میری قبر میں نہ جھانکو
ہمارے کرتوتوں کادارمدار نیتوں پرہے، اسلئے بندوق کے زور پر ’’نجات‘‘ بانٹنے سے زیادہ بے ہودگی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی!
KARACHI:
ہماری بڑی بیماریوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم تاکا جھانکی کے عادی ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کسی کی قبر میں جھانکے کا موقع ملے، تو اسے بھی ضائع نہیں کرتے ۔۔۔ اب سب کہیں گے ہم میں سے تو کوئی بھی کسی کی قبر میں نہیں جھانکتا ۔۔۔ تو میں آپ کو بتاؤں کہ کئی راسخ العقیدہ تو خدا کے رتبے تک پہنچنے کی بھی ناپاک جسارت کرتے ہیں ۔۔۔ یہ بھی آپ کو سمجھ نہیں آئے گا۔
ذرا آسان الفاظ میں اس کا مطلب بتاؤں کہ جب ہم فضول میں کسی کے نجی معاملات میں ٹانگ اڑا رہے ہوتے ہیں، تو یہ دونوں پنگے دراصل مندرجہ بالا کاموں کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔
زیادہ دن نہیں گزرے کہ ایک معاصر میں ایک صاحب رقم طراز تھے کہ چلو اچھا ہے پھر جب ''وہ'' آئیں گے تو اسی بہانے ہماری عاقبت ہی سنور جائے گی۔۔۔! ارے کیا اور کچھ بھی بے ہودگی اور گھٹیا پن کی انتہا ہوتی ہے۔۔۔؟ کیا ہم اتنی سی بات نہیں جانتے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور کوئی جبر ہے ہی نہیں! اگر ہم کسی بھی شک وشبے سے خالی ان دونوں باتوں پر ایمان رکھتے ہیں، تو اس دانشورانہ چریے پن کو کس خانے میں رکھا جائے کہ ''اسی بہانے آخرت سنور جائے گی!'' جس کام میں جبر ہو اور کرنے والی کی نیت نہ ہو تواس کی کوئی حیثیت ہی نہیں! یہ حال ہے قوم کے ''دانش وَروں'' کے کھوکھلے پن کا۔۔۔
کس کس کو روئیں ۔۔۔ کچھ دن پہلے ہم نے دیکھا کہ ایک صاحب ہم سے کھچے کھچے محسوس ہوئے... ہم پریشان، ارے ابھی تو اچھا خاصا مرقع اخلاق بنے دیدہ دل فرش راہ کیے جاتے تھے ۔۔۔ اب اچانک یہ انہیں کیا ہوا؟ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ رویے بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ آخر کو ڈھونڈ ہی لیا کہ ماجرا کیا ہے، اور پھر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ موصوف ہمارے نجی معاملات کے اتنے بڑے ٹھیکے دار بنے تھے۔ جس میں انہوں نے براہ راست ہمیں اپنی ماتحتی میں لینے کی کوشش کی اور خفگی کا اظہار منہ بسور کر اور تیوری چڑھا کے کیا۔
وہ خدا اور بندے کے بیچ کے تعلق کو اپنا اختیار سمجھ بیٹھے اور یہ بھی کوئی نئی بات تھوڑی ہے ۔۔۔ اپنے بجائے دوسروں کے معاملوں میں ٹانگ اڑائی میں تو ویسے بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں ۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اپنی قبر میں نہیں جانا بلکہ کسی اور کی قبر میں جاکر اس کے کرتوتوں کا حساب دینا ہے۔
اگر کوئی ہماری جنتا کو اتنی سی بات سمجھادے کہ خدا کے لیے سب کو صرف اپنے کیے کا ہی جواب دینا ہے۔ کوئی کسی کے عمل کا ذمہ دار ہے اور نہ جواب دہ... پھر کاہے اتنی لعنت ملامت، دھتکار اور پھٹکار ۔۔۔ یہ بھی یاد رکھو کہ ہمارے کرتوتوں کا دارمدار ہماری نیتوں پر ہے، اس لیے بندوق کے زور پر ''نجات'' بانٹنے سے زیادہ بے ہودگی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی! رہی بات اچھے برے کی ۔۔۔ تو کیا آپ کے پاس وہ پیمانہ ہے کہ حقیقت میں کون کتنا اچھا اور کون کتنا بُرا؟ جب نہیں، تو پھر سیدھے سیدھے انسانوں کی طرح زندگی گزارو... اور خدا کے لیے میری قبر میں نہ جھانکو!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہماری بڑی بیماریوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم تاکا جھانکی کے عادی ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کسی کی قبر میں جھانکے کا موقع ملے، تو اسے بھی ضائع نہیں کرتے ۔۔۔ اب سب کہیں گے ہم میں سے تو کوئی بھی کسی کی قبر میں نہیں جھانکتا ۔۔۔ تو میں آپ کو بتاؤں کہ کئی راسخ العقیدہ تو خدا کے رتبے تک پہنچنے کی بھی ناپاک جسارت کرتے ہیں ۔۔۔ یہ بھی آپ کو سمجھ نہیں آئے گا۔
ذرا آسان الفاظ میں اس کا مطلب بتاؤں کہ جب ہم فضول میں کسی کے نجی معاملات میں ٹانگ اڑا رہے ہوتے ہیں، تو یہ دونوں پنگے دراصل مندرجہ بالا کاموں کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔
زیادہ دن نہیں گزرے کہ ایک معاصر میں ایک صاحب رقم طراز تھے کہ چلو اچھا ہے پھر جب ''وہ'' آئیں گے تو اسی بہانے ہماری عاقبت ہی سنور جائے گی۔۔۔! ارے کیا اور کچھ بھی بے ہودگی اور گھٹیا پن کی انتہا ہوتی ہے۔۔۔؟ کیا ہم اتنی سی بات نہیں جانتے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور کوئی جبر ہے ہی نہیں! اگر ہم کسی بھی شک وشبے سے خالی ان دونوں باتوں پر ایمان رکھتے ہیں، تو اس دانشورانہ چریے پن کو کس خانے میں رکھا جائے کہ ''اسی بہانے آخرت سنور جائے گی!'' جس کام میں جبر ہو اور کرنے والی کی نیت نہ ہو تواس کی کوئی حیثیت ہی نہیں! یہ حال ہے قوم کے ''دانش وَروں'' کے کھوکھلے پن کا۔۔۔
کس کس کو روئیں ۔۔۔ کچھ دن پہلے ہم نے دیکھا کہ ایک صاحب ہم سے کھچے کھچے محسوس ہوئے... ہم پریشان، ارے ابھی تو اچھا خاصا مرقع اخلاق بنے دیدہ دل فرش راہ کیے جاتے تھے ۔۔۔ اب اچانک یہ انہیں کیا ہوا؟ ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ رویے بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ آخر کو ڈھونڈ ہی لیا کہ ماجرا کیا ہے، اور پھر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ موصوف ہمارے نجی معاملات کے اتنے بڑے ٹھیکے دار بنے تھے۔ جس میں انہوں نے براہ راست ہمیں اپنی ماتحتی میں لینے کی کوشش کی اور خفگی کا اظہار منہ بسور کر اور تیوری چڑھا کے کیا۔
وہ خدا اور بندے کے بیچ کے تعلق کو اپنا اختیار سمجھ بیٹھے اور یہ بھی کوئی نئی بات تھوڑی ہے ۔۔۔ اپنے بجائے دوسروں کے معاملوں میں ٹانگ اڑائی میں تو ویسے بھی ہمارا کوئی ثانی نہیں ۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے اپنی قبر میں نہیں جانا بلکہ کسی اور کی قبر میں جاکر اس کے کرتوتوں کا حساب دینا ہے۔
اگر کوئی ہماری جنتا کو اتنی سی بات سمجھادے کہ خدا کے لیے سب کو صرف اپنے کیے کا ہی جواب دینا ہے۔ کوئی کسی کے عمل کا ذمہ دار ہے اور نہ جواب دہ... پھر کاہے اتنی لعنت ملامت، دھتکار اور پھٹکار ۔۔۔ یہ بھی یاد رکھو کہ ہمارے کرتوتوں کا دارمدار ہماری نیتوں پر ہے، اس لیے بندوق کے زور پر ''نجات'' بانٹنے سے زیادہ بے ہودگی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی! رہی بات اچھے برے کی ۔۔۔ تو کیا آپ کے پاس وہ پیمانہ ہے کہ حقیقت میں کون کتنا اچھا اور کون کتنا بُرا؟ جب نہیں، تو پھر سیدھے سیدھے انسانوں کی طرح زندگی گزارو... اور خدا کے لیے میری قبر میں نہ جھانکو!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔