’’نکسن والی گھڑی‘‘
ہمارے مختلف اداروں کے درمیان اختیارات کی ایک طویل جنگ بہت عرصے سے جاری ہے
اپنے دھندے میں برسوں جھک مارنے کے بعد میں نے کچھ اور سیکھا ہو یا نہیں ایک بات خوب جان لی ہے۔
وہ یہ کہ صحافی یا کوئی صحافتی ادارہ خواہ کتنا ہی مقبول ،موثر اور بااصول نظر آنے والا کیوں نہ ہوں ،نہ تو حکومتیں بناسکتا ہے نہ انھیں گراسکتا ہے ۔دُکھ تو مجھے اس بات کا ہے کہ 1986ء سے تقریباََ 2000تک خودکو ''بادشاہ گر'' صحافیوں کی فہرست میں شامل ہونے کے گمان میں مبتلا رہا ۔ جب ہوش آئی تو بہت وقت گزرچکا تھا۔اپنے جسم وجان میں وہ توانائی باقی ہی نہ رہی تھی جو مجھے صحافت کے صحیح ڈھب پر چلتے ہوئے نئی جہتوں کی دریافت کے قابل بناسکے ۔
میری عمر کے لوگوں پر''بادشاہ گر'' صحافت کرنے کا جنون کچھ اس لیے بھی سوار ہوا کہ امریکا کا ایک بہت تگڑا صدر ہوا کرتا تھا ۔ نام اس کا تھا رچرڈنکسن ۔اس کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے تھا۔سرد جنگ کے زمانے میں یہ جماعت کمیونسٹ ملکوں اور نظام کی اصل دشمن سمجھی جاتی تھی ۔اس جماعت نے ہمیشہ امریکا کو اپنی فوجی قوت کے ذریعے دنیا کو زیر نگیں کرنے کے خواب کو عملی صورتیں فراہم کیں ۔
مگر اسی جماعت کے صدر نکسن نے کمیونسٹ چین سے دوستی کی راہ نکال کر تاریخی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ۔نکسن جیسے دیومالائی قدکاٹھ والا یہی صدر مگر اس وقت بڑا ہی کمزور اور بے بس نظر آیا جب امریکی اخبار''واشنگٹن پوسٹ'' نے اپنے دو صحافیوں کے ذریعے واٹرگیٹ اسکینڈل اُچھالنا شروع کردیا ۔بالآخر نکسن کو صدارت سے استعفیٰ دے کر اپنی گلوخلاصی کرانا پڑی۔''واشنگٹن پوسٹ'' کی واہ واہ ہوگئی اور میرے جیسے نوجوان صحافیوں نے واٹر گیٹ اسکینڈل کو ڈھونڈ کر اس کا جی جان سے پیچھا کرنے والے Bob Wood Wardsصحافیوں کو اپنا آئیڈل بنالیا اور اپنے اپنے طورپر ''بادشاہ شکن'' اسکینڈلوں کی تلاش میں چل نکلے۔
میری کوئی رہنمائی کرنے والا ہوتا تو شاید میں بہت پہلے جان لیتا کہ واٹر گیٹ اسکینڈل کو دریافت کرکے اچھالنے والا باب ووڈورڈز کوئی اتنا بڑا ''پھنے خان '' نہ تھا۔نکسن کے زوال کی راہ بنانے والی طاقتیں کوئی اور تھیں ۔وہ تو محض آلہ کار تھا جسے "Deep Throat"کے فرضی نام سے ''اندر کا ایک شخص '' ایسی تفصیلات فراہم کرتا رہا جن کا جھٹلایا جانا ناممکن تھا ۔بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی۔سب سے اہم بات یہ بھی تھی کہ ''واشنگٹن پوسٹ'' جیسا اخبار اس کی سنسنی خیز خبروں کو چھاپنے کے لیے ہمہ وقت تیار تھااورمجھے کبھی بھی یہ خوش فہمی نہیں رہی کہ ''واشنگٹن پوسٹ''یہ سب کچھ کسی بہت بڑے اصول کی خاطر کررہا تھا۔امریکی اشرافیہ میں گہری جڑیں رکھنے والے اس اخبار کے مالکوں کا اپنا''ایجنڈا'' بھی تھا۔
واٹرگیٹ اسکینڈل کی حقیقت کو سمجھنے میں اتفاق سے ذوالفقار علی بھٹو کی ایک کتاب نے بھی میری بہت مدد کی۔''اگر مجھے قتل کردیا گیا'' نامی یہ کتاب انھوں نے جیل میں گزارے اپنے آخری ایام میں لکھی تھی۔میں نے اسے باقاعدہ چھپ کر قانونی طورپر کتابوں کی دوکانوں کے ذریعے فروخت ہونے سے کئی سال پہلے پڑھ لیا تھا۔مگر اس کی باقاعدہ اشاعت کے بعد اس کی ایک جلد خریدلی اور اسے کتابوں کی الماری میں رکھ کر بھول گیا ۔جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے چند ماہ بعد میری اس کتاب پر اچانک نظر پڑگئی اور میں نے اسے الماری سے نکال لیا۔میرا اصل مقصد تو اس کتاب کے ذریعے یہ سمجھنے کی کوشش کرنا تھا کہ پاکستان میں فوج وقفوں وقفوں سے اقتدار پر قبضہ کیوں کرلیتی ہے ۔
مگر یہ کتاب پڑھتے ہوئے میرا ذہن اس تجزیے سے زیادہ مسحور ہوا جو بھٹو صاحب نے نکسن کے زوال کے بارے میں کیا تھا۔اس تجزیے کا مختصر خلاصہ یہ تھا کہ چند بڑے قدکاٹھ والے سیاستدان جب اپنے ملک کے ''دوامی مالکوں'' یعنی فوجی اشرافیہ اور نوکرشاہی سے زیادہ طاقتور نظر آنا شروع ہوجائیں تو مختلف سازشوں کے ذریعے ان کا تختہ اُلٹا دیا جاتا ہے ۔نکسن کے زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے بھٹو صاحب یقیناً ہمیں یہ باور کرانا چاہ رہے تھے کہ گویا انھوں نے بھی پاکستان کے ''دوامی مالکوں'' سے بالاتر ہوکر آگے بڑھنے کی کوشش کی اور قتل کے الزام میں پھانسی کے حقدار بنادیے گئے ۔
یہ کتاب پڑھنے تک باب ووڈورڈز کو اپنا آئیڈل سمجھنے والے میرے جیسے صحافیوں کے لیے یہ تجزیہ لیکن صحافت کی ''اصل اوقات'' کو جاننے کا ایک راستہ بنا۔پھر مجھے یہ بھی سمجھ آنا شروع ہوگیا کہ امریکا جب بھی کسی ملک پر حملہ آور ہوتاہے تو اس کے اسباب اور فیصلہ سازی سے متعلقہ معاملات کے بارے میں سب سے زیادہ بکنے اور پڑھی جانے والی کتاب باب ووڈورڈز ہی کیوں لکھتا ہے ۔امریکی صدر اوباما نے اپنے انتخاب کے بعد افغانستان میں مقیم امریکی افواج کی تعداد کو Surgeکے نام پر بڑھانے کا جو فیصلہ کیا اس کے بارے میں بھی سب سے ٹھوس کتاب اسی صحافی نے لکھی ہے ۔
وہ امریکی حکام کے ساتھ پاکستان کے دورے پر بھی آیا اور ایک ایسے اجلاس میں بیٹھنے کا موقعہ حاصل کیا جو امریکی حکام کی پاکستان کے صدر کے ساتھ ''سرکاری سطح'' پر منعقد ہوا تھا۔ہمارے ملک کے کتنے صحافی اس طرح کے اعلیٰ ترین سطحوں پر منعقد ہونے والے ''سرکاری مذاکرات'' میں بذات خود بیٹھنے کا دعویٰ کرسکتے ہیں ۔کچھ طاقتور لوگوں کے ساتھ بہت ہی کم مگر تنہائی میں ہونے والی ''آف دی ریکارڈ'' گپ شپ کے بعد سب کچھ جان لینے کے دعوے دار صحافی بن جانا مجھے اب مضحکہ خیز محسوس ہوتا ہے ۔
بہرحال میں اپنی اصل بات پر لوٹتا ہوں اور وہ یہ کہ کوئی صحافی یا صحافتی ادارہ خواہ کتنا ہی مقبول ،موثر اور بااصول دِکھنے والا کیوں نہ ہو ریاست کے ''اصل مالکوں'' خواہ وہ منتخب اداروں میں بیٹھنے کی وجہ سے ہمارے بادشاہ بنے ہوں یا غیر منتخب اداروںکی فطری طاقت کے ذریعے کی قسمتوں کے فیصلے نہیں کرسکتا۔ ریاستی طاقت کے ''فریقین'' کے درمیان اگر کوئی ''جنگ'' چھڑ جائے تو صحافی صرف کسی نہ کسی ایک فریق کے آلہ کار ہی بن سکتے ہیں ۔
یہ بات تو اب سب پر عیاں ہوگئی ہے کہ ہمارے مختلف اداروں کے درمیان اختیارات کی ایک طویل جنگ بہت عرصے سے جاری ہے ۔فی الحال تومنظر یہی بن رہا ہے کہ ابھی تک ''ایک فرد'' سب سے کامیاب وکامران ٹھہرا۔برائے مہربانی یہ نہ سمجھئے گا کہ میرا اشارہ ''سب پر بھاری'' کی طرف ہے ۔مگر جو بھی ''جیتتا''نظر آیا وہ اب اس ملک کے ''دوامی مالکوں'' سے بھی بالاتر ثابت ہوتا بھی نظر آرہا ہے ۔اس کے بعد صرف اتنا کہوں گا کہ اب یہ صورتحال برقرار رہتی نظر نہیں آرہی ۔کیوں اور کیسے ؟ میری زبان بند ہے ۔
اکثر مجھے فیس بک اور ٹویٹر پر انقلابی بنے ''تبدیلی کے نشانوں'' کے گالیوں بھرے پیغام آتے ہیں ۔جن میں اس کالم کا حوالہ دیتے ہوئے یاددلایا جاتا ہے کہ میں پورا سچ لکھنے کے ضمن میں عادتاََ ''بکری ہوتا'' پایا جاتا ہوں ۔سیماب صفت نونہالانِ انقلاب کے مقابلے میں مجبوری میری یہ ہے کہ میں انٹرنیٹ پر نہیں ایک اخبار کے لیے لکھتا ہوں۔کسی بھی اخبارکی طرح میرے اخبارکی بھی کچھ''حدود'' ہیں ۔انھیں پارکروتو نقصان اس میں لکھنے والے چند کالم نگاروں کا نہیں ،سارے ادارے کا ہوتا ہے اور صحافتی ادارے کی ''حدود'' کا مطلب اس کے مالکان کے مفادات ہی نہیں ہوتے،ان میں کام کرنے والے سیکڑوں افراد اور ان کا رزق ان سے بھی کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے ۔ اپنی تصویروں سمیت چھپنے والے میرے جیسے کالم نگاروں کو ہمیشہ یاد رکھنا ہوتا ہے کہ ان کے سیکڑوں ساتھی اور ان کے خاندان والے گمنام لوگ ہوا کرتے ہیں ۔میری ''مشہوری'' کی سزا وہ کیوں بھگتیں؟
مجھے یہ زعم ہے کہ میں اپنے ایڈیٹر کے چہیتوں میں سے ایک ہوں ۔ہوسکتا ہے سید عباس اطہر کے چہیتے ترین لوگوں کی فہرست میں میرا شمار پہلے دو تین لوگوں میں کیا جائے ۔لیکن اگر شاہ جی بھی اصرار کریں گے کہ میں ذرا کھل کر لکھ دوں کہ ''نکسن والی گھڑی'' کس کی آنے والی ہے تو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لوں گا ۔
وہ یہ کہ صحافی یا کوئی صحافتی ادارہ خواہ کتنا ہی مقبول ،موثر اور بااصول نظر آنے والا کیوں نہ ہوں ،نہ تو حکومتیں بناسکتا ہے نہ انھیں گراسکتا ہے ۔دُکھ تو مجھے اس بات کا ہے کہ 1986ء سے تقریباََ 2000تک خودکو ''بادشاہ گر'' صحافیوں کی فہرست میں شامل ہونے کے گمان میں مبتلا رہا ۔ جب ہوش آئی تو بہت وقت گزرچکا تھا۔اپنے جسم وجان میں وہ توانائی باقی ہی نہ رہی تھی جو مجھے صحافت کے صحیح ڈھب پر چلتے ہوئے نئی جہتوں کی دریافت کے قابل بناسکے ۔
میری عمر کے لوگوں پر''بادشاہ گر'' صحافت کرنے کا جنون کچھ اس لیے بھی سوار ہوا کہ امریکا کا ایک بہت تگڑا صدر ہوا کرتا تھا ۔ نام اس کا تھا رچرڈنکسن ۔اس کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے تھا۔سرد جنگ کے زمانے میں یہ جماعت کمیونسٹ ملکوں اور نظام کی اصل دشمن سمجھی جاتی تھی ۔اس جماعت نے ہمیشہ امریکا کو اپنی فوجی قوت کے ذریعے دنیا کو زیر نگیں کرنے کے خواب کو عملی صورتیں فراہم کیں ۔
مگر اسی جماعت کے صدر نکسن نے کمیونسٹ چین سے دوستی کی راہ نکال کر تاریخی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی ۔نکسن جیسے دیومالائی قدکاٹھ والا یہی صدر مگر اس وقت بڑا ہی کمزور اور بے بس نظر آیا جب امریکی اخبار''واشنگٹن پوسٹ'' نے اپنے دو صحافیوں کے ذریعے واٹرگیٹ اسکینڈل اُچھالنا شروع کردیا ۔بالآخر نکسن کو صدارت سے استعفیٰ دے کر اپنی گلوخلاصی کرانا پڑی۔''واشنگٹن پوسٹ'' کی واہ واہ ہوگئی اور میرے جیسے نوجوان صحافیوں نے واٹر گیٹ اسکینڈل کو ڈھونڈ کر اس کا جی جان سے پیچھا کرنے والے Bob Wood Wardsصحافیوں کو اپنا آئیڈل بنالیا اور اپنے اپنے طورپر ''بادشاہ شکن'' اسکینڈلوں کی تلاش میں چل نکلے۔
میری کوئی رہنمائی کرنے والا ہوتا تو شاید میں بہت پہلے جان لیتا کہ واٹر گیٹ اسکینڈل کو دریافت کرکے اچھالنے والا باب ووڈورڈز کوئی اتنا بڑا ''پھنے خان '' نہ تھا۔نکسن کے زوال کی راہ بنانے والی طاقتیں کوئی اور تھیں ۔وہ تو محض آلہ کار تھا جسے "Deep Throat"کے فرضی نام سے ''اندر کا ایک شخص '' ایسی تفصیلات فراہم کرتا رہا جن کا جھٹلایا جانا ناممکن تھا ۔بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی۔سب سے اہم بات یہ بھی تھی کہ ''واشنگٹن پوسٹ'' جیسا اخبار اس کی سنسنی خیز خبروں کو چھاپنے کے لیے ہمہ وقت تیار تھااورمجھے کبھی بھی یہ خوش فہمی نہیں رہی کہ ''واشنگٹن پوسٹ''یہ سب کچھ کسی بہت بڑے اصول کی خاطر کررہا تھا۔امریکی اشرافیہ میں گہری جڑیں رکھنے والے اس اخبار کے مالکوں کا اپنا''ایجنڈا'' بھی تھا۔
واٹرگیٹ اسکینڈل کی حقیقت کو سمجھنے میں اتفاق سے ذوالفقار علی بھٹو کی ایک کتاب نے بھی میری بہت مدد کی۔''اگر مجھے قتل کردیا گیا'' نامی یہ کتاب انھوں نے جیل میں گزارے اپنے آخری ایام میں لکھی تھی۔میں نے اسے باقاعدہ چھپ کر قانونی طورپر کتابوں کی دوکانوں کے ذریعے فروخت ہونے سے کئی سال پہلے پڑھ لیا تھا۔مگر اس کی باقاعدہ اشاعت کے بعد اس کی ایک جلد خریدلی اور اسے کتابوں کی الماری میں رکھ کر بھول گیا ۔جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے چند ماہ بعد میری اس کتاب پر اچانک نظر پڑگئی اور میں نے اسے الماری سے نکال لیا۔میرا اصل مقصد تو اس کتاب کے ذریعے یہ سمجھنے کی کوشش کرنا تھا کہ پاکستان میں فوج وقفوں وقفوں سے اقتدار پر قبضہ کیوں کرلیتی ہے ۔
مگر یہ کتاب پڑھتے ہوئے میرا ذہن اس تجزیے سے زیادہ مسحور ہوا جو بھٹو صاحب نے نکسن کے زوال کے بارے میں کیا تھا۔اس تجزیے کا مختصر خلاصہ یہ تھا کہ چند بڑے قدکاٹھ والے سیاستدان جب اپنے ملک کے ''دوامی مالکوں'' یعنی فوجی اشرافیہ اور نوکرشاہی سے زیادہ طاقتور نظر آنا شروع ہوجائیں تو مختلف سازشوں کے ذریعے ان کا تختہ اُلٹا دیا جاتا ہے ۔نکسن کے زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے بھٹو صاحب یقیناً ہمیں یہ باور کرانا چاہ رہے تھے کہ گویا انھوں نے بھی پاکستان کے ''دوامی مالکوں'' سے بالاتر ہوکر آگے بڑھنے کی کوشش کی اور قتل کے الزام میں پھانسی کے حقدار بنادیے گئے ۔
یہ کتاب پڑھنے تک باب ووڈورڈز کو اپنا آئیڈل سمجھنے والے میرے جیسے صحافیوں کے لیے یہ تجزیہ لیکن صحافت کی ''اصل اوقات'' کو جاننے کا ایک راستہ بنا۔پھر مجھے یہ بھی سمجھ آنا شروع ہوگیا کہ امریکا جب بھی کسی ملک پر حملہ آور ہوتاہے تو اس کے اسباب اور فیصلہ سازی سے متعلقہ معاملات کے بارے میں سب سے زیادہ بکنے اور پڑھی جانے والی کتاب باب ووڈورڈز ہی کیوں لکھتا ہے ۔امریکی صدر اوباما نے اپنے انتخاب کے بعد افغانستان میں مقیم امریکی افواج کی تعداد کو Surgeکے نام پر بڑھانے کا جو فیصلہ کیا اس کے بارے میں بھی سب سے ٹھوس کتاب اسی صحافی نے لکھی ہے ۔
وہ امریکی حکام کے ساتھ پاکستان کے دورے پر بھی آیا اور ایک ایسے اجلاس میں بیٹھنے کا موقعہ حاصل کیا جو امریکی حکام کی پاکستان کے صدر کے ساتھ ''سرکاری سطح'' پر منعقد ہوا تھا۔ہمارے ملک کے کتنے صحافی اس طرح کے اعلیٰ ترین سطحوں پر منعقد ہونے والے ''سرکاری مذاکرات'' میں بذات خود بیٹھنے کا دعویٰ کرسکتے ہیں ۔کچھ طاقتور لوگوں کے ساتھ بہت ہی کم مگر تنہائی میں ہونے والی ''آف دی ریکارڈ'' گپ شپ کے بعد سب کچھ جان لینے کے دعوے دار صحافی بن جانا مجھے اب مضحکہ خیز محسوس ہوتا ہے ۔
بہرحال میں اپنی اصل بات پر لوٹتا ہوں اور وہ یہ کہ کوئی صحافی یا صحافتی ادارہ خواہ کتنا ہی مقبول ،موثر اور بااصول دِکھنے والا کیوں نہ ہو ریاست کے ''اصل مالکوں'' خواہ وہ منتخب اداروں میں بیٹھنے کی وجہ سے ہمارے بادشاہ بنے ہوں یا غیر منتخب اداروںکی فطری طاقت کے ذریعے کی قسمتوں کے فیصلے نہیں کرسکتا۔ ریاستی طاقت کے ''فریقین'' کے درمیان اگر کوئی ''جنگ'' چھڑ جائے تو صحافی صرف کسی نہ کسی ایک فریق کے آلہ کار ہی بن سکتے ہیں ۔
یہ بات تو اب سب پر عیاں ہوگئی ہے کہ ہمارے مختلف اداروں کے درمیان اختیارات کی ایک طویل جنگ بہت عرصے سے جاری ہے ۔فی الحال تومنظر یہی بن رہا ہے کہ ابھی تک ''ایک فرد'' سب سے کامیاب وکامران ٹھہرا۔برائے مہربانی یہ نہ سمجھئے گا کہ میرا اشارہ ''سب پر بھاری'' کی طرف ہے ۔مگر جو بھی ''جیتتا''نظر آیا وہ اب اس ملک کے ''دوامی مالکوں'' سے بھی بالاتر ثابت ہوتا بھی نظر آرہا ہے ۔اس کے بعد صرف اتنا کہوں گا کہ اب یہ صورتحال برقرار رہتی نظر نہیں آرہی ۔کیوں اور کیسے ؟ میری زبان بند ہے ۔
اکثر مجھے فیس بک اور ٹویٹر پر انقلابی بنے ''تبدیلی کے نشانوں'' کے گالیوں بھرے پیغام آتے ہیں ۔جن میں اس کالم کا حوالہ دیتے ہوئے یاددلایا جاتا ہے کہ میں پورا سچ لکھنے کے ضمن میں عادتاََ ''بکری ہوتا'' پایا جاتا ہوں ۔سیماب صفت نونہالانِ انقلاب کے مقابلے میں مجبوری میری یہ ہے کہ میں انٹرنیٹ پر نہیں ایک اخبار کے لیے لکھتا ہوں۔کسی بھی اخبارکی طرح میرے اخبارکی بھی کچھ''حدود'' ہیں ۔انھیں پارکروتو نقصان اس میں لکھنے والے چند کالم نگاروں کا نہیں ،سارے ادارے کا ہوتا ہے اور صحافتی ادارے کی ''حدود'' کا مطلب اس کے مالکان کے مفادات ہی نہیں ہوتے،ان میں کام کرنے والے سیکڑوں افراد اور ان کا رزق ان سے بھی کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے ۔ اپنی تصویروں سمیت چھپنے والے میرے جیسے کالم نگاروں کو ہمیشہ یاد رکھنا ہوتا ہے کہ ان کے سیکڑوں ساتھی اور ان کے خاندان والے گمنام لوگ ہوا کرتے ہیں ۔میری ''مشہوری'' کی سزا وہ کیوں بھگتیں؟
مجھے یہ زعم ہے کہ میں اپنے ایڈیٹر کے چہیتوں میں سے ایک ہوں ۔ہوسکتا ہے سید عباس اطہر کے چہیتے ترین لوگوں کی فہرست میں میرا شمار پہلے دو تین لوگوں میں کیا جائے ۔لیکن اگر شاہ جی بھی اصرار کریں گے کہ میں ذرا کھل کر لکھ دوں کہ ''نکسن والی گھڑی'' کس کی آنے والی ہے تو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لوں گا ۔