اولین اہل سائنس
اس طرح تاریخ و تحقیق کی رو سے ثالیس ملطی دنیا کا تیسرا قدیم ترین سائنسدان ہے جس کا تذکرہ تاریخ نے محفوظ رکھا ہے۔
لاہور:
قدیم یونان کی اس تہذیب کو یاد کیجیے جہاں سقراط گلیوں گلیوں آوارہ گردی کرتا رہتا اور جہاں کہیں اسے عقل و خرد کے برعکس کوئی بات دکھائی دیتی وہیں پر وہ یہ سوال ضرور اٹھاتا کہ ایسے دیوتاؤں کی پرستش سے کیا فائدہ، کیا حاصل جن کو تم خود بناتے ہو اور بالآخر یہ طنز و تشنیع، نصیحت و فصیحت اسے موت کے دروازے پر کھینچ لائی اور اسے حق گوئی کی پاداش میں زہر کا پیالہ پینا پڑا۔
سقراط کی اس قربانی نے یونان کو علم اور تہذیب کے اعلیٰ مقام تک فائز کیا اور یہ قوم سائنس کی معمار اول کہلائی، پھر عقل و خرد کا یہ ورثہ مسلمانوں سے مغرب و یورپ کی طرف منتقل ہوا، سائنس کی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو تذکرہ اہل سائنس میں آپ کو سب سے پہلا نام ثالیس ملطی کا ملتا ہے جو قدیم عراق کے شہر بابل بھی ہو آیا تھا اور اس نے میسو پوٹیما کے علمی و تہذیبی ورثے کو اپنے من میں بسا کر قدیم مصر کے عظیم اہراموں اور فرعونوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے یونان میں سائنس کا پرچم بلند کیا۔
دنیا کے قدیم عجائب، تعمیرات و ترقی اور تمدن کے آثار اس امر کے بخوبی گواہ ہیں کہ ہم سفر سائنس کے اولین محسنوں سے واقف نہیں البتہ وہ سائنس کے اولین مسافر جن کا تذکرہ تاریخ نے محفوظ رکھا، ان میں ثالیس ملطی سے پہلے کم ازکم دو سائنسداں ایسے ہیں جن کے یادگار قصے تاریخ کی قرطاس پر اب بھی ثبت ہیں۔
ان میں سے ایک کی تاریخ پیدائش تقریباً27 صدی قبل مسیح مانی گئی ہے اور دوسرے کا تعلق تقریباً1700 سال ق م سے ہے، جب کہ ثالیس ملطی کا تعلق چھٹی صدی ق م (پ 624 ق م۔ و 546 ق م) سے ہے۔اس طرح تاریخ سائنس میں ہر تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا کا اولین سائنسدان امہوٹیپ (IMHOTEP) تھا جو یونان کا باشندہ تھا اور 980 قبل مسیح میں پیدا ہوا تھا، یہ تاریخ صحیح ہو یا غلط بہرحال 27 صدی ق م بھی اس کی تاریخ پیدائش میں شمار کی جاتی ہے۔
وہ مصر کی سلطنت قدیم کے تیسرے سلسلے کے دوسرے بادشاہ ''زوسر'' کا وزیر اعظم تھا۔ علم نجوم، علم فلکیات، علم تعمیر اور طب کا ماہر تھا۔ اس کے مرنے کے بعد مصریوں نے اس کو دیوتا کا بیٹا کہنا شروع کر دیا تھا۔ قدیم شہر ممفس میں (جو جدید قصبے ''سکارا'' کے قریب بصورت آثار قدیمہ موجود ہے) اس نے ایک اہرام بنایا جو آج قدیم ترین اہرام گنا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر میں تراشے ہوئے پتھر استعمال کیے گئے تھے۔
اس کی دوسری خوبی یہ ہے کہ ایک طرف سے اس میں چھ پتھر اس طرح استعمال کیے گئے ہیں کہ ان کی مدد سے دو سو فٹ کی بلندی حاصل ہوئی ہے۔ اس نے بالائی نیل پر''ایڈفی'' کا پہلا مندر تعمیر کرنے کے لیے نقشہ بھی بنایا تھا۔ ایسے شواہد موجود ہیں کہ اس کو طب میں بھی عمل دخل تھا۔ قدیم مصر میں اس کی حکمت اور مسیحائی کے چرچے تھے۔
چنانچہ سیتی دور حکومت (525تا663ق م) میں وہ کائنات کا خالق فتاح (PTAH) کا بیٹا گردانا جانے لگا اور اس کو خود طب کا دیوتا کہا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ''سکارا' کے قریب ایسا مندر دریافت ہوا ہے جس میں اس کی عبادت کی جاتی تھی۔ یہ دریافت 1965کی ہے۔ بہرحال یہ دنیا کا پہلا اور آخری سائنسدان ہے جس کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اس کی اتنی عزت و تکریم کی گئی کہ اسے ''دیوتا'' کہا گیا۔
ام ہوٹیپ کے بعد دنیا کا دوسرا سائنسدان جس کا تذکرہ تاریخ نے محفوظ رکھا ہے اس کا نام اہموس (AHMOSE) ہے اور وہ مصری کاتب اور ریاضی دان تھا جس نے موجودہ ریاضی کے لیے ستون قائم کیے۔
1858 میں اسکاٹ لینڈ کے ایک ماہر آثارات الیگزینڈر ہنری رہنڈ نے مصر کے ایک مقام سے ایک دستاویز برآمد کی جوکہ ریاضی کے جدول اور مسائل پر مشتمل تھی۔ یہ قدیم ترین دستاویز تھی جوکہ مصری ریاضی کی آئینہ دار تھی۔ یہ اندازاً 1650 ق م میں لکھی گئی تھی اور لکھنے والے کا نام اہموس تھا۔ اس دستاویز کو آج بھی دو ناموں سے جانا جاتا ہے ایک تو ''اہموس دستاویز'' ہے اور دوسری رہنڈ دستاویز ہے (یعنی محقق کے نام پر)۔
آج اہموس کے بارے میں جو کچھ جانا جاتا ہے وہ محض اس دستاویز کی وجہ سے ہے۔ اہموس نے جو مسائل اپنی کتاب میں پیش کیے ہیں ان کے حل کے لیے کوئی کلیہ پیش نہیں کیا شاید یہ کسی اور دستاویز میں ہو جو کہ ابھی تک برآمد نہیں کی جا سکی۔ اہموس کے بیان کردہ چند مسائل اہمیت کے حامل ہیں جیساکہ ایک مقدار اور اس کا ساٹھواں حصہ جمع کرنے سے عدد 19 حاصل ہوتا ہے۔
مقدار کیا ہے؟ یعنی آج کی ریاضی میں اس مسئلے کو اگر بیان کیا جائے گا تو اس کی تفصیل اور وضاحت کے لیے باقاعدہ کتابت کی ضرورت پڑے گی جدید کمپوزنگ کے ذریعے کالم میں اس کو واضح کرنا ممکن نہیں اسی طرح اس کے بیان کردہ دیگر اہم، بنیادی اور قابل توجہ ریاضی کے مسائل کی طرح مندرجہ ذیل بیان کردہ ریاضیاتی مسائل کی تفصیل اور وضاحت پر محض کمپیوٹر کی کمپوزنگ قادر نہیں۔
اسی طرح کون سا عدد اپنے پانچویں میں جمع کرنے سے 21 کا ہندسہ دیتا ہے؟ اس کا جواب بھی اس نے بالکل ٹھیک ٹھیک اور تسلی بخش دیا ہے۔اہموس نے x کی قیمت بھی متعین کی تھی جو کہ اس کے نزدیک اور آج کے جدید ریاضی دانوں کے نزدیک حیرت انگیز طور پر صرف معمولی فرق کے ساتھ تقریباً یکساں ہے۔
اہموس نے اگرچہ ریاضی کے چند اہم اور بنیادی اسرار کا پردہ چاک کیا تاہم وہ علم ریاضی کا بانی نہیں تھا، تاریخ درحقیقت ریاضی و سائنس کے اولین بانیان و حقیقی موجدوں اور زمانہ قبل از تاریخ کے ریاضی و سائنس کے عجائبات اور شاہکاروں کے اصل معماروں سے ناواقف ہے تاہم یہ دریافتیں اپنے بانیان کی عظمت و قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، تاریخ کے مطالعے سے ہمیں جن اولین سائنسدانوں کا ترتیب وار ذکر ملتا ہے ان میں نمبر 1۔ام ہوئپ ۔نمبر 2۔ اہموس مصری اور نمبر 3۔ ثالیس ملطی سر فہرست ہیں۔
اس طرح تاریخ و تحقیق کی رو سے ثالیس ملطی دنیا کا تیسرا قدیم ترین سائنسدان ہے جس کا تذکرہ تاریخ نے محفوظ رکھا ہے۔ وہ حضرت مسیح علیہ السلام سے چھ صدی پہلے 429 ق م میں پیدا ہوا اور شہر ملطوس کا رہنے والا تھا۔ ملطوس ایشیا میں ایک شہر ہے جزیرہ ساموس اور شہر ملطوس کے درمیان تنگ خلیج حائل ہے۔
ثالیس مصر کا سفر کرچکا تھا اور بابلی علوم پر دسترس رکھتا تھا۔ ثالیس نے اگرچہ چند مصری اساتذہ سے سائنس، فلسفے اور ریاضی کے سبق لیے تھے لیکن طبعاً وہ مقلد نہ تھا۔ لیکن ایک سچے محقق کی طرح اس کے خیالات تھے جو اس کے ذاتی مشاہدے اور غور و فکر کا نتیجہ تھے۔
ثالیس نے سورج گرہن اور چاند گرہن کی اصل وجہ بیان کی۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے اس نے کامل سورج گرہن کے متعلق جو 585 قبل مسیح کو ہونے والا تھا، حساب لگا کر اس کی صحیح تاریخ معلوم کی اور برسوں پہلے اس تاریخ کا اعلان کر دیا۔ جب اس تاریخ کو عین دن کے وقت رات کا سا اندھیرا چھا گیا تو ثالیس کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گئی۔ ثالیس نے سورج کے متعلق پہلا یہ انکشاف کیا کہ وہ لاکھوں میل چوڑا ہے آج ہم جانتے ہیں کہ سورج کا قطر آٹھ لاکھ چونیتس ہزار میل ہے۔
ثالیس ملطی سے پہلے شمسی سال جس کے مطابق موسم بدلتے ہیں 360 دن کا سمجھا جاتا تھا۔ ثالیس نے سب سے پہلے اسے 365 دن کا بنایا اور یہ صحیح اندازہ بھی اس کی ہیئت دانی کا کمال اور دانائی و حکمت کا روشن ثبوت ہے لیکن اس کی تحقیق اور جستجو کا دائرہ ہیئت کے علاوہ دیگر علوم پر بھی محیط تھا۔
اس نے سب سے پہلے ان ہندسی اصولوں کی تصدیق کی جنھیں تین صدیوں بعد اقلیدس نے مرتب کیا مثلاً یہ دعویٰ کہ متساوی الساقین مثلث کے بنیادی زاویے برابر ہوتے ہیں۔ ثالیس سے اقلیدس تک اور اس سے 1643 میں سر آئزک نیوٹن کے عناصر علم الہندسہ نامی کتاب تک عملی جستجو کا تسلسل ہے جنھوں نے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی راہ ہموار کی۔
قدیم یونان کی اس تہذیب کو یاد کیجیے جہاں سقراط گلیوں گلیوں آوارہ گردی کرتا رہتا اور جہاں کہیں اسے عقل و خرد کے برعکس کوئی بات دکھائی دیتی وہیں پر وہ یہ سوال ضرور اٹھاتا کہ ایسے دیوتاؤں کی پرستش سے کیا فائدہ، کیا حاصل جن کو تم خود بناتے ہو اور بالآخر یہ طنز و تشنیع، نصیحت و فصیحت اسے موت کے دروازے پر کھینچ لائی اور اسے حق گوئی کی پاداش میں زہر کا پیالہ پینا پڑا۔
سقراط کی اس قربانی نے یونان کو علم اور تہذیب کے اعلیٰ مقام تک فائز کیا اور یہ قوم سائنس کی معمار اول کہلائی، پھر عقل و خرد کا یہ ورثہ مسلمانوں سے مغرب و یورپ کی طرف منتقل ہوا، سائنس کی تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو تذکرہ اہل سائنس میں آپ کو سب سے پہلا نام ثالیس ملطی کا ملتا ہے جو قدیم عراق کے شہر بابل بھی ہو آیا تھا اور اس نے میسو پوٹیما کے علمی و تہذیبی ورثے کو اپنے من میں بسا کر قدیم مصر کے عظیم اہراموں اور فرعونوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے یونان میں سائنس کا پرچم بلند کیا۔
دنیا کے قدیم عجائب، تعمیرات و ترقی اور تمدن کے آثار اس امر کے بخوبی گواہ ہیں کہ ہم سفر سائنس کے اولین محسنوں سے واقف نہیں البتہ وہ سائنس کے اولین مسافر جن کا تذکرہ تاریخ نے محفوظ رکھا، ان میں ثالیس ملطی سے پہلے کم ازکم دو سائنسداں ایسے ہیں جن کے یادگار قصے تاریخ کی قرطاس پر اب بھی ثبت ہیں۔
ان میں سے ایک کی تاریخ پیدائش تقریباً27 صدی قبل مسیح مانی گئی ہے اور دوسرے کا تعلق تقریباً1700 سال ق م سے ہے، جب کہ ثالیس ملطی کا تعلق چھٹی صدی ق م (پ 624 ق م۔ و 546 ق م) سے ہے۔اس طرح تاریخ سائنس میں ہر تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیا کا اولین سائنسدان امہوٹیپ (IMHOTEP) تھا جو یونان کا باشندہ تھا اور 980 قبل مسیح میں پیدا ہوا تھا، یہ تاریخ صحیح ہو یا غلط بہرحال 27 صدی ق م بھی اس کی تاریخ پیدائش میں شمار کی جاتی ہے۔
وہ مصر کی سلطنت قدیم کے تیسرے سلسلے کے دوسرے بادشاہ ''زوسر'' کا وزیر اعظم تھا۔ علم نجوم، علم فلکیات، علم تعمیر اور طب کا ماہر تھا۔ اس کے مرنے کے بعد مصریوں نے اس کو دیوتا کا بیٹا کہنا شروع کر دیا تھا۔ قدیم شہر ممفس میں (جو جدید قصبے ''سکارا'' کے قریب بصورت آثار قدیمہ موجود ہے) اس نے ایک اہرام بنایا جو آج قدیم ترین اہرام گنا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر میں تراشے ہوئے پتھر استعمال کیے گئے تھے۔
اس کی دوسری خوبی یہ ہے کہ ایک طرف سے اس میں چھ پتھر اس طرح استعمال کیے گئے ہیں کہ ان کی مدد سے دو سو فٹ کی بلندی حاصل ہوئی ہے۔ اس نے بالائی نیل پر''ایڈفی'' کا پہلا مندر تعمیر کرنے کے لیے نقشہ بھی بنایا تھا۔ ایسے شواہد موجود ہیں کہ اس کو طب میں بھی عمل دخل تھا۔ قدیم مصر میں اس کی حکمت اور مسیحائی کے چرچے تھے۔
چنانچہ سیتی دور حکومت (525تا663ق م) میں وہ کائنات کا خالق فتاح (PTAH) کا بیٹا گردانا جانے لگا اور اس کو خود طب کا دیوتا کہا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ''سکارا' کے قریب ایسا مندر دریافت ہوا ہے جس میں اس کی عبادت کی جاتی تھی۔ یہ دریافت 1965کی ہے۔ بہرحال یہ دنیا کا پہلا اور آخری سائنسدان ہے جس کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اس کی اتنی عزت و تکریم کی گئی کہ اسے ''دیوتا'' کہا گیا۔
ام ہوٹیپ کے بعد دنیا کا دوسرا سائنسدان جس کا تذکرہ تاریخ نے محفوظ رکھا ہے اس کا نام اہموس (AHMOSE) ہے اور وہ مصری کاتب اور ریاضی دان تھا جس نے موجودہ ریاضی کے لیے ستون قائم کیے۔
1858 میں اسکاٹ لینڈ کے ایک ماہر آثارات الیگزینڈر ہنری رہنڈ نے مصر کے ایک مقام سے ایک دستاویز برآمد کی جوکہ ریاضی کے جدول اور مسائل پر مشتمل تھی۔ یہ قدیم ترین دستاویز تھی جوکہ مصری ریاضی کی آئینہ دار تھی۔ یہ اندازاً 1650 ق م میں لکھی گئی تھی اور لکھنے والے کا نام اہموس تھا۔ اس دستاویز کو آج بھی دو ناموں سے جانا جاتا ہے ایک تو ''اہموس دستاویز'' ہے اور دوسری رہنڈ دستاویز ہے (یعنی محقق کے نام پر)۔
آج اہموس کے بارے میں جو کچھ جانا جاتا ہے وہ محض اس دستاویز کی وجہ سے ہے۔ اہموس نے جو مسائل اپنی کتاب میں پیش کیے ہیں ان کے حل کے لیے کوئی کلیہ پیش نہیں کیا شاید یہ کسی اور دستاویز میں ہو جو کہ ابھی تک برآمد نہیں کی جا سکی۔ اہموس کے بیان کردہ چند مسائل اہمیت کے حامل ہیں جیساکہ ایک مقدار اور اس کا ساٹھواں حصہ جمع کرنے سے عدد 19 حاصل ہوتا ہے۔
مقدار کیا ہے؟ یعنی آج کی ریاضی میں اس مسئلے کو اگر بیان کیا جائے گا تو اس کی تفصیل اور وضاحت کے لیے باقاعدہ کتابت کی ضرورت پڑے گی جدید کمپوزنگ کے ذریعے کالم میں اس کو واضح کرنا ممکن نہیں اسی طرح اس کے بیان کردہ دیگر اہم، بنیادی اور قابل توجہ ریاضی کے مسائل کی طرح مندرجہ ذیل بیان کردہ ریاضیاتی مسائل کی تفصیل اور وضاحت پر محض کمپیوٹر کی کمپوزنگ قادر نہیں۔
اسی طرح کون سا عدد اپنے پانچویں میں جمع کرنے سے 21 کا ہندسہ دیتا ہے؟ اس کا جواب بھی اس نے بالکل ٹھیک ٹھیک اور تسلی بخش دیا ہے۔اہموس نے x کی قیمت بھی متعین کی تھی جو کہ اس کے نزدیک اور آج کے جدید ریاضی دانوں کے نزدیک حیرت انگیز طور پر صرف معمولی فرق کے ساتھ تقریباً یکساں ہے۔
اہموس نے اگرچہ ریاضی کے چند اہم اور بنیادی اسرار کا پردہ چاک کیا تاہم وہ علم ریاضی کا بانی نہیں تھا، تاریخ درحقیقت ریاضی و سائنس کے اولین بانیان و حقیقی موجدوں اور زمانہ قبل از تاریخ کے ریاضی و سائنس کے عجائبات اور شاہکاروں کے اصل معماروں سے ناواقف ہے تاہم یہ دریافتیں اپنے بانیان کی عظمت و قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، تاریخ کے مطالعے سے ہمیں جن اولین سائنسدانوں کا ترتیب وار ذکر ملتا ہے ان میں نمبر 1۔ام ہوئپ ۔نمبر 2۔ اہموس مصری اور نمبر 3۔ ثالیس ملطی سر فہرست ہیں۔
اس طرح تاریخ و تحقیق کی رو سے ثالیس ملطی دنیا کا تیسرا قدیم ترین سائنسدان ہے جس کا تذکرہ تاریخ نے محفوظ رکھا ہے۔ وہ حضرت مسیح علیہ السلام سے چھ صدی پہلے 429 ق م میں پیدا ہوا اور شہر ملطوس کا رہنے والا تھا۔ ملطوس ایشیا میں ایک شہر ہے جزیرہ ساموس اور شہر ملطوس کے درمیان تنگ خلیج حائل ہے۔
ثالیس مصر کا سفر کرچکا تھا اور بابلی علوم پر دسترس رکھتا تھا۔ ثالیس نے اگرچہ چند مصری اساتذہ سے سائنس، فلسفے اور ریاضی کے سبق لیے تھے لیکن طبعاً وہ مقلد نہ تھا۔ لیکن ایک سچے محقق کی طرح اس کے خیالات تھے جو اس کے ذاتی مشاہدے اور غور و فکر کا نتیجہ تھے۔
ثالیس نے سورج گرہن اور چاند گرہن کی اصل وجہ بیان کی۔ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے اس نے کامل سورج گرہن کے متعلق جو 585 قبل مسیح کو ہونے والا تھا، حساب لگا کر اس کی صحیح تاریخ معلوم کی اور برسوں پہلے اس تاریخ کا اعلان کر دیا۔ جب اس تاریخ کو عین دن کے وقت رات کا سا اندھیرا چھا گیا تو ثالیس کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گئی۔ ثالیس نے سورج کے متعلق پہلا یہ انکشاف کیا کہ وہ لاکھوں میل چوڑا ہے آج ہم جانتے ہیں کہ سورج کا قطر آٹھ لاکھ چونیتس ہزار میل ہے۔
ثالیس ملطی سے پہلے شمسی سال جس کے مطابق موسم بدلتے ہیں 360 دن کا سمجھا جاتا تھا۔ ثالیس نے سب سے پہلے اسے 365 دن کا بنایا اور یہ صحیح اندازہ بھی اس کی ہیئت دانی کا کمال اور دانائی و حکمت کا روشن ثبوت ہے لیکن اس کی تحقیق اور جستجو کا دائرہ ہیئت کے علاوہ دیگر علوم پر بھی محیط تھا۔
اس نے سب سے پہلے ان ہندسی اصولوں کی تصدیق کی جنھیں تین صدیوں بعد اقلیدس نے مرتب کیا مثلاً یہ دعویٰ کہ متساوی الساقین مثلث کے بنیادی زاویے برابر ہوتے ہیں۔ ثالیس سے اقلیدس تک اور اس سے 1643 میں سر آئزک نیوٹن کے عناصر علم الہندسہ نامی کتاب تک عملی جستجو کا تسلسل ہے جنھوں نے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی راہ ہموار کی۔