پیکیج ڈیل
ہر پیر کا ایک آستانہ بھی برطانیہ کے کسی شہر میں ضرور موجود ہو گا بلکہ بعض کے آستانے تو کئی شہروں میں ملیں گے۔
پاکستان سے جا کر برطانیہ میں آباد ہونے والے افراد اپنے ساتھ یہاں کے سیاسی اختلافات اور مذہبی تعصبات بھی لے کر گئے ہیں۔ سیاسی اختلافات کی گہرائی اتنی شدید نہیں، اس لیے کہ وہاں پر موجود پاکستانی بڑی آسانی سے اپنے لیڈر اور پارٹی کو بدل لیتے ہیں۔ کوئی توقعات پر پورا نہ اترا تو دوسرے سے امیدیں لگا لی جاتی ہیں۔ نہ وہاں برداری کا اثر و رسوخ اتنا موجود ہے اور نہ ہی کسی پارٹی کی ہار جیت کے ساتھ علاقے میں چودھراہٹ وابستہ ہے اسی لیے وہاں سیاسی چپقلش گہری نہیں ہے۔ لیکن مذہبی تعصبات تو ایسے لگتا ہے، وہاں جا کر انھیں مہمیز لگ جاتی ہے۔ جو کچھ وہ یہاں نہیں کر پاتے برطانیہ کی اظہارِ رائے کی آزادی کے پرچم تلے کر گزرتے ہیں۔ ہر فقہ اور ہر مسلک کی مسجد آپ کو وہاں نظر آئے گی۔
ہر پیر کا ایک آستانہ بھی برطانیہ کے کسی شہر میں ضرور موجود ہو گا بلکہ بعض کے آستانے تو کئی شہروں میں ملیں گے۔ علمائے کرام بھی سب کے سب پاکستان سے درآمد کیے جاتے ہیں اور خطبہ بھی اُردو، پشتو، سندھی یا پنجابی میں دیا جاتا ہے۔ مجمع گرمانے اور مسلکی اختلاف سے لوگوں کے جسموں میں بجلی دوڑانے کا جو فن ان علماء نے یہاں سیکھا اور استعمال کیا ہوتا ہے اس کا مکمل اور پرُ جوش اظہار برطانیہ کی ان مساجد میں ہوتا ہے۔ برمنگھم جیسے شہر میں ڈیڑھ سو سے زیادہ مساجد ہیں اور کسی کا مولوی دوسرے کے مولوی سے ہم آہنگی نہیں رکھتا۔ یہ مسلکی اختلاف اسقدر وسیع ہے کہ پورے برطانیہ میں ہر سال دو سے تین عیدیں ہوتی ہیں اور کوئی آپس میں متحد ہونے، اتحاد علماء کا گروہ بنانے یا آپس میں مل بیٹھ کر اس اختلاف کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ برطانیہ میں ہر مسلک نے اپنا ایک ٹی وی چینل بھی کھول رکھا ہے۔
ان چینلوں پر ہونے والے پروگرام اسقدر بے باک ہوتے ہیں کہ اگر پاکستان میں ان میں سے ایک پروگرام بھی نشر ہو جائے تو آگ لگ جائے۔ ان پروگراموں کا سب سے خطرناک حصہ وہ لائیو کالز ہیں جو لوگ وہاں پر بیٹھے علماء کرام سے سوالات کی صورت پوچھتے ہیں۔ دوسری جانب سے ٹیلیفون پر بات کرنے والا پوری آزادی سے جس کسی فرقے کی مقدس ہستی کو جو کچھ کہہ کر فون بند کرتا ہے یا عجیب و غریب لہجے میں سوال کرتا ہے۔ ایسا بارہا اور بار بار ان چینلوں میں ہوا جس کی ریکارڈنگ یوٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے۔ وہاں لاکھوں کے قریب پاکستانی رہتے ہیں جو اپنی کمائی سے ان علمائے کرام اور ان کی مساجد کا خرچہ اٹھاتے ہیں، بلکہ ان علماء کے پاکستان میں مراکز، مساجد اور مدرسوں کے لیے بھی رقم مہیا کرتے ہیں۔
وہاں رہنے والے پاکستانی گرم جوش اور ایمان افروز تقریر سنتے ہیں، کفر کے فتوے اور الزامات بھی ان کے کانوں سے ٹکراتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں کوئی سپاہ محمد اور لشکر جھنگوی نہیں بن سکا۔ کسی نے جتھوں کی صورت منظم ہو کر اپنے مخالف کو قتل کر کے جنت کمانے کی نہیں سوچی، وہاں کسی کو لاؤڈ اسپیکر ایکٹ نافذ کر کے مساجد میں صرف عربی میں خطبہ دینے کی پابندی عائد نہیں کرنا پڑی۔ کبھی کسی نے ایک لمحے کے لیے بھی غور کیا ہے کہ اگر مسالک کی لڑائی اور فرقہ واریت کے مواد کی فراہمی قتل و غارت کی بنیاد ہوتی تو یہ لٹریچر سب سے آزادانہ طور پر برطانیہ میں ملتا ہے اور ہر کوئی انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے وہ تمام مواد پڑھ بھی سکتا ہے اور تمام تقریریں سن بھی سکتا ہے۔
پھر وہاں سے اگر کوئی جہادی پیدا بھی ہوا تو اس کا تعلق فرقہ واریت سے ہر گز نہ تھا بلکہ وہ تو خود برطانیہ اور امریکا بلکہ پورے مغرب کے خلاف جہاں کہیں بھی مسلمان لڑ رہے تھے ان کے ساتھ شانہ بشانہ لڑنے کے لیے پہنچ گیا۔ یورپ، جہاں سے لوگ جہاد کرنے افغانستان، عراق اور شام جا سکتے ہیں اور جذبۂ ایمانی سے سر فروشی بھی سینوں میں موجود ہے، وہاں فرقہ وارانہ قتل و غارت کیوں نہیں ہوتی۔ یہ ہے وہ بنیادی سوال جو ہمارے ملک میں انتظامیہ نے کبھی بھی اپنے سامنے نہیں رکھا، اس لیے کہ اس کا صرف اور صرف ایک ہی جواب ہے کہ انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی۔ برصغیر پاک و ہند میں صدیوں سے ایک محفل کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے جسے مناظرہ کہتے ہیں۔ یہ مناظرے اب مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوئے لیکن بہت محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
ان میں ایک مسلک کا عالم دوسرے مسلک کے عالم کے آمنے سامنے بیٹھ کر لاکھوں لوگوں کے سامنے گرما گرم بحث کرتا اور پھر ہار جیت پر مناظرے کا فیصلہ ہوتا۔ انگریز نے بھی عیسائی پادریوں کو برطانیہ سے بلایا اور مناظروں کا اہتمام کروایا۔ پہلا مسلمان عیسائی مناظرہ کلکتہ میں1815ء میں ایک عیسائی مشنری اسکول میں منعقد ہوا۔ پیر مہر علی شاہ صاحب اور مرزا غلام احمد قادیانی کے مناظرے تو مشہور ہیں۔ اس دور میں کفر کے فتوے لگانے والے بھی زندہ تھے اور گرم جوش تقریر یں بھی کرتے تھے۔ ان کی کتابیں بھی موجود تھیں جن کو آج کے مولوی اٹھا اٹھا کر دکھاتے ہیں کہ یہ دیکھو کیا لکھا ہے، کیسی دلا آزاری کی باتیں ہیں۔ لیکن ان سو ڈیڑھ سو سالوں میں کیا کبھی ایسے جھتے بنائے گئے کہ ایک دوسرے فرقے کے لوگوں کو قتل کیا جائے اور جنت حاصل کی جائے۔ حالانکہ جتھے اس وقت بھی بنتے تھے، مسلح جدو جہد بھی ہوتی تھی، آزاد ہند فوج بھی بنتی تھی اور بھگت سنگھ بم دھماکے بھی کرتا تھا۔ لیکن یہ سب جھتے انگریز حکمرانی کے خلاف آزادی کی جدوجہد کے لیے بنائے جاتے تھے، مسلکی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے نہیں بنتے تھے۔
فرقہ وارانہ فساد تھے لیکن وہ بھی کبھی کبھار اور وہ بھی کسی موقع پر شرارت کی وجہ سے لیکن ان پر حکومت چند گھنٹوں میں قابو پا لیتی تھی۔ کبھی لٹریچر پر پابندی یا لاؤڈ اسپیکر پر صرف عربی خطبہ دینے کی پابندی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ مناظرے ہوتے رہے، لوگ لاکھوں کی صورت اپنے اپنے مسلک کے علماء کا ساتھ دینے ایک ہی پنڈال میں جمع ہوتے رہے۔ کبھی کسی نے یہ سوال کسی اعلیٰ سطح کا اجلاس اور ایکشن پلان بناتے وقت اپنے سامنے رکھا کہ اس فرقہ وارانہ شدت پسندی اور جہادی تصورات کے مقبول ہونے کی وجہ جمعہ کا خطبہ، لاؤڈ اسپیکر کا استعمال یا لٹریچر نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ اور ہے۔ اس ''کچھ اور'' کو اہل اقتدار خوب سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں۔
اس ''کچھ اور'' کو وہ تمام علماء کرام بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور انھیں علم ہے کہ یہ سب کیوں، کس نے اور کب شروع کروایا۔ کون اس کو سرمایہ فراہم کرتا ہے، کون پناہ گاہیں مہیا کرتا ہے، کہاں سے اسلحہ آتا ہے، کس کس ملک میں جا کر قاتلوں کو پناہ ملتی ہے۔ لیکن ان سب نے جو جن بنائے تھے، وہ بوتل سے باہر آ چکے ہیں، اور انھی علماء اور اسی انتظامیہ کی گردن پر سوار ہو چکے ہیں۔ اب ان جتھوں کی قیادت علماء کے ہاتھ میں نہیں بلکہ علماء کی قیادت ان کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔ رہا مسئلہ انتظامیہ کا تو جب بندوق کسی گروہ کے فرد کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے تو پھر اس بات کا ذمے کوئی نہیں لے سکتا کہ وہ آپ کی جانب رخ نہیں کرے گی۔
کوئی اس '' کچھ اور'' وجہ پر غور کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی یہ الزام لگاتا ہے کہ جمعہ کا خطبہ گمراہ کرتا ہے اور دوسرا یہ کہتا ہے عدالتیں فیصلہ نہیں کرتیں۔ کیسے کیسے ''عظیم عقل و فہم'' کے مالک دانشور، انتظامی آفسر ایسے ممالک کی مثال لے کر آتے ہیں جن کا نفرت سے نام کبھی لینا گوارا نہیں کرتے اور یہ دلیل دیتے ہیں، کہ دیکھو وہاں ایک ہی جمعہ کا خطبہ ہوتا ہے جو سرکاری طور تقسیم کر دیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کچھ کہنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان صاحبانِ علم کو مشورہ دیتے ہوئے کم از کم ایک بار یہ سوچ لینا چاہیے تھا کہ ان ممالک میں پابندی صرف جمعہ کے خطبہ پر نہیں ہے بلکہ ہر ذریعہ اظہار پر ہے، صرف علماء پر نہیں ہر کسی پر ہے۔ سعودی عرب، ایران اور متحدہ عرب امارات کی مثالیں جس زور شور سے دی جا رہی ہیں اور جس طرح صرف خطبہ جمعہ پر پابندی کو خالصتاً علیحدہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے اس سے اگر کوئی گروہ اپنا خاص مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اندازہ تک نہیں کہ وہ کیا بیج بو رہا ہے جس کی فصل بہت تلخ بھی ہو سکتی ہے۔
جن ملکوں میں مسجد کے مولوی کا گلا گھونٹا گیا ہے وہاں ہر آواز کا گلہ بھی ساتھ ہی گھونٹا گیا ہے تا کہ معاشرے میں سختی کی کوئی تفریق نہ ہو۔ سعودی عرب، ایران، اور دیگر عرب ممالک میں کوئی صحافی کسی اخبار یا ٹیلی ویژن پر حکومت سے پوچھے بغیر ایک لفظ بھی بول سکتا ہے، کوئی سیاسی پارٹی حکومتی مرضی کے بغیر بنائی نہیں جا سکتی ہے یہ ایک پیکیج ڈیل ہے۔ یہ پابندی معاشرے کے ہر طبقے پر لگتی ہے تو قابل قبول بنتی ہے ورنہ ایک طبقہ اپنے لیے اس امتیازی سلوک کا رّدعمل ضرور دکھاتا ہے۔
اگر جمعے کے خطبوں، لٹریچر، مسلکی نعروں اور تقریروں سے قتل و غارت برپا ہوتا تو برطانیہ میں لوگ ایک دوسرے کو مسلسل قتل کر رہے ہوتے، وہاں سے عراق، افغانستان اور شام میں جا کر نہ لڑتے۔ دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی پر قابو پایا گیا وہاں قوت بازو کے ساتھ اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ ہم کہاں غلطی کر رہے ہیں۔ کیا ہماری غلطیوں سے لوگ نفرت کے الاؤ میں تو نہیں جل رہے۔
ہر پیر کا ایک آستانہ بھی برطانیہ کے کسی شہر میں ضرور موجود ہو گا بلکہ بعض کے آستانے تو کئی شہروں میں ملیں گے۔ علمائے کرام بھی سب کے سب پاکستان سے درآمد کیے جاتے ہیں اور خطبہ بھی اُردو، پشتو، سندھی یا پنجابی میں دیا جاتا ہے۔ مجمع گرمانے اور مسلکی اختلاف سے لوگوں کے جسموں میں بجلی دوڑانے کا جو فن ان علماء نے یہاں سیکھا اور استعمال کیا ہوتا ہے اس کا مکمل اور پرُ جوش اظہار برطانیہ کی ان مساجد میں ہوتا ہے۔ برمنگھم جیسے شہر میں ڈیڑھ سو سے زیادہ مساجد ہیں اور کسی کا مولوی دوسرے کے مولوی سے ہم آہنگی نہیں رکھتا۔ یہ مسلکی اختلاف اسقدر وسیع ہے کہ پورے برطانیہ میں ہر سال دو سے تین عیدیں ہوتی ہیں اور کوئی آپس میں متحد ہونے، اتحاد علماء کا گروہ بنانے یا آپس میں مل بیٹھ کر اس اختلاف کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ برطانیہ میں ہر مسلک نے اپنا ایک ٹی وی چینل بھی کھول رکھا ہے۔
ان چینلوں پر ہونے والے پروگرام اسقدر بے باک ہوتے ہیں کہ اگر پاکستان میں ان میں سے ایک پروگرام بھی نشر ہو جائے تو آگ لگ جائے۔ ان پروگراموں کا سب سے خطرناک حصہ وہ لائیو کالز ہیں جو لوگ وہاں پر بیٹھے علماء کرام سے سوالات کی صورت پوچھتے ہیں۔ دوسری جانب سے ٹیلیفون پر بات کرنے والا پوری آزادی سے جس کسی فرقے کی مقدس ہستی کو جو کچھ کہہ کر فون بند کرتا ہے یا عجیب و غریب لہجے میں سوال کرتا ہے۔ ایسا بارہا اور بار بار ان چینلوں میں ہوا جس کی ریکارڈنگ یوٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے۔ وہاں لاکھوں کے قریب پاکستانی رہتے ہیں جو اپنی کمائی سے ان علمائے کرام اور ان کی مساجد کا خرچہ اٹھاتے ہیں، بلکہ ان علماء کے پاکستان میں مراکز، مساجد اور مدرسوں کے لیے بھی رقم مہیا کرتے ہیں۔
وہاں رہنے والے پاکستانی گرم جوش اور ایمان افروز تقریر سنتے ہیں، کفر کے فتوے اور الزامات بھی ان کے کانوں سے ٹکراتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں کوئی سپاہ محمد اور لشکر جھنگوی نہیں بن سکا۔ کسی نے جتھوں کی صورت منظم ہو کر اپنے مخالف کو قتل کر کے جنت کمانے کی نہیں سوچی، وہاں کسی کو لاؤڈ اسپیکر ایکٹ نافذ کر کے مساجد میں صرف عربی میں خطبہ دینے کی پابندی عائد نہیں کرنا پڑی۔ کبھی کسی نے ایک لمحے کے لیے بھی غور کیا ہے کہ اگر مسالک کی لڑائی اور فرقہ واریت کے مواد کی فراہمی قتل و غارت کی بنیاد ہوتی تو یہ لٹریچر سب سے آزادانہ طور پر برطانیہ میں ملتا ہے اور ہر کوئی انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے وہ تمام مواد پڑھ بھی سکتا ہے اور تمام تقریریں سن بھی سکتا ہے۔
پھر وہاں سے اگر کوئی جہادی پیدا بھی ہوا تو اس کا تعلق فرقہ واریت سے ہر گز نہ تھا بلکہ وہ تو خود برطانیہ اور امریکا بلکہ پورے مغرب کے خلاف جہاں کہیں بھی مسلمان لڑ رہے تھے ان کے ساتھ شانہ بشانہ لڑنے کے لیے پہنچ گیا۔ یورپ، جہاں سے لوگ جہاد کرنے افغانستان، عراق اور شام جا سکتے ہیں اور جذبۂ ایمانی سے سر فروشی بھی سینوں میں موجود ہے، وہاں فرقہ وارانہ قتل و غارت کیوں نہیں ہوتی۔ یہ ہے وہ بنیادی سوال جو ہمارے ملک میں انتظامیہ نے کبھی بھی اپنے سامنے نہیں رکھا، اس لیے کہ اس کا صرف اور صرف ایک ہی جواب ہے کہ انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی۔ برصغیر پاک و ہند میں صدیوں سے ایک محفل کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے جسے مناظرہ کہتے ہیں۔ یہ مناظرے اب مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوئے لیکن بہت محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔
ان میں ایک مسلک کا عالم دوسرے مسلک کے عالم کے آمنے سامنے بیٹھ کر لاکھوں لوگوں کے سامنے گرما گرم بحث کرتا اور پھر ہار جیت پر مناظرے کا فیصلہ ہوتا۔ انگریز نے بھی عیسائی پادریوں کو برطانیہ سے بلایا اور مناظروں کا اہتمام کروایا۔ پہلا مسلمان عیسائی مناظرہ کلکتہ میں1815ء میں ایک عیسائی مشنری اسکول میں منعقد ہوا۔ پیر مہر علی شاہ صاحب اور مرزا غلام احمد قادیانی کے مناظرے تو مشہور ہیں۔ اس دور میں کفر کے فتوے لگانے والے بھی زندہ تھے اور گرم جوش تقریر یں بھی کرتے تھے۔ ان کی کتابیں بھی موجود تھیں جن کو آج کے مولوی اٹھا اٹھا کر دکھاتے ہیں کہ یہ دیکھو کیا لکھا ہے، کیسی دلا آزاری کی باتیں ہیں۔ لیکن ان سو ڈیڑھ سو سالوں میں کیا کبھی ایسے جھتے بنائے گئے کہ ایک دوسرے فرقے کے لوگوں کو قتل کیا جائے اور جنت حاصل کی جائے۔ حالانکہ جتھے اس وقت بھی بنتے تھے، مسلح جدو جہد بھی ہوتی تھی، آزاد ہند فوج بھی بنتی تھی اور بھگت سنگھ بم دھماکے بھی کرتا تھا۔ لیکن یہ سب جھتے انگریز حکمرانی کے خلاف آزادی کی جدوجہد کے لیے بنائے جاتے تھے، مسلکی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے نہیں بنتے تھے۔
فرقہ وارانہ فساد تھے لیکن وہ بھی کبھی کبھار اور وہ بھی کسی موقع پر شرارت کی وجہ سے لیکن ان پر حکومت چند گھنٹوں میں قابو پا لیتی تھی۔ کبھی لٹریچر پر پابندی یا لاؤڈ اسپیکر پر صرف عربی خطبہ دینے کی پابندی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ مناظرے ہوتے رہے، لوگ لاکھوں کی صورت اپنے اپنے مسلک کے علماء کا ساتھ دینے ایک ہی پنڈال میں جمع ہوتے رہے۔ کبھی کسی نے یہ سوال کسی اعلیٰ سطح کا اجلاس اور ایکشن پلان بناتے وقت اپنے سامنے رکھا کہ اس فرقہ وارانہ شدت پسندی اور جہادی تصورات کے مقبول ہونے کی وجہ جمعہ کا خطبہ، لاؤڈ اسپیکر کا استعمال یا لٹریچر نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی کچھ اور ہے۔ اس ''کچھ اور'' کو اہل اقتدار خوب سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں۔
اس ''کچھ اور'' کو وہ تمام علماء کرام بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور انھیں علم ہے کہ یہ سب کیوں، کس نے اور کب شروع کروایا۔ کون اس کو سرمایہ فراہم کرتا ہے، کون پناہ گاہیں مہیا کرتا ہے، کہاں سے اسلحہ آتا ہے، کس کس ملک میں جا کر قاتلوں کو پناہ ملتی ہے۔ لیکن ان سب نے جو جن بنائے تھے، وہ بوتل سے باہر آ چکے ہیں، اور انھی علماء اور اسی انتظامیہ کی گردن پر سوار ہو چکے ہیں۔ اب ان جتھوں کی قیادت علماء کے ہاتھ میں نہیں بلکہ علماء کی قیادت ان کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔ رہا مسئلہ انتظامیہ کا تو جب بندوق کسی گروہ کے فرد کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے تو پھر اس بات کا ذمے کوئی نہیں لے سکتا کہ وہ آپ کی جانب رخ نہیں کرے گی۔
کوئی اس '' کچھ اور'' وجہ پر غور کرنے کو تیار نہیں۔ کوئی یہ الزام لگاتا ہے کہ جمعہ کا خطبہ گمراہ کرتا ہے اور دوسرا یہ کہتا ہے عدالتیں فیصلہ نہیں کرتیں۔ کیسے کیسے ''عظیم عقل و فہم'' کے مالک دانشور، انتظامی آفسر ایسے ممالک کی مثال لے کر آتے ہیں جن کا نفرت سے نام کبھی لینا گوارا نہیں کرتے اور یہ دلیل دیتے ہیں، کہ دیکھو وہاں ایک ہی جمعہ کا خطبہ ہوتا ہے جو سرکاری طور تقسیم کر دیا جاتا ہے، اس کے علاوہ کچھ کہنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان صاحبانِ علم کو مشورہ دیتے ہوئے کم از کم ایک بار یہ سوچ لینا چاہیے تھا کہ ان ممالک میں پابندی صرف جمعہ کے خطبہ پر نہیں ہے بلکہ ہر ذریعہ اظہار پر ہے، صرف علماء پر نہیں ہر کسی پر ہے۔ سعودی عرب، ایران اور متحدہ عرب امارات کی مثالیں جس زور شور سے دی جا رہی ہیں اور جس طرح صرف خطبہ جمعہ پر پابندی کو خالصتاً علیحدہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے اس سے اگر کوئی گروہ اپنا خاص مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اندازہ تک نہیں کہ وہ کیا بیج بو رہا ہے جس کی فصل بہت تلخ بھی ہو سکتی ہے۔
جن ملکوں میں مسجد کے مولوی کا گلا گھونٹا گیا ہے وہاں ہر آواز کا گلہ بھی ساتھ ہی گھونٹا گیا ہے تا کہ معاشرے میں سختی کی کوئی تفریق نہ ہو۔ سعودی عرب، ایران، اور دیگر عرب ممالک میں کوئی صحافی کسی اخبار یا ٹیلی ویژن پر حکومت سے پوچھے بغیر ایک لفظ بھی بول سکتا ہے، کوئی سیاسی پارٹی حکومتی مرضی کے بغیر بنائی نہیں جا سکتی ہے یہ ایک پیکیج ڈیل ہے۔ یہ پابندی معاشرے کے ہر طبقے پر لگتی ہے تو قابل قبول بنتی ہے ورنہ ایک طبقہ اپنے لیے اس امتیازی سلوک کا رّدعمل ضرور دکھاتا ہے۔
اگر جمعے کے خطبوں، لٹریچر، مسلکی نعروں اور تقریروں سے قتل و غارت برپا ہوتا تو برطانیہ میں لوگ ایک دوسرے کو مسلسل قتل کر رہے ہوتے، وہاں سے عراق، افغانستان اور شام میں جا کر نہ لڑتے۔ دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی پر قابو پایا گیا وہاں قوت بازو کے ساتھ اس بات پر بھی غور کیا گیا کہ ہم کہاں غلطی کر رہے ہیں۔ کیا ہماری غلطیوں سے لوگ نفرت کے الاؤ میں تو نہیں جل رہے۔