شعیب بھائی بس بہت ہوا

شعیب بھائی، آپ سے گزارش ہے کہ تنقید ضرور کریں تنقید آپ کا حق ہے لیکن تضحیک اور ذاتیات پر نہ جائیں۔

شعیب بھائی آپ کی موجودگی میں بھی ٹیم نے کوئی ورلڈکپ نہیں جیتا، پھر کیوں اتنا شور کررہے ہیں؟ تنقید کیجیے مگر تضحیک کی اجازت ہم نہیں دے سکتے۔ فوٹو: فائل

پاکستانی کرکٹ ٹیم نے جس بہترین انداز میں کھیلا ہے۔۔۔ کرکٹ کے میدان میں نہیں بلکہ قوم کے جذبات سے، اُس سے تو پوری قوم کے دل دکھے ہی ہیں۔ لیکن جذبات جذبات ہوتے ہیں کچھ دیر کے لیے اِن میں اُبال آتا ہے لیکن پھر تھوڑی ہی دیر میں ہوش آ ہی جاتا ہے۔

لیکن سچ پوچھیں تو ٹیم کی کارکردگی سے زیادہ دُکھ سابق فاسٹ باولر شعیب اختر کا تبصرہ سن کر ہوا۔ تیز ترین باولر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ زبان بھی تیز ہوجائے۔ وہ تبصرہ کرتے ہوئے تنقید کی بجائے تضحیک کررہے تھے۔ کسی پر تنقید کرنا آپ کا حق ہے لیکن تضحیک کرنا ہرگز نہیں۔

لیکن شعیب اختر بھارت کی سرزمین پر بیٹھ کر پاکستانی ٹیم کی تضحیک کو اپنا حق سمجھ بیٹھے ہیں۔ اب یہ تو شعیب ہی بتاسکتے ہیں کہ بھارت کی سرزمین پر بیٹھ کر ایسی زبان کیوں استعمال کی جارہی ہے؟ شاید اِس کی وجہ بھارت میں رہ کر سستی شہرت کا حصول ہو۔ لیکن موصوف تبصرہ کرتے ہوئے کھلاڑیوں کیلئے ''تُو'' کا لفظ استعمال کررہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ 1992 کا ورلڈکپ عمران خان نے نہیں بلکہ شعیب اختر نے جتوایا ہو اور بھارت کی تمام کامیابیوں کے پیچھے شعیب اختر کا ہی ہاتھ ہو۔

جناب جوشِ خطابت میں مصباح الحق اور یونس خان پر تنقید کرتے ہوئے ان کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اُن کی عمر کا بھی مذاق بناتے رہے۔ ایسے طعنے تو لڑکے کو رشتہ نہ ملنے پر بھی نہیں دئیے جاتے جیسے شعیب اختر کھلاڑیوں کے میچ ہارنے پر دے رہے تھے، گویا میچ نہیں ذاتیات پر تبصرہ چل رہا ہو۔

ٹیم کی پرفارمنس پر دوسرے کھلاڑیوں نے بھی تنقید کی لیکن تضحیک کسی نے نہیں ۔۔ وسیم اکرم نے کھلاڑیوں کی خامیاں بھی بتائیں اور تنقید بھی کی لیکن یہ سب کچھ کرنے کے بعد اقرار کیا کہ پاکستانی ٹیم جیسی بھی ہے ہماری ٹیم ہے اور ہمیں ہر حال میں اُسی کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ ہار جیت تو میچ کا حصہ ہوتا ہے لیکن شعیب اختر شاید خود کو وسیم اکرم سمیت دیگر کھلاڑیوں سے بھی ماہر سمجھ بیٹھے ہیں اور اُن کی گفتگو سن کر لگ رہا تھا جیسے کرکٹ کا میچ نہیں بلکہ جنگ عظیم ہورہی تھی کہ جیتو یا مرجاو۔

چلیں فرض کرلیا کہ پاکستانی ٹیم مصباح الحق اور یونس خان جیسے زائد عمر کے کھلاڑی ہونے کی وجہ سے بھارت سے ہار گئی تو بھائی جنوبی افریقہ کی نوجوان ٹیم کس وجہ سے ہاری؟


میں چاہتا ہوں کہ شعیب اختر جس طرح پاکستانی ٹیم کے خلاف نفرت انگیز زبان استعمال کررہے ہیں بالکل اِسی طرح دوسری ہارنے والی ٹیموں بشمول بھارت کے خلاف بھی استعمال کریں ۔۔۔۔۔ اُن کے لیے بھی اِسی ''تُو''، ''تا'' کے انداز میں تنقید یا تضحیک کریں پھر اُن کو سر چھپانے کے لیے یہی پاکستان یاد آئے گا جس کے بارے میں وہ بڑے زور و شور سے ٹی وی پر کہہ رہے تھی کہ بھارتی پاکستانیوں پر ہنس رہے ہیں۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ کرکٹ کے بجائے ذاتیات پر تنقید کرتے ہوئے جناب نے کہا کہ اب شکست کے بعد کھلاڑی اپنی ٹوٹی پھوٹی انگلش میں صفائیاں دیں گے۔ اگر کسی کو کھیل اور زبان کا تعلق سمجھ میں آئے تو برائے مہربانی مجھے ضرور سمجھا دے۔ کیونکہ اگر انگلش نہ آنا بھی ہار کی ایک وجہ ہے تو پھر برازیل، ارجنٹینا کی ٹیمیں اور نڈال اور رونالڈو جیسے کھلاڑی تو شعیب اختر کی نظر میں ناکام ترین اور جاہل ترین ٹیمیں اور کھلاڑی ہونگے کیونکہ وہ تو انگلش میں گفتگو یا تو کرتے نہیں یا بہت کم کرتے ہیں اور جب کرتے ہیں تو وہ بھی بہت مناسب نہیں ہوتی۔ وہ سب اپنی اپنی مادری زبان یا مقامی زبانوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

شعیب بھائی آپ کو پہچان اسی ٹیم نے دی ہے، آپ کے ٹیم میں ہوتے ہوئے بھی ٹیم نے کوئی ورلڈکپ نہیں جیتا، اسی ٹیم اور قوم کی بدولت آپ یہ تجزیے اور تبصرے دینے کے قابل بنے ہیں۔ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں جنگ کا میدان نہ بنائیں ہار جیت کھیل کا حصہ ہے کوئی ایک ہی ٹیم ورلڈ کپ جیتے گی باقی سب خالی ہاتھ گھر جائیں گی ۔

اِس لیے شعیب بھائی، آپ سے گزارش ہے کہ تنقید ضرور کریں تنقید آپ کا حق ہے لیکن تضحیک اور ذاتیات پر نہ جائیں۔ آپ ہمارے قومی ہیرو ہیں اور جس طرح آپ کی عزت ملک کی عزت ہے بالکل اِسی طرح باقی کسی کھلاڑی کی عزت بھی قوم کی ہی عزت تصور کی جائے گی۔

 



نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story