حقیقت کا علم
اکثر لوگوں کو شکایت رہتی ہے کہ ہماری مرضی کے مطابق ترقی نہیں ملتی،
ہماری ایک عزیز دوست جو اچھی کمپنی میں جاب کر رہی ہیں، ان کو اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ مینجمنٹ ان کی صلاحیتوں کے مطابق ان کو معاوضہ نہیں دے رہی، بلکہ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ ان سے جونیئر لوگوں کو ترقی دے دی گئی اور وہ محروم رہ گئیں۔ حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔
ان کے خیال کے مطابق آفس میں سب اس کے دشمن ہیں اور تمام ماہر عملیات دفع بلیات سے کام لے کر ان کے کولیگ ان کی دشمنی میں محترمہ کو مینجمنٹ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار کروا رہے ہیں اور خود مینجمنٹ کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک دن تنگ آکر ہم نے ان سے کہا کہ یہ بتاؤ آفس میں تمہارا خود کا رویہ اپنے اسٹاف، اپنے باس اور دوسرے عملے کے ساتھ کیسا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں اپنے کام سے کام رکھتی ہوں، میرا زیادہ تعلق کسی کے ساتھ نہیں۔
ہم نے ایک اور سوال داغا کہ اچھا تو تم ایکسٹرا کوئی ورک کرتی ہو؟ انھوں نے کہا مجھے تنخواہ نو بجے سے پانچ بجے تک کے کام کرنے کی ملتی ہے، میرا دماغ خراب تھوڑی ہے جو میں ایکسٹرا کام بھی دوں۔ ہمارا اگلا سوال تھا تمہارے باقی کولیگ کس طرح کام کرتے ہیں؟ وہ تن فن ہوکر بولیں کیا پوچھتی ہو خوشامدی ہیں، ہر وقت باس کی چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں ۔ باس اگر رات تک کام کرنے کا کہیں گے تو کبھی انکار نہیں کریں گے۔ بھئی! میں تو کسی کی چاپلوسی نہیں کرتی۔
اب ہماری سمجھ میں ان کا مسئلہ آگیا تھا، اکثر لوگوں کو شکایت رہتی ہے کہ ہماری مرضی کے مطابق ترقی نہیں ملتی، نئے آنے والے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں اور ہم لکیر کے فقیر بنے ایک ہی جگہ موجود رہتے ہیں۔ ہمیں ہماری محنت کا صلہ نہیں ملتا، مگر ایسے لوگ کبھی اپنا تجزیہ نہیں کرپاتے کہ وہ اپنے کام کو کس طرح کر رہے ہیں۔
بوجھ تو نہیں سمجھ رہے؟ اکثر زیادہ کام بھی کرنا پڑجاتا ہے تو اس کو خوش اسلوبی سے کرنے میں جیت ہے۔ جو ورکر اپنے اخلاق اور برتاؤ سے اپنے باس اور دوسرے اسٹاف کے ساتھ خوش اخلاقی کا رویہ اپناتا ہے تو اسے چاپلوسی یا خوشامد کا نام دے دیا جاتا ہے اور پھر جب اسے اپنے ایکسٹرا ورک، رویے اور باس کی بات ماننے کے صلے میں ترقی ملتی ہے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو ہونا ہی تھا، چاپلوسی اور خوشامد کی وجہ سے یہ ترقی ہوئی ہے۔
ہم یہ سب کام نہیں کرتے تو ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ حالانکہ سخت محنت، اچھا رویہ اور آگے بڑھ کر کام کرنے کا جذبہ آپ کو ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے رکھتا ہے، رضاکارانہ کام کرکے آپ اپنی مینجمنٹ کے دل میں گھر کرسکتے ہیں اور انسان کی پیشہ ورانہ زندگی میں خوش گوار بدلاؤ آسکتا ہے۔ چند قدم بڑھ کر کام کرنا ہی پیشہ ورانہ زندگی میں بہتر تبدیلی لانے کا سبب بنتا ہے۔
دی گولڈن رول میگزین کے ایڈیٹر کو کسی اسکول میں تقریر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا، اس نے اپنی معمول کی فیس 100 ڈالر اور آنے جانے کے اخراجات کی ادائیگی پر پیش کش قبول کرلی جب ایڈیٹر کالج/ اسکول پہنچا تو اس کو وہاں اپنے رسالے کے لیے متعدد کہانیاں مل گئیں اور اس نے سارا مواد اکٹھا کرلیا، پھر اس نے اپنا لیکچر دیا اور واپسی کی تیاری کی تو منتظمین نے اسے معاوضہ اور آنے جانے کا خرچ بتانے کا کہا تاکہ چیک دیا جاسکے مگر اس نے کوئی بھی معاوضہ لینے سے انکار کردیا اور کہا یہاں آکر اسے اپنے رسالے کے لیے بہت سارا مواد مل گیا ہے اور یہ مواد معاوضے سے کہیں زیادہ ہے تو میں اب لیکچر کا معاوضہ نہیں لے سکتا۔
وہ اپنے خرچ پر واپس آگیا مگر کچھ عرصے کے بعد اسے اپنے رسالے کے لیے سالانہ خریداری کے آرڈر آنے شروع ہوگئے، یہ سب اسکول کی انتظامیہ اور وہاں کے طالب علموں کی جانب سے تھا، اسی طرح اگلے دو سال کے لیے اسکول کے طلبا اور ممبران کی جانب سے 50,000 ڈالر سے زائد چندہ خریداری بھیجا گیا جو واقعی اتنا متاثرکن تھا کہ اسے ایک ایسے میگزین نے شایع کردیا جس کی سرکولیشن انٹرنیشنل تھی، جس کی بنا پر اس میگزین کے لیے دوسرے ممالک سے بھی چندہ خریداری موصول ہوا اور یہ سب اس بنا پر ممکن ہوا کہ اس ایڈیٹر نے پیشہ ورانہ اخلاقیات سے کام لیتے ہوئے اور بغیر کسی لالچ کے ایماندارانہ فیصلہ کیا کہ کیونکہ اسے کہانیوں کے لیے مواد مل گیا ہے تو اسے 100 ڈالر لیکچر کا معاوضہ نہیں لینا چاہیے۔
اگر ایڈیٹر وہ معاوضہ لے لیتا تو یقیناً طالب علموں اور اسکول کی مینجمنٹ پر اس کی اخلاقیات، پیشہ ورانہ ایمانداری کا کوئی اثر نہیں ہوتا مگر اس نے 100 ڈالر کو نظرانداز کیا مگر اسے 50,000 ڈالر مل گئے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چندقدم آگے بڑھ کر کوئی بھی کام کرنے سے صلہ ضرور ملتا ہے اور اکثر اوقات بہت زیادہ ملتا ہے، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں ایسے مواقع ملتے ہیں مگر ہم نظر انداز کردیتے ہیں تو اس کا نتیجہ بھی برعکس ہوتا ہے۔ ایک کمپنی نے اپنے ملازمین کو سوال نامہ دیا جس میں ایک سوال تھا کہ کیا بغیر معاوضے کے آفس ٹائم کے بعد بھی آپ کو کام کرنا پڑے تو کریں گے؟ اکثریت نے نہیں کے کالم میں انٹری کی اور صرف ایک صاحب نے Yes کو منتخب کیا۔
کچھ دن کے بعد اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان صاحب کو ترقی دے دی گئی جب کہ وہ کافی جونیئر تھے مگر ان کے کام کرنے کی لگن، خدمت اور جذبے سے سرشار شخصیت کو مینجمنٹ کی آنکھوں نے بھانپ لیا اور یوں ترقی کے دروازے وا ہوگئے۔ یاد رکھیں کہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو ہم اپنے اصولوں، خدمت اور سخت محنت کے ذریعے بہتر بناسکتے ہیں، حالات کا شکوہ کرنے کے بجائے اور دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اگر اپنی اصلاح احوال کرلی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی نہ کریں۔ اپنی اہلیت کے مطابق بہتر کام یا خدمت مہیا نہ کرنا اور خواہ مخواہ کوتاہی برتنا بہت مہنگا بھی پڑسکتا ہے اور جب اس حقیقت کا علم ہوتا ہے تو وقت گزر چکا ہوتا ہے۔
ان کے خیال کے مطابق آفس میں سب اس کے دشمن ہیں اور تمام ماہر عملیات دفع بلیات سے کام لے کر ان کے کولیگ ان کی دشمنی میں محترمہ کو مینجمنٹ کی نگاہوں میں ذلیل و خوار کروا رہے ہیں اور خود مینجمنٹ کی آنکھوں کا تارہ بنے ہوئے ہیں۔ ایک دن تنگ آکر ہم نے ان سے کہا کہ یہ بتاؤ آفس میں تمہارا خود کا رویہ اپنے اسٹاف، اپنے باس اور دوسرے عملے کے ساتھ کیسا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں اپنے کام سے کام رکھتی ہوں، میرا زیادہ تعلق کسی کے ساتھ نہیں۔
ہم نے ایک اور سوال داغا کہ اچھا تو تم ایکسٹرا کوئی ورک کرتی ہو؟ انھوں نے کہا مجھے تنخواہ نو بجے سے پانچ بجے تک کے کام کرنے کی ملتی ہے، میرا دماغ خراب تھوڑی ہے جو میں ایکسٹرا کام بھی دوں۔ ہمارا اگلا سوال تھا تمہارے باقی کولیگ کس طرح کام کرتے ہیں؟ وہ تن فن ہوکر بولیں کیا پوچھتی ہو خوشامدی ہیں، ہر وقت باس کی چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں ۔ باس اگر رات تک کام کرنے کا کہیں گے تو کبھی انکار نہیں کریں گے۔ بھئی! میں تو کسی کی چاپلوسی نہیں کرتی۔
اب ہماری سمجھ میں ان کا مسئلہ آگیا تھا، اکثر لوگوں کو شکایت رہتی ہے کہ ہماری مرضی کے مطابق ترقی نہیں ملتی، نئے آنے والے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں اور ہم لکیر کے فقیر بنے ایک ہی جگہ موجود رہتے ہیں۔ ہمیں ہماری محنت کا صلہ نہیں ملتا، مگر ایسے لوگ کبھی اپنا تجزیہ نہیں کرپاتے کہ وہ اپنے کام کو کس طرح کر رہے ہیں۔
بوجھ تو نہیں سمجھ رہے؟ اکثر زیادہ کام بھی کرنا پڑجاتا ہے تو اس کو خوش اسلوبی سے کرنے میں جیت ہے۔ جو ورکر اپنے اخلاق اور برتاؤ سے اپنے باس اور دوسرے اسٹاف کے ساتھ خوش اخلاقی کا رویہ اپناتا ہے تو اسے چاپلوسی یا خوشامد کا نام دے دیا جاتا ہے اور پھر جب اسے اپنے ایکسٹرا ورک، رویے اور باس کی بات ماننے کے صلے میں ترقی ملتی ہے تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو ہونا ہی تھا، چاپلوسی اور خوشامد کی وجہ سے یہ ترقی ہوئی ہے۔
ہم یہ سب کام نہیں کرتے تو ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ حالانکہ سخت محنت، اچھا رویہ اور آگے بڑھ کر کام کرنے کا جذبہ آپ کو ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے رکھتا ہے، رضاکارانہ کام کرکے آپ اپنی مینجمنٹ کے دل میں گھر کرسکتے ہیں اور انسان کی پیشہ ورانہ زندگی میں خوش گوار بدلاؤ آسکتا ہے۔ چند قدم بڑھ کر کام کرنا ہی پیشہ ورانہ زندگی میں بہتر تبدیلی لانے کا سبب بنتا ہے۔
دی گولڈن رول میگزین کے ایڈیٹر کو کسی اسکول میں تقریر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا، اس نے اپنی معمول کی فیس 100 ڈالر اور آنے جانے کے اخراجات کی ادائیگی پر پیش کش قبول کرلی جب ایڈیٹر کالج/ اسکول پہنچا تو اس کو وہاں اپنے رسالے کے لیے متعدد کہانیاں مل گئیں اور اس نے سارا مواد اکٹھا کرلیا، پھر اس نے اپنا لیکچر دیا اور واپسی کی تیاری کی تو منتظمین نے اسے معاوضہ اور آنے جانے کا خرچ بتانے کا کہا تاکہ چیک دیا جاسکے مگر اس نے کوئی بھی معاوضہ لینے سے انکار کردیا اور کہا یہاں آکر اسے اپنے رسالے کے لیے بہت سارا مواد مل گیا ہے اور یہ مواد معاوضے سے کہیں زیادہ ہے تو میں اب لیکچر کا معاوضہ نہیں لے سکتا۔
وہ اپنے خرچ پر واپس آگیا مگر کچھ عرصے کے بعد اسے اپنے رسالے کے لیے سالانہ خریداری کے آرڈر آنے شروع ہوگئے، یہ سب اسکول کی انتظامیہ اور وہاں کے طالب علموں کی جانب سے تھا، اسی طرح اگلے دو سال کے لیے اسکول کے طلبا اور ممبران کی جانب سے 50,000 ڈالر سے زائد چندہ خریداری بھیجا گیا جو واقعی اتنا متاثرکن تھا کہ اسے ایک ایسے میگزین نے شایع کردیا جس کی سرکولیشن انٹرنیشنل تھی، جس کی بنا پر اس میگزین کے لیے دوسرے ممالک سے بھی چندہ خریداری موصول ہوا اور یہ سب اس بنا پر ممکن ہوا کہ اس ایڈیٹر نے پیشہ ورانہ اخلاقیات سے کام لیتے ہوئے اور بغیر کسی لالچ کے ایماندارانہ فیصلہ کیا کہ کیونکہ اسے کہانیوں کے لیے مواد مل گیا ہے تو اسے 100 ڈالر لیکچر کا معاوضہ نہیں لینا چاہیے۔
اگر ایڈیٹر وہ معاوضہ لے لیتا تو یقیناً طالب علموں اور اسکول کی مینجمنٹ پر اس کی اخلاقیات، پیشہ ورانہ ایمانداری کا کوئی اثر نہیں ہوتا مگر اس نے 100 ڈالر کو نظرانداز کیا مگر اسے 50,000 ڈالر مل گئے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چندقدم آگے بڑھ کر کوئی بھی کام کرنے سے صلہ ضرور ملتا ہے اور اکثر اوقات بہت زیادہ ملتا ہے، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں ایسے مواقع ملتے ہیں مگر ہم نظر انداز کردیتے ہیں تو اس کا نتیجہ بھی برعکس ہوتا ہے۔ ایک کمپنی نے اپنے ملازمین کو سوال نامہ دیا جس میں ایک سوال تھا کہ کیا بغیر معاوضے کے آفس ٹائم کے بعد بھی آپ کو کام کرنا پڑے تو کریں گے؟ اکثریت نے نہیں کے کالم میں انٹری کی اور صرف ایک صاحب نے Yes کو منتخب کیا۔
کچھ دن کے بعد اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان صاحب کو ترقی دے دی گئی جب کہ وہ کافی جونیئر تھے مگر ان کے کام کرنے کی لگن، خدمت اور جذبے سے سرشار شخصیت کو مینجمنٹ کی آنکھوں نے بھانپ لیا اور یوں ترقی کے دروازے وا ہوگئے۔ یاد رکھیں کہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کو ہم اپنے اصولوں، خدمت اور سخت محنت کے ذریعے بہتر بناسکتے ہیں، حالات کا شکوہ کرنے کے بجائے اور دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اگر اپنی اصلاح احوال کرلی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی نہ کریں۔ اپنی اہلیت کے مطابق بہتر کام یا خدمت مہیا نہ کرنا اور خواہ مخواہ کوتاہی برتنا بہت مہنگا بھی پڑسکتا ہے اور جب اس حقیقت کا علم ہوتا ہے تو وقت گزر چکا ہوتا ہے۔