پاک چین کوششیں کامیاب افغان حکومت اور طالبان میں جلد مذاکرات کیلیے رابطہ
پاکستان نے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا
پاکستان اور چین کی کوششوں سے کابل اور افغان طالبان کے درمیان امن مذاکرات کیلیے رابطے ہو گئے، مہینوں پر محیط پس پردہ کوششوں سے ہونے والے ان رابطوں میں باقاعدہ مذاکرات کیلیے حتمی مقام طے کیا جارہا ہے۔
پیشرفت سے آگاہ اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اشرف غنی انتظامیہ کے نمائندے طالبان سے رابطے میں ہیں تاکہ امن معاہدے کے لیے راستے تلاش کیے جاسکیں۔ نام ظاہر نہ کرنیکی شرط پر اہلکار نے بتایا کہ بالاخر ہم فریقین کو مذاکرات کی میزپرلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگر یہ ابھی شروعات ہیں، کوئی نتیجہ اخذکرنا قبل از وقت ہوگا۔ تاہم حکام نے یہ نہیں بتایا کہ کیا یہ رابطے دوحہ میں ہوئے ہیں یا کسی اور جگہ، ایک اور اہلکار نے بتایا کہ پاکستان نے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا مگر ہمارا کردار ایک معاون کا ہے، کسی معاہدے پر متفق ہونا یا نہ ہونا فریقین کی مرضی پر ہے۔
مذاکرات کیلیے مقام کا تعین بھی کیا جارہا ہے اور اس کیلیے بیجنگ، دبئی اور اسلام آباد زیرغور ہیں۔ ایک سینئر سفارتکار نے بتایا ہے کہ چین نے مذاکرات کیلیے میزبانی کی پیشکش کی ہے۔ سفارتکار نے مزید بتایا کہ افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کا دورہ اسلام آباد بھی متوقع ہے۔ حکام نے مزید بتایا ہے کہ اس سے قبل امریکا نے مصالحت کیلیے کوشش کی تھی مگر طالبان نے بات کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد چین نے مذاکرات کی میزبانی کی پیشکش کی جسے طالبان نے قبول کرلیا اور طالبان کے دو رکنی وفد نے نومبر میں بیجنگ کا دورہ بھی کیا تھا۔
افغان سیکیورٹی حکام نے رائٹرز کو بتایا کہ کابل نے سنکیانگ کے متعدد علیحدگی پسندوں کو گرفتار کرکے چین کے حوالے کیا ہے تاکہ چین کو ترغیب دلائیں کہ وہ پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ افغان حکومت نے پاکستان کے اقدام کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
اسلام آباد میں افغان سفارتخانے کے مطابق افغان صدارتی محل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان پاکستان کی مصالحتی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ خطرات اور مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان، پاکستان اور عالمی برادری قیام امن کیلئے مخلصانہ تعاون کیلئے پرعزم ہے۔ پاکستان کی طرح افغان حکومت بھی سمجھتی ہے کہ بعض عناصر امن عمل کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ افغان صدر نے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورتی عمل کا آغاز کردیا ہے، گزشتہ روز انھوں نے امن کونسل کے ارکان سے تبادلہ خیال کیا۔ آنیوالے ہفتوں میں مزید پیشرفت کا امکان ہے۔
پیشرفت سے آگاہ اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اشرف غنی انتظامیہ کے نمائندے طالبان سے رابطے میں ہیں تاکہ امن معاہدے کے لیے راستے تلاش کیے جاسکیں۔ نام ظاہر نہ کرنیکی شرط پر اہلکار نے بتایا کہ بالاخر ہم فریقین کو مذاکرات کی میزپرلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں مگر یہ ابھی شروعات ہیں، کوئی نتیجہ اخذکرنا قبل از وقت ہوگا۔ تاہم حکام نے یہ نہیں بتایا کہ کیا یہ رابطے دوحہ میں ہوئے ہیں یا کسی اور جگہ، ایک اور اہلکار نے بتایا کہ پاکستان نے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا مگر ہمارا کردار ایک معاون کا ہے، کسی معاہدے پر متفق ہونا یا نہ ہونا فریقین کی مرضی پر ہے۔
مذاکرات کیلیے مقام کا تعین بھی کیا جارہا ہے اور اس کیلیے بیجنگ، دبئی اور اسلام آباد زیرغور ہیں۔ ایک سینئر سفارتکار نے بتایا ہے کہ چین نے مذاکرات کیلیے میزبانی کی پیشکش کی ہے۔ سفارتکار نے مزید بتایا کہ افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کا دورہ اسلام آباد بھی متوقع ہے۔ حکام نے مزید بتایا ہے کہ اس سے قبل امریکا نے مصالحت کیلیے کوشش کی تھی مگر طالبان نے بات کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد چین نے مذاکرات کی میزبانی کی پیشکش کی جسے طالبان نے قبول کرلیا اور طالبان کے دو رکنی وفد نے نومبر میں بیجنگ کا دورہ بھی کیا تھا۔
افغان سیکیورٹی حکام نے رائٹرز کو بتایا کہ کابل نے سنکیانگ کے متعدد علیحدگی پسندوں کو گرفتار کرکے چین کے حوالے کیا ہے تاکہ چین کو ترغیب دلائیں کہ وہ پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے۔ افغان حکومت نے پاکستان کے اقدام کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
اسلام آباد میں افغان سفارتخانے کے مطابق افغان صدارتی محل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان پاکستان کی مصالحتی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ خطرات اور مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلیے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان، پاکستان اور عالمی برادری قیام امن کیلئے مخلصانہ تعاون کیلئے پرعزم ہے۔ پاکستان کی طرح افغان حکومت بھی سمجھتی ہے کہ بعض عناصر امن عمل کو پٹڑی سے اتارنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ افغان صدر نے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورتی عمل کا آغاز کردیا ہے، گزشتہ روز انھوں نے امن کونسل کے ارکان سے تبادلہ خیال کیا۔ آنیوالے ہفتوں میں مزید پیشرفت کا امکان ہے۔