بجلی کی قیمت میں کمی کی تجویز

موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے کئی مرتبہ بجلی کی قیمت میں اضافے سے اس شعبے کی مالی حالت کو قدرے سہارا ملا ہے۔

ستمبر 2013 میں آئی ایم ایف کے ساتھ مزید قرض لینے کا جو پروگرام شروع کیا گیا تھا جس کے باعث بتدریج پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھتے رہے۔ نومبر 2013 کی بات ہے جب ایک دفعہ زرمبادلہ کے ذخائر 5 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ کر رہ گئے تھے۔ پاکستان کو بھی قرض لینے میں عجلت تھی۔آئی ایم ایف کو بھی اپنے پرانے قرضوں کی واپسی کی ضرورت تھی۔

چنانچہ قرض کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ناگوار شرائط بھی عائد کی جاتی رہی ہیں۔ جنھیں کہیں من وعن کہیں کم زیادہ منظورکرکے تھوڑا بہت یا اچھا خاصا عملدرآمد بھی کرلیا جاتا تھا۔ زیادہ چابکدستی بجلی کے معاملے میں دکھائی گئی کہ اس کے نرخ بڑھاتے چلے گئے۔ ایک جانب لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھتا رہا تو اس کے ساتھ ہی بل کی مالیت بھی بڑھتی چلی گئی۔ بجلی گیس کے ساتھ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی عالمی منڈی میں بڑھتی چلی گئیں۔

واضح رہے کہ یکم نومبر 2014 سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل کمی کی گئی۔ بہرحال 2014 میں بھی ان وجوہات کی بنا پر مہنگائی میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔ بجلی کی قیمت میں اضافے نے معیشت کو بوجھل کیے رکھا۔ بیروزگاری بھی بڑھتی رہی جرائم میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ ٹیکس وصولی میں کمی واقع ہوتی رہی ٹیکس کو وسعت دینے اور ٹیکس نہ دینے والوں سے ٹیکس وصولی کے بجائے ٹیکس کی شرح بڑھا کر وصول کیا جانے لگا۔ آئی ایم ایف بجلی کے شعبے کی مالی حالت کو بہتر کرنے کے لیے ایک بات پر ہی زور دیتا رہا ہے کہ بجلی کی قیمت بڑھا دی جائے۔

موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے کئی مرتبہ بجلی کی قیمت میں اضافے سے اس شعبے کی مالی حالت کو قدرے سہارا ملا ہے۔ لیکن نومبر 2014 سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور فرنس آئل کی قیمت میں کمی نے بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کردیا ہے۔ نیپرا نے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ میکنزم کے تحت بجلی کے نرخوں میں 3 روپے 24 پیسے فی یونٹ سستی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اس فیصلے سے ملک بھر کے بجلی کے صارفین کو 21 ارب روپے کا ریلیف ملے گا۔ واضح رہے کہ اس کا اطلاق ''کے الیکٹرک'' پر نہیں ہوگا اور نہ ہی 50 یونٹ ماہانہ بجلی استعمال کرنے والے گھریلو صارفین پر ہوگا۔


اگر ایک جانب بجلی کے نرخوں میں کمی کی بات کی جا رہی ہے تو اس کے ساتھ ہی گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ سرچارج میں اضافے پر بھی عمل ہونے والا ہے۔ جس کے متعلق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ گیس سرچارج افراط زر کی گراوٹ پر اثر انداز ہوگا۔ آیندہ ماہ حکومت ایل این جی درآمد کرنے کا شدومد سے پرچار کر رہی ہے۔ لیکن اگر اس کی قیمت بھی زیادہ ہوئی اور یہ گیس جیساکہ معلوم ہوا ہے کہ بجلی کے پیداواری منصوبوں میں بھی استعمال ہوگی تو اسی تناسب سے بجلی کی لاگت بھی آئے گی۔ فرنس آئل کی قیمتوں میں تیزی سے کمی کے باعث بہت سے بجلی کے پیداواری یونٹ میں فرنس آئل کا استعمال ہونے لگا ہے اور بجلی کی پیداواری لاگت پر بھی کافی فرق پڑا ہے۔

البتہ گیس کی درآمد سے صنعتکاروں کو جس طرح سے سارا سال گیس کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اب یہ قلت دور ہوجائے گی۔ گیس کی کمی کے باعث ٹیکسٹائل برآمدات کے علاوہ کھاد، شیشے اور چمڑے کی صنعت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر اشیا سازی (ایل ایس ایم) کی نمو میں پہلی سہ ماہی کے دوران کمی درج کی گئی ہے۔ لیکن گیس کی قیمت میں اضافے سے مہنگائی کو کم نہیں کیا جاسکتا۔وزیر اعظم پاکستان نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ 2017 کے آخر تک وافر تعداد میں بجلی میسر ہوگی۔

چین کے ساتھ توانائی کے جو معاہدے کیے گئے ہیں ان پر عملدرآمد کا آغاز بھی کیا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے فوری بعد چین کے ساتھ توانائی کے کئی معاہدے کیے ہیں۔ جن کے باعث اب یہ امید پیدا ہوچلی ہے کہ 2017 کے آخر تک ملک میں بجلی کی قلت پر قابو پالیا جائے گا۔ بیجنگ جوکہ پاکستان کا دوست ملک ہے جس نے پاکستان کو توانائی بحران سے نکالنے کا عزم کر رکھا ہے۔ لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ توانائی منصوبوں پر عملدرآمد کے نتیجے میں پاکستان میں بجلی کی قیمت میں کمی واقع ہو۔

امریکا جوکہ توانائی کی شدید ضرورت کے باوجود پاک ایران گیس لائن کی مخالفت کر رہا ہے ایران نے 3 ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی کی پیش کش بھی کر رکھی ہے۔ ترکی جوکہ ایران سے گیس اور پٹرول بھی حاصل کر رہا ہے۔ ایران پر امریکی پابندیوں کو اس لیے نظرانداز کیا ہے کہ اسے اپنی معیشت کے لیے ان دونوں چیزوں کی سخت ضرورت ہے۔

امریکا اپنے مطالبات منوانے کے لیے آئی ایم ایف سے بھی کام لیتا رہتا ہے اور آئی ایم ایف اکثر و بیشتر بجلی کے نرخوں میں اضافے کی شرط عائد کرتا رہا ہے۔ بجلی سستی رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان اب آئی ایم ایف سے قرض لینے پر انحصار کم کردے۔ ایسی عملی تدابیر اختیار کی جائیں کہ کشکول کو توڑ پھینکا جائے تاکہ بار بار بجلی کی قیمت بھی نہ بڑھے۔ اور تھوڑی سی قیمت کم کی جائے تو پھر یہ خدشات بھی لاحق نہ ہوں کہ بجلی کی قیمت میں پھر جلد اضافہ ہوجائے گا۔
Load Next Story