ہماری ٹیم ’’ڈبل مائنڈڈ‘‘ ہوگئی تھی
ہم میں سے بیشتر غلط یا صحیح یہی سمجھتے رہے کہ ہمیں یہ میچ ہارنا ہے ورنہ ہم شروع سے کچھ مختلف حکمت عملی اختیار کرتے۔
GILGIT:
باخبر ذریعوں کے مطابق جو عام طور پر غلط خبریں فراہم کرتے ہیں، قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت سے کھیلے جانے والے میچ میں انھیں آخر تک اندھیرے میں رکھا گیا اور یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ انھیں یہ میچ جیتنا ہے۔ غیر ذمے داری کی بھی حد ہوتی ہے۔
مصباح الحق نے اس قسم کی کچھ باتیں میچ کے بعد منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں کہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ ٹیم پر ہونے والی تنقید پر پھٹ پڑے ٹیم کے دوسرے کھلاڑی بھی میچ کے بعد ہونے والی صورتحال پر خاصے حیران اورپریشان تھے اور غم زدہ بھی تھے۔
ہمارے ایک ''سورس'' نے جو اس اجلاس میں موجود تھے ہمیں اجلاس میں ہونے والی گفتگو کی کچھ تفصیلات فراہم کی ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ باتیں کم و بیش وہی ہیں جو اجلاس میں کہی گئی ہیں۔ ہم بھی بنیادی طور پر محض تفریح طبع کے لیے اس اجلاس کی روئیداد قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو کچھ یوں ہے۔ ابتدا مصباح الحق نے ایک جذباتی تقریر سے کی۔
مصباح الحق: ساتھیوں جیساکہ ہم سب کے علم میں ہے ہماری قومی کرکٹ ٹیم اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے ہم نے ایک ایسا اہم میچ کھیلا اور ہارا ہے جس میں ہمارے ساتھ ایک بڑا دھوکا اور فراڈ ہوا ہے ہمیں ٹیم مینجمنٹ نے یہ بتایا ہی نہیں کہ ہمیں یہ میچ جیتنا ہے۔
ہم میں سے بیشتر غلط یا صحیح یہی سمجھتے رہے کہ ہمیں یہ میچ ہارنا ہے ورنہ ہم شروع سے کچھ مختلف حکمت عملی اختیار کرتے۔ میچ کی صورتحال کے مطابق ٹیم سلیکٹ کرتے ضرورت کے مطابق بیٹسمین اوربولر کھلاتے۔ بیٹنگ لائن اپ بھی حالات کی نزاکت کے مطابق مرتب کرتے اگر آپ تمام لوگ میری باتوں سے متفق ہوں تو باری باری اظہار خیال کریں۔ لیکن بات ذرا مختصر رکھیں۔
شاہد آفریدی: کپتان! سب سے پہلے تو میں آپ کو خراج تحسین پیش کروں گاکہ اتنے ناموافق حالات میں بھی جب آپ کو میچ کے نتیجے کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں تھا آپ نے بہت اچھی بیٹنگ کی چوکے چھکے بھی لگائے اور سنگلز بھی لیے۔ ایک کپتان اننگز کھیلی اگر آپ کے ساتھ سنگین مذاق نہ کیا گیا ہوتا تو آپ یہ میچ جتوا بھی سکتے تھے۔ اب میں اپنی بات کرتا ہوں میں ایک جینوئن آل راؤنڈر ہوں۔ ایسا آل راؤنڈر نہیں کہ نہ رن بناؤں اور نہ وکٹ لوں۔ اس لیے سچی بات ہے میری کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میرا مطلب ہے جیتنے کے لیے کھیلنا ہے یا ہارنے کے لیے۔
ٹیم مینجمنٹ نے آپ کو نہیں بتایا آپ نے قدرتی طور پر ہمیں کنفیوزڈ رکھا جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے بہت سنبھل کے کھیلا نہ وکٹ لی نہ بہت زیادہ چوکے چھکے لگائے۔ میچ کو اوپن رکھا تاکہ ہم ضرورت کے مطابق جیت بھی سکیں اور ہار بھی سکیں۔ دراصل ٹاس ہارنے سے سارا مسئلہ خراب ہوا۔ میچ سے پہلے نام نہاد ماہرین یہی پیشن گوئی کر رہے تھے کہ جو ٹیم بھی ٹاس ہارے گی وہ میچ بھی ہار جائے گی۔ آیندہ کے لیے ہمیں اس تصور کو دل سے نکال دینا ہے اب میں یونس بھائی سے کہوں گا۔ میرا خیال ہے وہ بھی ڈبل مائنڈڈ ہونے کی وجہ سے اتنی جلدی آؤٹ ہوئے۔
مصباح الحق: ہاں! یونس بھائی! آپ کچھ کہیں۔
یونس خان: کپتان! میں تو اسی وقت سمجھ گیا تھا جب آپ نے مجھ سے اننگز اوپن کرنے کے لیے کہا تھا۔ سچی بات ہے میں مڈل آرڈر بیٹسمین ہوں، اننگز اوپن کرنا اور نئی گیند کو کھیلنا خاص طور پر ایسے میچ میں جہاں ہمیں اتنے دباؤ کا سامنا ہو خاصا مشکل ہوتا ہے اس لیے جب آپ نے مجھے احمد شہزاد کے ساتھ اوپن کرنے کے لیے بھیجا تو چھٹی حس نے مجھے بتادیا کہ ہمیں یہ میچ جیتنا نہیں ہے پھر جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ میں جلدی آؤٹ ہوگیا۔ اس میں سارا قصور ٹیم مینجمنٹ کا ہے جس نے ہمیں کنفیوژن میں رکھا۔ ہمیں یہ تاثر دیا گیا کہ ہمیں کچھ نہیں کرنا۔ انڈیا کو جیتنے میں مدد دینی ہے۔
عمر اکمل: میرا بھی اس وقت ماتھا ٹھنکا تھا جب کپتان! آپ نے مجھ سے وکٹ کیپنگ کے لیے کہا تھا۔ میں سمجھ گیا آپ جیتنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ سچی بات ہے اتنے مشکل میچ میں پارٹ ٹائم نہیں فل ٹائم وکٹ کیپر کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں کافی عرصے سے وکٹ کیپنگ کے بجائے بیٹنگ پر زیادہ دھیان دے رہا ہوں اس لیے جب مجھ سے وکٹ کیپنگ کے لیے کہا گیا تو میں سمجھ گیا ضرور دال میں کالا ہے۔
میری عادت ہے میں لاابالی پن میں ایک آدھ کیچ ضرور چھوڑتا ہوں اس مرتبہ بھی میں نے حسب روایت ایک کیچ چھوڑا۔ میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ ڈراپ کیچ کوہلی کا نکلے گا۔ میں نے رن کم بنانے دیے نہ زیادہ۔ پھر جیسے تیسے میں نے وکٹ کیپنگ کی ، مگر بیٹنگ میں بھی لگتا ہے کہ امپائر کو صحیح طور پر ''بریف'' نہیں کیا گیا تھا اسی لیے انھوں نے بہت صحیح وقت پر مجھے غلط آؤٹ دے دیا۔ میں نے بھی یہ سوچ کر کہ ہمیں جیتنا تو ویسے بھی نہیں ہے اس فیصلے کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا۔ ورنہ میں چاہتا تو ہنگامہ کرسکتا تھا۔
سرفراز احمد: میں نے بھی اسی لیے کوئی پروٹیسٹ نہیں کیا حالانکہ میں کہہ سکتا تھا کہ ریگولر وکٹ کیپر میں ہوں، اور بیٹنگ بھی اچھی خاصی کرلیتا ہوں اس لیے وکٹ کیپنگ کرنے کا پہلا حق میرا ہے، لیکن پھر میں یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ جب ہمیں ہارنا ہی ٹھہرا تو میرے کھیلنے نہ کھیلنے سے کیا فرق پڑ جائے گا۔
یونس خان: معذرت کے ساتھ ون ڈے بنیادی طورپر فاسٹ بولرزکا گیم ہے ہمیں یاسر شاہ کی جگہ ایک اورفاسٹ بولر کھلانا چاہیے تھا۔
یاسر: یونس بھائی! اپنے تک رہیں، بولنگ پرکمنٹ نہ کریں، میرا خیال ہے بولرز انڈیا کے خلاف پھر بھی اچھا کھیل گئے۔
سہیل خان: سچی بات ہے مجھے تو اصل گیم پلان پتہ ہی نہیں تھا کسی نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں تھا اس لیے میں نے تو پورا زور لگادیا۔ بعد میں کپتان نے مجھے خاصا ڈانٹا کہ بڑے اسمارٹ بن رہے ہو۔
سرفراز احمد: میں تو صہیب مقصود کو کھلانے کے فیصلے سے ہی سمجھ گیا تھا کہ ٹیم مینجمنٹ یا کپتان کیا چاہ رہے ہیں۔ اتنے بڑے میچ میں ایک ناتجربہ کارکھلاڑی کوکھلانا اس کھلاڑی کے ساتھ زیادتی ہے۔
یونس خان: ویسے کپتان! جب آپ بیٹنگ کررہے تھے اورچوکے چھکے لگا رہے تھے تو ہم خاصے کنفیوژ ہوگئے تھے اور خطرہ ہوگیا تھا کہ ہم ہارتے ہارتے کہیں جیت نہ جائیں۔
مصباح الحق: میں خود خاصا کنفیوژ تھا مجھے کچھ بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ بار بار ڈریسنگ روم کی طرف اشارے کر رہا تھا۔ بالآخر مجھے 76 رنز بناکر آؤٹ ہونا پڑا۔
شاہد آفریدی: مجھے خود اندازہ ہو رہا تھا کہ آپ کچھ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں ورنہ آپ جتنے تجربہ کار ہیں آپ اوور کے آخر میں ایک ایک رن لے کر ٹیل اینڈرز کو آؤٹ ہونے سے بچا سکتے تھے۔ مجھے یاد ہے ہمارے قابل احترام سینئر جاوید میانداد اکثر ایسا کیا کرتے تھے۔
مصباح الحق: وجہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں ہمیں آخر تک ڈارک میں رکھا گیا۔ ورنہ مزید تیس چالیس رنز بناکر میچ کو پھنسا لینا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ آخر حارث سہیل نے بھی تو اچھی بیٹنگ کی اور ہم سب کے لیے ایک مثال قائم کی۔
یونس خان: اب بتائیں ہمیں کیا کرنا ہے؟
مصباح الحق: جیساکہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ہماری ٹیم اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے ہماری ساری مقبولیت بلکہ وجود خطرے میں ہے ہمیں اپنے ملک واپس بھی جانا ہے ہم چاروں طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں ہمیں ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم سے نمٹنا ہے جو آئرلینڈ سے ہارنے کے بعد زخمی شیرکی طرح باؤلی ہو رہی ہے۔ آیندہ میچوں میں ہمیں جان لڑا دینی ہے۔ یہ ورلڈ کپ میں ہماری بقا کا معاملہ ہے بے شک ہم کپ نہ جیتیں اپنی عزت تو بچا کے لے جائیں اس لیے میرے عزیز ساتھیوں! بیٹ اور بال ہاتھ میں لو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو۔
باخبر ذریعوں کے مطابق جو عام طور پر غلط خبریں فراہم کرتے ہیں، قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان مصباح الحق نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت سے کھیلے جانے والے میچ میں انھیں آخر تک اندھیرے میں رکھا گیا اور یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ انھیں یہ میچ جیتنا ہے۔ غیر ذمے داری کی بھی حد ہوتی ہے۔
مصباح الحق نے اس قسم کی کچھ باتیں میچ کے بعد منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں کہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ ٹیم پر ہونے والی تنقید پر پھٹ پڑے ٹیم کے دوسرے کھلاڑی بھی میچ کے بعد ہونے والی صورتحال پر خاصے حیران اورپریشان تھے اور غم زدہ بھی تھے۔
ہمارے ایک ''سورس'' نے جو اس اجلاس میں موجود تھے ہمیں اجلاس میں ہونے والی گفتگو کی کچھ تفصیلات فراہم کی ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ باتیں کم و بیش وہی ہیں جو اجلاس میں کہی گئی ہیں۔ ہم بھی بنیادی طور پر محض تفریح طبع کے لیے اس اجلاس کی روئیداد قارئین کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو کچھ یوں ہے۔ ابتدا مصباح الحق نے ایک جذباتی تقریر سے کی۔
مصباح الحق: ساتھیوں جیساکہ ہم سب کے علم میں ہے ہماری قومی کرکٹ ٹیم اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے ہم نے ایک ایسا اہم میچ کھیلا اور ہارا ہے جس میں ہمارے ساتھ ایک بڑا دھوکا اور فراڈ ہوا ہے ہمیں ٹیم مینجمنٹ نے یہ بتایا ہی نہیں کہ ہمیں یہ میچ جیتنا ہے۔
ہم میں سے بیشتر غلط یا صحیح یہی سمجھتے رہے کہ ہمیں یہ میچ ہارنا ہے ورنہ ہم شروع سے کچھ مختلف حکمت عملی اختیار کرتے۔ میچ کی صورتحال کے مطابق ٹیم سلیکٹ کرتے ضرورت کے مطابق بیٹسمین اوربولر کھلاتے۔ بیٹنگ لائن اپ بھی حالات کی نزاکت کے مطابق مرتب کرتے اگر آپ تمام لوگ میری باتوں سے متفق ہوں تو باری باری اظہار خیال کریں۔ لیکن بات ذرا مختصر رکھیں۔
شاہد آفریدی: کپتان! سب سے پہلے تو میں آپ کو خراج تحسین پیش کروں گاکہ اتنے ناموافق حالات میں بھی جب آپ کو میچ کے نتیجے کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں تھا آپ نے بہت اچھی بیٹنگ کی چوکے چھکے بھی لگائے اور سنگلز بھی لیے۔ ایک کپتان اننگز کھیلی اگر آپ کے ساتھ سنگین مذاق نہ کیا گیا ہوتا تو آپ یہ میچ جتوا بھی سکتے تھے۔ اب میں اپنی بات کرتا ہوں میں ایک جینوئن آل راؤنڈر ہوں۔ ایسا آل راؤنڈر نہیں کہ نہ رن بناؤں اور نہ وکٹ لوں۔ اس لیے سچی بات ہے میری کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ میرا مطلب ہے جیتنے کے لیے کھیلنا ہے یا ہارنے کے لیے۔
ٹیم مینجمنٹ نے آپ کو نہیں بتایا آپ نے قدرتی طور پر ہمیں کنفیوزڈ رکھا جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے بہت سنبھل کے کھیلا نہ وکٹ لی نہ بہت زیادہ چوکے چھکے لگائے۔ میچ کو اوپن رکھا تاکہ ہم ضرورت کے مطابق جیت بھی سکیں اور ہار بھی سکیں۔ دراصل ٹاس ہارنے سے سارا مسئلہ خراب ہوا۔ میچ سے پہلے نام نہاد ماہرین یہی پیشن گوئی کر رہے تھے کہ جو ٹیم بھی ٹاس ہارے گی وہ میچ بھی ہار جائے گی۔ آیندہ کے لیے ہمیں اس تصور کو دل سے نکال دینا ہے اب میں یونس بھائی سے کہوں گا۔ میرا خیال ہے وہ بھی ڈبل مائنڈڈ ہونے کی وجہ سے اتنی جلدی آؤٹ ہوئے۔
مصباح الحق: ہاں! یونس بھائی! آپ کچھ کہیں۔
یونس خان: کپتان! میں تو اسی وقت سمجھ گیا تھا جب آپ نے مجھ سے اننگز اوپن کرنے کے لیے کہا تھا۔ سچی بات ہے میں مڈل آرڈر بیٹسمین ہوں، اننگز اوپن کرنا اور نئی گیند کو کھیلنا خاص طور پر ایسے میچ میں جہاں ہمیں اتنے دباؤ کا سامنا ہو خاصا مشکل ہوتا ہے اس لیے جب آپ نے مجھے احمد شہزاد کے ساتھ اوپن کرنے کے لیے بھیجا تو چھٹی حس نے مجھے بتادیا کہ ہمیں یہ میچ جیتنا نہیں ہے پھر جو کچھ ہوا وہ آپ کے سامنے ہے۔ میں جلدی آؤٹ ہوگیا۔ اس میں سارا قصور ٹیم مینجمنٹ کا ہے جس نے ہمیں کنفیوژن میں رکھا۔ ہمیں یہ تاثر دیا گیا کہ ہمیں کچھ نہیں کرنا۔ انڈیا کو جیتنے میں مدد دینی ہے۔
عمر اکمل: میرا بھی اس وقت ماتھا ٹھنکا تھا جب کپتان! آپ نے مجھ سے وکٹ کیپنگ کے لیے کہا تھا۔ میں سمجھ گیا آپ جیتنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ سچی بات ہے اتنے مشکل میچ میں پارٹ ٹائم نہیں فل ٹائم وکٹ کیپر کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں کافی عرصے سے وکٹ کیپنگ کے بجائے بیٹنگ پر زیادہ دھیان دے رہا ہوں اس لیے جب مجھ سے وکٹ کیپنگ کے لیے کہا گیا تو میں سمجھ گیا ضرور دال میں کالا ہے۔
میری عادت ہے میں لاابالی پن میں ایک آدھ کیچ ضرور چھوڑتا ہوں اس مرتبہ بھی میں نے حسب روایت ایک کیچ چھوڑا۔ میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ ڈراپ کیچ کوہلی کا نکلے گا۔ میں نے رن کم بنانے دیے نہ زیادہ۔ پھر جیسے تیسے میں نے وکٹ کیپنگ کی ، مگر بیٹنگ میں بھی لگتا ہے کہ امپائر کو صحیح طور پر ''بریف'' نہیں کیا گیا تھا اسی لیے انھوں نے بہت صحیح وقت پر مجھے غلط آؤٹ دے دیا۔ میں نے بھی یہ سوچ کر کہ ہمیں جیتنا تو ویسے بھی نہیں ہے اس فیصلے کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا۔ ورنہ میں چاہتا تو ہنگامہ کرسکتا تھا۔
سرفراز احمد: میں نے بھی اسی لیے کوئی پروٹیسٹ نہیں کیا حالانکہ میں کہہ سکتا تھا کہ ریگولر وکٹ کیپر میں ہوں، اور بیٹنگ بھی اچھی خاصی کرلیتا ہوں اس لیے وکٹ کیپنگ کرنے کا پہلا حق میرا ہے، لیکن پھر میں یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ جب ہمیں ہارنا ہی ٹھہرا تو میرے کھیلنے نہ کھیلنے سے کیا فرق پڑ جائے گا۔
یونس خان: معذرت کے ساتھ ون ڈے بنیادی طورپر فاسٹ بولرزکا گیم ہے ہمیں یاسر شاہ کی جگہ ایک اورفاسٹ بولر کھلانا چاہیے تھا۔
یاسر: یونس بھائی! اپنے تک رہیں، بولنگ پرکمنٹ نہ کریں، میرا خیال ہے بولرز انڈیا کے خلاف پھر بھی اچھا کھیل گئے۔
سہیل خان: سچی بات ہے مجھے تو اصل گیم پلان پتہ ہی نہیں تھا کسی نے مجھے کچھ بتایا ہی نہیں تھا اس لیے میں نے تو پورا زور لگادیا۔ بعد میں کپتان نے مجھے خاصا ڈانٹا کہ بڑے اسمارٹ بن رہے ہو۔
سرفراز احمد: میں تو صہیب مقصود کو کھلانے کے فیصلے سے ہی سمجھ گیا تھا کہ ٹیم مینجمنٹ یا کپتان کیا چاہ رہے ہیں۔ اتنے بڑے میچ میں ایک ناتجربہ کارکھلاڑی کوکھلانا اس کھلاڑی کے ساتھ زیادتی ہے۔
یونس خان: ویسے کپتان! جب آپ بیٹنگ کررہے تھے اورچوکے چھکے لگا رہے تھے تو ہم خاصے کنفیوژ ہوگئے تھے اور خطرہ ہوگیا تھا کہ ہم ہارتے ہارتے کہیں جیت نہ جائیں۔
مصباح الحق: میں خود خاصا کنفیوژ تھا مجھے کچھ بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ بار بار ڈریسنگ روم کی طرف اشارے کر رہا تھا۔ بالآخر مجھے 76 رنز بناکر آؤٹ ہونا پڑا۔
شاہد آفریدی: مجھے خود اندازہ ہو رہا تھا کہ آپ کچھ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں ورنہ آپ جتنے تجربہ کار ہیں آپ اوور کے آخر میں ایک ایک رن لے کر ٹیل اینڈرز کو آؤٹ ہونے سے بچا سکتے تھے۔ مجھے یاد ہے ہمارے قابل احترام سینئر جاوید میانداد اکثر ایسا کیا کرتے تھے۔
مصباح الحق: وجہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں ہمیں آخر تک ڈارک میں رکھا گیا۔ ورنہ مزید تیس چالیس رنز بناکر میچ کو پھنسا لینا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ آخر حارث سہیل نے بھی تو اچھی بیٹنگ کی اور ہم سب کے لیے ایک مثال قائم کی۔
یونس خان: اب بتائیں ہمیں کیا کرنا ہے؟
مصباح الحق: جیساکہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ہماری ٹیم اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے ہماری ساری مقبولیت بلکہ وجود خطرے میں ہے ہمیں اپنے ملک واپس بھی جانا ہے ہم چاروں طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں ہمیں ویسٹ انڈیز جیسی ٹیم سے نمٹنا ہے جو آئرلینڈ سے ہارنے کے بعد زخمی شیرکی طرح باؤلی ہو رہی ہے۔ آیندہ میچوں میں ہمیں جان لڑا دینی ہے۔ یہ ورلڈ کپ میں ہماری بقا کا معاملہ ہے بے شک ہم کپ نہ جیتیں اپنی عزت تو بچا کے لے جائیں اس لیے میرے عزیز ساتھیوں! بیٹ اور بال ہاتھ میں لو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو۔