امپورٹ کی آڑ میں ٹائر اسمگلنگ سے قومی خزانے کو بھاری نقصان
امپورٹر مافیا نے ایک بڑے ٹائر کے اندر 3 چھوٹے ٹائرز چھپا کرلانا شروع کردیے
MUNICH:
پاکستان میں بڑے پیمانے پر اسمگل شدہ ٹائرز کی بھرمار کے ساتھ اب امپورٹ کی آڑ میں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے لیے نیا حربہ استعمال کیا جانے لگا ہے۔
انڈسٹری ذرائع کے مطابق بیرون ملک سے درآمد ہونے والے ٹائرز پر پہلے ہی بڑے پیمانے پر انڈرانوائسنگ کی جارہی تھی تاہم اب امپورٹرز مافیا نے بڑے ٹائرز کے اندر تین چھوٹے ٹائرز چھپا کر درآمد کرنا شروع کردیے ہیں اس طرح قومی خزانے کو ایک کنٹینر کی امپورٹ پر تین کنٹینرز کے برابر ڈیوٹی اور ٹیکسز کا نقصان ہورہا ہے۔ کسٹم کی سطح پر ٹائرز کی درآمدی کنسائمنٹس کا وزن کرنے کی صورت میں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کو گرفت میں لیا جاسکتا ہے۔
ٹائر انڈسٹری کی جانب سے میڈیا کو فراہم کی جانے والی ویڈیو میں کراچی کے ایک علاقے میں ریلوے لائن کے نزدیک مین روڈ پر امپورٹ شدہ ٹائرز میں سے پوشیدہ ٹائرز نکالتے ہوئے دکھائے گئے ہیں، اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مقامی ٹائر سازی کی صنعت کے ساتھ خود کسٹم اور ایف بی آرحکام کی بھی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئی ہیں امپورٹ مافیا نے چھوٹے ٹائر کو اس سے بڑے ٹائر میں ڈالتے ہوئے تین ٹائروں کو ایک بڑے ٹائر میں چھپا رکھا تھا جسے دو افراد نے بڑے بڑے لوہے کی رارڈ اور ٹائروں کے کناروں پر آئلنگ کے ذریعے باہر نکالا، تاہم بے دردی کے ساتھ نکالنے کی وجہ سے تمام ٹائروں کے اندر آہنی دھاگوں کی بیلٹ اور ٹائر کے کناروں کو شدید نقصان پہنچا جبکہ ٹائروں کی ساخت اور شکل بھی بگڑتے ہوئے صاف دیکھی جاسکتی ہے۔
امپورٹرز کی جانب سے ڈیوٹی اور ٹیکسز بچانے کی یہ مذموم حرکت عوام کی جان کے لیے خطرہ ہے۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کے ٹائر استعمال کرنے کی صورت میں ہنگامی بریک لگنا مشکل ہے، اسی طرح ان ٹائرز کے رم سے اتر جانے اور گرفت ڈھیلی رہنے سے بھی سواریوں کو خطرہ لاحق ہوگا۔ پاکستانی ٹائر انڈسٹری کے مطابق ملک میں ٹائروں کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو اربوں روپے خسارے کا سامنا ہے۔ ہر سال 15 سے 17 ارب روپے کے ٹائر افغانستان سے ملحقہ علاقوں چمن، لنڈی کوتل اور طورخم کے راستے پاکستان لاکر پورے ملک میں پھیلائے جارہے ہیں۔ ان ٹائروں میں زیادہ تر سرد ممالک میں موسم سرما میں استعمال ہونے والے ٹائر شامل ہیں جن کے لیے پاکستان کا گرم موسم ناموافق ہونے کی وجہ سے سواریوں اور گاڑیوں کے لیے شدید خطرہ کا سبب ہیں۔
افغانستان سے یومیہ 200 سے 250 ٹرک اسمگل شدہ ٹائرز لے کر پاکستان آتے ہیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے ملک کے تمام شہروں تک ترسیل کرنے میں کامیاب ہیں۔ پاکستان میں مقامی سطح پر تیار ٹائرز کا مارکیٹ شیئر اسمگلنگ اور امپورٹ کی وجہ سے 23 فیصد تک محدود ہوچکا ہے جبکہ امپورٹ کا تناسب 40 فیصد تک پہنچ چکا ہے باقی طلب اسمگلنگ کے ذریعے پوری کی جاتی ہے جس سے قومی خزانے اور معیشت کو بھاری نقصان کا سامنا ہے۔ اسمگلنگ اور امپورٹ کی بھرمار کی وجہ سے مقامی صنعت میں توسیع اور سرمایہ کاری میں اضافے کا عمل رکا ہوا ہے اور مقامی صنعت مکمل پیداواری استعداد بروئے کار لانے سے بھی معذور ہے۔
پاکستان میں بڑے پیمانے پر اسمگل شدہ ٹائرز کی بھرمار کے ساتھ اب امپورٹ کی آڑ میں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے لیے نیا حربہ استعمال کیا جانے لگا ہے۔
انڈسٹری ذرائع کے مطابق بیرون ملک سے درآمد ہونے والے ٹائرز پر پہلے ہی بڑے پیمانے پر انڈرانوائسنگ کی جارہی تھی تاہم اب امپورٹرز مافیا نے بڑے ٹائرز کے اندر تین چھوٹے ٹائرز چھپا کر درآمد کرنا شروع کردیے ہیں اس طرح قومی خزانے کو ایک کنٹینر کی امپورٹ پر تین کنٹینرز کے برابر ڈیوٹی اور ٹیکسز کا نقصان ہورہا ہے۔ کسٹم کی سطح پر ٹائرز کی درآمدی کنسائمنٹس کا وزن کرنے کی صورت میں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کو گرفت میں لیا جاسکتا ہے۔
ٹائر انڈسٹری کی جانب سے میڈیا کو فراہم کی جانے والی ویڈیو میں کراچی کے ایک علاقے میں ریلوے لائن کے نزدیک مین روڈ پر امپورٹ شدہ ٹائرز میں سے پوشیدہ ٹائرز نکالتے ہوئے دکھائے گئے ہیں، اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مقامی ٹائر سازی کی صنعت کے ساتھ خود کسٹم اور ایف بی آرحکام کی بھی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئی ہیں امپورٹ مافیا نے چھوٹے ٹائر کو اس سے بڑے ٹائر میں ڈالتے ہوئے تین ٹائروں کو ایک بڑے ٹائر میں چھپا رکھا تھا جسے دو افراد نے بڑے بڑے لوہے کی رارڈ اور ٹائروں کے کناروں پر آئلنگ کے ذریعے باہر نکالا، تاہم بے دردی کے ساتھ نکالنے کی وجہ سے تمام ٹائروں کے اندر آہنی دھاگوں کی بیلٹ اور ٹائر کے کناروں کو شدید نقصان پہنچا جبکہ ٹائروں کی ساخت اور شکل بھی بگڑتے ہوئے صاف دیکھی جاسکتی ہے۔
امپورٹرز کی جانب سے ڈیوٹی اور ٹیکسز بچانے کی یہ مذموم حرکت عوام کی جان کے لیے خطرہ ہے۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کے ٹائر استعمال کرنے کی صورت میں ہنگامی بریک لگنا مشکل ہے، اسی طرح ان ٹائرز کے رم سے اتر جانے اور گرفت ڈھیلی رہنے سے بھی سواریوں کو خطرہ لاحق ہوگا۔ پاکستانی ٹائر انڈسٹری کے مطابق ملک میں ٹائروں کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو اربوں روپے خسارے کا سامنا ہے۔ ہر سال 15 سے 17 ارب روپے کے ٹائر افغانستان سے ملحقہ علاقوں چمن، لنڈی کوتل اور طورخم کے راستے پاکستان لاکر پورے ملک میں پھیلائے جارہے ہیں۔ ان ٹائروں میں زیادہ تر سرد ممالک میں موسم سرما میں استعمال ہونے والے ٹائر شامل ہیں جن کے لیے پاکستان کا گرم موسم ناموافق ہونے کی وجہ سے سواریوں اور گاڑیوں کے لیے شدید خطرہ کا سبب ہیں۔
افغانستان سے یومیہ 200 سے 250 ٹرک اسمگل شدہ ٹائرز لے کر پاکستان آتے ہیں اور بغیر کسی رکاوٹ کے ملک کے تمام شہروں تک ترسیل کرنے میں کامیاب ہیں۔ پاکستان میں مقامی سطح پر تیار ٹائرز کا مارکیٹ شیئر اسمگلنگ اور امپورٹ کی وجہ سے 23 فیصد تک محدود ہوچکا ہے جبکہ امپورٹ کا تناسب 40 فیصد تک پہنچ چکا ہے باقی طلب اسمگلنگ کے ذریعے پوری کی جاتی ہے جس سے قومی خزانے اور معیشت کو بھاری نقصان کا سامنا ہے۔ اسمگلنگ اور امپورٹ کی بھرمار کی وجہ سے مقامی صنعت میں توسیع اور سرمایہ کاری میں اضافے کا عمل رکا ہوا ہے اور مقامی صنعت مکمل پیداواری استعداد بروئے کار لانے سے بھی معذور ہے۔