ایک طرف مریخ تو دوسری طرف غربت ہی غربت

میرا سوال دور حاضر میں زندہ وموجود 6 ارب انسانوں سے ہے کہ کیا ہم سب مل کر چند سو بچوں کی خوراک کا انتظام نہیں کرسکتے؟

کیا عجب زمانہ ہے کہ ایک طرف انسان مریخ پر بستیاں بنانے کا سوچ رہا ہے اور دوسری طرف اُس کی اپنی زمین پر بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

آج کے اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ مریخ پر جانے کیلیے 100 لوگوں کے نام فائنل کرلیے گئے ہیں جن میں ایک پاکستانی بھی شامل ہے۔ یہ خبر پڑھتے ہی ناجانے کیوں بے ساختہ اقبال کے یہ اشعار زبان پر آگئے۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

اس کی وجہ یہ ہے کہ ساتھ ہی ہم نے یہ خبر بھی پڑھی کہ تھرپارکر میں آج پھر تین بچے غذا کی کمی کی وجہ سے موت کا شکار ہوگئے اور رواں ماہ میں یہ تعداد 28 تک پہنچ گئی ہے۔ تھرپارکر سے متعلق ایسی خبریں ہم روز پڑھتے ہیں، جی ہاں آج اتنے بچے انتقال کرگئے آج وفات پانے والوں کی تعداد اتنی ہوگئی ہے۔

میں یہ خبریں پڑھ کر حیران ہوتا ہوں کہ آخر ہم کس طرح کے معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ کیا ایسی خبریں پڑھ کر ہمارا دل دہل نہیں جاتا؟ کیا ہمارے لیے یہ انتہائی شرم کی بات نہیں ہے کہ ایسے جدید دورمیں جب انسان مریخ پر زندگی کے پنجے گاڑنے کے درپے ہے اور وہاں انسانی بستیاں بنانے کا سوچ رہا ہے، اُس کی اپنی زمین پر بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔

ہم اسلام اور مذہب کی باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر وہ سب تعلیمات بھول جاتے ہیں جو ہمارے پیغمبر اور خلفائے راشدین نے ہمیں دی ہیں۔ ہم اس ارشاد کو بھی بھول جاتے ہیں کہ اگر تمہارے پڑوسی کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تو اپنا آدھا کھانا اسے دے دو۔ ہمارے حکمران حضرت عمر کے اس قول کو بھی بھول جاتے ہیں کو اگر دریائے نیل کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرجائے تو قیامت کے دن میں اس کا بھی جواب دینا ہو گا۔ یہاں تو جانور یا کسی کتے کا معاملہ نہیں بلکہ سینکڑوں زندہ و سلامت انسانوں اور انسانوں کے بچوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک مسئلہ نہیں بلکہ ایک جرم ہے جس کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے اور پھر میں دور حاضر کے ان تمام انسانوں کو بھی اس جرم میں شریک سمجھتا ہوں جن تک یہ خبر پہنچتی ہے کہ تھر میں بھوک سے بچے مر رہے ہیں مگر وہ خود زندہ رہنے کے لیے دو وقت کا کھانا کھا لیتے ہیں اور معاملہ یہاں صرف تھر کا تھوڑی ہے بلکہ یہ معاملہ تو اب گلی گلی کوچے کوچے تک پھیلتا جارہا ہے۔


یہ بہت حیران کن اور فکر انگیز بات ہے کہ آپ کے سامنے معصوم بچے صرف اس لیے مر رہے ہیں کہ ان کے والدین کے پاس ان کو کھلانے کےلیےخوراک اور پلانے کے لیے دودھ نہیں ہے۔ صوبائی حکومت کہاں ہے؟ اگر سندھ حکومت کچھ نہیں کر رہی تو وفاقی حکومت کہاں ہے؟ اگر حکومتیں کچھ نہیں کر رہیں تو لاکھوں ڈالرز لینے والی این جی اوز کہاں ہیں؟ اگر وہ کچھ نہیں کر رہیں تو ان پر تنقید کرنے والی، مذہب کے نام پر ووٹ لینے والی یا مذہب کا پرچار کرنے والی جماعتیں کہاں ہیں؟ کہاں ہیں وہ مخیر حضرات جن کے اثاثوں کا خود اُن کو علم نہیں مگر مجال ہے کہ وہ بھوک اور افلاس سے مرتے ہوئے بچوں کے لیے چند ہزار یا چند لاکھ روپے خرچ کرلیں۔

کہاں ہیں وہ ارباب اختیار جو اربوں کھربوں کا دفاعی بجٹ تو بناتے ہیں مگر چند زندگیوں کو بچانے کیلیے ان کے پاس کچھ نہیں، کیا ایوان صدر، وزیراعظم، وزیراعلی یا گورنر ہاوس کے ایک ایک دن کے خرچے سے چند بچوں کی زندگیاں نہیں بچائی جاسکتیں؟ کہاں ہیں بچوں کے حقوق کی عالمی تنظیمیں جو بچوں کے حقوق کے لیے بڑے بڑے پروجیکٹس لانچ کرنے کا دعوی تو کرتی ہیں مگر چند سو بچوں کی خوراک کا انتظام نہیں کرسکتیں۔

آخر میں میرا سوال دور حاضر میں زندہ وموجود 6 ارب انسانوں سے ہے کہ کیا ہم سب مل کر چند سو بچوں کی خوراک کا انتظام نہیں کرسکتے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب ان معصوم زندگیوں کے قاتل ہیں کہ ہم ان کو بچانے کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں کرسکے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ آپ ایک لمحے خود کو اُن والدین کی جگہ پر رکھ کر سوچیں جن کے لخت جگر اُن کی آنکھوں کے سامنے موت کی وادی میں صرف اِس لیے چلے گئے کہ اُن کے پاس کھلانے کو کچھ نہیں تھا، ان کے آنسووں کا قرض ہم سب کے کاندھوں پر ہے۔

اِس لیے ارباب اختیار اور انسانیت کے علمبراداروں سے گزارش ہے کہ خدارا اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور اس طرح کا پروگرام ترتیب دیں کہ یہ ناحق اموات کا سلسہ رک سکے۔ اگر حکومت کے بس کا کام نہیں تو سماجی تنظیمیں ہی کوئی ایسی تحریک چلائیں یا کوئی فنڈ اکٹھا کریں کہ ان مظلوموں کو دو وقت کا کھانا اور بچوں کے لیے مناسب خوراک کا حصول ممکن ہوسکے۔ خدارا اگر ہم انسان ہیں اور زندہ ہیں تو ہمیں اس کا ثبوت دینا ہوگا-
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج ، دیکھ چکا صدف صدف

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

 
Load Next Story