روشنی کی شعاع

ہم اتنے تباہ حال کیوں ہیں۔کوئی ایسی دولت نہیں جوہمارے ملک میں نہ ہو۔ مگر پھر بھی دائروں میں سفرکررہے ہیں۔

raomanzarhayat@gmail.com

اندھیرے سے ہی روشنی کی کرن پھوٹتی ہے۔نورہرحال میں تاریکی کوزیرکرتاہے۔ کس بات کی مایوسی اورکیوں۔ ہر زمانے کے فرعون بہت طاقت ورمعلوم ہوتے ہیںمگروقت کے چوراہے پرانھیں ہرحال میں لوگوں کی ٹھوکروں میں پامال ہوناہوتاہے۔ ضرورت صرف حوصلے کی ہے۔

چودہ صدیوں پہلے کہے ہوئے حضرت ابوطالب کے وہ نایاب شعرذہن میں آئے جوانھوں نے اپنے خاندان کے متعلق مشکل وقت میں کہے تھے۔

وَلَسٗنَانَمَلیُّ الٗحَرٗبَ حَتّٰی تَمَلَّنَا
وَلَانَشٗتَکِیٗ مَاقَدٗیَنُوٗبُ مِنَ النَّکٗبِ

ہم جنگ سے بیزارہونے والے نہیں۔یہاں تک کہ خودجنگ ہم سے بیزارہوجائے۔جوآفت بھی آئے،ہم اس کے متعلق شکایت کرنے والے نہیں۔

کیااس ملک کاباشندہ ہوناجرم ٹھہرگیا۔دنیاکے ہر ائیر پورٹ پرسبزپاسپورٹ کی ناقدری ہے۔کیاوجہ صاحبان۔ کیا وجہ؟ جواب واضح ہے۔ہماری کرتوتیں جگ ہنسائی کا باعث ہیں ۔دشمن کوئی باہرسے نہیں۔ ہمارے خصائص ہمارے دشمن ہیں۔جعلی ویزوں کا منفعت بخش کاروبار،منشیات کی بے دریغ تجارت اوردہشت گردی اب ہماری پہچان بن چکے ہیں۔

کیاان میں کوئی سچائی نہیں۔ اقرار کیے بغیر بہرحال بات بنتی نظرنہیں آتی۔مگربیس کروڑلوگوں کو محض چند ہزارانسانوں کے اعمال کی بھینٹ چڑھانا،کہاںکا انصاف ہے مگردنیامیں پورا انصاف مشکل ہے۔ نیویارک ائیرپورٹ پرایک امریکی کسٹم کے اہلکارسے بات ہوئی۔وہ پاکستان کے متعلق ہراہم چیز جانتاتھا۔کہنے لگاسمجھ نہیں آتی کہ سگریٹ کے ڈبے آپکے مسافرکیوں لاتے ہیں۔

ہرتیسرے مسافرکابالکل ایک جیسا حال ہے۔جواب دینے لگاکہ شائدیہاں سگریٹ جیسی موذی چیزانتہائی مہنگی ہے۔اپنی طمانیت کے لیے مگرشائدبیچنے کے لیے بھی۔غورکیا،تویہ محض الزام نہیں تھا۔ہم لوگ ڈنڈے کے سامنے سجدہ ریزہو جاتے ہیں۔اب تمام دنیاہماری نفسیات جان چکی ہے۔خصوصاً امریکی حکام۔ کیا لکھاجائے، صاحبان! تکلیف ہوتی ہے۔

ہم اتنے تباہ حال کیوں ہیں۔کوئی ایسی دولت نہیں جوہمارے ملک میں نہ ہو۔ مگر پھر بھی دائروں میں سفرکررہے ہیں۔کسی منزل کے بغیر۔ ہر ملاح کہتاہے کہ منزل قریب ہے بلکہ سامنے ہے۔مگرکچھ ہی عرصے میں کشتی میں مزید سوراخ کرکے روانہ ہوجاتا ہے۔ایک یونانی مفکرکی بات دل کولگتی ہے۔ اگر کارِزارسیاست صرف نااہل لوگوں کے حوالے کردیا گیاتوانتہائی ظالم اورمنافق حکمران حکومت پر قبضہ کرلینگے۔ہم نے ایک سنگین غلطی کی ہے۔دوانتہائی اہم میدان،سیاست اوردین،ہم نے سوچے سمجھے بغیران افراد کے حوالے کردیے جوہرگزہرگزاس کے اہل نہیں تھے۔

نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ شکوہ کس چیزکا،اورشکایت کیسی۔ 1947ء میں ہماراملک اسلامی دنیاکامرکزبننے کی اہلیت لے کر وجودمیں آیا تھا۔ قائد جیساعظیم رہنماہرلالچ اورذاتی خواہش سے بالاتر۔جب گورنر جنرل بنے تواپنے سگے بھائی کاویزٹنگ کارڈ پڑھ کرناراض ہوگئے۔اس پربھائی کانام درج تھا۔اس کے ساتھ یہ بھی لکھا ہوا تھاکہ وہ پاکستان کے گورنرجنرل کے بھائی ہیں۔حکم دیاکہ ان کے عزیزوں کا کارِسرکارمیں کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔مرتے دم پراپنے اس فیصلے پرقائم رہے۔ہماراملک کیاتھا اور کیا بنا دیاگیا'قلم بھی رُک ساجاتا ہے! ہمارا نہ لکھنا بہرحال گناہ کبیرہ کے مرہ میں آتاہے۔

اداسی کوبیاں کیسے کروں میں
خموشی کوزبان کیسے کروں میں
بدلناچاہتاہوں اس زمین کو
یہ کارآسماں کیسے کروں میں
(منیرنیازی)

المناک بات یہ ہے کہ جن لوگوں کوہم نے اپنے ووٹ سے منتخب کرکے حکومت کرنے کااختیاردیاہے،وہ ہمارے ساتھ کیاسلوک کر رہے ہیں۔ کوئی چینل دیکھ لیجیے۔ کوئی اخبار اٹھالیجیے۔چندہزارافرادارب پتی ہوگئے ہیں۔ مگر عوام اب انسان کے درجہ سے بھی گرگئے۔ جوذراسی صحیح بات کرنے کی ہمت کرتا ہے۔وہ دربارکے غضب کا شکار ہوجاتا ہے۔ مجبوراً یا وہ خاموش ہوجاتاہے یاملک چھوڑجاتاہے۔آپکوکئی مثالیں مل جائینگی۔انتقام کومیرٹ کانام دیدیاگیاہے۔

مگرسچ کیاہے، پوری دنیا جانتی ہے۔مگربات کرنے سے ڈرتی ہے۔یہ ہماری تاریخی عادت ہے۔سیکڑوں برس کی روایت یاشائدتمام کمزورمعاشروں کی علت خاص۔جب شہزادہ کامران کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیرکراسے اندھا کیاگیا تواس پربھی حکام وقت کادل نہیں بھرا۔حکم ملاکہ اسے رسوا کیا جائے۔ چنانچہ اندھے شہزادے کودلی کے بازاروںمیں پھیرایا گیا۔ شہزادے پرظلم کودیکھ کر اہل دلی روتے تھے۔دل میں بادشاہ کو دبدعائیں دیتے تھے۔ آج بھی یہی حال ہے۔


غم سے لپٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
دنیاسے کٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں
اتنے سوال دل میں ہیں اوروہ خموش در
اس درسے ہٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں

عجب اَمرہے کہ ایک بھی مسلمان ملک ایسا نہیں، جوقابل تقلیدہویاباعث افتخارہو۔ اصل مسئلہ کیاہے۔شخصی حکومتیں،انسانی حقوق کی پامالی، اظہار خیال سے خوف اور منافقت۔پہلی اوردوسری جنگ عظیم کے نتیجہ میں وجودپانے والی خاندانی بادشاہتیں!کیاواقعی یہ قابل تقلیدہیں۔ خصوصاً پہلی جنگ عظیم کی گردسے ابھرنے والے وہ قبائل، جوکسی بھی طرح انگریزکے لیے کارآمدتھے،انتہائی ظالمانہ طریقے سے ان علاقوں کے تاجدارقراردیے گئے۔نتیجہ آج سامنے ہے۔

پورے مشرق وسطیٰ پرنظردوڑائیے۔تاریخ کوپڑھنے کی کوشش کیجیے۔وہ تمام علاقے جس میں کسی قسم کی کوئی جغرافیائی تقسیم نہیںتھی۔اسکوآڑھی ترچھی لکیروں سے مختلف ملک اور بادشاہتوں میں تقسیم کردیاگیا۔خیراس وقت تیل دریافت نہیں ہواتھا۔ ورنہ صورتحال بالکل مختلف ہوتی۔

یہ کیسااصول ہے کہ محض اس بنیادپرایک شخص ملک کے تمام وسائل پرقابض ہوجائے کہ وہ ایک خاص گھرمیں اتفاقیہ پیداہوگیاہے۔کیایہ واقعی انصاف ہے۔اگر اس اصول کوتسلیم کرلیاجائے توپھر امریکا میں بل کلنٹن یابارک اوباما کی اولادکوامریکی صدر ہونا چاہیے۔وہاں توایک جمہوری نظام کے تابع اقتدارکوامانت کے طورپرایک شخص کے حوالے کیاجاتاہے۔پھراس پرکڑی نظررکھی جاتی ہے۔امریکی صدرقانون اورضابطہ سے باہرکچھ نہیں کرسکتا۔

اپ پچھلے دوسوبرس کی انسانی ترقی پرغورکیجیے۔اہل مغرب کی حیرت انگیزفکری اورمادی ترقی کی بنیادسائنسی علم،تحقیق اورشخصیت پرستی کی نفی ہے۔اس کے لیے لاکھوں نہیں بلکہ کڑوڑوں لوگ مارے گئے۔مگربھیانک جنگیں بھی فکری آزادی کوختم نہ کرسکیں۔ان تمام قوتوں نے جب یہ بات سیکھ لی کہ دنیاوی ترقی صرف اس صورت میں ہوسکتی ہے جب علم اورتحقیق کے دروازے مستقل طورپرکھولے جائیں۔محض ڈیڑھ سوسال کے قلیل عرصے میں انھوں نے حیرت انگیزایجادیں کیں۔

آج دنیاانھی ایجادات کے پھل سے محظوظ ہورہی ہے۔کیاکہ محض اتفاق ہے کہ گزشتہ سات سوبرس میں مسلمانوں نے کوئی نئی سائنسی دریافت نہیں کی۔ آپ برصغیر کی مثال لیجیے۔مغلوں نے حکومت کے جو اصول مرتب کیے۔ان میں سے اکثریت اتنے بوسیدہ تھے کہ حقیقت کاایک جھٹکا برداشت نہ کرسکے۔ ان کی فوج کانظام دیکھیے۔مختلف لوگوں کو بادشاہ اپنے حکم خاص سے پنج ہزاری، دس ہزاری اوردیگر مناسب عطاکرتا ہے۔علاقوں کوجاگیرکی صورت میں ایسے لوگوں کے حوالے کردیاجاتاتھاجوجنگ کی صورت میں افرادی قوت فراہم کرتے تھے۔اسلحہ اورگھوڑے دیتے تھے۔

ان تمام فوجیوں کی ایک جیسی تربیت کاکوئی انتظام نہیں تھا۔ان کی آپس میں کسی قسم کی کوئی کوارڈینیشن موجودنہیں تھی۔مغلوں کی تمام طاقت ان مختلف طرح کے گروہوں پرمشتمل تھی جن میں کوئی باہمی ربط نہیں تھا۔اپنے جیسے دشمن کامقابلہ کرنے کے لیے توخیریہ انتظام کسی حدتک کارآمدتھا مگراپنے سے مختلف اورضابطہ کی پابندفوج کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔سیکڑوں برس حکومت کرنے کے باوجودسلاطین دہلی اورمغل پورے برصغیرمیں ایک منظم نظام انصاف فراہم نہیں کرسکے تھے۔ ایک ایسانظام جوذاتی پسنداورناپسندسے بالاترہوں۔جسکی مثال دی جاسکے۔

کچھ مثالیں ضرورموجودہیں مگریہ بہت کم ہیں اوراس سے کوئی اصول اخذنہیں کیاجاسکتا۔آپ کسی بھی تاجداردہلی کی زندگی پرنظرڈالیے۔آپکوحکومت کے خلاف بغاوتوں کی سرکوبی کاعنصربہت شدت سے نظرآئیگا۔خاندانی جنگیں،تخت کے خلاف ہونے والی سازشیں اوردولت اکھٹی کرنے کی حرص بالکل تواتر سے نظرآتے ہیں۔انتقال اقتدارکاکوئی طریقہ بنانے میں مکمل ناکامی اورعام لوگوں کی بدحالی صاف دکھائی دیتی ہے۔خیرمغرب بھی اس دورسے گزراہے۔

مگرمجھے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آتی کہ کسی بھی حکمران نے سائنسی علوم کی طرف کوئی توجہ کیوں نہیں دی۔توجہ دیناتودورکی بات،انکوحقارت سے ٹھکرادیا گیا۔ حدتویہ ہے کہ چھاپہ خانہ تک نہیں لگنے دیاگیا۔نتیجہ سامنے ہے!انگریزوں سے لڑائی کے دوران ایک فقرہ ہرطرف باربار سنائی دیتاتھا،کہ انگریزوں کی توپوں میں کیڑے پڑجائیں۔یہ دعاتوخیرقبول نہیں ہوئی کیونکہ یہ دعا قانون قدرت کے مکمل طورپرخلاف تھی۔لیکن ہم نے اپنی شکست سے کوئی سبق سیکھنے سے انکارکردیا۔یہ انکارآج تک قائم ہے۔

یہ نگر پرندوں کا غول ہے
جو گرا ہے دانہ و دام پر
غم خاص پر کبھی چپ رہے
کبھی رو دیے غم عام پر
ہے منیر حیرتِ مستقل
میں کھڑا ہوا ایسے مقام پر

ہمارے جیسے ملکوں کے لیے انسانی حقوق کی پاسداری، قانون کی حکمرانی اورآزادی فکرمحض الفاظ ہیں!چنداچھے الفاظ! کوئی بھی ان اصولوں پرچلنے کے لیے تیار نہیں! ہمارے خطے کی سوچ اوررویہ وہی صدیوں پرانا ہے! ایک تاریک سی ہے! مگر صاحبان!نورکی ایک کرن سے اندھیرہ چھٹ جاتاہے!روشنی کی اس شعاع کوہم چاہیں بھی توروک نہیں سکتے!
Load Next Story