پریس فریڈم انڈیکس
اکستان میں آزادئ صحافت کو درپیش خطرات کی تاریخ کچھ عجیب سی ہے۔
آزادئ صحافت کے انڈیکس میں پاکستان کا اس سال 158 نمبر ہے۔ اس انڈیکس میں 180 ممالک میں آزادئ صحافت کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ صحافیوں کی بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم Reporters Without Borders کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اب بھی آزادئ صحافت کے حوالے سے خطرناک ممالک میں شامل ہے۔
رپورٹروں کی اس تنظیم نے صحافیوں اور آزادئ صحافت کو درپیش خطرات کے تناظر میں اپنی رپورٹ میں تحریر کیا کہ دنیا بھر میں غیرریاستی کردار Non State Actors صحافیوں اور آزادئ صحافت کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نائیجیریا کی غیر ریاستی تنظیم بوکو حرام، عراق اور شام میں موجود اسلامی ریاست I.S اور اٹلی اور جنوبی امریکا کی جرائم کی مافیاز صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کے لیے خطرے ہیں۔ I.S نے کئی امریکی، یورپی، جاپانی اور اردن کے صحافیوں کو قتل کیا ہے۔
بوکو حرام کے دہشت گرد ایک طرف لڑکیوں کو اغواء کرتے ہیں، اسکولوں کو دھماکوں سے اڑاتے ہیں تو دوسری طرف صحافیوں کو نشانہ بناتے ہیں اور میڈیا ہاؤسز کو دھمکیاں دے کر اپنے خلاف مواد کی اشاعت کو روکتے ہیں ۔ پاکستان میں آزادئ صحافت کو درپیش خطرات کی تاریخ کچھ عجیب سی ہے۔ اس ملک کے بانی محمد علی جناح نے اپنی سیاسی زندگی کے پہلے 30 سال آزادئ صحافت کے تحفظ، خواتین کو مردوں کے برابر حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کی بالادستی کی جدوجہد میں گزارے۔
جناح صاحب نے مذہب، نسل اور قوم کے ہتھیار کے بغیر جدوجہد کی۔ گزشتہ صدی کے پہلے عشرے کے اختتام پر قوم پرست کانگریسی رہنما تلک کے اخبار کیسری پر پابندی کے خلاف مقدمہ لڑا۔ پھر ایک انگریز صحافی ہیورمین کی آزادئ صحافت کے لیے جدوجہد میں شریک ہوئے، یوں بمبئی کے اخبار بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹر مسٹر ہیورمین اور ان کے ساتھیوں کی برطرفی کے خلاف جدوجہد میں شرکت کی۔ جب بمبئی کرانیکل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا تو سب سے پہلے مسٹر ہیورمین کو بمبئی کرانیکل کا دوبارہ ایڈیٹر مقرر کیا اور ایڈیٹر کی ادارتی آزادی Editorial Freedom کے حق کی مکمل تائید کی۔
یوں بمبئی کرانے کل نے پہلے بنگال کے قحط کے بارے میں رپورٹیں شایع کیں، پھر امرتسر کے جلیانوالا باغ میں جنرل ڈائر کے قتل عام کے بارے میں مکمل اور اطلاعات سے بھرپور رپورٹیں شایع کیں۔ جب حکومت نے اس جرم پر مسٹر ہیورمین کو ہندوستان بدر کیا اور اخبار پر سنسرشپ عائد کی تو محمد علی جناح نے اخبار بند کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا۔ اسی طرح قائد اعظم نے اخبارات کے خلاف امتناعی قوانین کے استعمال پر سخت احتجاج کیا اور انڈین لیجسلیٹو کونسل سے مستعفی ہو گئے مگر آزادی کے بعد قائد اعظم کی زیرِ نگرانی اقتدار میں آنے والی مسلم لیگی حکومت نے ان ہی امتناعی قوانین کو صحافیوں اور اخبارات کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا جن کے خلاف قائد اعظم نے آواز اٹھائی تھی۔
ریاستی کرداروں نے اخبارات کے ایڈیٹروں کے اطلاعات حاصل کرنے کے حق اور عوام کے جاننے کے حق کو غصب کیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس PFUJ اور ایڈیٹروں کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کانفرنس نے آزادئ صحافت کے لیے طویل جدوجہد کی۔ یہی وجہ تھی کہ ایڈیٹروں کے علاوہ صحافیوں کے رہنماؤں منہاج برنا ، نثار عثمانی اور احفاظ الرحمن وغیرہ کو بیروزگاری اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ مگر گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں ریاستی کردار کے محدود ہونے کی بناء پر غیر ریاستی کرداروں نے اخبارات کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔
ان عناصر میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں، انتہاپسند مذہبی اور لسانی تنظیمیں، ریاستی ایجنسیاں، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور لسانی تنظیمیں شامل ہیں۔ ان غیر ریاستی اداروں نے صحافیوںکو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کے، میڈیا ہاؤسز پر حملے اور الیکٹرانک چینلز کی نشریات میں رکاوٹ ڈال کر اپنے مفاد کے خلاف نشر ہونے والے پیغام کو روکنے کی کوشش کی۔ دہشت گردی کی جنگ میں ذرایع ابلاغ کے کردار پر تحقیق کرنے والے محقق پروفیسر عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ غیر ریاستی ادارے صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ریاستی ادارے اب بھی امتناعی قوانین کے استعمال، اخبارات کی سرکولیشن، الیکٹرانک میڈیا آزادئ صحافت کے حق کو غصب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ سال بلوچستان اور قبائلی علاقے صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک علاقے ثابت ہوئے۔ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار میں سب سے زیادہ صحافی قتل ہوئے۔ قتل ہونے والوں میں خضدار پریس کلب کے صدر اور سیکریٹری جنرل اور ان کے قریبی عزیز بھی شامل ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں جنوبی وزیرستان کے صحافی حیات اﷲ کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا کمیشن قائم ہوا مگر اس کمیشن کی رپورٹ منظرِ عام پر نہیں آ سکی۔ وزیر اعظم کو گزشتہ ہفتے ایڈیٹروں کے اجلاس میں کہنا پڑا کہ ٹی وی چینلز ریٹنگ کو چھوڑ کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کا ساتھ دیا۔ آزادی صحافت کے تحفظ میڈیا ہاؤسز کو ریٹنگ کی دوڑ سے علیحدہ کرنے اور ایک جامع ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے لیے جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ناصر اسلم زاہد کمیشن رپورٹ اور سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے بارے میں عدالتی رپورٹ پر پارلیمنٹ کے تحت اور جامع قوانین نافذ کرے ، یہی عوام کے جاننے کے حق اور میڈیا کے اطلاعات فراہم کرنے کے فریضہ کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹروں کی اس تنظیم نے صحافیوں اور آزادئ صحافت کو درپیش خطرات کے تناظر میں اپنی رپورٹ میں تحریر کیا کہ دنیا بھر میں غیرریاستی کردار Non State Actors صحافیوں اور آزادئ صحافت کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نائیجیریا کی غیر ریاستی تنظیم بوکو حرام، عراق اور شام میں موجود اسلامی ریاست I.S اور اٹلی اور جنوبی امریکا کی جرائم کی مافیاز صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کے لیے خطرے ہیں۔ I.S نے کئی امریکی، یورپی، جاپانی اور اردن کے صحافیوں کو قتل کیا ہے۔
بوکو حرام کے دہشت گرد ایک طرف لڑکیوں کو اغواء کرتے ہیں، اسکولوں کو دھماکوں سے اڑاتے ہیں تو دوسری طرف صحافیوں کو نشانہ بناتے ہیں اور میڈیا ہاؤسز کو دھمکیاں دے کر اپنے خلاف مواد کی اشاعت کو روکتے ہیں ۔ پاکستان میں آزادئ صحافت کو درپیش خطرات کی تاریخ کچھ عجیب سی ہے۔ اس ملک کے بانی محمد علی جناح نے اپنی سیاسی زندگی کے پہلے 30 سال آزادئ صحافت کے تحفظ، خواتین کو مردوں کے برابر حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کی بالادستی کی جدوجہد میں گزارے۔
جناح صاحب نے مذہب، نسل اور قوم کے ہتھیار کے بغیر جدوجہد کی۔ گزشتہ صدی کے پہلے عشرے کے اختتام پر قوم پرست کانگریسی رہنما تلک کے اخبار کیسری پر پابندی کے خلاف مقدمہ لڑا۔ پھر ایک انگریز صحافی ہیورمین کی آزادئ صحافت کے لیے جدوجہد میں شریک ہوئے، یوں بمبئی کے اخبار بمبئی کرانیکل کے ایڈیٹر مسٹر ہیورمین اور ان کے ساتھیوں کی برطرفی کے خلاف جدوجہد میں شرکت کی۔ جب بمبئی کرانیکل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ کا عہدہ سنبھالا تو سب سے پہلے مسٹر ہیورمین کو بمبئی کرانیکل کا دوبارہ ایڈیٹر مقرر کیا اور ایڈیٹر کی ادارتی آزادی Editorial Freedom کے حق کی مکمل تائید کی۔
یوں بمبئی کرانے کل نے پہلے بنگال کے قحط کے بارے میں رپورٹیں شایع کیں، پھر امرتسر کے جلیانوالا باغ میں جنرل ڈائر کے قتل عام کے بارے میں مکمل اور اطلاعات سے بھرپور رپورٹیں شایع کیں۔ جب حکومت نے اس جرم پر مسٹر ہیورمین کو ہندوستان بدر کیا اور اخبار پر سنسرشپ عائد کی تو محمد علی جناح نے اخبار بند کرنے کا تاریخی فیصلہ کیا۔ اسی طرح قائد اعظم نے اخبارات کے خلاف امتناعی قوانین کے استعمال پر سخت احتجاج کیا اور انڈین لیجسلیٹو کونسل سے مستعفی ہو گئے مگر آزادی کے بعد قائد اعظم کی زیرِ نگرانی اقتدار میں آنے والی مسلم لیگی حکومت نے ان ہی امتناعی قوانین کو صحافیوں اور اخبارات کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا جن کے خلاف قائد اعظم نے آواز اٹھائی تھی۔
ریاستی کرداروں نے اخبارات کے ایڈیٹروں کے اطلاعات حاصل کرنے کے حق اور عوام کے جاننے کے حق کو غصب کیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس PFUJ اور ایڈیٹروں کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کانفرنس نے آزادئ صحافت کے لیے طویل جدوجہد کی۔ یہی وجہ تھی کہ ایڈیٹروں کے علاوہ صحافیوں کے رہنماؤں منہاج برنا ، نثار عثمانی اور احفاظ الرحمن وغیرہ کو بیروزگاری اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ مگر گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں ریاستی کردار کے محدود ہونے کی بناء پر غیر ریاستی کرداروں نے اخبارات کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔
ان عناصر میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں، انتہاپسند مذہبی اور لسانی تنظیمیں، ریاستی ایجنسیاں، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور لسانی تنظیمیں شامل ہیں۔ ان غیر ریاستی اداروں نے صحافیوںکو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کے، میڈیا ہاؤسز پر حملے اور الیکٹرانک چینلز کی نشریات میں رکاوٹ ڈال کر اپنے مفاد کے خلاف نشر ہونے والے پیغام کو روکنے کی کوشش کی۔ دہشت گردی کی جنگ میں ذرایع ابلاغ کے کردار پر تحقیق کرنے والے محقق پروفیسر عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ غیر ریاستی ادارے صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ریاستی ادارے اب بھی امتناعی قوانین کے استعمال، اخبارات کی سرکولیشن، الیکٹرانک میڈیا آزادئ صحافت کے حق کو غصب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ سال بلوچستان اور قبائلی علاقے صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک علاقے ثابت ہوئے۔ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار میں سب سے زیادہ صحافی قتل ہوئے۔ قتل ہونے والوں میں خضدار پریس کلب کے صدر اور سیکریٹری جنرل اور ان کے قریبی عزیز بھی شامل ہیں۔
سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں جنوبی وزیرستان کے صحافی حیات اﷲ کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطح کا کمیشن قائم ہوا مگر اس کمیشن کی رپورٹ منظرِ عام پر نہیں آ سکی۔ وزیر اعظم کو گزشتہ ہفتے ایڈیٹروں کے اجلاس میں کہنا پڑا کہ ٹی وی چینلز ریٹنگ کو چھوڑ کر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کا ساتھ دیا۔ آزادی صحافت کے تحفظ میڈیا ہاؤسز کو ریٹنگ کی دوڑ سے علیحدہ کرنے اور ایک جامع ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے لیے جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ناصر اسلم زاہد کمیشن رپورٹ اور سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے بارے میں عدالتی رپورٹ پر پارلیمنٹ کے تحت اور جامع قوانین نافذ کرے ، یہی عوام کے جاننے کے حق اور میڈیا کے اطلاعات فراہم کرنے کے فریضہ کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے۔