سندھ رینجرزکیا کیا کرے
رینجرزکے اس افسرکے جذبات وطن کی محبت اورکراچی سے ایثار سے لبریز تھے،
ISLAMABAD:
عموماََ میں بیشتر خبریں سرسری پڑھ جاتا ہوں،کیونکہ بیشترخبریں ایک جیسی ہوتی ہیں، اسی طرح شرجیل میمن وزیراطلاعات سندھ کے ایک بیان پرمجھے مغالطہ ہوا کہ ''میں جھاڑو لے کرخود صفائی کرونگا ۔''پہلے میں یہ سمجھا کہ شاید ان کا مطلب یہ ہے کہ کراچی میں جتنی ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری اوربد امنی ' نامعلوم افراد' نے کی ہیں اور کراچی سے امن و امان یکسر صاف ہوچکاہے شائد اس میں کچھ کمی رہ گئی ہے اس لیے انھوں نے سوچا کہ رہی سہی کسر میں' پوری' کرتے ہوئے ، رینجرز کی بھرپورکوششوں کے بعد آنیوالے باقی ماندہ امن پر جھاڑو پھیردوں ۔تھوڑا پھر غور کیا تو پتہ چلا کہ محترم کا ہفتہ صفائی کے ساتھ کوئی ایک لاکھ سے زائد پودے اُس شہر کراچی میں لگانے کا دعوی بھی ہے، جس شہر کے باسیوں کو پینے کا پانی اور جینا میسر نہیں۔
کچھ اسی سے ملتی جلتی مماثلت رکھتی صورتحال سندھ رینجرز کی بھی ہوگئی ہے کہ کراچی میں کئی عشروں کے باوجود صرف اس لیے مکمل کامیابی حاصل نہیں کر پا رہی کیونکہ ایک جانب انھیں پولیس کے بعض کرپٹ افسران و مخبر اہلکاروں کی جانب سے آپریشن افشا اور سیاسی دباؤ کا سامنا رہا تو دوسری جانب عوام کی جانب سے بھرپور تعاون بھی حاصل نہیں ہو سکا۔ سچل رینجرز کے ایک افسر نے مجھ سے گلہ کرتے ہوئے کہاکہ'' ہم پر خودکش دہماکے ہوتے ہیں ، حملے ہوتے ہیں ۔
اہلکار شہید ہوجاتے ہیں صرف اس لیے کہ ہم کراچی کے عوام کو امن فراہم کرنا چاہتے ہیں ، ہم عوام سے کسی بات کا تقاضا نہیں کرتے کہ ہماری دعوت کرو ، حکومت ہمیں سب کچھ دیتی ہے ہماری تو ہمیشہ یہ آرزو رہی ہے تو صرف شہادت کی، ہمیں کسی سے کوئی ڈر نہیں ، موت تو آنی ہے ، شہادت کی آئی تو ایک گولی سینے پر کھانے کے لیے تیار ہیں ، لیکن معذرت کے ساتھ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حساس و متاثرہ علاقوں کی مظلوم عوام ہمارے ساتھ اُس طرح تعاون نہیں کرتے کہ ہم انھیں جلد از جلد امن مہیا کرسکیں۔ہم اپنے لیے تو کچھ نہیں کر رہے بلکہ ان کی موجودہ اور آنے والی نسل کو بچانا چاہتے ہیں۔''
رینجرزکے اس افسرکے جذبات وطن کی محبت اورکراچی سے ایثار سے لبریز تھے، میرے پاس صرف یہی جواب تھا کہ عوام کئی عشروں سے خوفزدہ ہے انھیں وقت لگے گا ، لیکن کیا ، کیا جائے کہ ہمارے علاقوں میںچند عناصر،ایسے بھی ہیں جن کا طریق کار عجیب سا ہے کہ آدھا تیتر آدھا بیٹر، بعض سرکاری افسران یا اہلکاروں سے ذاتی تعلقات کا بھرم دیکر اپنی زندگیوں کو بھی غیر محفوظ بنا لیتے ہیں اور جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ بھی کہ کوئی عام شریف شہری اس بات سے خوفزدہ رہتا ہے کہ اگر اس کے بارے میں شرپسند کو پتہ چل گیا تو اسے جان کا خوف ہوگا۔ لہذاوہ اپنی ایک جان بچانے کے لیے لاکھوں انسانوں کی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے، اس کا حل بھی رینجرز نے ڈھونڈ نکالا اور 1101کے ایس ایم ایس SMSکی اسی سروس شروع کی جس میں اطلاع دینے والے نام اور دیگرمعلومات صغیہ راز میں رکھی جاتیں ہیں اور ایک انسانی فریضہ بھی پورا ہوجاتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤ ، چاہے ہاتھ سے ، زبان سے یا کم ازکم دل میں بُرا جانو ، لیکن یہ ایمان کی سب سے کمزور علامت ہے۔
ظلم و نا انصافی کے خلاف ہاتھ سے آواز اٹھانا ، ایمان کے اولین درجے میں شمار کیا جاتا ہے اور میں اپنی ناقص رائے میں ہاتھ سے لکھے ایک چھوٹے سے ایس ایم ایس سے جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی کرنیوالوں کی جرات کا پہلا درجہ سمجھتا ہوں ، برائے مہربانی ایسے اپنی ذاتی دشمنی ، مخاصمت اور فروعی مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں ۔ رینجرز جس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا تھا ، ایسے سیاست میں بار بار لانے کی کوشش کی جاتی رہی ، دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ سیاسی بنانے کی کوشش ، وہ بھی منظم انداز میں کی جاتی رہتی ہے تو کوئی اس سے اختلاف نہیں کریگا ۔ ذاتی تجزیے کے مطابق کراچی بد امنی کے حوالے سے جب کسی بھی ملزم کے خلاف جے آئی ٹی، (جوائنٹ انسٹی گیشنٹیم) کی رپورٹ بنتی ہے تو اس میں ملک کے مقتدور اداروں کے قابل افسران شامل ہوتے ہیں ۔
جس میں ملٹری اینٹلی جنس (ایم آئی ) انٹر سروس اینٹلی جنس،(آئی ایس آئی) اینٹلی جنس بیورو(آئی بی )، رینجرز،کرینمل انوسٹی گیشنڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) اور پولیس اسپیشل برانچ کی ایجنسیوں کے اعلیٰ افسران ہیں اور باقاعدہ رپورٹ پر ان کے دستخط ہوتے ہیں اور اس رپورٹ کو خفیہ رکھی جاتی ہے لیکن کسی نہ کسی طریقے سے اس کے کچھ حصے ذرایع ابلاغ میں آجاتے ہیں۔ جیسے اس کی ایک مثال' کراچی بد امنی سپریم کورٹ کیس' میں ایک قوم پرست جماعت کی جانب سے 23 جے آئی ٹی رپورٹس کو باقاعدہ کتابی شکل میں میڈیا میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا بریفنگ میں تقسیم کیا گیا جو سپریم کورٹ میں بھی جمع کرائی گئی تھی نیز بعض اہم سینئر صحافیوں اور اینکرز پرسنز کو وہ مخصوص رپورٹس فرمائش پربذریعہ ای میل مہیا کی گئی جو آن ائیر براہ راست نشر کی گئیں۔
یہ رپورٹس سابق وزیر داخلہ سندھ نے کراچی سے دبئی جاتے ہوئے فلائٹ میں ہی ، قومی اسمبلی کی سابق اسپیکر کی سرکاری آفیشل فائل میں اپنے بریف کیس سے ایک ایسے سیاسی لیڈر کے حوالے کی جس کے مرکزی لیڈر نے اسلام آباد سے کراچی بد امنی کیس میں فریق بننے کی درخواست کرتے ہوئے معروف وکیل کو مقرر کرکے کراچی بھیجا۔ دراصل جے آئی ٹی رپورٹ اگر اس وقت تک بلیک رہتی ہے ، جب تک عدالت سے وہ ملزم رہائی نہیں پا جاتا ، اگر عدالت اُسے رہا کردیتی ہے تو وہی جے آئی ٹی رپورٹ وائٹ قرار دے دی جاتی ہے، ناکامی کو پولیس تفتیشی افسران کی کوتاہی یا گواہان و مدعیان کی عدم موجودگی یا مدعی یا گواہان کو قتل کروانے کے بعد مقدمے کا فیصلہ عدم ثبوت پر حاصل کرنا بھی کہا جاسکتا ہے۔
اب ہم اس بات کو کیسے ہضم کرلیں کہ کسی ایک ادارے کے کسی ایک شخص یا گروہ کو تو کسی سے ذات پرخاش ہوسکتی ہے لیکن تمام ادارے بیک وقت کسی ملزم کے خلاف براہ راست دشمنی کیونکر کرسکتے ہیں ، اس کا واضح مطلب تو یہی نکلے گا کہ اگر اُس رپورٹس پر یقین نہ کیا جائے اور فوج کی آئی ایم ، آئی ایس آئی ، رینجرز ،آئی بی ، سی آئی اے اور پولیس کی اسپیشل برانچ پر کی استعداد کار اور اہلیت پر یقین ہی نہیں۔جیسے دوسرے معنوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے وجود اور قابل اعتماد اداروں کو تسلیم نہیں کرتے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رینجرزکے بعض اہلکاروں سے کچھ ایسی غلطیاں بھی ہوئیں ہیں۔
جس پر رینجرز کے اعلیٰ افسران کوبذات خود مداخلت کرنا پڑی علاوہ ان پر ماضی و حالیہ عرصے میں بعض اراکین صوبائی و قومی اسمبلی و سیاسی مذہبی جماعتوں نے ماورائے عدالت قتل کے الزامات ، چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالی کے ساتھ ان کے آپریشن کے طریق کار پر اعتراض کیا ،خاص طور پر اُس وقت جب پوری کی پوری آبادی کے مرد حضرات کو کھلے میدانوں میں قمیض اتروا کر اوندھا کردیا جانا اور شناخت کے بعد مخصوص افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کے بعد پولیس کے حوالے کردیا جانا، اور پولیس اس کی ایف آئی آر درج کر کے مقدمے کا موجودہ سست عدالتی نظام کے ساتھ جو حال کرتی ہے۔
اس کا حال سب کو معلوم ہے۔جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد اب اُن کو حراست میں لیا جانے لگا جن کے حوالے سے انھیں انفارمیشن ملتی، یہاں بھی یہ دیکھا گیا ایسے افراد جو بے گناہ تھے ، انھیں تین دن ، سات دن بعد ازخود بغیر سفارش کے رہا کردیا جاتا۔ آئین نے رینجرز کو نوے دن قانونی مہیا کیے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر رینجرز کے اہلکار حراست میں لیے جانے والے افراد کو اسی قانون کے تحت گرفتار کرکے تفتیش کرے تو اس ملزم کے لواحقین ، کو اطمینان ہوگا کہ اگر بیگناہ ہوا تو بغیر کسی سفارش یا دباؤ کے چھوڑ دیا جائے گا ۔
ورنہ عدالت میں پیش کرکے ٹھوس شواہد کے ساتھ اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ حکومت سندھ رینجرز کو سیاسی دباؤ میں لانے سے گریز کرے اور انھیں ، ان کا کام کرنے دیں ،اب رینجرز کو پانی کی سپلائیوں کی بحالی، ہائیڈرینٹ ، گھریلو جھگڑوںکو حل کرنے، نچلی سطح اور سیاسی مسائل میں الجھانے کے بجائے ان کا مورال بلند کرنے کے لیے پولیس کے محکمے سے بد عنوان اور کرپٹ افسران کی تعیناتی اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی اہلکاروں کی تطہیر کے لیے دی گئی ایپکس تجاویز کو یقینی عمل درآمد بنانے میں کچھ وقت کے لیے کچھ فروعی مفادات کو پس پشت ڈال دیں اور سیاسی ریٹنگ بڑھانے کو کچھ عرصے کے لیے بھول جائیں۔
عموماََ میں بیشتر خبریں سرسری پڑھ جاتا ہوں،کیونکہ بیشترخبریں ایک جیسی ہوتی ہیں، اسی طرح شرجیل میمن وزیراطلاعات سندھ کے ایک بیان پرمجھے مغالطہ ہوا کہ ''میں جھاڑو لے کرخود صفائی کرونگا ۔''پہلے میں یہ سمجھا کہ شاید ان کا مطلب یہ ہے کہ کراچی میں جتنی ٹارگٹ کلنگ ، بھتہ خوری اوربد امنی ' نامعلوم افراد' نے کی ہیں اور کراچی سے امن و امان یکسر صاف ہوچکاہے شائد اس میں کچھ کمی رہ گئی ہے اس لیے انھوں نے سوچا کہ رہی سہی کسر میں' پوری' کرتے ہوئے ، رینجرز کی بھرپورکوششوں کے بعد آنیوالے باقی ماندہ امن پر جھاڑو پھیردوں ۔تھوڑا پھر غور کیا تو پتہ چلا کہ محترم کا ہفتہ صفائی کے ساتھ کوئی ایک لاکھ سے زائد پودے اُس شہر کراچی میں لگانے کا دعوی بھی ہے، جس شہر کے باسیوں کو پینے کا پانی اور جینا میسر نہیں۔
کچھ اسی سے ملتی جلتی مماثلت رکھتی صورتحال سندھ رینجرز کی بھی ہوگئی ہے کہ کراچی میں کئی عشروں کے باوجود صرف اس لیے مکمل کامیابی حاصل نہیں کر پا رہی کیونکہ ایک جانب انھیں پولیس کے بعض کرپٹ افسران و مخبر اہلکاروں کی جانب سے آپریشن افشا اور سیاسی دباؤ کا سامنا رہا تو دوسری جانب عوام کی جانب سے بھرپور تعاون بھی حاصل نہیں ہو سکا۔ سچل رینجرز کے ایک افسر نے مجھ سے گلہ کرتے ہوئے کہاکہ'' ہم پر خودکش دہماکے ہوتے ہیں ، حملے ہوتے ہیں ۔
اہلکار شہید ہوجاتے ہیں صرف اس لیے کہ ہم کراچی کے عوام کو امن فراہم کرنا چاہتے ہیں ، ہم عوام سے کسی بات کا تقاضا نہیں کرتے کہ ہماری دعوت کرو ، حکومت ہمیں سب کچھ دیتی ہے ہماری تو ہمیشہ یہ آرزو رہی ہے تو صرف شہادت کی، ہمیں کسی سے کوئی ڈر نہیں ، موت تو آنی ہے ، شہادت کی آئی تو ایک گولی سینے پر کھانے کے لیے تیار ہیں ، لیکن معذرت کے ساتھ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حساس و متاثرہ علاقوں کی مظلوم عوام ہمارے ساتھ اُس طرح تعاون نہیں کرتے کہ ہم انھیں جلد از جلد امن مہیا کرسکیں۔ہم اپنے لیے تو کچھ نہیں کر رہے بلکہ ان کی موجودہ اور آنے والی نسل کو بچانا چاہتے ہیں۔''
رینجرزکے اس افسرکے جذبات وطن کی محبت اورکراچی سے ایثار سے لبریز تھے، میرے پاس صرف یہی جواب تھا کہ عوام کئی عشروں سے خوفزدہ ہے انھیں وقت لگے گا ، لیکن کیا ، کیا جائے کہ ہمارے علاقوں میںچند عناصر،ایسے بھی ہیں جن کا طریق کار عجیب سا ہے کہ آدھا تیتر آدھا بیٹر، بعض سرکاری افسران یا اہلکاروں سے ذاتی تعلقات کا بھرم دیکر اپنی زندگیوں کو بھی غیر محفوظ بنا لیتے ہیں اور جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ بھی کہ کوئی عام شریف شہری اس بات سے خوفزدہ رہتا ہے کہ اگر اس کے بارے میں شرپسند کو پتہ چل گیا تو اسے جان کا خوف ہوگا۔ لہذاوہ اپنی ایک جان بچانے کے لیے لاکھوں انسانوں کی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے، اس کا حل بھی رینجرز نے ڈھونڈ نکالا اور 1101کے ایس ایم ایس SMSکی اسی سروس شروع کی جس میں اطلاع دینے والے نام اور دیگرمعلومات صغیہ راز میں رکھی جاتیں ہیں اور ایک انسانی فریضہ بھی پورا ہوجاتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤ ، چاہے ہاتھ سے ، زبان سے یا کم ازکم دل میں بُرا جانو ، لیکن یہ ایمان کی سب سے کمزور علامت ہے۔
ظلم و نا انصافی کے خلاف ہاتھ سے آواز اٹھانا ، ایمان کے اولین درجے میں شمار کیا جاتا ہے اور میں اپنی ناقص رائے میں ہاتھ سے لکھے ایک چھوٹے سے ایس ایم ایس سے جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی کرنیوالوں کی جرات کا پہلا درجہ سمجھتا ہوں ، برائے مہربانی ایسے اپنی ذاتی دشمنی ، مخاصمت اور فروعی مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں ۔ رینجرز جس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا تھا ، ایسے سیاست میں بار بار لانے کی کوشش کی جاتی رہی ، دوسرے لفظوں میں کہا جائے کہ سیاسی بنانے کی کوشش ، وہ بھی منظم انداز میں کی جاتی رہتی ہے تو کوئی اس سے اختلاف نہیں کریگا ۔ ذاتی تجزیے کے مطابق کراچی بد امنی کے حوالے سے جب کسی بھی ملزم کے خلاف جے آئی ٹی، (جوائنٹ انسٹی گیشنٹیم) کی رپورٹ بنتی ہے تو اس میں ملک کے مقتدور اداروں کے قابل افسران شامل ہوتے ہیں ۔
جس میں ملٹری اینٹلی جنس (ایم آئی ) انٹر سروس اینٹلی جنس،(آئی ایس آئی) اینٹلی جنس بیورو(آئی بی )، رینجرز،کرینمل انوسٹی گیشنڈیپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) اور پولیس اسپیشل برانچ کی ایجنسیوں کے اعلیٰ افسران ہیں اور باقاعدہ رپورٹ پر ان کے دستخط ہوتے ہیں اور اس رپورٹ کو خفیہ رکھی جاتی ہے لیکن کسی نہ کسی طریقے سے اس کے کچھ حصے ذرایع ابلاغ میں آجاتے ہیں۔ جیسے اس کی ایک مثال' کراچی بد امنی سپریم کورٹ کیس' میں ایک قوم پرست جماعت کی جانب سے 23 جے آئی ٹی رپورٹس کو باقاعدہ کتابی شکل میں میڈیا میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا بریفنگ میں تقسیم کیا گیا جو سپریم کورٹ میں بھی جمع کرائی گئی تھی نیز بعض اہم سینئر صحافیوں اور اینکرز پرسنز کو وہ مخصوص رپورٹس فرمائش پربذریعہ ای میل مہیا کی گئی جو آن ائیر براہ راست نشر کی گئیں۔
یہ رپورٹس سابق وزیر داخلہ سندھ نے کراچی سے دبئی جاتے ہوئے فلائٹ میں ہی ، قومی اسمبلی کی سابق اسپیکر کی سرکاری آفیشل فائل میں اپنے بریف کیس سے ایک ایسے سیاسی لیڈر کے حوالے کی جس کے مرکزی لیڈر نے اسلام آباد سے کراچی بد امنی کیس میں فریق بننے کی درخواست کرتے ہوئے معروف وکیل کو مقرر کرکے کراچی بھیجا۔ دراصل جے آئی ٹی رپورٹ اگر اس وقت تک بلیک رہتی ہے ، جب تک عدالت سے وہ ملزم رہائی نہیں پا جاتا ، اگر عدالت اُسے رہا کردیتی ہے تو وہی جے آئی ٹی رپورٹ وائٹ قرار دے دی جاتی ہے، ناکامی کو پولیس تفتیشی افسران کی کوتاہی یا گواہان و مدعیان کی عدم موجودگی یا مدعی یا گواہان کو قتل کروانے کے بعد مقدمے کا فیصلہ عدم ثبوت پر حاصل کرنا بھی کہا جاسکتا ہے۔
اب ہم اس بات کو کیسے ہضم کرلیں کہ کسی ایک ادارے کے کسی ایک شخص یا گروہ کو تو کسی سے ذات پرخاش ہوسکتی ہے لیکن تمام ادارے بیک وقت کسی ملزم کے خلاف براہ راست دشمنی کیونکر کرسکتے ہیں ، اس کا واضح مطلب تو یہی نکلے گا کہ اگر اُس رپورٹس پر یقین نہ کیا جائے اور فوج کی آئی ایم ، آئی ایس آئی ، رینجرز ،آئی بی ، سی آئی اے اور پولیس کی اسپیشل برانچ پر کی استعداد کار اور اہلیت پر یقین ہی نہیں۔جیسے دوسرے معنوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے وجود اور قابل اعتماد اداروں کو تسلیم نہیں کرتے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رینجرزکے بعض اہلکاروں سے کچھ ایسی غلطیاں بھی ہوئیں ہیں۔
جس پر رینجرز کے اعلیٰ افسران کوبذات خود مداخلت کرنا پڑی علاوہ ان پر ماضی و حالیہ عرصے میں بعض اراکین صوبائی و قومی اسمبلی و سیاسی مذہبی جماعتوں نے ماورائے عدالت قتل کے الزامات ، چادر و چار دیواری کے تقدس کی پامالی کے ساتھ ان کے آپریشن کے طریق کار پر اعتراض کیا ،خاص طور پر اُس وقت جب پوری کی پوری آبادی کے مرد حضرات کو کھلے میدانوں میں قمیض اتروا کر اوندھا کردیا جانا اور شناخت کے بعد مخصوص افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کے بعد پولیس کے حوالے کردیا جانا، اور پولیس اس کی ایف آئی آر درج کر کے مقدمے کا موجودہ سست عدالتی نظام کے ساتھ جو حال کرتی ہے۔
اس کا حال سب کو معلوم ہے۔جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے بعد اب اُن کو حراست میں لیا جانے لگا جن کے حوالے سے انھیں انفارمیشن ملتی، یہاں بھی یہ دیکھا گیا ایسے افراد جو بے گناہ تھے ، انھیں تین دن ، سات دن بعد ازخود بغیر سفارش کے رہا کردیا جاتا۔ آئین نے رینجرز کو نوے دن قانونی مہیا کیے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر رینجرز کے اہلکار حراست میں لیے جانے والے افراد کو اسی قانون کے تحت گرفتار کرکے تفتیش کرے تو اس ملزم کے لواحقین ، کو اطمینان ہوگا کہ اگر بیگناہ ہوا تو بغیر کسی سفارش یا دباؤ کے چھوڑ دیا جائے گا ۔
ورنہ عدالت میں پیش کرکے ٹھوس شواہد کے ساتھ اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔ حکومت سندھ رینجرز کو سیاسی دباؤ میں لانے سے گریز کرے اور انھیں ، ان کا کام کرنے دیں ،اب رینجرز کو پانی کی سپلائیوں کی بحالی، ہائیڈرینٹ ، گھریلو جھگڑوںکو حل کرنے، نچلی سطح اور سیاسی مسائل میں الجھانے کے بجائے ان کا مورال بلند کرنے کے لیے پولیس کے محکمے سے بد عنوان اور کرپٹ افسران کی تعیناتی اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی اہلکاروں کی تطہیر کے لیے دی گئی ایپکس تجاویز کو یقینی عمل درآمد بنانے میں کچھ وقت کے لیے کچھ فروعی مفادات کو پس پشت ڈال دیں اور سیاسی ریٹنگ بڑھانے کو کچھ عرصے کے لیے بھول جائیں۔