ہماری قوم کا حال
ہم اپنے دشمن سے با خبر ہوتے ہوئے بھی بے خبر ہیں۔ ہماری اس بے خبری کا کیا سبب ہے
''جیسے کہ آپ سب کو ہماری قوم کے حالات کے بارے میں پتہ ہے۔ ہماری قوم کے لوگ ہی ایک دوسرے کو ماررہے ہیں اور مررہے ہیں اس بارے میں آپ سب لوگوں کو ایک واقعہ بتاتاہوں۔ جیسے ہماری قوم کے اور دوسرے ملک کے لوگوں نے جوکہ مسلمان نہیں ہیں انھوں نے ایک پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا اور بہت سارے بچوں کو بے وجہ مارا اور بھاگ گئے اور ہماری قوم کی پولیس ان کو نہیں مار پائی مگر اﷲ کا شکر تھا کہ اس وقت آرمی وہاں پر تھی اس لیے وہ سات دہشت گرد مارے گئے اور اگر ہماری قوم میں چور یا دہشت گرد ملتے تو ان کو وہیں پر ماردیا جائے تو ہمارے ملک پاکستان میں کوئی دہشت گردی نہیں ہوگی اور سب آباد و امن سے اپنے ملک میں رہ پائیں گے۔ ہمارے ملک میں ہر کوئی خاص طور پر پولیس والے اگر ایمانداری سے کام کریں اور بے ایمانی نہ کریں تو انھیں اس کا بہت ثواب ملے گا اور اگر ان کو یہ پتہ ہوتا کہ اﷲ کا عذاب کیسا ہوتا ہے تو یہ لوگ کبھی بھی ایسی حرکتیں نہیں کرتے۔''
یہ تحریر جس میں املا کی بھی کچھ غلطیاں تھیں ایک لفظ ایسا بھی تھا جسے تحریر میں لاکر کسی کو ہدف سمجھ لیا جاتا ہے۔ لہٰذا اسے اپنے طور پر نکال کر لکھا گیا۔ یہ تحریر میری نہیں ہے بلکہ ایک نوسالہ بچے کی ہے۔ یہ مختصر سا مضمون جس کا عنوان بھی اس ننھے سے ذہن کی اختراع تھا ''ہماری قوم کا حال'' ظاہر کررہاہے کہ اب ہماری قوم کے ننھے ننھے سے ذہن بھی بہت کچھ سوچ رہے ہیں ،وہ امن وامان کا مطلب سمجھنے لگے ہیں۔ اپنے طور پر وہ حل بھی تلاش کررہے ہیں انھیں اﷲ کے عذاب اور اس کی پکڑ کا بھی علم ہے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایمانداری سے اپنی ذمے داریاں نبھانے والے کو رب العزت ثواب دیتے ہیں لیکن بڑے ، سمجھ دار، با اختیار، ہوشیار، ذمے دار افراد اس بہت بڑی حقیقت سے کیوں بے بہرہ ہیں؟ کیوں کہ غفلت برت رہے ہیں؟شکارپورکے بعد پشاور میں ایک بار پھر خونریزی کا کھیل کھیلا گیا، لوگ اپنے ہی خون میں نہا گئے، آنسوؤں،آہوں، سسکیوں اورچیخوں سے ماحول نمناک ہوگیا۔ وہ دہشت گرد کون تھے۔
کہاں سے آئے تھے، کتنے تھے؟ سوالات تو ابھرتے ہیں لیکن عینی شاہدین اور پولیس کے موقف میں فرق تھا، جلی ہوئی کار معمہ بن گئی اور ایسا ہی بہت کچھ ابھی چلتا رہے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم 9/11 کے واقعے کے بعد سے اب تک حالت جنگ میں ہیں، ہمیں ہمارے سابقہ فوجی جنرل پرویز مشرف نے ایک بڑی جنگ ایک بڑی تباہی سے بچایا تھا لیکن محسوس یہ ہورہاہے کہ وہ ایک بڑی جنگ ٹکڑیوں میں بٹ گئی ہے اور ہماری قوم کا مقدر بن گئی ہے۔ گو پورے ملک میں وقفے وقفے سے جنگ کے طبل بجتے رہتے ہیں لیکن کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت کے بعد بہت سکون دیکھا گیا تھا۔ البتہ دھرنے کے دوران کچھ آتش زدگی وغیرہ کے حادثات ضرور دیکھے گئے لیکن دھرنے کی طوالت آرمی پبلک اسکول کے المناک حادثے کے نتیجے میں اپنے اختتام کو پہنچی ۔
ہم اپنے دشمن سے با خبر ہوتے ہوئے بھی بے خبر ہیں۔ ہماری اس بے خبری کا کیا سبب ہے۔اب ضروری ہے کہ ہم اپنے تمام اغراض کو ایک جانب رکھ کر اپنے ملک، اپنی قوم کے مظلوم لوگوں کو بچانے کے لیے ایمانداری اور سنجیدگی سے سوچیں یہ مسئلہ اب معمول کی باتوں سے بہت آگے جاچکا ہے، ہم ایک آزاد ملک کے باسی ہیں یہ فلسطین یا کشمیر نہیں ہے جہاں گلی کوچوں اور محلوں میں دو بالکل مختلف مذاہب اور قومیتوں کے لوگ اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں۔ سوچنے سے مراد اب چائے کی پیالی سے گھونٹ لگاتے سر کو جھکائے فکر میں غلطاں رہنے کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے۔کچھ عرصہ قبل ایک رپورٹ شایع ہوئی تھی جس میں پولیس کے عملے میں بھرتی کے حوالے سے بدعنوانی کے بارے میں درج تھا۔ یہ بد عنوانی گو پولیس کے علاوہ تمام دیگر محکموں میں بھی عام ہے لیکن اگر کسی بھی ریاست کے سکیورٹی کے اداروں میں کرپشن عام ہوجائے تو اس ریاست میں خطرے کا الارم بجنے لگتا ہے گویا مجرم مضبوط اور پکڑنیوالے کمزور۔ اس کمزوری سے مراد جسمانی طور پر یا ذہنی طور پرکمزوری نہ سمجھی جائے بلکہ اس سے مراد وہ اہلیت اور قابلیت ہے جو اس اعلیٰ محکمے کے لیے نہایت اہم ہے۔
ایک عام شہری اور کسی حفاظتی ادارے کے رکن میں کیا فرق ہے؟ ایک عام شہری ذرا دشوار اور مشکل صورت حال میں اپنے ہاتھ،پاؤں ٹھنڈے کرلیتا ہے اس کا دماغ ماؤف ہوجاتا ہے کیوں کہ مشکل اور دشوار صورتحال کو برتنے اور عملی طور پر اپنے کردار کو نبھانے میں کمزور ہوتا ہے۔ جب کہ حفاظتی اداروں کے رکن مشکل دشوار اور کٹھن حالات میں بھی پرسکون رہ کر اپنے فرائض معمول کے مطابق انجام دیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے کرپشن کی اس آگ نے ان اہلیتوں کو جانچنے کا سسٹم ہی تباہ کردیا۔ یہ ہماری قوم کا مقدمہ ہے خدا تعالیٰ نے اس قوم کی حفاظت اب جن کے سپرد کی ہے آپ اس کی حفاظت کے لیے وہ سب کچھ کریں جو ضروری ہے اور اگر اب مزید اس خون و آگ کے کھیل سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر چھوڑدیں، کہیں پڑھا تھا کہ جب مغربی افواج نے لشکر کشی کے لیے قدم بڑھائے تو والی سلطنت نے بڑے عالموں سے رجوع کیا کہ اب کیا کیا جائے دشمن سر پر ہے تو مشورہ دیا گیا کہ ختم پڑھوایا جائے یوں ختم پڑھتے رہے اور فوج سر پر آگئی اور سلطنت عثمانیہ پارہ پارہ ہوگئی۔ ہم تو پہلے ہی پارہ پارہ سے اٹھ کر جمع ہوئے ہیں بہر حال یہ تو ہماری اپنی سوچ ہے۔
کچھ زیادہ دن نہیں گزرے ہمارے ایک عزیز نے بتایا کہ ان کے صاحبزادے کی شادی اور مہندی کی تقریب میں ان کے ایک قریبی رشتے دار جو بڑے سرکاری محکمے میں اچھی خاصی پوسٹ پر فائز ہیں بڑے پروگرام بنائے لیکن عین مہندی کے روز وہ نہ آئے جب انھیں فون کرکے پوچھا گیا کہ آپ کیوں نہیں آئے تو ان حضرت نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا ہاں آئیںگے بعد میں، جب تقریب میں آئے تو انھوں نے بتایا کہ رات وہ کہیں سے اپنے گھر جا رہے تھے کہ راستے میں ایک رکشے نے ان کا رستہ روک لیا، سڑک ذرا سنسان تھی، رکشے سے پانچ سوار اترے مضبوط توانا قبائلیوں نے انھیں گھیر لیا اور انھیں قبرستان لے گئے۔
جہاں انھوں نے ان کے مال پیسے کے متعلق پوچھا۔ صاحب نے کہا کہ وہ ایک سرکاری افسر ہیں، سفید پوش ہیں تو کہا گیا کہ تیری گاڑی تو بہت مہنگی لگتی ہے اپنے گھر فون کر اور لاکھوں کی فرمائش کردی کہ اگر نہ لائے تو صبح آکر گھر والے تیری لاش لے جائیں۔ ان صاحب نے گھر فون کیا گفتگو کے دوران وہ صاحب کو مارتے ان کی چیخیں گھر والوں تک پہنچتی اور وہ ہلکان ہوتے بہر حال گھر والوں نے ہر ذمے دار شہری کی طرح پولیس سے رجوع کیا تو انھیں بڑا مزے کا جواب ملا ۔کہا گیا کہ ایسا ہوتا رہتا ہے آپ انھیں تاوان دے کر جان چھڑایے، قبرستان سے ایسی لاشیں ملتی رہتی ہیں، پوری رات کسی طرح انھوں نے رقم اکٹھا کی یقینا یہ وہی جانتے ہوںگے اور یوں ایک بڑی رقم دے کر ان صاحب کی جان بچائی گئی۔
آج ہم کہاں کھڑے ہیں اس صورت حال میں بھی ہم اپنی جیبوں کو بھرنے میں لگے ہیں ہمیں ان جیبوں کا بوجھ گردن تک زمین میں دھنسا دے گا۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کے ادوار میں قوموں کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے ایسا ہی سلوک کیا ہے ہم پر تو نبی پاکؐ کے صدقے بڑی آسانیاں ہیں لیکن پھر بھی ہم اﷲ کے عذاب کے نازل ہونے کے منتظر ہیں حالانکہ کتنے ناداں ہیں کہ عذاب کو برکت سمجھ رہے ہیں۔
یہ تحریر جس میں املا کی بھی کچھ غلطیاں تھیں ایک لفظ ایسا بھی تھا جسے تحریر میں لاکر کسی کو ہدف سمجھ لیا جاتا ہے۔ لہٰذا اسے اپنے طور پر نکال کر لکھا گیا۔ یہ تحریر میری نہیں ہے بلکہ ایک نوسالہ بچے کی ہے۔ یہ مختصر سا مضمون جس کا عنوان بھی اس ننھے سے ذہن کی اختراع تھا ''ہماری قوم کا حال'' ظاہر کررہاہے کہ اب ہماری قوم کے ننھے ننھے سے ذہن بھی بہت کچھ سوچ رہے ہیں ،وہ امن وامان کا مطلب سمجھنے لگے ہیں۔ اپنے طور پر وہ حل بھی تلاش کررہے ہیں انھیں اﷲ کے عذاب اور اس کی پکڑ کا بھی علم ہے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایمانداری سے اپنی ذمے داریاں نبھانے والے کو رب العزت ثواب دیتے ہیں لیکن بڑے ، سمجھ دار، با اختیار، ہوشیار، ذمے دار افراد اس بہت بڑی حقیقت سے کیوں بے بہرہ ہیں؟ کیوں کہ غفلت برت رہے ہیں؟شکارپورکے بعد پشاور میں ایک بار پھر خونریزی کا کھیل کھیلا گیا، لوگ اپنے ہی خون میں نہا گئے، آنسوؤں،آہوں، سسکیوں اورچیخوں سے ماحول نمناک ہوگیا۔ وہ دہشت گرد کون تھے۔
کہاں سے آئے تھے، کتنے تھے؟ سوالات تو ابھرتے ہیں لیکن عینی شاہدین اور پولیس کے موقف میں فرق تھا، جلی ہوئی کار معمہ بن گئی اور ایسا ہی بہت کچھ ابھی چلتا رہے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم 9/11 کے واقعے کے بعد سے اب تک حالت جنگ میں ہیں، ہمیں ہمارے سابقہ فوجی جنرل پرویز مشرف نے ایک بڑی جنگ ایک بڑی تباہی سے بچایا تھا لیکن محسوس یہ ہورہاہے کہ وہ ایک بڑی جنگ ٹکڑیوں میں بٹ گئی ہے اور ہماری قوم کا مقدر بن گئی ہے۔ گو پورے ملک میں وقفے وقفے سے جنگ کے طبل بجتے رہتے ہیں لیکن کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت کے بعد بہت سکون دیکھا گیا تھا۔ البتہ دھرنے کے دوران کچھ آتش زدگی وغیرہ کے حادثات ضرور دیکھے گئے لیکن دھرنے کی طوالت آرمی پبلک اسکول کے المناک حادثے کے نتیجے میں اپنے اختتام کو پہنچی ۔
ہم اپنے دشمن سے با خبر ہوتے ہوئے بھی بے خبر ہیں۔ ہماری اس بے خبری کا کیا سبب ہے۔اب ضروری ہے کہ ہم اپنے تمام اغراض کو ایک جانب رکھ کر اپنے ملک، اپنی قوم کے مظلوم لوگوں کو بچانے کے لیے ایمانداری اور سنجیدگی سے سوچیں یہ مسئلہ اب معمول کی باتوں سے بہت آگے جاچکا ہے، ہم ایک آزاد ملک کے باسی ہیں یہ فلسطین یا کشمیر نہیں ہے جہاں گلی کوچوں اور محلوں میں دو بالکل مختلف مذاہب اور قومیتوں کے لوگ اپنے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں۔ سوچنے سے مراد اب چائے کی پیالی سے گھونٹ لگاتے سر کو جھکائے فکر میں غلطاں رہنے کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے۔کچھ عرصہ قبل ایک رپورٹ شایع ہوئی تھی جس میں پولیس کے عملے میں بھرتی کے حوالے سے بدعنوانی کے بارے میں درج تھا۔ یہ بد عنوانی گو پولیس کے علاوہ تمام دیگر محکموں میں بھی عام ہے لیکن اگر کسی بھی ریاست کے سکیورٹی کے اداروں میں کرپشن عام ہوجائے تو اس ریاست میں خطرے کا الارم بجنے لگتا ہے گویا مجرم مضبوط اور پکڑنیوالے کمزور۔ اس کمزوری سے مراد جسمانی طور پر یا ذہنی طور پرکمزوری نہ سمجھی جائے بلکہ اس سے مراد وہ اہلیت اور قابلیت ہے جو اس اعلیٰ محکمے کے لیے نہایت اہم ہے۔
ایک عام شہری اور کسی حفاظتی ادارے کے رکن میں کیا فرق ہے؟ ایک عام شہری ذرا دشوار اور مشکل صورت حال میں اپنے ہاتھ،پاؤں ٹھنڈے کرلیتا ہے اس کا دماغ ماؤف ہوجاتا ہے کیوں کہ مشکل اور دشوار صورتحال کو برتنے اور عملی طور پر اپنے کردار کو نبھانے میں کمزور ہوتا ہے۔ جب کہ حفاظتی اداروں کے رکن مشکل دشوار اور کٹھن حالات میں بھی پرسکون رہ کر اپنے فرائض معمول کے مطابق انجام دیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے کرپشن کی اس آگ نے ان اہلیتوں کو جانچنے کا سسٹم ہی تباہ کردیا۔ یہ ہماری قوم کا مقدمہ ہے خدا تعالیٰ نے اس قوم کی حفاظت اب جن کے سپرد کی ہے آپ اس کی حفاظت کے لیے وہ سب کچھ کریں جو ضروری ہے اور اگر اب مزید اس خون و آگ کے کھیل سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر چھوڑدیں، کہیں پڑھا تھا کہ جب مغربی افواج نے لشکر کشی کے لیے قدم بڑھائے تو والی سلطنت نے بڑے عالموں سے رجوع کیا کہ اب کیا کیا جائے دشمن سر پر ہے تو مشورہ دیا گیا کہ ختم پڑھوایا جائے یوں ختم پڑھتے رہے اور فوج سر پر آگئی اور سلطنت عثمانیہ پارہ پارہ ہوگئی۔ ہم تو پہلے ہی پارہ پارہ سے اٹھ کر جمع ہوئے ہیں بہر حال یہ تو ہماری اپنی سوچ ہے۔
کچھ زیادہ دن نہیں گزرے ہمارے ایک عزیز نے بتایا کہ ان کے صاحبزادے کی شادی اور مہندی کی تقریب میں ان کے ایک قریبی رشتے دار جو بڑے سرکاری محکمے میں اچھی خاصی پوسٹ پر فائز ہیں بڑے پروگرام بنائے لیکن عین مہندی کے روز وہ نہ آئے جب انھیں فون کرکے پوچھا گیا کہ آپ کیوں نہیں آئے تو ان حضرت نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا ہاں آئیںگے بعد میں، جب تقریب میں آئے تو انھوں نے بتایا کہ رات وہ کہیں سے اپنے گھر جا رہے تھے کہ راستے میں ایک رکشے نے ان کا رستہ روک لیا، سڑک ذرا سنسان تھی، رکشے سے پانچ سوار اترے مضبوط توانا قبائلیوں نے انھیں گھیر لیا اور انھیں قبرستان لے گئے۔
جہاں انھوں نے ان کے مال پیسے کے متعلق پوچھا۔ صاحب نے کہا کہ وہ ایک سرکاری افسر ہیں، سفید پوش ہیں تو کہا گیا کہ تیری گاڑی تو بہت مہنگی لگتی ہے اپنے گھر فون کر اور لاکھوں کی فرمائش کردی کہ اگر نہ لائے تو صبح آکر گھر والے تیری لاش لے جائیں۔ ان صاحب نے گھر فون کیا گفتگو کے دوران وہ صاحب کو مارتے ان کی چیخیں گھر والوں تک پہنچتی اور وہ ہلکان ہوتے بہر حال گھر والوں نے ہر ذمے دار شہری کی طرح پولیس سے رجوع کیا تو انھیں بڑا مزے کا جواب ملا ۔کہا گیا کہ ایسا ہوتا رہتا ہے آپ انھیں تاوان دے کر جان چھڑایے، قبرستان سے ایسی لاشیں ملتی رہتی ہیں، پوری رات کسی طرح انھوں نے رقم اکٹھا کی یقینا یہ وہی جانتے ہوںگے اور یوں ایک بڑی رقم دے کر ان صاحب کی جان بچائی گئی۔
آج ہم کہاں کھڑے ہیں اس صورت حال میں بھی ہم اپنی جیبوں کو بھرنے میں لگے ہیں ہمیں ان جیبوں کا بوجھ گردن تک زمین میں دھنسا دے گا۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کے ادوار میں قوموں کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے ایسا ہی سلوک کیا ہے ہم پر تو نبی پاکؐ کے صدقے بڑی آسانیاں ہیں لیکن پھر بھی ہم اﷲ کے عذاب کے نازل ہونے کے منتظر ہیں حالانکہ کتنے ناداں ہیں کہ عذاب کو برکت سمجھ رہے ہیں۔