اُس فقرے نے مجھے سرشار کردیا
دلائی لامہ سےایوارڈ وصول کرنایادگار واقعہ ہے،کچھ واقعات،جو نام ورتاریخ داں ڈاکٹر مبارک علی کی روح کو مہکائے رکھتے ہیں
لاہور:
ڈاکٹر مبارک علی نام ور تاریخ داں ہیں۔ پاکستان میں تاریخ نویسی سے تھوڑی سی شد بُد رکھنے والا بھی ان کے نام سے اچھی طرح واقف ہوگا۔
تاریخ کے مضمون میں عام آدمی کی دل چسپی بڑھانے میں ان کی تحریروں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے جمے جمائے نظریات کو چیلینج کیا اور بہت سے فکری مغالطوں کو آسان طرز تحریر کے ذریعے دور کیا۔ سرکاری سچ کو ڈنکے کی چوٹ للکارنے پر وہ معتوب بھی رہے، لیکن اپنی ڈگر سے ہٹے نہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، کئی برسوں سے ''تاریخ '' کے نام سے پرچہ بھی نکال رہے ہیں۔ ہمارے سلسلے ''بھلا نہ سکے'' کے لیے انہوں نے مندرجہ ذیل واقعات بیان کیے:
نوجوانوں کی طرف سے اپنی تحریروں پر ملنے والا فیڈ بیک میرے لیے بہت زیادہ خوشی اور طمانیت کا باعث ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بعض واقعات ایسے ہیں، جنھیں میں کبھی نہیں بھلا پایا۔ ایسے دو تین واقعات، بیان کیے دیتا ہوں۔ نیشنل کالج آف آرٹس میں ، ''ہسٹری آف ہیریٹیج '' کے نام سے میں بہت عرصہ کورس پڑھاتا رہا۔ ایک بار کورس کے اختتام پر ایک طالبہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ سر! آپ نے تو ہمارا ذہن بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس فقرے نے مجھے بہت زیادہ سرشار کیا۔
اسی طرح کافی برس پہلے، معروف دانش ور علی عباس جلال پوری کی یاد میں ہونے والے جلسے میں شرکت کے لیے جہلم گیا تو ایک نوجوان ملا، جس نے بتایا کہ وہ میری تحریروں کا پُرشوق قاری ہے۔ اس نے بڑی محبت سے مجھے فائونٹین پین تحفے میں دیا، جس نے مجھے عجب طرح کی خوشی دی۔ وہ پین میرے پاس اب بھی محفوظ ہے۔ میں نے اپنی کتاب ''یورپ کا عروج'' اسی نوجوان کے نام معنون کی ہے۔
تیسرا واقعہ ماضی قریب کا ہے۔ میرے دوست محمود مرزا بہ سبب علالت خود کچھ پڑھنے سے قاصر ہیں، میں نے اپنی کتاب انہیں بھجوائی، جو انہوں نے اپنے پوتے سے پڑھوا کر سنی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے پوتے کو میری یہ کتاب بہت پسند آئی اور اس نے میری دوسری کتابیں پڑھنے کے لیے بھی اشتیاق ظاہر کیا ہے۔ ایسے واقعات مجھے بے حد خوشی دیتے ہیں اور یاد رہتے ہیں۔ ان سے حوصلہ ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ کررہے ہیں، وہ ضائع نہیں ہورہا اور لوگ اس سے اثر قبول کررہے ہیں۔
زندگی میں ایسے موقع بھی آئے، جب کسی کی بات سے دکھ بھی ہوتا ہے۔ مثلاً89 ء میں برصغیر کی تقسیم سے متعلق ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں، میں نے یہ کہہ دیا کہ کتاب میں جدوجہد آزادی کے غیر مسلم راہ نمائوں کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، وہ غیر مناسب ہے، اور علمی زبان نہیں۔ مثلاً گاندھی کے نام کے ساتھ شاطر وغیرہ لکھنا۔ اس پر کتاب کے مولف، جنھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ میری تنقید کا خیرمقدم کریں گے، برا مان گئے، اور تقریر کرنے آئے تو طنزیہ لہجے میں کہنے لگے کہ بھئی! ہم نے تو تاریخ سے متعلق اتنی ضخیم کتاب مرتب کردی ہے، ڈاکٹر صاحب تو صرف پمفلٹ لکھتے ہیں، کبھی باقاعدہ کتاب لکھیں تو جانیں۔ تو ایسی باتیں بھی سننے کو ملتی رہی ہیں۔ جائز تنقید برداشت کرنے کا بھی ہمارے ہاں رواج نہیں ہے۔
مجھے تین ایوارڈ ملے ہیں، جو ریاست کی طرف سے نہیں ہیں۔ ان کی یاد بھی ذہن میں رہتی ہے۔ سب سے پہلے فیض فائونڈیشن نے فیض ایوارڈ دیا۔ پھر سندھ ادبی سنگت نے پیر حسام الدین راشدی گولڈ میڈل سے نوازا۔ دس سال قبل، بھارت سے رام کرشن آرگنائزیشن سے کمیونل ہارمنی ایوارڈ ملا۔ یہ ایوارڈ اس لیے سب سے یادگار حیثیت اختیار کرگیا کہ اسے میں نے دلائی لامہ کے ہاتھوں وصول کیا۔ میں نے دلائی لامہ سے کہا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ ان سے میری ملاقات ہوگئی۔ دلائی لامہ سے پاکستان میں ملنا، کبھی ممکن نہ ہوتا، کیوںکہ چین سے دوستی کی وجہ سے ہم تو کھی اپنے ہاں دلائی لامہ کو نہیں بلائیں گے۔ وہ مجھے بڑے مہذب، نفیس اور پڑھے لکھے انسان لگے۔ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ شام چھے بجے سوجاتے ہیں اور صبح تین بجے اٹھتے ہیں۔ یہ ان کا معمول ہے۔ ان سے ملاقات کی یاد ہمیشہ ذہن میں تابندہ رہی۔
1976ء میں جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا ملنا بھی ناقابل فراموش یاد ہے۔ جرمنی میں ڈگری دینے سے قبل آپ کا آخری امتحان، مکمل طور پر زبانی ہوتا ہے، جس میں پوری فیکلٹی بیٹھتی ہے، جو آپ سے کام کے بارے میں سوال کرتی ہے۔ دو گھنٹے یہ انٹرویو چلتا رہا۔ اس دوران کافی بھی چلتی رہتی ہے اور بڑے اچھے ماحول میں مکالمہ ہوتا ہے۔ میرا انٹرویو بہت اچھا ہوا۔ انٹرویو کے پندرہ بیس منٹ بعد ہی حتمی نتیجے سے آگاہ کردیا جاتا ہے۔ یہ پندرہ بیس منٹ بڑی بے چینی میں گزرے، لیکن جب کام یابی کی خبر ملی تو خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری اکیڈمک زندگی میں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے ملنے سے آپ میں اعتماد آتا ہے اور آپ زیادہ یکسو ہوکر اور ذمہ داری سے اپنا کام کرتے ہیں۔
میری تحریروں سے بہت سے لوگوں نے، جس دیدہ دلیری سے سرقہ کیا ہے، وہ مجھے حیران بھی کرتا ہے اور بھولتا بھی نہیں۔ مثلا،ً ایک صاحب جو بڑے مشہور اینکر ہیں، وہ اپنے پروگرام میں بڑے دھڑلے سے میری تحریروں سے پیراگراف کے پیراگراف پڑھتے ہے، لیکن مجال ہے، کبھی میرا حوالہ دینے کی زحمت گوارا کی ہو۔ یہ صاحب مجھے اتفاقاً مل گئے، تو میں نے ان سے بات کی تو کہنے لگے کہ وہ تو میرا حوالہ دیتے ہیں، ان کا کہنا صریحاً غلط تھا، انہوں نے کبھی میرا نام اپنے پروگرام نہیں لیا۔ ان صاحب نے ایک بڑے نجی ٹی وی چینل کے لیے مجھے دبئی بلا کر دو طویل انٹرویو بھی کیے، جو کبھی آن ایئر نہیں ہوئے۔
اس چینل سے میرے چار انٹرویو ایسے ہیں، جنھیں ریکارڈ کرلینے کے بعد پیش نہیں کیا گیا۔ میرا سوال ہے کہ اگر آپ تاریخ سے متعلق سچ دکھا نہیں سکتے اور آپ میں جرأت نہیں تو پھر مجھے بلاتے کیوں ہو؟ کچھ عرصہ قبل تاریخ سے متعلق ایک صاحب نے مجھے کتاب پیش کی تو مجھے یوں لگا ، جیسے میں اپنی کتاب ہی پڑھ رہا ہوں۔ کہیں کہیں بس میرا حوالہ دیا گیا تھا، اب اسے معصومیت کہوں یا جرأت ، میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے تعلیمی اداروں کے اساتذہ بھی سرقہ کرتے پکڑے گئے ہیں۔ یہ ساری باتیں دُکھ دیتی ہیں، لیکن لوگ ان غلط حرکتوں سے باز ہی نہیں آتے۔
زندگی میں بہت سی کتابیں ایسی ہیں، جنھیں پڑھ کر احساس ہوا کہ جیسے ذہن کے دریچے کھل گئے ہیں۔ ایسی کتابوں میں کارل پوپر کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب The Open Society and Its Enemiesہے۔ وہ افلاطون سے شروع ہوکر ہیگل تک آتا ہے۔ اس نے بتایا کہ یہ لوگ اوپن سوسائٹی کے دشمن تھے۔ اس نے فلسفے کی پوری تاریخ کو کھنگال ڈالا ہے۔ دنیا میں افلاطون اور ہیگل کی فکر کا باقی فلاسفہ کے مقابلے میں زیادہ ذکر ہوا ہے، اس لیے ان دونوں پر اس نے زیادہ گرفت کی ہے۔ کارل پوپر، بیسویں صدی کے بڑے دماغوں میں سے ایک تھا۔ لندن اسکول آف اکنامکس کا پروفیسر رہا۔ آئن اسٹائن خاص طور پر اس کے لیکچر سننے آتا تھا۔ اپنے تعلیمی سفر میں، وہ کتابیں جو میرے لیے بڑی چشم کشا ثابت ہوئیں، ان میں کارل پوپر کی یہ کتاب سرفہرست ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی نام ور تاریخ داں ہیں۔ پاکستان میں تاریخ نویسی سے تھوڑی سی شد بُد رکھنے والا بھی ان کے نام سے اچھی طرح واقف ہوگا۔
تاریخ کے مضمون میں عام آدمی کی دل چسپی بڑھانے میں ان کی تحریروں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے جمے جمائے نظریات کو چیلینج کیا اور بہت سے فکری مغالطوں کو آسان طرز تحریر کے ذریعے دور کیا۔ سرکاری سچ کو ڈنکے کی چوٹ للکارنے پر وہ معتوب بھی رہے، لیکن اپنی ڈگر سے ہٹے نہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، کئی برسوں سے ''تاریخ '' کے نام سے پرچہ بھی نکال رہے ہیں۔ ہمارے سلسلے ''بھلا نہ سکے'' کے لیے انہوں نے مندرجہ ذیل واقعات بیان کیے:
نوجوانوں کی طرف سے اپنی تحریروں پر ملنے والا فیڈ بیک میرے لیے بہت زیادہ خوشی اور طمانیت کا باعث ہوتا ہے۔ اس ضمن میں بعض واقعات ایسے ہیں، جنھیں میں کبھی نہیں بھلا پایا۔ ایسے دو تین واقعات، بیان کیے دیتا ہوں۔ نیشنل کالج آف آرٹس میں ، ''ہسٹری آف ہیریٹیج '' کے نام سے میں بہت عرصہ کورس پڑھاتا رہا۔ ایک بار کورس کے اختتام پر ایک طالبہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ سر! آپ نے تو ہمارا ذہن بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس فقرے نے مجھے بہت زیادہ سرشار کیا۔
اسی طرح کافی برس پہلے، معروف دانش ور علی عباس جلال پوری کی یاد میں ہونے والے جلسے میں شرکت کے لیے جہلم گیا تو ایک نوجوان ملا، جس نے بتایا کہ وہ میری تحریروں کا پُرشوق قاری ہے۔ اس نے بڑی محبت سے مجھے فائونٹین پین تحفے میں دیا، جس نے مجھے عجب طرح کی خوشی دی۔ وہ پین میرے پاس اب بھی محفوظ ہے۔ میں نے اپنی کتاب ''یورپ کا عروج'' اسی نوجوان کے نام معنون کی ہے۔
تیسرا واقعہ ماضی قریب کا ہے۔ میرے دوست محمود مرزا بہ سبب علالت خود کچھ پڑھنے سے قاصر ہیں، میں نے اپنی کتاب انہیں بھجوائی، جو انہوں نے اپنے پوتے سے پڑھوا کر سنی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے پوتے کو میری یہ کتاب بہت پسند آئی اور اس نے میری دوسری کتابیں پڑھنے کے لیے بھی اشتیاق ظاہر کیا ہے۔ ایسے واقعات مجھے بے حد خوشی دیتے ہیں اور یاد رہتے ہیں۔ ان سے حوصلہ ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ کررہے ہیں، وہ ضائع نہیں ہورہا اور لوگ اس سے اثر قبول کررہے ہیں۔
زندگی میں ایسے موقع بھی آئے، جب کسی کی بات سے دکھ بھی ہوتا ہے۔ مثلاً89 ء میں برصغیر کی تقسیم سے متعلق ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں، میں نے یہ کہہ دیا کہ کتاب میں جدوجہد آزادی کے غیر مسلم راہ نمائوں کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی ہے، وہ غیر مناسب ہے، اور علمی زبان نہیں۔ مثلاً گاندھی کے نام کے ساتھ شاطر وغیرہ لکھنا۔ اس پر کتاب کے مولف، جنھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ میری تنقید کا خیرمقدم کریں گے، برا مان گئے، اور تقریر کرنے آئے تو طنزیہ لہجے میں کہنے لگے کہ بھئی! ہم نے تو تاریخ سے متعلق اتنی ضخیم کتاب مرتب کردی ہے، ڈاکٹر صاحب تو صرف پمفلٹ لکھتے ہیں، کبھی باقاعدہ کتاب لکھیں تو جانیں۔ تو ایسی باتیں بھی سننے کو ملتی رہی ہیں۔ جائز تنقید برداشت کرنے کا بھی ہمارے ہاں رواج نہیں ہے۔
مجھے تین ایوارڈ ملے ہیں، جو ریاست کی طرف سے نہیں ہیں۔ ان کی یاد بھی ذہن میں رہتی ہے۔ سب سے پہلے فیض فائونڈیشن نے فیض ایوارڈ دیا۔ پھر سندھ ادبی سنگت نے پیر حسام الدین راشدی گولڈ میڈل سے نوازا۔ دس سال قبل، بھارت سے رام کرشن آرگنائزیشن سے کمیونل ہارمنی ایوارڈ ملا۔ یہ ایوارڈ اس لیے سب سے یادگار حیثیت اختیار کرگیا کہ اسے میں نے دلائی لامہ کے ہاتھوں وصول کیا۔ میں نے دلائی لامہ سے کہا کہ میری خوش قسمتی ہے کہ ان سے میری ملاقات ہوگئی۔ دلائی لامہ سے پاکستان میں ملنا، کبھی ممکن نہ ہوتا، کیوںکہ چین سے دوستی کی وجہ سے ہم تو کھی اپنے ہاں دلائی لامہ کو نہیں بلائیں گے۔ وہ مجھے بڑے مہذب، نفیس اور پڑھے لکھے انسان لگے۔ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ شام چھے بجے سوجاتے ہیں اور صبح تین بجے اٹھتے ہیں۔ یہ ان کا معمول ہے۔ ان سے ملاقات کی یاد ہمیشہ ذہن میں تابندہ رہی۔
1976ء میں جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کا ملنا بھی ناقابل فراموش یاد ہے۔ جرمنی میں ڈگری دینے سے قبل آپ کا آخری امتحان، مکمل طور پر زبانی ہوتا ہے، جس میں پوری فیکلٹی بیٹھتی ہے، جو آپ سے کام کے بارے میں سوال کرتی ہے۔ دو گھنٹے یہ انٹرویو چلتا رہا۔ اس دوران کافی بھی چلتی رہتی ہے اور بڑے اچھے ماحول میں مکالمہ ہوتا ہے۔ میرا انٹرویو بہت اچھا ہوا۔ انٹرویو کے پندرہ بیس منٹ بعد ہی حتمی نتیجے سے آگاہ کردیا جاتا ہے۔ یہ پندرہ بیس منٹ بڑی بے چینی میں گزرے، لیکن جب کام یابی کی خبر ملی تو خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری اکیڈمک زندگی میں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے ملنے سے آپ میں اعتماد آتا ہے اور آپ زیادہ یکسو ہوکر اور ذمہ داری سے اپنا کام کرتے ہیں۔
میری تحریروں سے بہت سے لوگوں نے، جس دیدہ دلیری سے سرقہ کیا ہے، وہ مجھے حیران بھی کرتا ہے اور بھولتا بھی نہیں۔ مثلا،ً ایک صاحب جو بڑے مشہور اینکر ہیں، وہ اپنے پروگرام میں بڑے دھڑلے سے میری تحریروں سے پیراگراف کے پیراگراف پڑھتے ہے، لیکن مجال ہے، کبھی میرا حوالہ دینے کی زحمت گوارا کی ہو۔ یہ صاحب مجھے اتفاقاً مل گئے، تو میں نے ان سے بات کی تو کہنے لگے کہ وہ تو میرا حوالہ دیتے ہیں، ان کا کہنا صریحاً غلط تھا، انہوں نے کبھی میرا نام اپنے پروگرام نہیں لیا۔ ان صاحب نے ایک بڑے نجی ٹی وی چینل کے لیے مجھے دبئی بلا کر دو طویل انٹرویو بھی کیے، جو کبھی آن ایئر نہیں ہوئے۔
اس چینل سے میرے چار انٹرویو ایسے ہیں، جنھیں ریکارڈ کرلینے کے بعد پیش نہیں کیا گیا۔ میرا سوال ہے کہ اگر آپ تاریخ سے متعلق سچ دکھا نہیں سکتے اور آپ میں جرأت نہیں تو پھر مجھے بلاتے کیوں ہو؟ کچھ عرصہ قبل تاریخ سے متعلق ایک صاحب نے مجھے کتاب پیش کی تو مجھے یوں لگا ، جیسے میں اپنی کتاب ہی پڑھ رہا ہوں۔ کہیں کہیں بس میرا حوالہ دیا گیا تھا، اب اسے معصومیت کہوں یا جرأت ، میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے تعلیمی اداروں کے اساتذہ بھی سرقہ کرتے پکڑے گئے ہیں۔ یہ ساری باتیں دُکھ دیتی ہیں، لیکن لوگ ان غلط حرکتوں سے باز ہی نہیں آتے۔
زندگی میں بہت سی کتابیں ایسی ہیں، جنھیں پڑھ کر احساس ہوا کہ جیسے ذہن کے دریچے کھل گئے ہیں۔ ایسی کتابوں میں کارل پوپر کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب The Open Society and Its Enemiesہے۔ وہ افلاطون سے شروع ہوکر ہیگل تک آتا ہے۔ اس نے بتایا کہ یہ لوگ اوپن سوسائٹی کے دشمن تھے۔ اس نے فلسفے کی پوری تاریخ کو کھنگال ڈالا ہے۔ دنیا میں افلاطون اور ہیگل کی فکر کا باقی فلاسفہ کے مقابلے میں زیادہ ذکر ہوا ہے، اس لیے ان دونوں پر اس نے زیادہ گرفت کی ہے۔ کارل پوپر، بیسویں صدی کے بڑے دماغوں میں سے ایک تھا۔ لندن اسکول آف اکنامکس کا پروفیسر رہا۔ آئن اسٹائن خاص طور پر اس کے لیکچر سننے آتا تھا۔ اپنے تعلیمی سفر میں، وہ کتابیں جو میرے لیے بڑی چشم کشا ثابت ہوئیں، ان میں کارل پوپر کی یہ کتاب سرفہرست ہے۔