کر لینے پر بولر کی خواہش ہوتی ہے، بس جلد از جلد اپنا پہلا وکٹ حاصل کرلے۔اس تگ و دومیں بعضوں کو خاصا کشٹ کاٹنا پڑتا ہے مگر بعض تھوڑی کاوش کے بعد منزل سر کر لیتے ہیں۔ ان دو صورتوں سے ہٹ کر ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں 19 قسمت کے دھنی ایسے گزرے ہیں، جنھوں نے اپنی پہلی گیند پر ہی بیٹسمین کو ٹھکانے لگا دیا۔ پاکستان کی طرف یہ کارنامہ صرف انتخاب عالم نے انجام دیا ہے۔
یہ صاحب پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ ڈبل کرنے والے پہلے کرکٹر ہیں یعنی سووکٹیں اورہزارر نز بنانے والے۔ 1973ء میں پاکستان نے پہلی بار نیوزی لینڈ کو اس کی سرزمین پر زیر کیا تو اس تاریخی فتح میں انتخاب عالم نے 11 وکٹیں لے کر بنیادی کردار ادا کیا۔ کپتان بھی وہی تھے۔ بیٹنگ میں بھی کئی بار کڑے سمے ٹیم کی اعانت کو آئے۔ 1967ء میں اوول ٹیسٹ میں آصف اقبال کے ساتھ مل کر نویں وکٹ کی شراکت میں 190 رنز جوڑ کر عالمی ریکارڈ بنایا،جو 30برس قائم رہا۔
فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی ان کے مقدر کا ستارہ خوب چمکا۔ 1571وکٹیں۔ 14331رنز۔ کاؤنٹی کرکٹ میں ان کے جوہر خوب کھلے۔ 1971ء میں سرے کاؤنٹی 13برس بعد کاؤنٹی چیمپئن بنی تو اس میں ان کی عمدہ بولنگ کو بھی دخل تھا۔ 1970ء میں مڈل سیکس کے پہلے آٹھ بیٹسمینوں کو پویلین کی راہ دکھائی، نواں بھی ان کا شکار بن جاتا اگر رابن جیکمین، جنھوں نے آخری دو کھلاڑی آؤٹ کئے، ان کی گیند پر آسان کیچ نہ گرا دیتے۔ بعدازاں یہ میچ میں سنچری کرنے میں کامیاب ٹھہرے، اس لیے وہ اگر اننگز میں 10 وکٹیں حاصل کر پاتے تو منفرد ریکارڈ کے مالک بن جاتے۔
دو بار ریسٹ آف دی ورلڈ الیون کا حصہ رہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے ان کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عبدالحفیظ کاردارکی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستانی کرکٹ میں بنجر دور آیا، اور60کی دہائی میں ہماری کارکردگی ڈانواں ڈول رہی۔ اس عرصے میں انگلینڈ کے ایک دورے میں ہم سیریز چار صفرسے ہارے تودوسری میں دو صفرسے ۔ ان دوروں کے بعد پاکستان ٹیم نے جو دودورے کئے، ان میں انتخاب عالم کی کپتانی میں بہترین کارگردگی کا مظاہرہ کیا۔
1971ء میں ایجبسٹن ٹیسٹ میں جب پاکستان کی جیت یقینی دکھائی دے رہی تھی، بارش انگلینڈ کی مدد کو آن پہنچی۔ لیڈزمیں جیت کے بہت قریب آکر ناقص بیٹنگ کے باعث جیتا میچ 25اسکورسے ہم ہارگئے۔ وزڈن نے لکھا کہ پاکستان اس دورے میں حقیقی قوت کے طور پر ابھرا ہے۔ 1974ء کی سیریز میں ہم نہ ہی کوئی ٹیسٹ میچ ہارے اورنہ ہی فرسٹ کلاس میچ۔ 1948ء میں بریڈ مین کی "The Invincibles"ٹیم کے بعد پاکستان پہلی ٹیم تھی، جوبغیرکوئی میچ ہارے انگلینڈ سے واپس پلٹی۔
ان دوروں میں ٹیم کا حصہ رہنے والے عمران خان کا کہنا ہے کہ ٹیم پر گورے کا اس قدرنفسیاتی دباؤ ہوتاکہ ہم جیتا ہوا میچ ہار جاتے۔اس لیے جب وہ کپتان بنے توانھوں نے ٹیم کواس خوف سے نجات دلائی۔ اس بارے میں انتخاب عالم سے پوچھا توانھوں نے بتایا ''ان دونوں دوروں میں ہم نے بڑی اچھی کارکردگی دکھائی۔ سات لڑکے انگلینڈ میں کاؤنٹی کھیل رہے تھے، جس سے انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔اس زمانے میں کاؤنٹی میچ ونر پلیئر لیتی۔ یہ درست ہے کہ ایک دو دفعہ ہم جیت کے کافی نزدیک آئے، مگر ہار گئے تو اس کی وجہ خوف اور دباؤ نہیں تھا۔ہماری بیٹنگ ناکام ہوئی۔''
انگلینڈ کواس کی سرزمین پرہرادینے کے سنہری مواقع کھو دینے کا دکھ آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ آسٹریلیاسے 1972-73ء کی سیریزمیں دوٹیسٹوں میچوں میں بیٹنگ کی ناکامی کے باعث ہارنے کا بھی رنج ہے۔ انتخاب عالم کی پاکستان کرکٹ سے مختلف حوالوں سے وابستگی 55برس سے ہے۔ اس مدت میں کرکٹ کے ساتھ جوبھی اچھا برا ہوا اس کے بارے میں فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ان کے پاس بہت ہے لیکن بربنائے مصلحت کُھلتے نہیں، اور ایسی بات کم ہی بتاتے ہیں، جس سے تاریخ کا ریکارڈ درست ہوسکے۔ اور تو اور وہ اپنے ساتھ بعض ہونے والی زیادتی پربھی دل کے پھپھولے پھوڑتے نہیں، اورکسی کردار کا نام بتا دیں یہ توناممکنات میں سے ہے۔
پاکستان ٹیم میں ہونے والی بغاوتوں کا ذکر کریں تو بات گول کرجائیں گے۔منیجرکے طور پر ناخوشگوار واقعات کے بارے میں دریافت کریں توبھی ٹال جاتے ہیں۔ مثلاً عمران خان نے لکھا ہے کہ 92ء کے ورلڈ کپ کے بعد کھلاڑیوں نے ایک طرح سے ان کے خلاف بغاوت کر دی، اور وہ سمجھنے لگے کہ جیسے ساری انعامی رقم شوکت خانم ہسپتال کوجا رہی ہے، شالیمارباغ میں قومی ٹیم عمران کوتنہا چھوڑ کر استقبالیہ تقریب سے غائب ہوگئی، جس کا انھیں بہت رنج ہوا اور اس واقعہ نے ان کو ریٹائرمنٹ کے فیصلے پرپہنچے پر مجبور کیا، وگرنہ وہ انگلینڈ کا دورہ بھی کر سکتے تھے۔ اس صورتحال میں وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے۔
اس قضیے کے بارے میں پوچھا توبات زیادہ آگے بڑھائی نہیں۔ بتایا تو صرف اتنا کہ جو ہوا وہ غلط ہوا، لڑکوں کا یہ سمجھناکہ سارا پیسہ عمران کے ہسپتال کو جارہا ہے غلط بات تھی۔ان کے دورکپتانی میں بعض ٹیسٹ میچوں میں ممکنہ کامیابیاں جس طرح شکست میں تبدیل ہوتی رہیں، اس کے اسباب پر بات ہو تو ناقص بیٹنگ سے بات آگے بڑھتی نہیں، لیکن دورانِ گفتگو ایک بار وہ دل کی بات زبان پرلائے، لیکن بڑے ضبط سے، نام اس بار بھی کسی کا نہیں لیا۔ ان کے بقول: '' بعض کھلاڑی سوچتے تھے کہ اگر میں بیرون ملک سیریز جیت گیا تو نہ جانے میں کیا بن جاؤں گا۔ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ کھلاڑیوں نے حسد کی وجہ سے جان بوجھ کرخراب کھیل پیش کیا۔''
انتخاب عالم پاکستان کی ون ڈے ٹیم کے پہلے کپتان ہیں۔ ان کے زیرقیادت 1974ء میں انگلینڈکے خلاف دوون ڈے پاکستان نے کھیلے اور کامیابی حاصل کی۔ انگلینڈ میں کھیلنے کا وسیع تجربہ اورآل راؤنڈرہونے کے باوجود پہلے ورلڈکپ کے اسکواڈ میں شامل نہ تھے۔ پاکستان ٹیم نے سرے سے پریکٹس میچ کھیلا توانھوں نے کاؤنٹی ٹیم کی طرف سے 95رنز بنا ڈالے۔ اس موقع پروہاںموجود تماشائیوں نے ٹیم سے ان کے اخراج پراحتجاج بھی کیا۔
محمد برادران سے ان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ حنیف محمد کا موقف رہا ہے کہ عبدالحفیظ کاردار نے انھیں ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور کیا۔ حنیف محمد نے آخری ٹیسٹ انتخاب عالم کی کپتانی میں کھیلا۔ حنیف محمد کے بین الاقوامی کرکٹ سے الگ ہونے سے متعلق پوچھا تو وہ بولے : ''حنیف محمد کمال کے بیٹسمین تھے۔ ان کے گھٹنے میں پرابلم تھی، ٹیم میں بھی احساس یہی تھا کہ اب انھیں ریٹائر ہو جانا چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے سلسلے میں کاردار نے کوئی زبردستی کی۔''
مشتاق محمد کے ساتھ بھی ان کی بنتی نہیں تھی، اور جب وہ کپتان بنے تو انتخاب عالم کی ٹیم میںشمولیت پر کسی صورت راضی نہیں تھے، اور اس معاملے پر ان کا بورڈ سے پھڈا بھی ہو گیا۔ پاکستان کرکٹ پرحال ہی میں شائع ہونے والی پیٹراوبورن کی لاجواب کتاب"Wounded Tiger: A History of Cricket in Pakistan" میں صادق محمد کا بیان نقل ہوا ہے جس کے مطابق، ویسٹ انڈیزکے خلاف ایک میچ میں کپتان انتخاب عالم نے انھیں غیرضروری طور پر شاٹ لیگ پر کھڑا کیا اور پھر فل ٹاس پھینک دی، جس پر بیٹسمین نے زوردار ہٹ لگائی اور وہ شدید زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گئے اور مرتے مرتے بچے۔ اس واقعہ پران کی رائے جاننی چاہی تو بولے: ''یہ بالکل غلط بات ہے، میری نیت میں کوئی خرابی نہیں تھی، فل ٹاس لیگ اسپنرسے کبھی کبھار گرجاتا ہے۔''
انتخاب عالم نے 28دسمبر 1941ء کو ہشیارپور میں آنکھ کھولی۔ والد، نصیرالدین خان انجینئرتھے۔ کرکٹ کا شوق رکھتے تھے۔ مہاراجہ پٹیالہ کی ٹیم کا حصہ رہے۔ تقسیم کے بعد انھوں نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا اور ان کا گھرانہ اس داروگیر میں پاکستان پہنچا۔ انتخاب عالم نے بچپن میں جو قتل وغارت گری دیکھی، اس کی یاد آج بھی لرزا دیتی ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ وہ شملے سے پاکستان آنے والی آخری ٹرین میں سوار ہو کر نئے وطن پہنچے۔ کراچی اس مہاجر خاندان کا نیا مسکن ٹھہرا۔
ادھر کرکٹ کے لیے گھر کے اندر اور باہر بڑا موافق ماحول میسر آیا۔ بڑے بھائی آفتاب عالم بڑے عمدہ کرکٹر تھے۔ بدقسمتی سے پاکستان ٹیم کے لیے ان کا انتخاب نہ ہو سکا۔ انتخاب عالم بڑے بھائی کو خود سے زیادہ باصلاحیت قرار دیتے ہیں۔ انتخاب عالم جن کا دھیان میڈیم پیسربننے کی طرف تھا، انھیں بھائی نے ایک دن کہا کہ تم لیگ اسپن بولنگ پرتوجہ دو، اس فن میں اس وقت کوئی طاق نہیں، یہ بات ان کے دل میں گھرکرگئی اورانھوں نے خود کو لیگ اسپن بولنگ کے واسطے وقف کردیا۔گھرکے پچھواڑے میں ٹرف وکٹ بنارکھی تھی، جہاں تینوں بھائی خوب کرکٹ کھیلتے۔
چرچ مشن اسکول میں ان کی صلاحیتوں کو اور جِلا ملی، جہاں کھیل کا بڑامیدان تھا۔ روبی شیلڈ انٹراسکول ٹورنامنٹ میں بڑے کانٹے کے مقابلے ہوتے۔ 1957-58 میں ویسٹ انڈیز کے دورے کے بعد پاکستانی ٹیم کراچی رکی تووہاں اسے کمبائنڈ اسکولزالیون سے میچ کھیلنا تھا۔ انھیں ٹیم میں شامل نہ کیاگیا۔ نیٹ میں جب انھوں نے پاکستانی ٹیم کوبولنگ کرائی، تو کاردار متاثر ہوئے۔ ٹیم سے ان کے ڈراپ ہونے کا جان کر حیران ہوئے اور انھیں پاکستان ٹیم میں شامل کرلیا، تو چاروکٹیں لے کراپنا انتخاب درست ثابت کر دیا۔ کراچی کی نمائندگی بھی کی۔
1959ء میں پاکستان ایگلٹس کا حصہ بن کرجو کارکردگی دکھائی اس سے پہلی بار لگا کہ وہ قومی ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ 1959ء میں رچی بینوکی قیادت میں آسٹریلیوی ٹیم پاکستانی آئی۔ پریذیڈنٹ الیون کی طرف سے کھیلتے ہوئے آسٹریلیا کے 8کھلاڑی آؤٹ کئے تواس کارکردگی کی بنیاد پر کراچی میں ہونے والے تیسرے ٹیسٹ میں قومی ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ دوسرے دن کا کھیل ختم ہونے میں آدھاگھنٹہ رہ گیا تو فضل محمود نے اوورکے لیے بلایا۔ پہلا گیند کہیں شاٹ نہ پڑ جائے، اس لیے یہ عموماً پہلا گیند تیز کرتے۔ کپتان نے تجویز کیا کہ تیز گیند نہیں کرنا بلکہ لیگ بریک کرنا۔کپتان کے کہنے پرلیگ بریک کرائی جوپڑ کر کافی تیزنکلی، بیٹسمین کولن میکڈونلڈ کٹ مارنے کی کوشش میں بولڈ ہوگیا۔
ان کے بقول: ''یہ سب اللہ کی مہربانی تھی۔مجھے سمجھ نہیں آیا یہ کیا ہو گیا ہے۔ اسٹیڈیم تماشائیوں کی تالیوں سے گونج اٹھا۔'' اوول ٹیسٹ میں آصف اقبال کے ساتھ یادگار پارنٹرشپ کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتایا: ''اس ٹیسٹ میں میری بائیں آنکھ میں بہت تکلیف تھی۔ اس لیے میرا بیٹنگ آرڈر نیچے ہوتا گیا لیکن ایک مرحلے پر مجھے جانا ہی پڑا۔ اس وقت 65پر 8کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے۔ آصف اقبال سے میں نے کہا کہ میں اسٹینڈ دوں گا۔ رفتہ رفتہ میری آنکھ کی تکلیف کم ہوتی گئی۔ رنزبننے لگے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ہم اننگزکی شکست سے دوچار ہوں گے، لیکن میرے اور آصف اقبال کے درمیان نویں وکٹ کی شراکت میں 190 رنز کا عالمی ریکارڈ بن گیا۔''
1973ء میں حیدرآبادمیں نیوزی لینڈ کے خلاف 138 رنز اور 7وکٹیں لینا بھی ان کو نہیں بھولتا، 1977ء میں ان کا ٹیسٹ کیریئر اختتام کوپہنچا۔ 47میں سے 17میچوں میں قومی ٹیم کی قیادت کے فرائض انجام دیے۔پاکستان ٹیم کی کوچنگ تووہ سالہا سال کرتے رہے لیکن دوسیزنوں میں انھوں نے بھارتی پنجاب کی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں بحران کے دنوں میں پاکستان ٹیم ادھرپھنس گئی توایسے میں انتخاب عالم نے بھاگ دوڑ کر کے ٹیم کی بحفاظت مغربی پاکستان واسپی کوممکن بنایا۔ پوربانی ہوٹل جہاں ٹیم ٹھہری تھی، وہاں سے ایئرپورٹ 15منٹ کے فاصلے پرتھا لیکن انھیں وہاں پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔
کہتے ہیں، وہ ہندوستان سے پاکستان آنے والی آخری مسافرٹرین کے بھی مسافر تھے اورمشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان آنے والی آخری فلائٹ میں بھی سوارتھے۔ انتخاب عالم جواپنے زمانے میں بہترین لیگ اسپنرتھے، وہ لیگ اسپن بولنگ کو کرکٹ میں مشکل ترین آرٹ سمجھتے ہیں، جس میں مہارت کے لیے ان کے خیال میں بہت زیادہ مشق اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ فلپرکواپنا سب سے عمدہ ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ 1973ء میں شادی ہوئی۔دوبیٹے ہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ مشکل ترین حالات میں امید کا دامن تھامے رکھنے کو اپنی سب سے بڑی قوت گردانتے ہیں۔
عمران خان کے بقول ملکہ برطانیہ سے ان کا تعارف کراتے ہوئے، کپتان انتخاب عالم ان کا نام بھول گئے،جس کی وجہ سے تصویرمیں موجود عظمت رانا کے لیے ہنسی پرقابوپانا ممکن نہیں ہوپارہا۔اس بارے میں انتخاب عالم سے پوچھا توکہنے لگے کہ ان کی یادداشت میں یہ بات نہیں لیکن عمران نے اگریہ کہا ہے تودرست ہوگا۔ انتخاب عالم نے عمران خان کوبین الاقوامی کرکٹ میں پہلا گیند کراتے کپتان کی حیثیت سے دیکھا اور 1992ء کے ورلڈ کپ فائنل میں جب انھوں نے کیریئرکی آخری گیند پھینکی تواس وقت منیجراورکوچ تھے۔
عمران خان کے بارے میں ان سے جوبات چیت ہوئی،اس کا لب لباب کچھ یوں ہے: '' عمران خان کی پہلے ٹیسٹ میں پرفارمنس بڑی مایوس کن تھی لیکن ہمت نہیں ہاری۔کچھ کرنے کی لگن اس میں تھی۔محنتی بہت تھا۔انگلینڈ میں رہ کرکاؤنٹی کرکٹ کھیلنے سے اسے بہت فائدہ ہوا اوراس نے وہاں سے بہت سیکھا، اس لیے جب اسے دوبارہ ٹیم میں جگہ ملی توپھراس کے کھیل میں نکھارآتا گیا۔جب وہ ٹیم میں آیا توشرمیلاتھا۔زیادہ گھلتاملتانہیں تھا۔ 1982ء میں دورۂ انگلینڈ سے قبل پاکستان کرکٹ بڑے بحرانوں سے گزری۔میانداد کے خلاف کھلاڑیوں نے بغاوت کردی۔
میں اس عرصے میں انگلینڈ سے پاکستان آیا اورکرکٹ بورڈ کے چیئرمین نورخان سے ملاقات ہوئی توانھوں نے مجھ سے کہا کہ فٹبال کی طرح کرکٹ میں بھی منیجرہونا چاہیے گراؤنڈ سے باہرمعاملات کودیکھے اورکپتان زیادہ یکسوئی سے اپنا کام کرسکے۔وہ کسی سینئر کوکپتان بنانا چاہتے تھے لیکن میں نے عمران خان کا نام تجویزکیا اورانھیں اس پرقائل کیاکیونکہ میرے خیال میں وہ وژنری اورفوکسڈ تھا اس لیے بہترکپتان ثابت ہوسکتا تھا۔ ''
''1992 ء کاورلڈ کپ شروع ہونے سے ایک ماہ قبل ہم آسٹریلیا چلے گئے۔سارے پریکٹس میچ ہم ہارگئے، لیکن ماحول سے مانوس ہوگئے۔ہم شروع میں تین میچ ہارگئے۔انگلینڈ کے خلاف ہم 74 اسکورپرآؤٹ ہوگئے،لیکن بارش کی وجہ سے میچ مکمل نہ ہوا اورہمیں ایک پوائنٹ مل گیاجوآگے چل کر سیمی فائینل میں پہنچنے کی بنیاد بن گیا۔میچ ہارنے کے باوجود ڈریسنگ روم کا ماحول بہت اچھا تھا۔عمران خان فٹ نہیں تھا، اس کے کندھے میں تکلیف تھی، اس وجہ سے وہ دومیچ کھیلا بھی نہیں، پر اسے اپنی کامیابی کا یقین تھا۔شروع وہ انجکشن لگواکرکھیلنے کے لیے تیارنہیں تھا، مگربعد میں وہ مان گیا،شروع میں اسے تکلیف ہوتی لیکن جیسے جیسے کندھا گرم ہوتا جاتابہترہوتا جاتا۔
نمبرتین پربیٹنگ کرنے کی تجویزمیں نے دی،اورپھراس پرعمران کوقائل کیا ، جوایسی آسان بات نہیں تھی۔یہ فیصلہ ٹیم کے حق میں گیا۔سیمی فائنل سے قبل انضمام الحق کے معدے میں گڑبڑتھی،اس لیے وہ میچ میں شریک ہونا نہیں چاہتاتھا،عمران نے اس سے کہا کہ چاہے لولے لنگڑے ہوجاؤ، پرتم نے ضرورکھیلنا ہے۔ٹیم کوتمھاری ضرورت ہے۔اورپھرسب نے دیکھا کہ انضمام ہی نے ٹیم کوجتوانے میں مرکزی کرداراداکیا۔ کپتان ٹاس کرنے اپنے ملک کا بلیزرپہن کرجاتا ہے مگر عمران نے اس روایت کوتوڑ کر ٹائیگر کی تصویروالی ٹی شرٹ پہنی، چیپل نے جب اس بارے میں پوچھا تواس نے کہا کہ میں لڑکوں کوبتانا چاہتاہوں کہ انھوں نے ٹائیگرکی طرح کھیلنا ہے۔
میں نے اسے ٹی شرٹ پہننے سے روکا نہیں کیونکہ میں اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔نیوزی لینڈ سے پول میچ جیت لینے کے بعد بھی ہم سیمی فائنل میں نہیں پہنچے تھے، اورہمیں ویسٹ انڈیزاورآسٹریلیا کے میچ کا انتظارکرنا تھا، جس میں اگرویسٹ انڈیزجیت جاتا تووہ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرجاتا لیکن وہ ہارگیااورہم سیمی فائنل میں پہنچ گئے۔فائنل میرے لیے اس لیے بھی خاص اہمیت کا حامل تھا کہ انگلینڈ ٹیم میں میرے ہم منصب مکی اسٹیورٹ سرے میں میرے کپتان تھے، ہم میچ جیت گئے تومجھے مبارکباد دینے خاص طورسے ہمارے ڈریسنگ روم میں آئے۔ ''
ریٹائرمنٹ کے بعد وہ منیجر اور کوچ کے طور پر قومی ٹیم کا طویل عرصہ حصہ رہے، اور اس سارے دور میں پاکستان نے بہت سی یادگار فتوحات حاصل کیں، جن میں نمایاں تر 92ء کے ورلڈکپ میں کامیابی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں اونچے عہدوں پر فائز رہے، سردست ڈائریکٹر ڈومیسٹک کرکٹ ہیں۔
ٹیسٹ کیپ حاصل کر لینے پر بولر کی خواہش ہوتی ہے، بس جلد از جلد اپنا پہلا وکٹ حاصل کرلے۔اس تگ و دومیں بعضوں کو خاصا کشٹ کاٹنا پڑتا ہے مگر بعض تھوڑی کاوش کے بعد منزل سر کر لیتے ہیں۔ ان دو صورتوں سے ہٹ کر ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں 19 قسمت کے دھنی ایسے گزرے ہیں، جنھوں نے اپنی پہلی گیند پر ہی بیٹسمین کو ٹھکانے لگا دیا۔ پاکستان کی طرف یہ کارنامہ صرف انتخاب عالم نے انجام دیا ہے۔
یہ صاحب پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ ڈبل کرنے والے پہلے کرکٹر ہیں یعنی سووکٹیں اورہزارر نز بنانے والے۔ 1973ء میں پاکستان نے پہلی بار نیوزی لینڈ کو اس کی سرزمین پر زیر کیا تو اس تاریخی فتح میں انتخاب عالم نے 11 وکٹیں لے کر بنیادی کردار ادا کیا۔ کپتان بھی وہی تھے۔ بیٹنگ میں بھی کئی بار کڑے سمے ٹیم کی اعانت کو آئے۔ 1967ء میں اوول ٹیسٹ میں آصف اقبال کے ساتھ مل کر نویں وکٹ کی شراکت میں 190 رنز جوڑ کر عالمی ریکارڈ بنایا،جو 30برس قائم رہا۔
فرسٹ کلاس کرکٹ میں بھی ان کے مقدر کا ستارہ خوب چمکا۔ 1571وکٹیں۔ 14331رنز۔ کاؤنٹی کرکٹ میں ان کے جوہر خوب کھلے۔ 1971ء میں سرے کاؤنٹی 13برس بعد کاؤنٹی چیمپئن بنی تو اس میں ان کی عمدہ بولنگ کو بھی دخل تھا۔ 1970ء میں مڈل سیکس کے پہلے آٹھ بیٹسمینوں کو پویلین کی راہ دکھائی، نواں بھی ان کا شکار بن جاتا اگر رابن جیکمین، جنھوں نے آخری دو کھلاڑی آؤٹ کئے، ان کی گیند پر آسان کیچ نہ گرا دیتے۔ بعدازاں یہ میچ میں سنچری کرنے میں کامیاب ٹھہرے، اس لیے وہ اگر اننگز میں 10 وکٹیں حاصل کر پاتے تو منفرد ریکارڈ کے مالک بن جاتے۔
دو بار ریسٹ آف دی ورلڈ الیون کا حصہ رہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے ان کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عبدالحفیظ کاردارکی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستانی کرکٹ میں بنجر دور آیا، اور60کی دہائی میں ہماری کارکردگی ڈانواں ڈول رہی۔ اس عرصے میں انگلینڈ کے ایک دورے میں ہم سیریز چار صفرسے ہارے تودوسری میں دو صفرسے ۔ ان دوروں کے بعد پاکستان ٹیم نے جو دودورے کئے، ان میں انتخاب عالم کی کپتانی میں بہترین کارگردگی کا مظاہرہ کیا۔
1971ء میں ایجبسٹن ٹیسٹ میں جب پاکستان کی جیت یقینی دکھائی دے رہی تھی، بارش انگلینڈ کی مدد کو آن پہنچی۔ لیڈزمیں جیت کے بہت قریب آکر ناقص بیٹنگ کے باعث جیتا میچ 25اسکورسے ہم ہارگئے۔ وزڈن نے لکھا کہ پاکستان اس دورے میں حقیقی قوت کے طور پر ابھرا ہے۔ 1974ء کی سیریز میں ہم نہ ہی کوئی ٹیسٹ میچ ہارے اورنہ ہی فرسٹ کلاس میچ۔ 1948ء میں بریڈ مین کی "The Invincibles"ٹیم کے بعد پاکستان پہلی ٹیم تھی، جوبغیرکوئی میچ ہارے انگلینڈ سے واپس پلٹی۔
ان دوروں میں ٹیم کا حصہ رہنے والے عمران خان کا کہنا ہے کہ ٹیم پر گورے کا اس قدرنفسیاتی دباؤ ہوتاکہ ہم جیتا ہوا میچ ہار جاتے۔اس لیے جب وہ کپتان بنے توانھوں نے ٹیم کواس خوف سے نجات دلائی۔ اس بارے میں انتخاب عالم سے پوچھا توانھوں نے بتایا ''ان دونوں دوروں میں ہم نے بڑی اچھی کارکردگی دکھائی۔ سات لڑکے انگلینڈ میں کاؤنٹی کھیل رہے تھے، جس سے انھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔اس زمانے میں کاؤنٹی میچ ونر پلیئر لیتی۔ یہ درست ہے کہ ایک دو دفعہ ہم جیت کے کافی نزدیک آئے، مگر ہار گئے تو اس کی وجہ خوف اور دباؤ نہیں تھا۔ہماری بیٹنگ ناکام ہوئی۔''
انگلینڈ کواس کی سرزمین پرہرادینے کے سنہری مواقع کھو دینے کا دکھ آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ آسٹریلیاسے 1972-73ء کی سیریزمیں دوٹیسٹوں میچوں میں بیٹنگ کی ناکامی کے باعث ہارنے کا بھی رنج ہے۔ انتخاب عالم کی پاکستان کرکٹ سے مختلف حوالوں سے وابستگی 55برس سے ہے۔ اس مدت میں کرکٹ کے ساتھ جوبھی اچھا برا ہوا اس کے بارے میں فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ان کے پاس بہت ہے لیکن بربنائے مصلحت کُھلتے نہیں، اور ایسی بات کم ہی بتاتے ہیں، جس سے تاریخ کا ریکارڈ درست ہوسکے۔ اور تو اور وہ اپنے ساتھ بعض ہونے والی زیادتی پربھی دل کے پھپھولے پھوڑتے نہیں، اورکسی کردار کا نام بتا دیں یہ توناممکنات میں سے ہے۔
پاکستان ٹیم میں ہونے والی بغاوتوں کا ذکر کریں تو بات گول کرجائیں گے۔منیجرکے طور پر ناخوشگوار واقعات کے بارے میں دریافت کریں توبھی ٹال جاتے ہیں۔ مثلاً عمران خان نے لکھا ہے کہ 92ء کے ورلڈ کپ کے بعد کھلاڑیوں نے ایک طرح سے ان کے خلاف بغاوت کر دی، اور وہ سمجھنے لگے کہ جیسے ساری انعامی رقم شوکت خانم ہسپتال کوجا رہی ہے، شالیمارباغ میں قومی ٹیم عمران کوتنہا چھوڑ کر استقبالیہ تقریب سے غائب ہوگئی، جس کا انھیں بہت رنج ہوا اور اس واقعہ نے ان کو ریٹائرمنٹ کے فیصلے پرپہنچے پر مجبور کیا، وگرنہ وہ انگلینڈ کا دورہ بھی کر سکتے تھے۔ اس صورتحال میں وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے رہے۔
اس قضیے کے بارے میں پوچھا توبات زیادہ آگے بڑھائی نہیں۔ بتایا تو صرف اتنا کہ جو ہوا وہ غلط ہوا، لڑکوں کا یہ سمجھناکہ سارا پیسہ عمران کے ہسپتال کو جارہا ہے غلط بات تھی۔ان کے دورکپتانی میں بعض ٹیسٹ میچوں میں ممکنہ کامیابیاں جس طرح شکست میں تبدیل ہوتی رہیں، اس کے اسباب پر بات ہو تو ناقص بیٹنگ سے بات آگے بڑھتی نہیں، لیکن دورانِ گفتگو ایک بار وہ دل کی بات زبان پرلائے، لیکن بڑے ضبط سے، نام اس بار بھی کسی کا نہیں لیا۔ ان کے بقول: '' بعض کھلاڑی سوچتے تھے کہ اگر میں بیرون ملک سیریز جیت گیا تو نہ جانے میں کیا بن جاؤں گا۔ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ کھلاڑیوں نے حسد کی وجہ سے جان بوجھ کرخراب کھیل پیش کیا۔''
انتخاب عالم پاکستان کی ون ڈے ٹیم کے پہلے کپتان ہیں۔ ان کے زیرقیادت 1974ء میں انگلینڈکے خلاف دوون ڈے پاکستان نے کھیلے اور کامیابی حاصل کی۔ انگلینڈ میں کھیلنے کا وسیع تجربہ اورآل راؤنڈرہونے کے باوجود پہلے ورلڈکپ کے اسکواڈ میں شامل نہ تھے۔ پاکستان ٹیم نے سرے سے پریکٹس میچ کھیلا توانھوں نے کاؤنٹی ٹیم کی طرف سے 95رنز بنا ڈالے۔ اس موقع پروہاںموجود تماشائیوں نے ٹیم سے ان کے اخراج پراحتجاج بھی کیا۔
محمد برادران سے ان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ حنیف محمد کا موقف رہا ہے کہ عبدالحفیظ کاردار نے انھیں ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور کیا۔ حنیف محمد نے آخری ٹیسٹ انتخاب عالم کی کپتانی میں کھیلا۔ حنیف محمد کے بین الاقوامی کرکٹ سے الگ ہونے سے متعلق پوچھا تو وہ بولے : ''حنیف محمد کمال کے بیٹسمین تھے۔ ان کے گھٹنے میں پرابلم تھی، ٹیم میں بھی احساس یہی تھا کہ اب انھیں ریٹائر ہو جانا چاہیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے سلسلے میں کاردار نے کوئی زبردستی کی۔''
مشتاق محمد کے ساتھ بھی ان کی بنتی نہیں تھی، اور جب وہ کپتان بنے تو انتخاب عالم کی ٹیم میںشمولیت پر کسی صورت راضی نہیں تھے، اور اس معاملے پر ان کا بورڈ سے پھڈا بھی ہو گیا۔ پاکستان کرکٹ پرحال ہی میں شائع ہونے والی پیٹراوبورن کی لاجواب کتاب"Wounded Tiger: A History of Cricket in Pakistan" میں صادق محمد کا بیان نقل ہوا ہے جس کے مطابق، ویسٹ انڈیزکے خلاف ایک میچ میں کپتان انتخاب عالم نے انھیں غیرضروری طور پر شاٹ لیگ پر کھڑا کیا اور پھر فل ٹاس پھینک دی، جس پر بیٹسمین نے زوردار ہٹ لگائی اور وہ شدید زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گئے اور مرتے مرتے بچے۔ اس واقعہ پران کی رائے جاننی چاہی تو بولے: ''یہ بالکل غلط بات ہے، میری نیت میں کوئی خرابی نہیں تھی، فل ٹاس لیگ اسپنرسے کبھی کبھار گرجاتا ہے۔''
انتخاب عالم نے 28دسمبر 1941ء کو ہشیارپور میں آنکھ کھولی۔ والد، نصیرالدین خان انجینئرتھے۔ کرکٹ کا شوق رکھتے تھے۔ مہاراجہ پٹیالہ کی ٹیم کا حصہ رہے۔ تقسیم کے بعد انھوں نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا اور ان کا گھرانہ اس داروگیر میں پاکستان پہنچا۔ انتخاب عالم نے بچپن میں جو قتل وغارت گری دیکھی، اس کی یاد آج بھی لرزا دیتی ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ وہ شملے سے پاکستان آنے والی آخری ٹرین میں سوار ہو کر نئے وطن پہنچے۔ کراچی اس مہاجر خاندان کا نیا مسکن ٹھہرا۔
ادھر کرکٹ کے لیے گھر کے اندر اور باہر بڑا موافق ماحول میسر آیا۔ بڑے بھائی آفتاب عالم بڑے عمدہ کرکٹر تھے۔ بدقسمتی سے پاکستان ٹیم کے لیے ان کا انتخاب نہ ہو سکا۔ انتخاب عالم بڑے بھائی کو خود سے زیادہ باصلاحیت قرار دیتے ہیں۔ انتخاب عالم جن کا دھیان میڈیم پیسربننے کی طرف تھا، انھیں بھائی نے ایک دن کہا کہ تم لیگ اسپن بولنگ پرتوجہ دو، اس فن میں اس وقت کوئی طاق نہیں، یہ بات ان کے دل میں گھرکرگئی اورانھوں نے خود کو لیگ اسپن بولنگ کے واسطے وقف کردیا۔گھرکے پچھواڑے میں ٹرف وکٹ بنارکھی تھی، جہاں تینوں بھائی خوب کرکٹ کھیلتے۔
چرچ مشن اسکول میں ان کی صلاحیتوں کو اور جِلا ملی، جہاں کھیل کا بڑامیدان تھا۔ روبی شیلڈ انٹراسکول ٹورنامنٹ میں بڑے کانٹے کے مقابلے ہوتے۔ 1957-58 میں ویسٹ انڈیز کے دورے کے بعد پاکستانی ٹیم کراچی رکی تووہاں اسے کمبائنڈ اسکولزالیون سے میچ کھیلنا تھا۔ انھیں ٹیم میں شامل نہ کیاگیا۔ نیٹ میں جب انھوں نے پاکستانی ٹیم کوبولنگ کرائی، تو کاردار متاثر ہوئے۔ ٹیم سے ان کے ڈراپ ہونے کا جان کر حیران ہوئے اور انھیں پاکستان ٹیم میں شامل کرلیا، تو چاروکٹیں لے کراپنا انتخاب درست ثابت کر دیا۔ کراچی کی نمائندگی بھی کی۔
1959ء میں پاکستان ایگلٹس کا حصہ بن کرجو کارکردگی دکھائی اس سے پہلی بار لگا کہ وہ قومی ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ 1959ء میں رچی بینوکی قیادت میں آسٹریلیوی ٹیم پاکستانی آئی۔ پریذیڈنٹ الیون کی طرف سے کھیلتے ہوئے آسٹریلیا کے 8کھلاڑی آؤٹ کئے تواس کارکردگی کی بنیاد پر کراچی میں ہونے والے تیسرے ٹیسٹ میں قومی ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ دوسرے دن کا کھیل ختم ہونے میں آدھاگھنٹہ رہ گیا تو فضل محمود نے اوورکے لیے بلایا۔ پہلا گیند کہیں شاٹ نہ پڑ جائے، اس لیے یہ عموماً پہلا گیند تیز کرتے۔ کپتان نے تجویز کیا کہ تیز گیند نہیں کرنا بلکہ لیگ بریک کرنا۔کپتان کے کہنے پرلیگ بریک کرائی جوپڑ کر کافی تیزنکلی، بیٹسمین کولن میکڈونلڈ کٹ مارنے کی کوشش میں بولڈ ہوگیا۔
ان کے بقول: ''یہ سب اللہ کی مہربانی تھی۔مجھے سمجھ نہیں آیا یہ کیا ہو گیا ہے۔ اسٹیڈیم تماشائیوں کی تالیوں سے گونج اٹھا۔'' اوول ٹیسٹ میں آصف اقبال کے ساتھ یادگار پارنٹرشپ کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتایا: ''اس ٹیسٹ میں میری بائیں آنکھ میں بہت تکلیف تھی۔ اس لیے میرا بیٹنگ آرڈر نیچے ہوتا گیا لیکن ایک مرحلے پر مجھے جانا ہی پڑا۔ اس وقت 65پر 8کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے۔ آصف اقبال سے میں نے کہا کہ میں اسٹینڈ دوں گا۔ رفتہ رفتہ میری آنکھ کی تکلیف کم ہوتی گئی۔ رنزبننے لگے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ہم اننگزکی شکست سے دوچار ہوں گے، لیکن میرے اور آصف اقبال کے درمیان نویں وکٹ کی شراکت میں 190 رنز کا عالمی ریکارڈ بن گیا۔''
1973ء میں حیدرآبادمیں نیوزی لینڈ کے خلاف 138 رنز اور 7وکٹیں لینا بھی ان کو نہیں بھولتا، 1977ء میں ان کا ٹیسٹ کیریئر اختتام کوپہنچا۔ 47میں سے 17میچوں میں قومی ٹیم کی قیادت کے فرائض انجام دیے۔پاکستان ٹیم کی کوچنگ تووہ سالہا سال کرتے رہے لیکن دوسیزنوں میں انھوں نے بھارتی پنجاب کی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں بحران کے دنوں میں پاکستان ٹیم ادھرپھنس گئی توایسے میں انتخاب عالم نے بھاگ دوڑ کر کے ٹیم کی بحفاظت مغربی پاکستان واسپی کوممکن بنایا۔ پوربانی ہوٹل جہاں ٹیم ٹھہری تھی، وہاں سے ایئرپورٹ 15منٹ کے فاصلے پرتھا لیکن انھیں وہاں پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔
کہتے ہیں، وہ ہندوستان سے پاکستان آنے والی آخری مسافرٹرین کے بھی مسافر تھے اورمشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان آنے والی آخری فلائٹ میں بھی سوارتھے۔ انتخاب عالم جواپنے زمانے میں بہترین لیگ اسپنرتھے، وہ لیگ اسپن بولنگ کو کرکٹ میں مشکل ترین آرٹ سمجھتے ہیں، جس میں مہارت کے لیے ان کے خیال میں بہت زیادہ مشق اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ فلپرکواپنا سب سے عمدہ ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ 1973ء میں شادی ہوئی۔دوبیٹے ہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ مشکل ترین حالات میں امید کا دامن تھامے رکھنے کو اپنی سب سے بڑی قوت گردانتے ہیں۔
عمران خان کے بقول ملکہ برطانیہ سے ان کا تعارف کراتے ہوئے، کپتان انتخاب عالم ان کا نام بھول گئے،جس کی وجہ سے تصویرمیں موجود عظمت رانا کے لیے ہنسی پرقابوپانا ممکن نہیں ہوپارہا۔اس بارے میں انتخاب عالم سے پوچھا توکہنے لگے کہ ان کی یادداشت میں یہ بات نہیں لیکن عمران نے اگریہ کہا ہے تودرست ہوگا۔ انتخاب عالم نے عمران خان کوبین الاقوامی کرکٹ میں پہلا گیند کراتے کپتان کی حیثیت سے دیکھا اور 1992ء کے ورلڈ کپ فائنل میں جب انھوں نے کیریئرکی آخری گیند پھینکی تواس وقت منیجراورکوچ تھے۔
عمران خان کے بارے میں ان سے جوبات چیت ہوئی،اس کا لب لباب کچھ یوں ہے: '' عمران خان کی پہلے ٹیسٹ میں پرفارمنس بڑی مایوس کن تھی لیکن ہمت نہیں ہاری۔کچھ کرنے کی لگن اس میں تھی۔محنتی بہت تھا۔انگلینڈ میں رہ کرکاؤنٹی کرکٹ کھیلنے سے اسے بہت فائدہ ہوا اوراس نے وہاں سے بہت سیکھا، اس لیے جب اسے دوبارہ ٹیم میں جگہ ملی توپھراس کے کھیل میں نکھارآتا گیا۔جب وہ ٹیم میں آیا توشرمیلاتھا۔زیادہ گھلتاملتانہیں تھا۔ 1982ء میں دورۂ انگلینڈ سے قبل پاکستان کرکٹ بڑے بحرانوں سے گزری۔میانداد کے خلاف کھلاڑیوں نے بغاوت کردی۔
میں اس عرصے میں انگلینڈ سے پاکستان آیا اورکرکٹ بورڈ کے چیئرمین نورخان سے ملاقات ہوئی توانھوں نے مجھ سے کہا کہ فٹبال کی طرح کرکٹ میں بھی منیجرہونا چاہیے گراؤنڈ سے باہرمعاملات کودیکھے اورکپتان زیادہ یکسوئی سے اپنا کام کرسکے۔وہ کسی سینئر کوکپتان بنانا چاہتے تھے لیکن میں نے عمران خان کا نام تجویزکیا اورانھیں اس پرقائل کیاکیونکہ میرے خیال میں وہ وژنری اورفوکسڈ تھا اس لیے بہترکپتان ثابت ہوسکتا تھا۔ ''
''1992 ء کاورلڈ کپ شروع ہونے سے ایک ماہ قبل ہم آسٹریلیا چلے گئے۔سارے پریکٹس میچ ہم ہارگئے، لیکن ماحول سے مانوس ہوگئے۔ہم شروع میں تین میچ ہارگئے۔انگلینڈ کے خلاف ہم 74 اسکورپرآؤٹ ہوگئے،لیکن بارش کی وجہ سے میچ مکمل نہ ہوا اورہمیں ایک پوائنٹ مل گیاجوآگے چل کر سیمی فائینل میں پہنچنے کی بنیاد بن گیا۔میچ ہارنے کے باوجود ڈریسنگ روم کا ماحول بہت اچھا تھا۔عمران خان فٹ نہیں تھا، اس کے کندھے میں تکلیف تھی، اس وجہ سے وہ دومیچ کھیلا بھی نہیں، پر اسے اپنی کامیابی کا یقین تھا۔شروع وہ انجکشن لگواکرکھیلنے کے لیے تیارنہیں تھا، مگربعد میں وہ مان گیا،شروع میں اسے تکلیف ہوتی لیکن جیسے جیسے کندھا گرم ہوتا جاتابہترہوتا جاتا۔
نمبرتین پربیٹنگ کرنے کی تجویزمیں نے دی،اورپھراس پرعمران کوقائل کیا ، جوایسی آسان بات نہیں تھی۔یہ فیصلہ ٹیم کے حق میں گیا۔سیمی فائنل سے قبل انضمام الحق کے معدے میں گڑبڑتھی،اس لیے وہ میچ میں شریک ہونا نہیں چاہتاتھا،عمران نے اس سے کہا کہ چاہے لولے لنگڑے ہوجاؤ، پرتم نے ضرورکھیلنا ہے۔ٹیم کوتمھاری ضرورت ہے۔اورپھرسب نے دیکھا کہ انضمام ہی نے ٹیم کوجتوانے میں مرکزی کرداراداکیا۔ کپتان ٹاس کرنے اپنے ملک کا بلیزرپہن کرجاتا ہے مگر عمران نے اس روایت کوتوڑ کر ٹائیگر کی تصویروالی ٹی شرٹ پہنی، چیپل نے جب اس بارے میں پوچھا تواس نے کہا کہ میں لڑکوں کوبتانا چاہتاہوں کہ انھوں نے ٹائیگرکی طرح کھیلنا ہے۔
میں نے اسے ٹی شرٹ پہننے سے روکا نہیں کیونکہ میں اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔نیوزی لینڈ سے پول میچ جیت لینے کے بعد بھی ہم سیمی فائنل میں نہیں پہنچے تھے، اورہمیں ویسٹ انڈیزاورآسٹریلیا کے میچ کا انتظارکرنا تھا، جس میں اگرویسٹ انڈیزجیت جاتا تووہ سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرجاتا لیکن وہ ہارگیااورہم سیمی فائنل میں پہنچ گئے۔فائنل میرے لیے اس لیے بھی خاص اہمیت کا حامل تھا کہ انگلینڈ ٹیم میں میرے ہم منصب مکی اسٹیورٹ سرے میں میرے کپتان تھے، ہم میچ جیت گئے تومجھے مبارکباد دینے خاص طورسے ہمارے ڈریسنگ روم میں آئے۔ ''