کیا مسلمانوں کی جان اہم نہیں ہوتی

اگر مغربی حکمران اور مغربی میڈیا اس سارے واقعے سے کچھ سبق حاصل کرناچاہے تو بہت سے سبق ملیں گے

تین امریکی مسلمانوں کے قتل پرمغربی حکام اور میڈیا کیسے اپنے دوہرے معیار کے ہاتھوں رسوا ہوا۔ فوٹو: فائل

PESHAWAR:
پہلی تصویر: ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ایک شخص کی فائرنگ سے ایک فلم ہدایتکاراوریہودی عبادت گاہ کا محافظ دو علیحدہ علیحدہ حملوں میں ہلاک ہوگئے۔

جیسے ہی واقعہ ہوا، وزیراعظم ہیلا تھورننگ شمڈٹ نے اسے'ڈنمارک کے خلاف دہشت گردی کا حملہ قرار دیا' اور کہا کہ اْن کی حکومت آزادی اظہار کے دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔ ڈینش وزیراعظم نے یہودی عبادت گاہ کے دورے کے دوران کہا کہ 'جب آپ بے رحمی سے معصوم لوگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہیں جو ایک مباحثے میں حصہ لے رہے ہیں جب آپ یہودیوں پر حملہ کرتے ہیں تو یہ لوگ ہماری جہوریت پر حملہ کرتے ہیں۔ ہم اپنی یہودی آبادی کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔' یادرہے کہ جب وزیراعظم یہ بیان دے رہی تھیں، تب وہاں کی پولیس اس بات کا تعین کرنے میں مصروف تھی کہ حملہ آورکون تھا، کہیں اس نے کبھی شام یا عراق کا سفرتونہیں کیا تھا۔



دوسری تصویر: 10فروری کو امریکہ کی شمالی ریاست کیرولائنا کے چیپل ہل کالج کے تین مسلمان طلبا وطالبات کو ایک شخص نے سر میں گولیاں مار کر شہید کردیا۔ شہیدکئے جانے والوں میں 23 سالہ شامی نژاد امریکی نوجوان دیہہ شدی برکات، ان کی 21 سالہ بیوی یوسور محمد ابو صالح اور 19 سالہ خواہر نسبتی رضان محمد ابوصالح شامل تھیں۔ یہ تہراقتل عین ان دنوں میں ہوا جب یورپ میں مسلمانوں اور مساجد پر حملے ہورہے ہیں۔ تینوں امریکی مسلم نوجوانوں کا قاتل اسلام اور مسلمانوںسے نفرت کرنے والا کیرولیناکا46 سالہ شخص کریگ سٹیون ہکس تھا، وہ کس قسم کا آدمی ہے، اس کے فیس بک پیج پر اس کے خیالات اور سرگرمیوں سے بخوبی پتہ چل جاتاہے۔ پولیس نے قاتل کو گرفتار کرلیا لیکن تادم تحریر یہ بات تسلیم سے انکاری ہے کہ قاتل اسلام اور مسلمانوں سے نفرت رکھتا تھا حالانکہ پولیس کے مطابق اس کے گھر سے 12ہتھیاربرآمد ہوئے تھے، اس نے سوشل میڈیا پر اپنے بارے میں لکھاہواتھا ' بے دین بندوق بردار'۔ سوشل میڈیا پر اس کے ذاتی اکاؤنٹس میں مذہب مخالف پیغامات اب بھی موجود ہیں۔

پولیس نے بیان جاری کیا کہ مقتولین کا اپنے اس ہمسائے کے ساتھ پارکنگ کے معاملے پر تنازع چل رہا تھا جس نے انھیں قتل کیا۔ دوسری طرف امریکی بلکہ پورے مغربی میڈیا نے اس ہولناک واقعے کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ امریکی ٹیلی ویژن چینل'سی این این ' نے خبردی کہ ایک آدمی تین مسلمان سٹوڈنٹس کو ہلاک کرنے کے جرم میں گرفتار۔ 'فوکس نیوز' نے خبردی کہ شمالی کیرولائنا کے ایک آدمی نے چیپل ہل میں فائرنگ کرکے تین مسلمان سٹوڈنٹس کو ہلاک کردیا۔



یادرہے کہ جب فرانس میں چارلی ہیبڈو کے قتل کا واقعہ ہواتو 'سی این این ' نے فوراً اسے دہشت گردانہ حملہ قراردیاتھا، جبکہ 'فوکس نیوز' نے بھی اسے ہولناک دہشت گردانہ حملہ قراردیا۔ خبر دبانے کی تمام تر مغربی کوششیں اس وقت ناکام ہوئیں جب سوشل میڈیا کے ذریعے یہ واقعہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ پہلے ٹوئٹر ، پھر سوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع نے اسے ایسا واقعہ بنادیا جس پر پوری دنیا میں سب سے زیادہ بحث ہورہی تھی۔ یہ خفت کا مقام تھا مغربی حکام اور وہاں کے میڈیا کے لئے۔ پھر اس خبر کوKill کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ بھلا کیسے؟ دیکھئے بی بی سی کی خبر کے دوجملے جن میںخبرکو مشکوک بنانے کی پوری کوشش کی گئی:

''اطلاعات کے مطابق ہلاک ہونے والے تینوں طلبا کا پس منظر اسلام سے بتایا جاتا ہے''

''اس واقعے کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا کہ اصل میں ہوا کیا تھا''


تیسری طرف امریکی حکام اس تہرے قتل پر کچھ کہنے سے اجتناب کرتے رہے، حتیٰ کہ امریکی صدراوباما نے بھی اپنے ہونٹوں کو سختی سے بھینچاہواتھا۔ تب ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے امریکی ریاست شمالی کیرولائنا میں تین مسلم طلبہ کے قتل پر امریکی صدر براک اوباما کی خاموشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا،انھوں نے کہا تھا سیاستدان اپنے ملک میں ہونے والے واقعات کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور انھیں(اوباماکو) ان پر اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔ اگر آپ اس قسم کے واقعے پر خاموش رہتے ہیں اور کوئی بیان نہیں دیتے تو دنیا بھی آپ کی حمایت میں نہیں بولے گی۔'ترک صدر کی تنقید کے بعد امریکی صدر پورے چاردن بعد یعنی14فروری کو لب کشائی پر مجبور ہوئے، انھوں نے قتل کے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'ظالمانہ اور شرمناک' اقدام قرار دیا ہے۔انھوں نے مزیدکہاکہ امریکہ میں کسی بھی انسان کو صرف اس لیے نہیں قتل کیا جانا چاہیے کہ 'وہ کون ہے، بظاہر کیسا دکھتا ہے' یا 'وہ کس طرح عبادت کرتا ہے۔'

یہ وہی اوباما ہیں جنھوں نے یکم جولائی 2014ء تین اسرائیلی ٹین ایجرز کے قتل پر مندرجہ ذیل بیان جاری کیا تھا۔

''میں امریکی عوام کی طرف سے عیال، یفراح اور گلاڈ شار کے گھرانوں سے دل کی گہرائیوں سے تعزیت کرتاہوں۔ یہ نہ صرف اسرائیلی بلکہ امریکی شہری بھی تھے۔ مزیدبراں وہ درد اور کرب میرے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا جس سے ان (ٹین ایجرز) کے والدین گزر رہے ہیں۔ امریکہ اس پاگل پن پر مبنی فعل کی شدید مذمت کرتاہے جس کانشانہ یہ معصوم نوجوان بنے۔ جولوگ اس المناک واقعہ سے متاثر ہوئے ہیں، امریکہ کی طرف سے انھیں مکمل حمایت اور دوستی کی یقین دلاتا ہے''۔ اس کے بعد اوباما نے آنے والے دنوں میں اس واقعہ کا ذمہ دار حماس کو قراردیا۔ حماس مسلسل اس واقعے سے اپنی لاتعلقی کا اعلان کررہی تھی لیکن اوباما اسرائیل کے موقف کی ترجمانی کررہاتھا جس نے حماس پر ذمہ داری عائد کی تھی۔



امریکی حکومت اور امریکی، مغربی میڈیا کے دوہرے معیار نے تینوں مسلمان طالب علموں کے والدین، عزیزواقارب ، اس دردناک واقعے پر دکھی ہرفرد کو سوشل میڈیا پر سرگرم ہونے پر مجبورکیا، اور پھر مغربی میڈیا بھی ماننے پر مجبورہوگیا کہ سوشل میڈیا پرایک غیرمعمولی مہم چل پڑی جس میں مغربی ذرائع ابلاغ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیا۔ اس ضمن میں 'بی بی سی' کا یہ جملہ پڑھنے کے لائق ہے'' آن لائن کارکنوں نے اس واقعے کو مناسب کوریج نہ دینے پر بڑے میڈیا آؤٹ لیٹس پر الزام لگایا ہے''۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے تسلیم کیا کہ محض چند گھنٹوں کے اندر ٹوئٹر پر ٹویٹس کے ذریعے'چیپل ہل شوٹنگ' ہیش ٹیگ کو تین لاکھ سے زائد بار نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ، مصر، سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ کے متعدد ممالک میں ''ٹرینڈ'' کیا گیا۔ عربی زبان کے ہیش ٹیگ جسے 'چیپل ہل قتل' کا نام دیا گیا اسے بھی 13,000 بار ٹویٹ کیا گیا۔ یادرہے کہ امریکن عرب اینٹی ڈسکریمینیش کمیٹی کے لیگل اور پالیسی ڈائریکٹر عابد ایوب نے اس ہیش ٹیگ کو شروع کیا۔ اپنے ہیش ٹیگ میں عابد ایوب کا کہنا تھا کہ برائے مہربانی چیپل ہل متاثرین کے خاندان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

ایک ہیش ٹیگ'احمقانہ تشدد' بھی تھا، سب سے پہلے یہ واقعہ اسی ہیش ٹیگ کے ذریعے دنیا کے سامنے آیا۔ جیسے ہی یہ ٹویٹ پھیلا عابد ایوب اور دیگر افراد نے کہا کہ چیپل ہل شوٹنگ کو ابھی تک کسی نے 'دہشت گردی کا عمل' کیوں قرار نہیں دیا۔ عابد ایوب نے بعد میں ٹویٹ کی کہ کیا ہلاک ہونے والوں کا مذہب غلط تھا؟ایک ہیش ٹیگ 'مسلمانوں کی زندگیاں اہمیت رکھتی ہیں' بھی تھا جسے20,000 سے زائد بار ٹویٹ کیا گیا۔آنے والے دنوں میں اس تعداد میں کئی سوگنا اضافہ ہوا۔ ایسا محسوس ہوا جیسے دنیا کے سات ارب انسان تینوں مسلمان نوجوانوں کی شہادت پر آنسو بہارہے ہوں۔



جو دوست ٹوئٹر سے واقفیت نہیں رکھتے ، ان کی معلومات کے لئے کہ ہیش ٹیگ دو تین الفاظ کے ایک مجموعہ کو کہتے ہیں جسے ہرٹویٹ کرنے والا اپنی 140 حروف کی ٹویٹ میں شامل کرتاہے، جتنے زیادہ لوگ اس ہیش ٹیگ کو اپنی ٹویٹ میں شامل کریںگے، یہ ہیش ٹیگ اتنا ہی نمایاں ہوتاچلاجاتاہے حتیٰ کہ ایک مہم کی صورت اختیارکرلیتاہے۔

مغربی حکام اور ذرائع ابلاغ کو اس سوال کا سامنا ہے کہ وہ کیوں اسلاموفوبیا میں مبتلا ہیں؟ جواب میں وہ اپنے تئیں معصوم بن کر سوال پوچھتے ہیں کہ آیا وہ واقعی اسلاموفوبیا کاشکارہیں! شواہد موجود ہیں کہ اوباما کے صدر منتخب ہونے پر وہاں کے اخبارات وجرائد میں شورمچتارہا کہ کیا اوباما مسلمان ہیں؟ اگر مغربی بالخصوص امریکی میڈیا اسلاموفوبیا کا شکارنہ ہوتا تو کیا ایسی دھول اڑانے کی ضرورت تھی؟ یہ اسلامو فوبیا ہی ہے کہ اس قدرسنگین واقعہ کی تصاویر اے ایف پی اور دیگر خبررساں ایجنسیوں نے لینے اور جاری کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی، 10فروری سے 17فروری تک اے ایف پی نے مجموعی طورپر 5تصاویرجاری کیں، جب تین اسرائیلی ٹین ایجر قتل ہوئے تھے تو اے ایف پی نے سینکڑوں کی تعدادمیں تصاویر جاری کی تھیں۔

اگر مغربی حکمران اور مغربی میڈیا اس سارے واقعے سے کچھ سبق حاصل کرناچاہے تو بہت سے سبق ملیں گے۔ مثلاً یہ کہ چاہے دولت کی ہوس میں مارے ہوئے بزدل میڈیامالکان جس خبر کو چھپاناچاہیں گے، اب وہی خبر سوشل میڈیا یعنی ٹویئٹر اور فیس بک کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلے گی۔ انھیں اس حقیقت سے بھی آگاہ ہوناچاہئے کہ امریکہ میں محض یہ تین مسلمان نوجوان ہی قتل نہیں ہوئے، ایک بھائی اور دوبہنوں کو ماراگیاہے، ایک شوہر اور اس کی بیوی کو ہلاک کیاگیاہے، دوبیٹیوں اور ایک بیٹے کو شہید کیاگیاہے، دومائیں اور دوباپ نے اپنے سب سے پیاروں سے محروم ہوئے ہیں۔ یہ سب انسانی امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے،دیہہ شدی برکات تن تنہا شامی مہاجرین کے لئے صحت کے ایک پراجیکٹ کے لئے 4لاکھ ڈالرز اکٹھے کرچکاتھا۔ تاہم ان تینوں کی خدمت کا رخ صرف مسلمانوں ہی کی طرف نہیں ہوتا، سب امریکی ان کی امدادی سرگرمیوں سے فیض یاب ہوتے تھے۔
Load Next Story