دہشت گردی
انسانی خون کی ندیاں بہانے اور ہنستے بستے شہروں کو اجاڑ کر قبرستان میں تبدیل کرنے کی جدید اصطلاح ’’دہشت گردی‘‘ ہے۔
ہفتہ میں پانچ ایام کی مسلسل ڈیوٹی کی انجام دہی کے بعد دو تعطیلات (ہفتہ، اتوار) کا آنا ہمارے لیے کچھ نہ کچھ مصروفیت کا سبب بنتا ہے۔ متذکرہ تعطیلات میں اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم تمام تفکرات سے آزاد ان سے لطف اندوز ہونے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ان ہی تعطیلات میں ایک تعطیل اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنی خوش دامن (ساس)کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ گھر میں جیسے ہی داخل ہوئے ہماری زوجہ کے بھائی کی شیرخوار بچی ہمیں دیکھ کر سہم گئی اور زاروقطار رونا شروع کردیا۔
ہم نے سہم جانے اور رونے کی وجہ اپنی ساس محترمہ سے دریافت کی تو انھوں نے جواب میں دلیل پیش کی کہ ''یہ بچے دورجدید کی پیداوار ہیں اور ان میں خصوصیت یہ ہے کہ انسانوں کی شکل سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں جبکہ جانوروں سے بہت پیارکرتے ہیں اور جانور ہی کو اپنا کھلونا اور دوست سمجھتے ہیں۔'' ہم نے اپنی ساس صاحبہ کی اس فکرانگیز پہلو پر گہرائی میں غور کیا۔ بلاشبہ یہ ایک دائمی حقیقت اور سچائی پر مبنی فکر تھی جو انھوں نے تجربے کی بنیاد پر بیان کردی۔ بڑے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ انسان انسان ہی کا دشمن اور مقدس انسانی خون کا سوداگر ہے۔
دور قدیم اور دورجدید میں انسانی ہلاکتوں میں قدرے فرق نظر آتا ہے۔ زمانہ قدیم میں کسی مخصوص ہدف کے حصول کی جدوجہد میں اپنے مدمقابل سے معرکہ آرائی اور بزور طاقت زیر کرنا مقصد ہوا کرتا تھا اور علاقائی فتوحات کا دور تھا۔ اب مدمقابل سے جنگ وجدل محض ماضی کی ایک مردہ تصویر بن چکا ہے۔ آج کا دشمن مخفی ہے، چھپ کر اور دھوکے سے وارکرتا ہے۔ مرنے والے کو نہیں معلوم کہ کس پاداش میں اس کوقتل کیا جارہا ہے۔ معصوم نہتے شہریوں کا قتل گزشتہ ایک عشرے سے جاری ہے۔
ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت کرایے اور اجرت پیشہ قاتلوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں قتل عام کا ہدف دیا گیا ہے۔ اگر ماضی کے جھروکوں اور تاریخ کی ورق گردانی کریں تو دنیا کے نامور عوامی لیڈر وحاکم، چنگیرخان، ہلاکوخان، نپولین بوناپارٹ اور ہٹلر بھی اپنی بے پناہ خوبیوں کے باوجود انسانی قتل وغارت گری کا تمغہ سجائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بالخصوص جرمنی کے ایڈولف ہٹلر نے یہودیوں کی نسل کشی اور جرمنی سے مکمل طور پر یہودیوں کے انخلا کے لیے ان کے قتل وخون کا بازار گرم کیے رکھا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
انسانی خون کی ندیاں بہانے اور ہنستے بستے شہروں کو اجاڑ کر قبرستان میں تبدیل کرنے کی جدید اصطلاح ''دہشت گردی'' ہے۔ دہشت گردی آخر ہے کیا؟ کیوں کی جاتی ہے؟ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ دہشت گردی کے بجائے امن اور گفت وشنید کا راستہ کیوں نہیں اختیار کیا جاتا؟ مصنفین کے خیال میں دہشت گردی کا آغاز فلسطین کی سرزمین میں یہودی انتہاپسند ایک مذہبی فرقہ ''سکوئی'' سے ہوا۔ یہ ایک منظم مذہبی گروہ تھا، اس فرقے کی مجموعی تعداد نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے فلسطین کے یہودیوں سے تھی۔ اس گروہ نے قتل وغارت کے انوکھے طریقے اپنائے یعنی ان کا ایک مخصوص ہتھیار جو ایک چھوٹی سی تلوار تھی جسے (Sica) کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے اس فرقہ کا نام سکرئی پڑگیا۔ اس فرقے کے لوگ اس چھوٹی سی تلوار کو اپنے کوٹ کی آستین میں چھپا کر رکھا کرتے تھے اور ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ یہ ایسے عوامی مقامات پر اچانک حملہ کردیتے جہاں انسانوں کا جم غفیر ہوتا جس سے انسانی ہلاکتوں کی تعداد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوسکے۔ انقلاب فرانس کے دو سال کے قلیل عرصے کے بعد یعنی 1793 اور 1794 کے دوران دہشت گردی کا باقاعدہ آغاز ہوا اور اس کی ترویج کے لیے ایک Regime De La Terreur نامی تحریک ''رابس پرے'' کی سربراہی میں قائم کی گئی۔
لفظ Terreur اسی تحریک کی مناسبت سے دہشت اور دہشت گردی سے منسوب کیا گیا ہے۔ انقلاب فرانس میں Terrair تحریک کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں Terror کا لفظ بطور دہشت سمجھا جانے لگا۔ چنانچہ 1796 میں پہلی بار Terror کا لفظ فرانس کی لغت (Dictionary) میں شامل کیا گیا لیکن اس لغت میں Terror کے جومعنی بیان کیے گئے وہ دہشت تو تھے لیکن ان کے معانی کو مثبت کارروائی کے طور پر لیا گیا اور اگلے دو سال تک یہ Terror مثبت معنی ہی میں زیراستعمال رہا۔ لیکن 1798 میں فرانس کی دوسری لغت منظرعام پر آئی، اس میں Terror کے معنی منفی طور پر ظاہرکیے گئے اور Terrorism سے مراد منفی دہشت گردی لیا گیا۔
دہشت گردی بنیادی طور پر معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کے نتیجے میں جنم لیتی ہے۔ انسان اپنا حق مانگنے سے محروم رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان بجائے اپناحق مانگنے کے، حق چھیننے کی پالیسی پر کاربند ہوجانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ عصر حاضر میں دہشت گردی کی چار اہم اقسام ہیں۔
1۔ سیاسی دہشت گردی۔ 2۔ مذہبی دہشت گردی۔ 3۔معاشی دہشت گردی۔ 4۔ریاستی دہشت گردی (اقتدار کا حصول یا اقتدار کو طول دینا) ان میں مارکسسٹ، فرقہ وارانہ، لسانی، خارجہ، مجرمانہ، تحریک آزادی، انفرادی، جنونی۔ احتجاجی، انتظامی، نفسیاتی، انقلابی، گوریلا اور جنگی دہشت گردیاں انہی چار مرکزی دہشت گردیوں کا احاطہ کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔
گزشتہ دنوں ایکسپریس کی ایک اشاعت میں شائع ہونے والا تشنہ بریلوی کا کالم بعنوان 'تمہارے درپہ جنت منتظر ہے'' بڑی عقل وفہم کی بات لکھی ہے، لکھتے ہیں ''ہر حالت میں اپنے صنعتی مزدوروں (کسانوں) کو خوش رکھو، ان کو سپاہیوں کی طرح استعمال کرو، بھوکا سپاہی تو اپنے افسر کو بھی قتل کردیتا ہے لیکن پیٹ بھرا سپاہی جان کی بازی لگانے کو تیار ہوجاتا ہے۔ بیروزگاری ختم کرو، خوش وخرم کارکن تمہارے سب مسائل حل کردیں گے۔ ''
یاد رہے کہ اس سے پہلے اس اصول پر جرمن ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر نے عمل کرکے جرمنی کو بے حد خوشحال اور طاقتور بنادیا تھا۔ دہشت گردی کی روک تھام کے پس منظر میں اس قسم کے مثبت اور تعمیری اقدامات اور عوامل وطن عزیز کے مایوس اور محروم طبقے کے درمیان امن وبھائی چارگی کے ماحول کی فراہمی میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
ہم نے سہم جانے اور رونے کی وجہ اپنی ساس محترمہ سے دریافت کی تو انھوں نے جواب میں دلیل پیش کی کہ ''یہ بچے دورجدید کی پیداوار ہیں اور ان میں خصوصیت یہ ہے کہ انسانوں کی شکل سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں جبکہ جانوروں سے بہت پیارکرتے ہیں اور جانور ہی کو اپنا کھلونا اور دوست سمجھتے ہیں۔'' ہم نے اپنی ساس صاحبہ کی اس فکرانگیز پہلو پر گہرائی میں غور کیا۔ بلاشبہ یہ ایک دائمی حقیقت اور سچائی پر مبنی فکر تھی جو انھوں نے تجربے کی بنیاد پر بیان کردی۔ بڑے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ انسان انسان ہی کا دشمن اور مقدس انسانی خون کا سوداگر ہے۔
دور قدیم اور دورجدید میں انسانی ہلاکتوں میں قدرے فرق نظر آتا ہے۔ زمانہ قدیم میں کسی مخصوص ہدف کے حصول کی جدوجہد میں اپنے مدمقابل سے معرکہ آرائی اور بزور طاقت زیر کرنا مقصد ہوا کرتا تھا اور علاقائی فتوحات کا دور تھا۔ اب مدمقابل سے جنگ وجدل محض ماضی کی ایک مردہ تصویر بن چکا ہے۔ آج کا دشمن مخفی ہے، چھپ کر اور دھوکے سے وارکرتا ہے۔ مرنے والے کو نہیں معلوم کہ کس پاداش میں اس کوقتل کیا جارہا ہے۔ معصوم نہتے شہریوں کا قتل گزشتہ ایک عشرے سے جاری ہے۔
ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت کرایے اور اجرت پیشہ قاتلوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں قتل عام کا ہدف دیا گیا ہے۔ اگر ماضی کے جھروکوں اور تاریخ کی ورق گردانی کریں تو دنیا کے نامور عوامی لیڈر وحاکم، چنگیرخان، ہلاکوخان، نپولین بوناپارٹ اور ہٹلر بھی اپنی بے پناہ خوبیوں کے باوجود انسانی قتل وغارت گری کا تمغہ سجائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بالخصوص جرمنی کے ایڈولف ہٹلر نے یہودیوں کی نسل کشی اور جرمنی سے مکمل طور پر یہودیوں کے انخلا کے لیے ان کے قتل وخون کا بازار گرم کیے رکھا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
انسانی خون کی ندیاں بہانے اور ہنستے بستے شہروں کو اجاڑ کر قبرستان میں تبدیل کرنے کی جدید اصطلاح ''دہشت گردی'' ہے۔ دہشت گردی آخر ہے کیا؟ کیوں کی جاتی ہے؟ اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ دہشت گردی کے بجائے امن اور گفت وشنید کا راستہ کیوں نہیں اختیار کیا جاتا؟ مصنفین کے خیال میں دہشت گردی کا آغاز فلسطین کی سرزمین میں یہودی انتہاپسند ایک مذہبی فرقہ ''سکوئی'' سے ہوا۔ یہ ایک منظم مذہبی گروہ تھا، اس فرقے کی مجموعی تعداد نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے فلسطین کے یہودیوں سے تھی۔ اس گروہ نے قتل وغارت کے انوکھے طریقے اپنائے یعنی ان کا ایک مخصوص ہتھیار جو ایک چھوٹی سی تلوار تھی جسے (Sica) کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے اس فرقہ کا نام سکرئی پڑگیا۔ اس فرقے کے لوگ اس چھوٹی سی تلوار کو اپنے کوٹ کی آستین میں چھپا کر رکھا کرتے تھے اور ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ یہ ایسے عوامی مقامات پر اچانک حملہ کردیتے جہاں انسانوں کا جم غفیر ہوتا جس سے انسانی ہلاکتوں کی تعداد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہوسکے۔ انقلاب فرانس کے دو سال کے قلیل عرصے کے بعد یعنی 1793 اور 1794 کے دوران دہشت گردی کا باقاعدہ آغاز ہوا اور اس کی ترویج کے لیے ایک Regime De La Terreur نامی تحریک ''رابس پرے'' کی سربراہی میں قائم کی گئی۔
لفظ Terreur اسی تحریک کی مناسبت سے دہشت اور دہشت گردی سے منسوب کیا گیا ہے۔ انقلاب فرانس میں Terrair تحریک کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے نتیجے میں Terror کا لفظ بطور دہشت سمجھا جانے لگا۔ چنانچہ 1796 میں پہلی بار Terror کا لفظ فرانس کی لغت (Dictionary) میں شامل کیا گیا لیکن اس لغت میں Terror کے جومعنی بیان کیے گئے وہ دہشت تو تھے لیکن ان کے معانی کو مثبت کارروائی کے طور پر لیا گیا اور اگلے دو سال تک یہ Terror مثبت معنی ہی میں زیراستعمال رہا۔ لیکن 1798 میں فرانس کی دوسری لغت منظرعام پر آئی، اس میں Terror کے معنی منفی طور پر ظاہرکیے گئے اور Terrorism سے مراد منفی دہشت گردی لیا گیا۔
دہشت گردی بنیادی طور پر معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کے نتیجے میں جنم لیتی ہے۔ انسان اپنا حق مانگنے سے محروم رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان بجائے اپناحق مانگنے کے، حق چھیننے کی پالیسی پر کاربند ہوجانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ عصر حاضر میں دہشت گردی کی چار اہم اقسام ہیں۔
1۔ سیاسی دہشت گردی۔ 2۔ مذہبی دہشت گردی۔ 3۔معاشی دہشت گردی۔ 4۔ریاستی دہشت گردی (اقتدار کا حصول یا اقتدار کو طول دینا) ان میں مارکسسٹ، فرقہ وارانہ، لسانی، خارجہ، مجرمانہ، تحریک آزادی، انفرادی، جنونی۔ احتجاجی، انتظامی، نفسیاتی، انقلابی، گوریلا اور جنگی دہشت گردیاں انہی چار مرکزی دہشت گردیوں کا احاطہ کرتی ہوئی نظر آئیں گی۔
گزشتہ دنوں ایکسپریس کی ایک اشاعت میں شائع ہونے والا تشنہ بریلوی کا کالم بعنوان 'تمہارے درپہ جنت منتظر ہے'' بڑی عقل وفہم کی بات لکھی ہے، لکھتے ہیں ''ہر حالت میں اپنے صنعتی مزدوروں (کسانوں) کو خوش رکھو، ان کو سپاہیوں کی طرح استعمال کرو، بھوکا سپاہی تو اپنے افسر کو بھی قتل کردیتا ہے لیکن پیٹ بھرا سپاہی جان کی بازی لگانے کو تیار ہوجاتا ہے۔ بیروزگاری ختم کرو، خوش وخرم کارکن تمہارے سب مسائل حل کردیں گے۔ ''
یاد رہے کہ اس سے پہلے اس اصول پر جرمن ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر نے عمل کرکے جرمنی کو بے حد خوشحال اور طاقتور بنادیا تھا۔ دہشت گردی کی روک تھام کے پس منظر میں اس قسم کے مثبت اور تعمیری اقدامات اور عوامل وطن عزیز کے مایوس اور محروم طبقے کے درمیان امن وبھائی چارگی کے ماحول کی فراہمی میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔