ہوجائے گا سارا ڈیٹا اُڑن چھو
ونٹ اس خیال کی ترویج میں مصروف ہیں کہ ہر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کو محفوظ کیا جائے تاکہ وہ کبھی بھی ناپید نہ ہو
کمپیوٹر ہمارے لیے بہت سے فرائض سرانجام دیتا ہے۔یہ ہمارا ٹی وی بھی ہے، سنیما بھی، ہمیں مدھر دھنیں سنانے والا آلہ بھی، کتاب بھی اور ڈائری بھی، لیکن ان سب حیثیتوں، سہولتوں اور فوائد سے بڑھ کر کمپیوٹر ہمارے لیے ایک ذخیرہ گاہ ہے، جہاں ہم اپنی یادیں، ضروری دستاویزات اور اہم تصاویر، وڈیوز اور تخلیقات وغیرہ محفوظ رکھتے ہیں۔
یوں تو ہارڈ ڈسک کی خرابی اور دیگر عوامل کی بنا پر کمپیوٹر میں رکھا جانے والا ذخیرہ بہت زیادہ محفوظ نہیں سمجھا جاتا، لیکن اب یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ کمپیوٹر پر محفوظ ہمارا سارا ڈیٹا ایک دن لازمی طور پر ضایع ہوجائے گا۔ تاہم اس زیاں کی وجہ کمپیوٹر کی خرابی نہیں بلکہ ہارڈویئرز اور سافٹ ویئر میں ہونے والی تبدیلیوں کا عمل ہے۔
انٹرنیٹ کے یوزرز کے لیے یہ پریشان کُن انکشاف کیا ہے ونٹ سرف نے، جو گوگل کمپنی کے نائب صدر ہیں اور موجود ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کے تحفظ کے لیے جنگ لڑرہے ہیں۔
ونٹ سرف جنہیں 'بابائے انٹرنیٹ' کے نام سے جانا جاتا ہے کا کہنا ہے کہ تمام تصاویر اور دستاویزات جو ہم اپنے کمپیوٹرز پر محفوظ کرتے رہے ہیں بالآخر ضائع ہوجائیں گی۔ گوگل کے نائب صدر ونٹ کا کہنا ہے کہ یہ تب ہوگا جب ہارڈ ویئر یا سافٹ ویئر ناپید ہو جائیں گے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ مستقبل کی نسلوں کے پاس 21ویں صدی کا بالکل معمولی یا کوئی ریکارڈ نہیں ہو گا جب اْن کے بقول ہم 'ڈیجیٹل دنیا کے سیاہ دور' میں داخل ہوں گے۔انہوں نے یہ بات ایک کانفرنس کے دوران کہی۔
واضح رہے کہ ونٹ وہ شہرۂ آفاق شخصیت ہیں جنہوں نے اس بات کو بیان کرنے میں مدد دی کہ ڈیٹا پیکٹس کیسے انٹرنیٹ پر آجا سکتے ہیں۔ وہ ان دنوں ایک نئے مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں میں ہیں جس سے ہماری تاریخ کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ہماری زندگی، ہماری یادیں اور ہماری پسندیدہ خاندانی تصاویر اب معلومات کے ٹکڑوں میں موجود ہیں ہماری ہارڈ ڈرائیوز پر اور 'کلاؤڈ' ڈرائیوز پر مگر جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ سب اس بدلتے ڈیجیٹل ارتقا میں ضائع نہ ہو جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ 'میں اس بات سے بہت ڈرتا ہوں میں اور آپ ایسے چیزوں کا روزانہ تجربہ کرتے ہیں پرانے فارمیٹ کی دستاویزات جنہیں ہم نے ایک زمانے میں بنایا مگر اب حالیہ فارمیٹ کے سافٹ ویئرز میں انہیں نہیں کھولا جا سکتا کیوںکہ ماضی میں کیے جانے والے فارمیٹ کی مسابقت یا مطابقت کی گارنٹی نہیں ہوتی۔'
وہ کہتے ہیں،''تو ایسا ہو سکتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل آرکائیو جمع کر لیں مگر ہمیں ایک دور میں جا کر پتا ہی نہ چلے کہ وہ سب کیا ہے۔''
ونٹ اس خیال کی ترویج میں مصروف ہیں کہ ہر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کو محفوظ کیا جائے تاکہ وہ کبھی بھی ناپید نہ ہو جیسا کہ میوزیم میں ہوتا ہے، مگر اس صورت میں ڈیجیٹل حالت میں کلاؤڈ سرورز پر۔اْن کے خیال میں اگر ایسا کیا جائے تو ہماری آنے والی کئی نسلوں تک ہماری پسندیدہ یادیں محفوظ رہ سکیں گی۔
انہوں نے کہا، ''اس کا حل یہ ہے کہ اس مواد، ایپلیکیشن اور آپریٹنگ سسٹم سب کا ایک ایکسرے اسنیپ شاٹ جس کے ساتھ اس مشین کا ڈسکریپشن ہو جس پر اسے چلایا جا رہا ہے اور اسے لمبے عرصے تک محفوظ رکھا جائے اور اس ڈیجیٹل اسنیپ شاٹ کو مستقبل میں دوبارہ بنایا جا سکتا ہے۔''
جب اْن سے پوچھا گیا کہ کئی کمپنیوں نے سینکڑوں سال تک اپنے آپ کو قائم رکھا تو کیسے یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہماری ذاتی یادیں اور انسانی تاریخ لمبے عرصے کے لیے محفوظ رہ سکے گی تو انہوں نے جواب دیا کہ ''اگلے سو سال تک گوگل بھی شاید نہ باقی رہے۔''
یوں تو ہارڈ ڈسک کی خرابی اور دیگر عوامل کی بنا پر کمپیوٹر میں رکھا جانے والا ذخیرہ بہت زیادہ محفوظ نہیں سمجھا جاتا، لیکن اب یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ کمپیوٹر پر محفوظ ہمارا سارا ڈیٹا ایک دن لازمی طور پر ضایع ہوجائے گا۔ تاہم اس زیاں کی وجہ کمپیوٹر کی خرابی نہیں بلکہ ہارڈویئرز اور سافٹ ویئر میں ہونے والی تبدیلیوں کا عمل ہے۔
انٹرنیٹ کے یوزرز کے لیے یہ پریشان کُن انکشاف کیا ہے ونٹ سرف نے، جو گوگل کمپنی کے نائب صدر ہیں اور موجود ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر کے تحفظ کے لیے جنگ لڑرہے ہیں۔
ونٹ سرف جنہیں 'بابائے انٹرنیٹ' کے نام سے جانا جاتا ہے کا کہنا ہے کہ تمام تصاویر اور دستاویزات جو ہم اپنے کمپیوٹرز پر محفوظ کرتے رہے ہیں بالآخر ضائع ہوجائیں گی۔ گوگل کے نائب صدر ونٹ کا کہنا ہے کہ یہ تب ہوگا جب ہارڈ ویئر یا سافٹ ویئر ناپید ہو جائیں گے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ مستقبل کی نسلوں کے پاس 21ویں صدی کا بالکل معمولی یا کوئی ریکارڈ نہیں ہو گا جب اْن کے بقول ہم 'ڈیجیٹل دنیا کے سیاہ دور' میں داخل ہوں گے۔انہوں نے یہ بات ایک کانفرنس کے دوران کہی۔
واضح رہے کہ ونٹ وہ شہرۂ آفاق شخصیت ہیں جنہوں نے اس بات کو بیان کرنے میں مدد دی کہ ڈیٹا پیکٹس کیسے انٹرنیٹ پر آجا سکتے ہیں۔ وہ ان دنوں ایک نئے مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں میں ہیں جس سے ہماری تاریخ کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ہماری زندگی، ہماری یادیں اور ہماری پسندیدہ خاندانی تصاویر اب معلومات کے ٹکڑوں میں موجود ہیں ہماری ہارڈ ڈرائیوز پر اور 'کلاؤڈ' ڈرائیوز پر مگر جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ سب اس بدلتے ڈیجیٹل ارتقا میں ضائع نہ ہو جائیں۔
انہوں نے بتایا کہ 'میں اس بات سے بہت ڈرتا ہوں میں اور آپ ایسے چیزوں کا روزانہ تجربہ کرتے ہیں پرانے فارمیٹ کی دستاویزات جنہیں ہم نے ایک زمانے میں بنایا مگر اب حالیہ فارمیٹ کے سافٹ ویئرز میں انہیں نہیں کھولا جا سکتا کیوںکہ ماضی میں کیے جانے والے فارمیٹ کی مسابقت یا مطابقت کی گارنٹی نہیں ہوتی۔'
وہ کہتے ہیں،''تو ایسا ہو سکتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم بڑے پیمانے پر ڈیجیٹل آرکائیو جمع کر لیں مگر ہمیں ایک دور میں جا کر پتا ہی نہ چلے کہ وہ سب کیا ہے۔''
ونٹ اس خیال کی ترویج میں مصروف ہیں کہ ہر سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کو محفوظ کیا جائے تاکہ وہ کبھی بھی ناپید نہ ہو جیسا کہ میوزیم میں ہوتا ہے، مگر اس صورت میں ڈیجیٹل حالت میں کلاؤڈ سرورز پر۔اْن کے خیال میں اگر ایسا کیا جائے تو ہماری آنے والی کئی نسلوں تک ہماری پسندیدہ یادیں محفوظ رہ سکیں گی۔
انہوں نے کہا، ''اس کا حل یہ ہے کہ اس مواد، ایپلیکیشن اور آپریٹنگ سسٹم سب کا ایک ایکسرے اسنیپ شاٹ جس کے ساتھ اس مشین کا ڈسکریپشن ہو جس پر اسے چلایا جا رہا ہے اور اسے لمبے عرصے تک محفوظ رکھا جائے اور اس ڈیجیٹل اسنیپ شاٹ کو مستقبل میں دوبارہ بنایا جا سکتا ہے۔''
جب اْن سے پوچھا گیا کہ کئی کمپنیوں نے سینکڑوں سال تک اپنے آپ کو قائم رکھا تو کیسے یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہماری ذاتی یادیں اور انسانی تاریخ لمبے عرصے کے لیے محفوظ رہ سکے گی تو انہوں نے جواب دیا کہ ''اگلے سو سال تک گوگل بھی شاید نہ باقی رہے۔''