حیرت کدہ
ممکن ہے آپ سوچیں میں ایک چھوٹے شہر کی آہستہ خرام زندگی کی مذمت کر رہا ہوں۔
لاہور:
پورے سات روزکراچی کے شوروشر اور اس کی ہنگامہ خیزی میں بسر کرنے کے بعد نواب شاہ پہنچا ہوں شام کا وقت ہے۔ روشنی دھیرے دھیرے ماند پڑتی جا رہی ہے اور شام کے دھندلکے کمال آہستگی سے افق مشرق سے اٹھتے خراماں خراماں آسمان کی وسعتوں میں پھیل رہے ہیں۔ ان دھندلکوں کی ہمراہی میں کچھ تھکے تھکے سست رو پرندے نجانے کب سے بساط فلک کو پار کرنے کی سعی لاحاصل میں مبتلا ہیں۔ ان کی منزل درختوں کا وہ تاریک سا جھنڈ ہے۔ جو شہرکے آخری کنارے پر ایک سیاہ دیوار کی طرح کھڑا ہے۔
اس دیوار کے ساتھ ساتھ شہر کی ایک کچی سڑک اوراس سڑک پر ایک بیل گاڑی ہلکی ہلکی موسیقی کو جنم دیتی اس قدر آہستگی سے رواں ہے کہ گمان ہوتا ہے جیسے اس کی کوئی منزل ہی نہیں ہے۔ گاڑی بان نیم غنودگی کے عالم میں سکون واطمینان کے ساتھ بیل گاڑی میں نیم دراز سالوں پرانا کوئی گیت گنگنا رہا ہے۔ چاروں طرف گہرا سناٹا ہے۔ جسے لرزتے ہوئے گیت نے اور بھی گہرا کردیا ہے کراچی کی تیز رفتار زندگی کے بعد نواب شاہ جیسے چھوٹے شہر میں دھیرے دھیرے بجھتی ہوئی یہ شام یہ سست رو پرندے یہ بیل گاڑی اور اس کا گاڑی بان۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تیزی سے چلتی ہوئی، ماردھاڑ سے بھرپور کوئی فلم یک لخت سست رو ہوگئی ہو اور ہر شے مضحکہ خیز آہستگی کا مظاہرہ کرنے لگی ہو۔
ممکن ہے آپ سوچیں میں ایک چھوٹے شہر کی آہستہ خرام زندگی کی مذمت کر رہا ہوں۔ یہ بات درست نہیں دراصل میں نے تو اس احساس کو بیان کیا ہے جو کراچی کے شور و شر سے نواب شاہ کی نسبتاً خاموش فضا میں یکلخت وارد ہونے سے پیدا ہوا۔ کیونکہ کراچی International Cityہے۔ اس کی ہنگامہ خیزی، شوریدہ سری اور تیز رفتاری میں اس احساس کی نمود کہ وقت کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ محض واہمہ ہے وقت تو ایک خاص رفتار سے رواں دواں ہے نہ یہ تیز ہوتا ہے نہ مدھم البتہ کسی بڑے شہر کے ماحول میں خود آپ وقت کی نسبت تیز ہوجاتے ہیں اور اس تیزی کے ساتھ آپ کے دل کی دھڑکن اور اعضا کی حرکت بھی تیز ہوجاتی ہے۔
جیسے دو چار دن قبل اس وقت اچانک تیز ہوگئی جب سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں JIT کی رپورٹ سامنے آئی جس میں واضح طور پر فیکٹری میں آگ لگانے کا ذمے دار متحدہ قومی موومنٹ (MQM)کو قرار دیا گیا۔ اور ثبوت کے طور پر جو ملزم رضوان قریشی کے نام سے گرفتار کیا گیا کا اقبالی بیان ہے جس نے اعتراف جرم کرتے ہوئے واضح طور پر اپنا سیاسی و تنظیمی تعلق MQM سے بتایا۔ اس نے کہا کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کا علاقائی عہدیدار ہے اور اس جرم میں اس کے ساتھ دیگر معاونین بھی شامل تھے جو ایک اطلاع کے مطابق گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
JIT کی رپورٹ مشتہر ہونے اور عدالت میں جمع کروانے کے بعد سیاسی و دینی رہنماؤں کی جانب سے MQM کے لیے جس شدید مذمت و مخالفت کی امید کی جا رہی تھی۔ حیرت انگیز طور پر وہ نظر نہیں آئی۔ امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق، عمران خان، خورشید شاہ یا اب ذوالفقار مرزا کے علاوہ کوئی قابل ذکر آواز سنائی نہیں دی۔ نہ مخالفت میں نہ حمایت میں۔ البتہ عمران خان کے بیانات، پریس کانفرنسز شدید تر تھے۔ انھوں نے حکومت سے معاملے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ جواباً MQM کی رابطہ کمیٹی اور الطاف حسین نے بھی ان پر الزامات عائد کیے۔
یوں الزامات کی Export, Import کا سلسلہ دو چار دن جاری رہا کہ اچانک ایک حیران کن "Break Throw" اس وقت دیکھنے میں آیا جب قائد تحریک نے معافی نامہ جاری کردیا۔ "Sorry" کہہ کر انھوں نے جلتی پر پانی ڈال دیا۔ ملک بھر میں حیرانی واستعجاب کی لہر دوڑ گئی۔ یعنی کہاں الطاف حسین اور کہاں معافی۔ گویا مشرق و مغرب گلے مل گئے یا آسمان و زمین یکجا ۔ بہرحال صورتحال ناقابل یقین رہی لیکن جو تنازعہ ملک کو احتجاج اور ہڑتال کی طرف لے جا رہا تھا وہ تھم گیا۔ اچانک رک گیا۔
PTI اور MQM دونوں ہی ٹھنڈے پڑنے لگے۔ بڑھا ہوا بلڈ پریشر اعتدال پر آگیا اور ابھی اس وقت تک سب ٹھیک ہونے جا رہا ہے جیسی بات لکھنے میں حرج محسوس نہیں ہو رہا۔لیکن یہ ممکن کیسے ہوا؟ اگر سوچیں تو کوئی ''تیسرا ہاتھ''؟ پس پردہ بیرونی دباؤ؟ یا کچھ صلح کار؟ کس نے کیا کردار ادا کیا۔ اگرچہ آنیوالے دنوں میں لکھنے والے اس پر کم نہیں لکھیں گے۔ بلکہ ایسے ایسے زاویوں سے لکھیں گے جیسے یہ تصفیہ انھوں نے خود جا کر کروایا ہو۔ لیکن معمہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ حیرت کدے میں جو کچھ موجود ہے شاید ہمیشہ کے لیے موجود ہی رہ جائے۔ قطع نظر اس سے جس امر پر بہت افسوس ہوا۔
وہ ہے ''مجرمانہ خاموشی'' (Criminal Silence)۔ محض اس لیے کہ تعلقات بچ جائیں۔ کاروبار پر حرف نہ آئے۔ یا حکومت محفوظ رہے۔ایسے میں امیر جماعت مولانا سراج الحق اور PTI کے چیئرمین عمران خان کو بہترین الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ جنھوں نے نفع و نقصان کی پرواہ کیے بغیر ان لواحقین کی آنکھوں سے آنسو پونچھ دیے۔ جن کے پیارے اس جانکاہ حادثے کی نذر ہوئے۔ بھتے کی آگ میں جل کر خاکستر ہو گئے۔
دونوں رہنماؤں نے قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کا اتباع کیا ''ونہی عن المنکر و عن المعروف'' بلاشبہ ایسے ہی رہنماؤں کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہے جو کسی خاص طبقے، برادری یا قبیلے کے ترجمان نہیں۔ یا وہ کسی ایک صوبے کے خادم اعلیٰ نہیں ہیں۔ وہ ہر اس مجبور و بے بس کے ہمراہ و ہم قدم ہیں جو ظلم و جبر کی چکی میں پس رہا ہے۔ خواہ وہ کسی بھی قوم سے ہو۔ لہٰذا یہ امید بجا طور پر پیدا ہو چلی کہ ملک اب ایسی قیادت سے خالی نہیں جس پر تمام اقوام و صوبے اتفاق رکھتے ہیں۔
اس نتیجے پر پہنچنے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی کہ قائد تحریک کی معافی کے پس پردہ جو سب سے بڑی حقیقت ہے وہ عمران خان کی کراچی سمیت پورے ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت ہے۔ اور مجھے قطعاً یقین ہے کہ الیکشن کل ہوں یا تین سال بعد "Imran Khan has come as prime minister"ان کی جماعت بلامبالغہ 3rd اکثریت حاصل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ میرا ایسا کہنے یا دعویٰ کرنے کی وجہ میاں صاحبان کی بری حکومتی کارکردگی (Bad Governance) نہیں بلکہ ان کی حکومت کا طویل المدت ہونا ہے۔ جسے وہ 35 سالوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ لہٰذا عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ جو امر فطرت ہے۔
اب میاں صاحب سونے کی سڑکیں بنالیں یا چاندی کی۔ یا ملک کو ایشین ٹائیگر بنادیں۔ کشکول توڑ دیں یا پکا کریں۔ آنیوالا الیکشن ان کا نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک الگ بحث ہے۔سردست میری ان سے درخواست ہے کہ آپ حق اور سچ سے صرف نظر نہ کریں سانحہ بلدیہ ٹاؤن تاریخ میں دہشت گردی کی بدترین کارروائی تھی۔ جس نے سیکڑوں معصوم لوگوں کی جان انتہائی بہیمانہ طریقے سے لے لی۔ ہزاروں بچے یتیم ہوگئے، گھروں کے گھر اجڑ گئے۔ ایسے میں حکومت کو بسانا یا بچانا مناسب نہ ہوگا۔ سانحے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کروائیے۔ آپ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ عدل و انصاف آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ امید ہے کہ سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپ ایکشن لیں گے۔
پورے سات روزکراچی کے شوروشر اور اس کی ہنگامہ خیزی میں بسر کرنے کے بعد نواب شاہ پہنچا ہوں شام کا وقت ہے۔ روشنی دھیرے دھیرے ماند پڑتی جا رہی ہے اور شام کے دھندلکے کمال آہستگی سے افق مشرق سے اٹھتے خراماں خراماں آسمان کی وسعتوں میں پھیل رہے ہیں۔ ان دھندلکوں کی ہمراہی میں کچھ تھکے تھکے سست رو پرندے نجانے کب سے بساط فلک کو پار کرنے کی سعی لاحاصل میں مبتلا ہیں۔ ان کی منزل درختوں کا وہ تاریک سا جھنڈ ہے۔ جو شہرکے آخری کنارے پر ایک سیاہ دیوار کی طرح کھڑا ہے۔
اس دیوار کے ساتھ ساتھ شہر کی ایک کچی سڑک اوراس سڑک پر ایک بیل گاڑی ہلکی ہلکی موسیقی کو جنم دیتی اس قدر آہستگی سے رواں ہے کہ گمان ہوتا ہے جیسے اس کی کوئی منزل ہی نہیں ہے۔ گاڑی بان نیم غنودگی کے عالم میں سکون واطمینان کے ساتھ بیل گاڑی میں نیم دراز سالوں پرانا کوئی گیت گنگنا رہا ہے۔ چاروں طرف گہرا سناٹا ہے۔ جسے لرزتے ہوئے گیت نے اور بھی گہرا کردیا ہے کراچی کی تیز رفتار زندگی کے بعد نواب شاہ جیسے چھوٹے شہر میں دھیرے دھیرے بجھتی ہوئی یہ شام یہ سست رو پرندے یہ بیل گاڑی اور اس کا گاڑی بان۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تیزی سے چلتی ہوئی، ماردھاڑ سے بھرپور کوئی فلم یک لخت سست رو ہوگئی ہو اور ہر شے مضحکہ خیز آہستگی کا مظاہرہ کرنے لگی ہو۔
ممکن ہے آپ سوچیں میں ایک چھوٹے شہر کی آہستہ خرام زندگی کی مذمت کر رہا ہوں۔ یہ بات درست نہیں دراصل میں نے تو اس احساس کو بیان کیا ہے جو کراچی کے شور و شر سے نواب شاہ کی نسبتاً خاموش فضا میں یکلخت وارد ہونے سے پیدا ہوا۔ کیونکہ کراچی International Cityہے۔ اس کی ہنگامہ خیزی، شوریدہ سری اور تیز رفتاری میں اس احساس کی نمود کہ وقت کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ محض واہمہ ہے وقت تو ایک خاص رفتار سے رواں دواں ہے نہ یہ تیز ہوتا ہے نہ مدھم البتہ کسی بڑے شہر کے ماحول میں خود آپ وقت کی نسبت تیز ہوجاتے ہیں اور اس تیزی کے ساتھ آپ کے دل کی دھڑکن اور اعضا کی حرکت بھی تیز ہوجاتی ہے۔
جیسے دو چار دن قبل اس وقت اچانک تیز ہوگئی جب سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں JIT کی رپورٹ سامنے آئی جس میں واضح طور پر فیکٹری میں آگ لگانے کا ذمے دار متحدہ قومی موومنٹ (MQM)کو قرار دیا گیا۔ اور ثبوت کے طور پر جو ملزم رضوان قریشی کے نام سے گرفتار کیا گیا کا اقبالی بیان ہے جس نے اعتراف جرم کرتے ہوئے واضح طور پر اپنا سیاسی و تنظیمی تعلق MQM سے بتایا۔ اس نے کہا کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کا علاقائی عہدیدار ہے اور اس جرم میں اس کے ساتھ دیگر معاونین بھی شامل تھے جو ایک اطلاع کے مطابق گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
JIT کی رپورٹ مشتہر ہونے اور عدالت میں جمع کروانے کے بعد سیاسی و دینی رہنماؤں کی جانب سے MQM کے لیے جس شدید مذمت و مخالفت کی امید کی جا رہی تھی۔ حیرت انگیز طور پر وہ نظر نہیں آئی۔ امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق، عمران خان، خورشید شاہ یا اب ذوالفقار مرزا کے علاوہ کوئی قابل ذکر آواز سنائی نہیں دی۔ نہ مخالفت میں نہ حمایت میں۔ البتہ عمران خان کے بیانات، پریس کانفرنسز شدید تر تھے۔ انھوں نے حکومت سے معاملے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ جواباً MQM کی رابطہ کمیٹی اور الطاف حسین نے بھی ان پر الزامات عائد کیے۔
یوں الزامات کی Export, Import کا سلسلہ دو چار دن جاری رہا کہ اچانک ایک حیران کن "Break Throw" اس وقت دیکھنے میں آیا جب قائد تحریک نے معافی نامہ جاری کردیا۔ "Sorry" کہہ کر انھوں نے جلتی پر پانی ڈال دیا۔ ملک بھر میں حیرانی واستعجاب کی لہر دوڑ گئی۔ یعنی کہاں الطاف حسین اور کہاں معافی۔ گویا مشرق و مغرب گلے مل گئے یا آسمان و زمین یکجا ۔ بہرحال صورتحال ناقابل یقین رہی لیکن جو تنازعہ ملک کو احتجاج اور ہڑتال کی طرف لے جا رہا تھا وہ تھم گیا۔ اچانک رک گیا۔
PTI اور MQM دونوں ہی ٹھنڈے پڑنے لگے۔ بڑھا ہوا بلڈ پریشر اعتدال پر آگیا اور ابھی اس وقت تک سب ٹھیک ہونے جا رہا ہے جیسی بات لکھنے میں حرج محسوس نہیں ہو رہا۔لیکن یہ ممکن کیسے ہوا؟ اگر سوچیں تو کوئی ''تیسرا ہاتھ''؟ پس پردہ بیرونی دباؤ؟ یا کچھ صلح کار؟ کس نے کیا کردار ادا کیا۔ اگرچہ آنیوالے دنوں میں لکھنے والے اس پر کم نہیں لکھیں گے۔ بلکہ ایسے ایسے زاویوں سے لکھیں گے جیسے یہ تصفیہ انھوں نے خود جا کر کروایا ہو۔ لیکن معمہ حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔ حیرت کدے میں جو کچھ موجود ہے شاید ہمیشہ کے لیے موجود ہی رہ جائے۔ قطع نظر اس سے جس امر پر بہت افسوس ہوا۔
وہ ہے ''مجرمانہ خاموشی'' (Criminal Silence)۔ محض اس لیے کہ تعلقات بچ جائیں۔ کاروبار پر حرف نہ آئے۔ یا حکومت محفوظ رہے۔ایسے میں امیر جماعت مولانا سراج الحق اور PTI کے چیئرمین عمران خان کو بہترین الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ جنھوں نے نفع و نقصان کی پرواہ کیے بغیر ان لواحقین کی آنکھوں سے آنسو پونچھ دیے۔ جن کے پیارے اس جانکاہ حادثے کی نذر ہوئے۔ بھتے کی آگ میں جل کر خاکستر ہو گئے۔
دونوں رہنماؤں نے قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ کا اتباع کیا ''ونہی عن المنکر و عن المعروف'' بلاشبہ ایسے ہی رہنماؤں کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہے جو کسی خاص طبقے، برادری یا قبیلے کے ترجمان نہیں۔ یا وہ کسی ایک صوبے کے خادم اعلیٰ نہیں ہیں۔ وہ ہر اس مجبور و بے بس کے ہمراہ و ہم قدم ہیں جو ظلم و جبر کی چکی میں پس رہا ہے۔ خواہ وہ کسی بھی قوم سے ہو۔ لہٰذا یہ امید بجا طور پر پیدا ہو چلی کہ ملک اب ایسی قیادت سے خالی نہیں جس پر تمام اقوام و صوبے اتفاق رکھتے ہیں۔
اس نتیجے پر پہنچنے میں مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی کہ قائد تحریک کی معافی کے پس پردہ جو سب سے بڑی حقیقت ہے وہ عمران خان کی کراچی سمیت پورے ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی عوامی مقبولیت ہے۔ اور مجھے قطعاً یقین ہے کہ الیکشن کل ہوں یا تین سال بعد "Imran Khan has come as prime minister"ان کی جماعت بلامبالغہ 3rd اکثریت حاصل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ میرا ایسا کہنے یا دعویٰ کرنے کی وجہ میاں صاحبان کی بری حکومتی کارکردگی (Bad Governance) نہیں بلکہ ان کی حکومت کا طویل المدت ہونا ہے۔ جسے وہ 35 سالوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ لہٰذا عوام تبدیلی چاہتے ہیں۔ جو امر فطرت ہے۔
اب میاں صاحب سونے کی سڑکیں بنالیں یا چاندی کی۔ یا ملک کو ایشین ٹائیگر بنادیں۔ کشکول توڑ دیں یا پکا کریں۔ آنیوالا الیکشن ان کا نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک الگ بحث ہے۔سردست میری ان سے درخواست ہے کہ آپ حق اور سچ سے صرف نظر نہ کریں سانحہ بلدیہ ٹاؤن تاریخ میں دہشت گردی کی بدترین کارروائی تھی۔ جس نے سیکڑوں معصوم لوگوں کی جان انتہائی بہیمانہ طریقے سے لے لی۔ ہزاروں بچے یتیم ہوگئے، گھروں کے گھر اجڑ گئے۔ ایسے میں حکومت کو بسانا یا بچانا مناسب نہ ہوگا۔ سانحے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کروائیے۔ آپ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ عدل و انصاف آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ امید ہے کہ سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپ ایکشن لیں گے۔