بائیو میٹرک کیا ہے اور کیا نہیں ہے
کسی بزرگ کا قول زرین یہ ہے کہ علم سمندر ہے، اس میں کہیں بھی کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے
کسی کا قول ہے اور جب ''قول'' ہے تو کسی بزرگ کا ہی ہو گا اور جب کسی بزرگ کا ہے تو پھر ''زرین'' بھی ہو گا کیونکہ پرانے زمانوں میں ''زر'' نہایت ہی سستا تھا۔
کسی بزرگ کا قول زرین یہ ہے کہ علم سمندر ہے، اس میں کہیں بھی کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے جو چاہو اس میں مل سکتا ہے، اس لیے اتنا عرصہ اس ناہنجار نابکار سرابرہ مکار دنیا میں بغیر کسی جرم کے قید بامشقت گزارنے کے باوجود اب بھی ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جو ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں مثلاً ہم نے میٹرک سنا تھا، انڈر میٹرک سنا تھا، بابو میٹرک سنا تھا، ناپ تول کا میٹرک یعنی اعشاری نظام سنا تھا لیکن یہ ''بائیو میٹرک'' نہیں سنا تھا یا یوں کہیے کہ ان دونوں یعنی ''بائیو'' اور ''میٹرک'' کو یوں ایک ساتھ نہیں سنا تھا ۔
دونوں کو الگ الگ دیکھتے اور سنتے آئے تھے مثلاً بائیو کیمک سنا تھا، بائیو گیس سنا تھا، بائیوٹک سنا تھا، بائیو گرافی سے بھی واقف تھے حتیٰ کہ بائیو کھاد اور بائیو آب کے بارے میں بھی سنا تھا بلکہ ان سب کی ''مادر محترمہ'' بائیولوجی سے بھی کسی حد تک شناسائی لیکن یہ ''بائیو میٹرک'' بہت سارے لوگوں سے پوچھا بھی کہ کہاں سے آئی یہ جلیبی بائی لیکن کسی نے بتا کر نہ دیا ، اصل میں سارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہیں' لکھے تو بہت ہیں لیکن کچھ زیادہ پڑھے نہیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے تمام مقامات جن پر درس گاہ کی تہمت لگائی جا سکتی ہے۔
ہم کبھی نہیں گئے ۔ جانے کی حد تک گئے ضرور ہیں لیکن ہماری قسمت ہمارے ساتھ ہوتی تھی اس لیے کوئی نہ کوئی حادثہ' وقوعہ یا لفڑا ایسا ہو جاتا تھا جس کے نتیجے میں ہمارے ساتھ وہی کچھ پیش آتا جو ہمارے جد امجد حضرت آدم اور اس کے بعد ہمارے پیرو مرشید حضرت غالب کے ساتھ پیش آیا تھا یعنی
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
ویسے اس بات پر ہمیں تھوڑا سا فخر بھی ہے کہ کسی اور بات میں نہ سہی کم از کم ''بے آبروئی'' میں تو ہم اپنے جد امجد اور پیر و مرشید پر گئے ہیں' وہ مقامات جن پر درس گاہ ہونے کی تہمتیں لگی ہوئی تھیں یا لگائی جا سکتی ہیں، وہاں ہماری بے آبروئی کا تعلق اصل میں ستاروں سے ہے کیوں کہ ایسے مقامات پر جب بھی ہم جاتے کوئی نہ کوئی ایسی انہونی ہو جاتی جس کے نتیجے میں ہماری ان سے نہ نبھ پاتی اور ہم گھر لوٹ آتے تھے، زیادہ تر اور شدید اختلافات درسی کتب لکھنے والوں سے ہوتے تھے کیوں کہ وہ اکثر ''ترکی زبان'' میں لکھے ہوتے اور ہم
زبان یار من ترکی و من ترکی نہ می دانم
کہتے ہوئے نہایت ہی ''آبرو'' کے ساتھ وہاں سے نکل آتے ''آب رو'' یعنی چہرے پر پانی تو جانتے ہی ہوں گے چنانچہ ہمارا سارا تعلیمی عرصہ لگ بھگ انیس گھنٹے بنتا ہے جو کل ملا کر نو درس گاہوں پر تقسیم کیا جائے سوائے ایک کے جہاں ہم نے پورے نو گھنٹے گزارے تھے کیوں کہ استاد چھٹی پر تھا ، ظاہر ہے کہ اندریں حالات ہمارا پڑھنے کا ریکارڈ تو ناگفتہ بہ حد تک کم زور بلکہ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے البتہ لکھنے میں ہم ہمیشہ ٹاپ کرتے تھے۔
کیوں کہ اتنے تعلیمی عرصے میں ہم نے دیواروں پر اپنے دوستوں اور دشمنوں کے بارے میں اچھے خاصے تحریری کارنامے کیے اور مسلسل پریکٹس سے اتنی قابلیت بہم پہنچائی کہ اب وہی کام کاغذ پر بھی کر سکتے ہیں ، ایسے میں جب ''بائیو میٹرک'' جیسے مشکل الفاظ سے واسطہ پڑتا ہے تو پریشانی تو ہوتی ہی ہے لیکن خدا ہمارے پڑھنے والوں کو سلامت رکھے کہ ہم اپنی پریشانی کو شیئر کر لیتے ہیں۔
ہماری تو جہاں تک اس ناقابل بھروسہ سمجھ میں آیا ہے کہ بائیو اور میٹرک کو الگ الگ کر دیا جائے تو ''بائیو'' کا مطلب ہے، وہ بائیو کا مطلب ہوا اور میٹرک کا مطلب تو سوائے ''میٹرک'' کے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا، آپ کا کیا خیال ہے، ہم آپ کو بالکل بھی تکلیف نہ دیتے اگر ہمیں لغات اور ڈکشنریوں سے سخت پرخاش نہ ہوتی کیوں کہ یہ دنیا کی وہ واحد قسم کی کتابیں ہوتی ہیں جن میں گالیاں بھی لکھی ہوئی ہوتی ہیں، آپ ہی بتائیں ایسی کتابوں کو بھلا کوئی پسند کر سکتا ۔
یہ تو سراسر غیر شریفانہ بات ہے کہ ان گالیوں کی باقاعدہ تشریح بھی کی جاتی ہے اور یہ لوگ اپنے آپ کو عالم و فاضل کہہ کر اتنا بھی نہیں جانتے کہ گالیاں تحریری شکل میں بالکل بھی بے معنی ہو جاتی ہیں ''گالی'' صرف زبانی کلامی ہی زیادہ موثر ہوتی ہے چنانچہ ہم لغت اور ڈکشنری کو گھر میں رکھنا تو کیا دس فٹ بانس سے چھونا بھی پسند نہیں کرتے ورنہ ''بائیو میٹرک'' کو سمجھنے کے لیے اپنے پڑھنے والوں کو کیوں تکلیف دیتے لیکن یہ بھی مت سمجھیے گا کہ ہم نے آپ کو تکلیف دینے سے پہلے کسی اور سے رجوع نہیں کیا، علامہ بریانی عرف برڈ فلو نے تو صاف انکار کرتے ہوئے ہمیں الٹا مطعون کیا کہ اس قسم کی خرافات پر دھیان دینے کے بجائے اپنا وقت دو رکعت نفلوں اور ذکر اذکار میں صرف کرتے، البتہ چشم گل چشم عرف قہر خداوندی سابق ڈینگی مچھر نے اچھی خاصی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور ایک بڑا ہی قیمتی مشورہ بھی دیا جو زرین تو نہیں لیکن خاکین کا مستحق ضرور ہے۔
بولا ، یہ جو اخباروں میں روزانہ ''معلومات تک رسائی'' کے ڈنکے بج رہے ہیں، تم ان معلومات والوں سے کیوں نہیں معلوم کرتے لیکن بے چارے کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے کسی ''رستم'' سے رجوع کرنا ہو گا جو ان ہفت خوانوں کو سر کر سکے جو ''سرکاری'' اور ''معلومات'' دونوں کے گرد بنے ہوئے ہیں، اس لیے قارئین اب آپ ہی کا آسرا ہے کہ یہ ''بائیو میٹرک'' کیا ہے، ٹپ ہم ضرور دے سکتے ہیں، اس کا جائز یا ناجائز تعلق بلدیاتی انتخابات سے ہے بلکہ ایک اور ٹپ یہ لے لیجیے کہ اب بلدیاتی انتخابات بائیو میٹرک سے نہیں ہوں گے لیکن پھر بھی اگر بائیو میٹرک سے نہیں ہو رہے ہیں تو ''کیا '' نہیں ہو گا کیوں کہ یہ بھی آج تک پردہ راز میں ہے کہ انتخابات چاہے کسی قسم کے بھی ہوں اس سے کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں ہوتا ہے۔
کسی بزرگ کا قول زرین یہ ہے کہ علم سمندر ہے، اس میں کہیں بھی کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے جو چاہو اس میں مل سکتا ہے، اس لیے اتنا عرصہ اس ناہنجار نابکار سرابرہ مکار دنیا میں بغیر کسی جرم کے قید بامشقت گزارنے کے باوجود اب بھی ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جو ہمارے سر کے اوپر سے گزر جاتی ہیں مثلاً ہم نے میٹرک سنا تھا، انڈر میٹرک سنا تھا، بابو میٹرک سنا تھا، ناپ تول کا میٹرک یعنی اعشاری نظام سنا تھا لیکن یہ ''بائیو میٹرک'' نہیں سنا تھا یا یوں کہیے کہ ان دونوں یعنی ''بائیو'' اور ''میٹرک'' کو یوں ایک ساتھ نہیں سنا تھا ۔
دونوں کو الگ الگ دیکھتے اور سنتے آئے تھے مثلاً بائیو کیمک سنا تھا، بائیو گیس سنا تھا، بائیوٹک سنا تھا، بائیو گرافی سے بھی واقف تھے حتیٰ کہ بائیو کھاد اور بائیو آب کے بارے میں بھی سنا تھا بلکہ ان سب کی ''مادر محترمہ'' بائیولوجی سے بھی کسی حد تک شناسائی لیکن یہ ''بائیو میٹرک'' بہت سارے لوگوں سے پوچھا بھی کہ کہاں سے آئی یہ جلیبی بائی لیکن کسی نے بتا کر نہ دیا ، اصل میں سارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہیں' لکھے تو بہت ہیں لیکن کچھ زیادہ پڑھے نہیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے تمام مقامات جن پر درس گاہ کی تہمت لگائی جا سکتی ہے۔
ہم کبھی نہیں گئے ۔ جانے کی حد تک گئے ضرور ہیں لیکن ہماری قسمت ہمارے ساتھ ہوتی تھی اس لیے کوئی نہ کوئی حادثہ' وقوعہ یا لفڑا ایسا ہو جاتا تھا جس کے نتیجے میں ہمارے ساتھ وہی کچھ پیش آتا جو ہمارے جد امجد حضرت آدم اور اس کے بعد ہمارے پیرو مرشید حضرت غالب کے ساتھ پیش آیا تھا یعنی
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
ویسے اس بات پر ہمیں تھوڑا سا فخر بھی ہے کہ کسی اور بات میں نہ سہی کم از کم ''بے آبروئی'' میں تو ہم اپنے جد امجد اور پیر و مرشید پر گئے ہیں' وہ مقامات جن پر درس گاہ ہونے کی تہمتیں لگی ہوئی تھیں یا لگائی جا سکتی ہیں، وہاں ہماری بے آبروئی کا تعلق اصل میں ستاروں سے ہے کیوں کہ ایسے مقامات پر جب بھی ہم جاتے کوئی نہ کوئی ایسی انہونی ہو جاتی جس کے نتیجے میں ہماری ان سے نہ نبھ پاتی اور ہم گھر لوٹ آتے تھے، زیادہ تر اور شدید اختلافات درسی کتب لکھنے والوں سے ہوتے تھے کیوں کہ وہ اکثر ''ترکی زبان'' میں لکھے ہوتے اور ہم
زبان یار من ترکی و من ترکی نہ می دانم
کہتے ہوئے نہایت ہی ''آبرو'' کے ساتھ وہاں سے نکل آتے ''آب رو'' یعنی چہرے پر پانی تو جانتے ہی ہوں گے چنانچہ ہمارا سارا تعلیمی عرصہ لگ بھگ انیس گھنٹے بنتا ہے جو کل ملا کر نو درس گاہوں پر تقسیم کیا جائے سوائے ایک کے جہاں ہم نے پورے نو گھنٹے گزارے تھے کیوں کہ استاد چھٹی پر تھا ، ظاہر ہے کہ اندریں حالات ہمارا پڑھنے کا ریکارڈ تو ناگفتہ بہ حد تک کم زور بلکہ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے البتہ لکھنے میں ہم ہمیشہ ٹاپ کرتے تھے۔
کیوں کہ اتنے تعلیمی عرصے میں ہم نے دیواروں پر اپنے دوستوں اور دشمنوں کے بارے میں اچھے خاصے تحریری کارنامے کیے اور مسلسل پریکٹس سے اتنی قابلیت بہم پہنچائی کہ اب وہی کام کاغذ پر بھی کر سکتے ہیں ، ایسے میں جب ''بائیو میٹرک'' جیسے مشکل الفاظ سے واسطہ پڑتا ہے تو پریشانی تو ہوتی ہی ہے لیکن خدا ہمارے پڑھنے والوں کو سلامت رکھے کہ ہم اپنی پریشانی کو شیئر کر لیتے ہیں۔
ہماری تو جہاں تک اس ناقابل بھروسہ سمجھ میں آیا ہے کہ بائیو اور میٹرک کو الگ الگ کر دیا جائے تو ''بائیو'' کا مطلب ہے، وہ بائیو کا مطلب ہوا اور میٹرک کا مطلب تو سوائے ''میٹرک'' کے اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا، آپ کا کیا خیال ہے، ہم آپ کو بالکل بھی تکلیف نہ دیتے اگر ہمیں لغات اور ڈکشنریوں سے سخت پرخاش نہ ہوتی کیوں کہ یہ دنیا کی وہ واحد قسم کی کتابیں ہوتی ہیں جن میں گالیاں بھی لکھی ہوئی ہوتی ہیں، آپ ہی بتائیں ایسی کتابوں کو بھلا کوئی پسند کر سکتا ۔
یہ تو سراسر غیر شریفانہ بات ہے کہ ان گالیوں کی باقاعدہ تشریح بھی کی جاتی ہے اور یہ لوگ اپنے آپ کو عالم و فاضل کہہ کر اتنا بھی نہیں جانتے کہ گالیاں تحریری شکل میں بالکل بھی بے معنی ہو جاتی ہیں ''گالی'' صرف زبانی کلامی ہی زیادہ موثر ہوتی ہے چنانچہ ہم لغت اور ڈکشنری کو گھر میں رکھنا تو کیا دس فٹ بانس سے چھونا بھی پسند نہیں کرتے ورنہ ''بائیو میٹرک'' کو سمجھنے کے لیے اپنے پڑھنے والوں کو کیوں تکلیف دیتے لیکن یہ بھی مت سمجھیے گا کہ ہم نے آپ کو تکلیف دینے سے پہلے کسی اور سے رجوع نہیں کیا، علامہ بریانی عرف برڈ فلو نے تو صاف انکار کرتے ہوئے ہمیں الٹا مطعون کیا کہ اس قسم کی خرافات پر دھیان دینے کے بجائے اپنا وقت دو رکعت نفلوں اور ذکر اذکار میں صرف کرتے، البتہ چشم گل چشم عرف قہر خداوندی سابق ڈینگی مچھر نے اچھی خاصی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور ایک بڑا ہی قیمتی مشورہ بھی دیا جو زرین تو نہیں لیکن خاکین کا مستحق ضرور ہے۔
بولا ، یہ جو اخباروں میں روزانہ ''معلومات تک رسائی'' کے ڈنکے بج رہے ہیں، تم ان معلومات والوں سے کیوں نہیں معلوم کرتے لیکن بے چارے کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ وہاں تک پہنچنے کے لیے کسی ''رستم'' سے رجوع کرنا ہو گا جو ان ہفت خوانوں کو سر کر سکے جو ''سرکاری'' اور ''معلومات'' دونوں کے گرد بنے ہوئے ہیں، اس لیے قارئین اب آپ ہی کا آسرا ہے کہ یہ ''بائیو میٹرک'' کیا ہے، ٹپ ہم ضرور دے سکتے ہیں، اس کا جائز یا ناجائز تعلق بلدیاتی انتخابات سے ہے بلکہ ایک اور ٹپ یہ لے لیجیے کہ اب بلدیاتی انتخابات بائیو میٹرک سے نہیں ہوں گے لیکن پھر بھی اگر بائیو میٹرک سے نہیں ہو رہے ہیں تو ''کیا '' نہیں ہو گا کیوں کہ یہ بھی آج تک پردہ راز میں ہے کہ انتخابات چاہے کسی قسم کے بھی ہوں اس سے کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں ہوتا ہے۔