ریت ہے کوئلہ اُگلنے کو۔۔۔۔۔تھر بدل رہا ہے

تھر کے عوام کی حالت دیکھنے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ صحرائے تھر کے عوام سے زیادہ تبدیلی کا منتظر کون ہوگا؟

بدلتے تھر کے بارے میں حقائق، امکانات اور خدشات سے آگاہ کرتی ایک خصوصی رپورٹ۔ فوٹو: فائل

''ہمارے گھر ہمارے دلوں کی طرح روشن اور کشادہ ہیں۔''یہ جملہ تھر کے صحرا میں دور افتادہ ایک گاؤں کے مکین نے اپنے گاؤں کی مرکزی بیٹھک میں داخل ہونے والی کراچی کی میڈیا ٹیم کی جانب سے گھروں کی بناوٹ پر حیرت کے اظہار پر کہا۔ تھر میں کوئلے کی کان کے پراجیکٹ سے لے کر نگر پارکر میں گرینائٹ کے پہاڑوں تک سفر میں اس جملے کی بازگشت عملی شکل میں سامنے آتی رہی۔

خشک سالی کے شکار صحرائے تھر کے مکین انتہائی سادہ زندگی بسر کررہے ہیں۔ ملک میں تبدیلی کی باتیں عام ہیں، لیکن تھر کے عوام کی حالت دیکھنے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ صحرائے تھر کے عوام سے زیادہ تبدیلی کا منتظر کون ہوگا؟ تھر کے عوام کا موازنہ ملک کے بڑے شہروں کے طرز زندگی سے کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تھر کے ریگزاروں میں زندگی 100سال سے رکی ہوئی ہے۔ دوسرے معنوں میں تھر کے عوام ہم سے بھی ایک صدی پیچھے زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن عہدِحاضر میں جہاں پانی کے بغیر زندگی کا کوئی تصور تک نہیں کرسکتا، تھر کے عوام حقیقی طور پر پانی کے قطرے قطرے کو ترس رہے ہیں۔ تھری عوام کے لیے پانی کو زندگی کی بنیادی ضرورت کہنا غلط ہوگا، کیوںکہ ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ پانی ہی درحقیقت زندگی ہے۔

تھر کے باسی گذشتہ دو سال سے اپنے ریگزار میں باران رحمت کے منتظر ہیں۔ ان کے عوام کے لیے بارش ہی پانی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ بارش کا پانی جمع کرکے اس سے محدود پیمانے پر کھیتی باڑی کی جاتی ہے۔ بارش کا پانی ہی زیر زمین کھارے پانی کو قدرے میٹھا کرنے کا سبب بنتا ہے، جس سے اگلی بارش تک جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھا جاتا ہے۔ پانی کی زیادہ تر ضرورت زیرِزمین کھارے پانی سے پوری کی جاتی ہے، جس کے لیے کنویں کھودے گئے ہیں۔ تھر کے باسی بہت کم ہی ایک جگہ کالونی کی شکل میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ زیادہ تر گاؤں میں گھر دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ گاؤں کے اطراف کی چھوٹی چھوٹی آبادیاں، جہاں مختلف خاندان رہائش اختیار رکھتے ہیں، ان آبادیوں کو ''دھانی'' کہا جاتا ہے۔

ایک گاؤں کے گرد متعدد دھانیاں ہوتی ہیں۔ زیر زمین پانی کے کنویں اگرچہ تعداد میں بہت ہی کم ہیں، لیکن دھانیوں میں سکونت پذیر آبادی اس کھارے پانی کے لیے بھی کئی میل کا سفر کرکے گاؤں یا اجتماعی کنوؤں تک آکر پانی حاصل کرتی ہے۔ یہ پانی شہر کے باسیوں تو کیا چرند پرند تک کے حلق سے نہیں اترسکتا۔ اس پانی کی کڑواہٹ کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں کے زیرزمین پانی میں اگر نمکیات کا تناسب 400 درجہ ہے، تو تھر کے زیر زمین پانی میں 5000درجہ نمکیات موجود ہیں، جو سمندر کے پانی سے 30ہزار درجہ ہی کم ہیں۔

ضلع تھرپارکر کی کل آبادی 15لاکھ بتائی جاتی ہے جہاں ہندو اور مسلم آبادی کا تناسب بالترتیب 45اور 55 فی صد ہے۔ متعدد گاؤں ایسے ہیں جہاں کی پوری کی پوری آبادی ہندو ہے۔ تھر کے علاقے اور اردگرد کے شہروں میں ہندؤں کے قدیم مندر بھی موجود ہیں۔ ننگرپارکر میں جین مت کا ایک انتہائی قدیم اور تاریخی مندر موجود ہے، جس کے آثار دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے تیزی سے مٹ رہے ہیں۔ تھر کی آبادی کا بیشتر حصہ تر ڈار، ہالیپوٹہ، سومو، کوہلی، بھیل اور میگواڑ برادریوں پر مشتمل ہے۔

بارش کے پانی سے جوار، باجرہ اور تل کی فصل کاشت کی جاتی ہے، جو کم پانی اور تھر کے موسم میں آسانی سے کاشت ہونے والی فصلیں ہیں۔ تھر کی خواتین گھروں میں مختلف اشیاء تیار کرتی ہیںجن میں زیادہ تر کپڑے سے تیار کی جانے والی رلیاں، کھدر کا کپڑا اور کشیدہ کاری والی اشیاء شامل ہیں۔ تھر کے مرد لکڑی اور تعمیرات کے بہترین کاری گر ہوتے ہیں۔ زیادہ تر تھری مرد اردگرد کے شہروں میں یومیہ مزدوری کرکے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ لکڑی اور تعمیرات کے کاری گر اور مزدور روزگار کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ تھر کے عوام کے لیے مال مویشی بچت اور سرمایہ کاری کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ تھر کے عوام کے لیے مال مویشی بینک بھی ہیں اور بچت کی اسکیم بھی۔ ضرورت پڑنے پر مویشی فروخت کرکے گزربسر کیا جاتا ہے۔

دکھ بیماری میں بھی مویشی فروخت کرکے ہی ضرورت پوری کی جاتی ہے۔ ان مویشیوں کے لیے بھی پینے کا پانی اور سبز چارہ ناپید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تھر کے مویشیوں میں اموات کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ قدرت کے نظام کے تحت ان مویشیوں میں سخت حالات اور بھوک سے مقابلہ کرنے کی قوت مدافعت زیادہ ہے، لیکن ایک حد سے زاید یہ جانور بھی حالات سے لڑنے میں ناکام ہوکر جان ہار دیتے ہیں، جس سے تھر کے عوام کو سخت معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تھر کے مویشی بھی اپنے مالکان کی طرح زیرزمین کھارے پانی پر گزارہ کرتے ہیں اور دن بھر جنگلی جھاڑیوں اور درختوں سے سوکھے پتے اور ٹہنیاں نوچتے نظر آتے ہیں۔ مال مویشیوں کے لیے قدرتی چراگاہیں بھی قحط کی وجہ سے خشک ہوچکی ہیں۔

تھر میں کوئلے کے ایک سو پچھتر ارب ٹن کے ذخائر موجود ہیں، جو توانائی کے حصول کے لیے سعودی عرب اور ایران کے مشترکہ تیل کے ذخائر سے کہیں زیادہ ہیں، لیکن قومی سطح پر موثر منصوبہ بندی اور ویژن کے فقدان کی وجہ سے ان ذخائر سے استفادہ نہیں کیا جاسکا۔ تاہم چند سال سے تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے متعدد منصوبوں پر پیش رفت ہوئی ہے، جن میں سے ایک منصوبہ سندھ حکومت کی شراکت سے شروع کیا گیا ہے۔ اس منصوبے پر مجموعی طور پر200ارب روپے کی سرمایہ کاری سے کوئلے کی کان کھودی جائے گی اور بجلی گھر تعمیر کیا جائے گا۔ اس منصوبے کے لیے تھر میں کوئلے کے ذخائر کا بلاک ٹو کا رقبہ مخصوص کیا گیا ہے، جس میں چھے گاؤں آباد ہیں۔



کہا جاتا ہے کہ یہ گاؤں، جن میں اکثریت ہندو کمیونٹی کی ہے، 150سال سے اس اراضی پر قائم ہیں۔ منصوبے کے لیے دو گاؤں سنہری داس اور تھاریو ہالیپوٹو کو ان کی آبائی زمین سے دور منتقل کیا جارہا ہے۔ منصوبہ پر کام کرنے والی سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی نے مقامی آبادی کو منتقل کرنے کا جامع منصوبہ تیار کیا ہے، جس میں کچے اور پکے مکانات کے ساتھ، پانی کے کنویں اور ریورسر آسموسس پلانٹس، بجلی ، مویشیوں کے لیے چراگاہیں اور پانی کی سہولت، اسکول، طبی سہولت کے مراکز، مساجد، مندر کی تعمیر شامل ہیں۔ اگرچہ یہ منصوبہ تھر بلاک ٹو کی مقامی آبادی کو شہری معیار کی سہولتیں تو میسر نہیں کرسکے گا، تاہم ان کی بنیادی ضرورتیں پوری کرتے ہوئے ان کا معیار زندگی کافی حد تک بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

مذکورہ گاؤں کی آبادی کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ہم اپنے کچے گھروں میں زیادہ خوش ہیں۔ ہم یہاں ڈیڑھ سو سال سے رہ رہے ہیں، لیکن ملک اور قوم کے مفاد میں اپنے گھر چھوڑ کر نئی جگہ منتقل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم اس منصوبے کی تکمیل میں تین سے چار سال کا عرصہ لگے گا، اس دوران اگر ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے تو ہمارا کون والی وارث ہوگا؟ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ جب تک کوئلے کی کان سے کوئلہ نکلنا شروع نہ ہوجائے، ہم یہاں سے منتقل نہیں ہوں گے۔

مقامی آبادی کو کوئلے کی کان اور بجلی گھر میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری اور سائنسی طریقۂ کار کے تحت دنیا کی مشہور اور تجربہ کار کمپنیوں کے انجینئرز سے زیادہ اپنی لوک داستانوں پر یقین ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ تھر سے کوئلہ نکلنے کے بہت ہی کم امکانات ہیں۔ لوک داستانوں سے جُڑی حکایتوں کے زیراثر مقامی آبادی کا ماننا ہے کہ کوئلے کے ذخائر تھر کے صحرا میں زیرزمین بہنے والے قدیم دریائے سرسوتی کے نیچے محفوظ ہیں۔ دریا کا منبع ہمالیہ کا پہاڑ ہے۔

تیز بہاؤ کے ساتھ ہمالیہ سے اترنے والی مٹی اور ریت اس دریا کے پانی میں شامل ہوتی رہی ہے۔ اس لیے کوئلے تک پہنچنے کے لیے اس مٹی اور ریت کا ہٹانا اور پانی کا بہاؤ روکنا یا اس کا رخ موڑنا ہوگا، جو ناممکن ہے۔ مقامی آبادی کے عم رسیدہ افراد کا کہنا ہے کہ پہلے بھی کئی مرتبہ کوئلے کے ذخائر نکالنے کے لیے انفرادی کوششیں کی گئیں، جو دریا کے تیز پانی اور ریت کی وجہ سے بارآور نہ ہوسکیں۔ اس سے قبل کی جانے والی کوششوں میں انصاری نامی ایک مہم جو اور انجینئر کا بھی نام لیا جاتا ہے۔ جس نے 10سے15سال قبل اسی بلاک میں کنوؤں کی کھدائی کی۔

تاہم ریت اور پانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اس مہم جوئی کے آثار اب بھی اس علاقے میں موجود ہیں۔ ان ہی لوک داستانوں کی وجہ سے مقامی آبادی میں منصوبے کی کام یابی سے متعلق شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ تاہم منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی کی پہلی ترجیح مقامی آبادی کو منصوبے سے دور محفوظ مقام پر بنیادی سہولتوں کے ساتھ رہائش فراہم کرنا ہے، جس پر تیزی سے کام جاری ہے۔

منصوبہ سازوں کے امکانات اور مقامی باشندوں کی حکایات اپنی جگہ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئلے کی کان کے منصوبے سے صحرائے تھر میں بڑے پیمانے پر معاشی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہوں گی، جن کا آغاز ہوچکا ہے۔ منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی کے سی ای او شمس الدین شیخ کا کہنا ہے کہ تھر میں تبدیلی تو آنی ہے، کیوںکہ یہاں مختلف منصوبوں پر 10ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری ہوگی 5سے 7ہزار افراد کو روزگار ملے گا، جس میں مقامی آبادی کا بڑا حصہ شامل ہے۔

اس تبدیلی کے تھر کے مقامی کلچر پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ اس تبدیلی کو کس طرح ملک اور قوم کے لیے زیادہ سے زیادہ سود مند بنایا جائے۔ کوئلے کی کان اور بجلی گھر کے منصوبے سے مقامی کلچر پر پڑنے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ تھر کا روایتی لینڈ اسکیپ بھی یکسر تبدیل ہوکر رہ جائے گا۔ تھر کے ریگزار، جہاں خشک سالی کے دنوں میں ریت کے بگولے اڑتے رہتے ہیں، سوکھے ہوئے درختوں اور تاحد نگاہ پھیلے ویران ٹیلوں میں عجب طرح کا سکون ہے، یہاں پرندوں بالخصوص خوب صورت موروں کی بہتات ہے۔

بارش کے بعد تھر جنت ارضی کا منظر پیش کرتا ہے، جن لوگوں نے بارش کے بعد تھر کا قدرتی حسن دیکھا ہو وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں اس موسم میں تھر کا رخ لازمی کرتے ہیں۔ کوئلے کی کان اگرچہ معاشی لحاظ سے پاکستان کے لیے لائف بلڈ کی اہمیت رکھتی ہے۔ صرف بلاک ٹو سے اگلے پچاس سال کے لیے پانچ روپے فی یونٹ قیمت پر 4ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ تاہم اس منصوبے کی معاشی افادیت کے ساتھ تھر کی سماجی قدروں اور کلچر پر پڑنے والے اثرات کو اس معاشی فائدے کی قیمت کے طور پر ادا کرنا ہوگا۔




کوئلے کی کان کی تیاری کے دوران نکلنے والا پانی اس علاقے کو بڑی جھیلوں میں تبدیل کردے گا۔ اگرچہ پانی کو سمندر تک لے جانے کے لیے خصوصی گزرگاہ تیار کی جارہی ہے، لیکن اس گزرگاہ کے باوجود کوئلے کی ایک وسیع و عریض کھلی ہوئی کان تھر کے خاکی دامن میں ایک کالا داغ بن جائے گی، جس سے اڑنے والی راکھ اور کوئلے کی ترسیل کے دوران ممکنہ بے احتیاطوں سے یہاں کا ماحول بری طرح متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

صرف ماحول ہی نہیں تھر کی مقامی آبادی جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی مہارتوں کی امین ہے، کی یہ مہارتیں بالخصوص دستکاری کی گھریلو صنعت بھی ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ مقامی آبادی کو کوئلے کی کان میں روزگار ملے گا تو دستکاریوں کی مشقت کون جھیلے گا؟ صنعتی انقلاب کے بعد پیدا ہونے والی فکری اور سماجی خلا کی طرح تھر میں بھی مادہ پرستی کا رجحان چل نکلا تو قدیم روایتیں معدوم ہوجائیں گی۔ کوئلے کی کان اور بجلی گھر کے منصوبے کے مقامی ثقافت پر پڑنے والے اثرات یہاں کی لوک موسیقی کو بھی متاثر کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ تھر کی ثقافت سندھی، راجستھانی اور گجراتی قدروں کا حسین امتزاج ہے اور یہ جھلک یہاں کی لوک موسیقی میں بھی پائی جاتی ہے۔

راجستھانی ثقافت تھر میں غالب ہے، لیکن یہاں کے فن کاروں نے اسے اپنے روپ میں ڈھال لیا ہے۔ تھر کی موسیقی راجستھانی موسیقی کی تال مندھ پر مبنی ہے، حتیٰ کہ فوتگی پر تھر کی خواتین جس روایتی انداز میں بین کرتی ہیں اس میں بھی ایک ردھم پایا جاتا ہے، جو مندھ سے ملتا جلتا ہے۔ تھر کی موسیقی درد، تنہائی، بے سروسامانی اور محرومی کے گرد گھومتی ہے، لیکن اس موسیقی میں ایک صوفیانہ رنگ بھی پایا جاتا ہے۔ تھر کے لوک فن کار ''کافی'' پڑھنے میں ماہر ہیں۔ کافی دراصل صوفیائے کرام کی تعلیمات اور شاعری کو موسیقی کے امتزاج کے ساتھ پیش کرنے والی شعری صنف کا نام ہے، جو سندھ میں بہت مقبول ہے۔ تھر کے لوک گیتوں میں یہاں کے ماحول کی عکاسی ہوتی ہے۔

شادی بیاہ، میلوں اور برسات کے موسم کے لیے لوک گیت بھی مخصوص ہیں جو خاص دُھنوں اور ردھم میں پیش کیے جاتے ہیں۔ موسیقی اور رقص یہاں کے لوگوںکے خون میں شامل ہے۔ بہت ہی کم تھر کے مرد و زن ہوں گے جنہیں تھر کا کوئی لوک گیت یا رقص نہ آتا ہو اور وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے میں بھی بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔ صوفیانہ کلام پیش کرنے والے تھر کے مرد فن کار فقیر کہلاتے ہیں۔ متعدد فقیر فن کاروں نے نہ صرف پاکستان بل کہ دنیا میں نام پیدا کیا۔ ان میں مراد فقیر، بدھو فقیر، کالو فقیر، شادی فقیر ڈھاڈھی اور بھاگرو بھیل سرفہرست ہیں۔ تھر کی مائی بھاگی (خاتون فن کار) نے بھی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں اپنی گائیکی کے ذریعے نام پیدا کیا۔ تھری اور سندھی زبان سے ناآشنا لوگ بھی مائی بھاگی کے گائے ہوئے گیت گنگناتے ہیں۔

تھر کی موسیقی میں زیادہ تر کمانچھا، ستار، طبلہ، سارندہ، ہارمونیم اور شہنائی استعمال کی جاتی ہے۔ ا ن آلات میں سے کمانچھا کو تھر کی شناخت سمجھا جاتا ہے۔ کمانچھا بجانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے کئی سال کی ریاضت درکار ہے۔

تھر کے لوک رقصوں میں ڈانڈن رنڈ، مِٹکو، چکر رنڈ اور راسورو شامل ہیں۔ ڈانڈن رنڈ گروپ کی شکل میں ڈانڈیا سے ملتا جلتا رقص ہے، جو ہاتھ میں چھوٹی چھوٹی ڈنڈیاں لے کر ڈھول کی تھاپ پر ایک حلقے میں کیا جاتا ہے۔ مِٹکو کا مظاہرہ سولو کیا جاتا ہے۔ خواتین شادی میں گھروں کے اندر یہ رقص کرتی ہیں۔ چکر رنڈ بھی ایک روایتی رقص ہے، جو ہاتھ میں تلوار لے کر ڈھول کی تھاپ پر کیا جاتا ہے۔ راسورو خالصتاً خواتین کا رقص ہے، جو ڈھول کی تھاپ پر کیا جاتا ہے اور خواتین گروپ کی شکل میں گاتی اور رقص کرتی ہیں۔

تھر میں لگنے والے میلے اس علاقے کی ثقافت کا بنیادی جز ہیں۔ ہندو کمیونٹی اپنے مذہبی تہواروں اور موسم کے لحاظ سے میلے منعقد کرتی ہے، جب کہ مسلم کمیونٹی میں صوفیائے کرام کے عرس کے موقع پر میلے منعقد کیے جاتے ہیں۔ تاہم ان میلوں میں ہندو اور مسلم آبادی یکساں طور پر لطف اندوز ہوتی ہے۔ ہندو آبادی بھی صوفیائے کرام کی معتقد ہے اور بہت سے ہندو فقیر بھی صوفیائے کرام کی کافیاں پڑھتے اور مسلمانوں کے میلوں میں فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ میلے مقامی معیشت میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ میلوں میں مقامی کھانے پینے کی اشیا مٹھائیوں اور دستکاریوں کے اسٹال لگائے جاتے ہیں۔ ان میلوں میں ملاکھڑا (سندھ کی روایتی کُشتی) اور موسیقی کے مظاہرے بھی کیے جاتے ہیں۔ تھر کے مشہور صوفی میلوں میں رضی شاہ میلہ، سید مصری شاہ میلہ، معین شاہ میلہ، پیر عالم شاہ میلہ اور پیر حسن علی شاہ میلہ سرفہرست ہیں۔ ہندوکمیونٹی کے میلوں میں پار بھرما میلہ، شو میلہ، رام گبر میلہ اور ملہان میلہ مشہور ہیں۔

تھر میں کان اور بجلی گھر 2017کے آخر یا 2018کے شروع میں پیداوار شروع کردے گا۔ اس منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی کے اعلیٰ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ کمپنی نے تھر کی مقامی آبادی کی ترقی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ گزربسر کے بہتر مواقع مہیا کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی ہے۔ ان میں سے بہت سے منصوبے کان کی کھدائی سے قبل ہی شروع کیے جاچکے ہیں، جن میں مال مویشیوں کی ویکسینیشن، مقامی آبادی کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے میڈیکل کیمپ شامل ہیں۔ منصوبے پر اٹھنے والے مجموعی اخراجات 200ارب روپے کا 10فی صد یعنی 20ارب روپے مقامی کمیونٹی کی بہتری پر خرچ ہوں گے۔



اسی طرح منصوبے کی تکمیل کے بعد حاصل ہونے والا 2 فی صد قبل از ٹیکس منافع بھی سماجی بہتری پر خرچ کیا جائے گا۔ اس منصوبے میں شریک سندھ حکومت پراجیکٹ کی انفرااسٹرکچر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اربوں روپے خرچ کررہی ہے، جن میں سڑکوں کی تعمیر و مرمت، پانی کی نکاسی اور بجلی گھر میں استعمال کیے گئے پانی کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے ایل بی او ڈی واٹر ورکس، اسلام کوٹ میں ایئرپورٹ کی تعمیر اور ٹرانسمیشن لائن کی تنصیب شامل ہیں۔ منصوبے کے آغاز کے ساتھ ہی مقامی آبادی کے لیے روزگار کے دروازے کھل گئے ہیں۔ تاہم تعلیم اور مطلوبہ تکنیکی صلاحیتوں کی کمی وجہ سے زیادہ تر مقامی آبادی نچلی سطح پر روزگار حاصل کررہی ہے۔

ایس ای سی ایم سی کے منصوبے کے لیے اراضی حاصل کرنے (لینڈ ایکوزیشن) کا کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ مقامی آبادی کو مجموعی طور پر 55کروڑ روپے کی ادائیگیاں کی جانی ہیں، جن میں سے 44کروڑ روپے کی رقم لینڈ ایکوزیشن کے لیے سرکاری اکاؤنٹ میں جمع کرائی جاچکی ہے اور اب تک مقامی آبادی کو 17کروڑ روپے کی ادائیگیاں کی جاچکی ہیں۔ فی ایکٹر ایک لاکھ 83ہزار روپے کے ریٹ سے ادائیگیاں کی جارہی ہیں۔ یہ قیمت تھر کی اوسط اراضی کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے جو 35 سے 50 ہزار روپے فی ایکڑ بتائی جاتی ہے۔

مقامی آبادی کو اراضی کی قیمت کی ادائیگی کے ساتھ ہی تھر کی مقامی معیشت نے ایک انگڑائی لی ہے اور اب مقامی افراد مختلف قسم کے چھوٹے کاروبار کرنے میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ مٹھی سے ننگرپارکر تک کے سفر کے دوران سڑک پر جگہ جگہ دوڑتی پوٹھوار جیپیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ تھر کے مقامی ٹرانسپورٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری اور چھوٹے کاروبار کے بے حد مواقع موجود ہیں۔ اسی لیے مقامی آبادی نے اراضی کی قیمت سے جیپیں خرید کر پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے استعمال کرنا شروع کردی ہیں۔

بعض لوگوں نے بڑی جیپیں اور گاڑیاں خرید کر کول مائننگ منصوبے پر کام کرنے والی کمپنی کو خدمات کی فراہمی شروع کردی ہے، جب کہ مٹھی، اسلام کوٹ اور عمر کوٹ میں جائیدادوں کی خریدوفروخت بھی بڑھ گئی ہے۔ تھر کے لوگ سادہ مگر دور اندیش اور زیرک ہیں اسی لیے انہوں نے آنے والے وقت کی ضرورتوں کو دیکھتے ہوئے قریبی شہروں میں جائیدادیں خریدنا شروع کردی ہیں، جن سے ان شہروں میں جائیدادوں کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ منصوبے پر اس وقت 250سے زاید افراد کام کررہے ہیں، جن میں سے بہت کم لوگوں کو رہائشی سہولت میسر ہے۔ زیادہ تر لوگ سائٹ کے اطراف یا قریبی شہروں مٹھی، عمر کوٹ وغیرہ میں کرائے پر رہ رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان شہروں میں مکانات کے کرائے بھی بڑھنا شروع ہوگئے ہیں۔

تھر میں کوئلے کی کان اور بجلی گھر کی تعمیر کے منصوبے سے پیدا ہونے والی تبدیلی کو ایک موثر اور جامع منصوبہ بندی کے تحت مقامی آبادی کے لیے دور رس مثبت نتائج کا حامل بنایا جاسکتا ہے۔ تھر کی مقامی آبادی کو اراضی کی مد میں ملنے والی 55کروڑ روپے کی رقم کو محفوظ طریقے سے چھوٹے کاروبار کی شکل میں انویسٹ کرکے تھر میں وسیع پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ تھر کی ثقافت کو محفوظ بنانے کے لیے مقامی لوک ورثے کی ترویج اور حوصلہ افزائی ناگزیر ہے۔

اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ تھر کی خواتین کے لیے ایک سہولتی مرکز (کامن فیسلیٹی اور ڈسپلے سینٹر) قائم کیا جائے، گھر گھر جاکر ہنرمند خواتین کو تلاش کیا جائے اور انہیں اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ کامن فیسلیٹی سینٹر آکر دوسری خواتین کو اپنا فن منتقل کریں اور ڈسپلے سینٹر میں اپنی بنائی گئی دستکاریاں رکھیں۔ تھر میں مختلف منصوبوں پر کام کے لیے آنے والے افراد یہ دستکاریاں خریدیں گے، جس سے نہ صرف گھریلو دستکار خواتین کی آمدن ہوگی بلکہ تھر کی ہنرمندی کو دنیا بھر میں متعارف کرایا جاسکے گا۔ اسی طرح تھر کی لوک موسیقی کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لیے بھی ایک کلچر ولیج قائم کیا جائے، جہاں موسیقی کی محافل منعقد کی جائیں، مقامی موسیقی کے آلات کی تیاری اور مرمت کی سہولت مہیا کی جائیں۔

تھر کے ثقافتی طائفے چین اور دیگر ہمسایہ ملکوں کو روانہ کیے جائیں، تاکہ تھر کی موسیقی اور لوک رقص دنیا میں پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے منفی تاثر کی نفی کرسکے۔ قومی اور کثیرالقومی کمپنیاں تھر کے روایتی میلوں کو اسپانسر کریں، تاکہ دیگر شہروں سے بھی لوگ ان میلوں میں شریک ہوسکیں اور ان روایتی میلوں کی رونقیں مزید بڑھائی جاسکیں۔ مقامی آبادی کو اراضی کی مد میں ملنے والی بھاری مالیت کی رقم سے چھوٹے چھوٹے نئے کاروبار شروع کرنے کے لیے مقامی آبادی کی راہ نمائی اور اسے مشاورت فراہم کی جائے، مائکروفنانس بینکوں کو تھر کے علاقوں میں خصوصی پراجیکٹ شروع کرنے کی ترغیب دی جائے۔

تھر میں مویشیوں اور پرندوں کی فارمنگ کے کاروبار کے وسیع مواقع موجود ہیں، جن سے ڈیری اور لائیو اسٹاک کی مقامی صنعت کھڑی کی جاسکتی ہے۔ منظم منصوبہ بندی کے تحت مویشیوں کے لیے چراگاہیں بنائی جائیں جہاں ڈرپ ایریگیشن کے ذریعے کم پانی میں اُگنے والا مویشیوں کا چارہ کاشت کیا جائے، بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے چھوٹی چھوٹی ذخیرہ گاہوں کی تعمیر کی تربیت دی جائے۔ مویشیوں سے حاصل ہونے والے دودھ کو محفوظ کرنے اور بڑی منڈیوں تک دودھ کی ترسیل کے لیے مِلک کلیکشن سینٹر قائم کیے جائیں۔ تھر کے نوجوانوں کو کم مالیت کے چھوٹے قرضے دیے جائیں، جن سے وہ چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرسکیں۔

نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کے لیے ضلع کے شہروں میں تیکنیکی تربیت کے ادارے قائم کیے جائیں۔ تھر میں پینے کے پانی کی فراہمی کا مسئلہ بھارت میں این جی اوز اور حکومت کی شراکت سے چلنے والے واٹر اے ٹی ایم منصوبوں کی تقلید سے بخوبی حل کیا جاسکتا ہے، جہاں پینے کے لیے محفوظ پانی بھارتی 20 پیسے فی لیٹر میں فراہم کیا جارہا ہے۔ ان اے ٹی ایمز میں ریورس آسموسس پلانٹ اور فلٹر نصب کیے گئے ہیں، جو کھارے اور آلودہ پانی کو قابل استعمال بناتے ہیں۔ اس طرز کے اے ٹی ایم اور فلٹر پلانٹس تھر میں قائم کرکے مقامی آبادی کو فرنچائز کے طور پر دیے جائیں تو نہ صرف ان کی دیکھ بھال اور مرمت ہوگی بلکہ اس طریقے سے تھر میں پانی کی قلت پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اس طرح تھر میں حقیقی معنوں میں تبدیلی لائی جاسکے گی۔
Load Next Story