مفادات کا بازار

’’لگا ہے مصر کا بازار دیکھو۔‘‘

sana_ghori@outlook.com

ہمارے ملک میں سیاست، مفادات کے لیے جوڑتوڑ اور تضادات کے اشتراک کا دوسرا نام ہے۔ یہ تو بہت نرم الفاظ میں کی گئی تعریف ہے، ورنہ میں اور آپ سب جانتے ہیں کہ ہماری سیاست کی تعریف کیسے کیسے گفتنی اور ناگفتنی لفظوں کے ساتھ کی جاتی ہے۔

بہرحال، بعض مواقعے پر سیاست کے یہ جوڑتوڑ اور تضادات اپنے عروج پر پہنچ جاتے ہیں، یہ رجحانات پوری طرح سامنے آ جاتے ہیں، ایکسپوز ہوجاتے ہیں، اور ایسا موقع آ چکا ہے، سینیٹ کے الیکشن کی صورت میں جو پانچ مارچ کو ہونا ہیں۔ چنانچہ سیاسی منظر نامے میں ہلچل مچی ہے۔ ایک طرف اسلام آباد اس گہماگہمی کا مرکز بنا ہوا ہے تو دوسری طرف صوبائی دارالحکومتوں میں سینیٹ کے معرکے کی تیاریاں زور شور سے جاری ہیں۔

پاکستان کے پارلیمانی نظام میں سینیٹ کو ایوان بالا کی حیثیت حاصل ہے، یعنی یہ ملک کی دو ایوانی مقننہ کا اعلیٰ حصہ ہے۔ اسی بنا پر صدرِمملکت کی غیر موجودگی میں سینیٹ کا چیئرمین ملک کا قائم مقام صدر ہوتا ہے۔ سیاست کا ایک عام طالب علم بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک وفاقی مملکت میں سینیٹ جیسے ادارے کی کتنی اہمیت ہے یا ہونی چاہیے۔ملک کی تمام اکائیوں کی مساوی نمایندگی رکھنے والا یہ ادارہ قومی یکجہتی کی علامت ہے، جس میں کسی ایک صوبے کے ارکان کی عددی برتری نہ ہونے اور تمام صوبوں کے ارکان کی تعداد یکساں ہونے کے باعث یہ خدشہ نہیں ہوتا کہ کوئی صوبہ محض اپنی اکثریت کی بنا پر من مانی کرے گا یا قومی امور میں اپنی ہی چلائے گا۔

سینیٹ کا ادارہ ایک اور حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ قومی اسمبلی میں ارکان براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ چنانچہ سیاسی جماعتوں کو کسی بھی حلقے میں اپنا امیدوار نام زد کرتے ہوئے اس حلقے کے رائے دہندگان کے رجحانات، مقامی زمینی حقائق اور دیگر امور کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین بار بار سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں، مالی بددیانتی کا ریکارڈ رکھنے والوں اور الیکشن ٹکٹ دینے والی جماعت سے یکسر مختلف نظریات کے حامل افراد کو نامزد کرتے ہوئے اس کی سیاسی قوت کو عذر بناتی ہیں۔ اس طرح ہمارے یہاں یہ کلیہ طے پا گیا ہے کہ علمی حیثیت، اہلیت، دیانت اور سیاسی کمٹمنٹ کے بجائے دولت، سیاسی اثر و رسوخ، برادری کی طاقت اور ان جیسے دیگر عوامل کی بنا پر امیدوار کا انتخاب سیاسی جماعتوں کی مجبوری ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے وطن میں سیاسی جماعتیں اتنی مضبوط حیثیت حاصل نہیں کر پائی ہیں کہ رائے دہندگان امیدوار کی ذاتی حیثیت اور پہچان کے بجائے سیاسی جماعت کو اہمیت دیں اور اسی بنا پر ووٹ دینے کا فیصلہ کریں۔ ملک کی اِکادُکا سیاسی جماعتیں ہی اس پوزیشن میں ہیں کہ کسی بھی امیدوار کو نامزد کر کے کامیابی حاصل کر سکیں۔ قومی اسمبلی کی حد تک تو سیاسی جماعتوں کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے، لیکن جہاں تک سینیٹ کا تعلق ہے تو سیاسی جماعتیں امیدواروں کے چناؤ میں آزاد ہیں، وہ دانش وروں، مختلف شعبوں کے ماہرین اور متوسط طبقے اور مزدوروں کسانوں کے نمایندوں کے سینیٹ میں بھیج سکتی ہیں۔

اس طرح ایوانِ بالا جو صوبوں کا نمایندہ ادارہ ہے ایک ایسا ایوان بن سکتا ہے جہاں اہل دانش اور مختلف شعبوں کے ماہرین ملک کے مختلف معاملات پر پوری گرفت اور گہرائی کے ساتھ مباحثہ کریں اور جو بچھڑے ہوئے طبقات کا بھی نمایندہ ایوان ہو، لیکن سینیٹ کے گزشتہ انتخابات کی تاریخ اور موجود الیکشن کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سیاست دان اس ادارے کے وقار اور اس کی حیثیت کو کس طرح پامال کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔


اس وقت سینیٹ کی نصف یعنی باون سیٹوں پر امیدواروں کے انتخاب کے لیے مقابلہ ہونا ہے اور انتخابی منظر نامے پر نظر دوڑاتے ہوئے زبان بے اختیار کہہ اٹھتی ہے ''لگا ہے مصر کا بازار دیکھو۔'' بولیاں لگ رہی ہیں، بھاؤ تاؤ ہو رہا ہے، قیمتیں لگائی اور چکائی جا رہی ہیں۔ سینیٹرز کا چناؤ ان کے متعلقہ صوبے کی اسمبلی کے ارکان کرتے ہیں، گویا عام نہیں خاص الخاص لوگ، لہٰذا ان کی قیمت بھی بہت خاص ہوتی ہے، چنانچہ خبروں کے مطابق سیاست کی منڈی میں اس وقت ایک ووٹ کی کم از کم قیمت ڈھائی کروڑ روپے ہے۔

فاٹا سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں انھیں مخصوص امیدوار کو ووٹ دینے کے عوض پچیس کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔ اب ظاہر ہے منہگائی بڑھی ہے تو نرخوں میں بھی اضافہ ہی ہوا ہو گا۔ یہ قیمت سیاسی جماعتیں نہیں چکاتیں، بلکہ وہ لوگ ادا کرتے ہیں جنھیں یہ جماعتیں اپنا امیدوار نام زد کرتی ہیں۔اسی لیے سیاسی جماعتوں کو سینیٹ کا امیدوار بنانے کے لیے مال دار اسامیاں چاہیے ہوتی ہیں۔ ایسے مال دار لوگ جو پارٹی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے دے سکیں اور اپنے انتخاب کے لیے اراکین اسمبلی کو خریدنے کی بھی پوری استطاعت رکھتے ہوں۔

کسی سرمایہ دار یا غیرقانونی ذرایع سے دولت کمانے والے کو سینیٹ کے لیے نام زد کر کے مال بنانے کے عمل کے بعد عزیز و اقارب کو نوازنے کا نمبر آتا ہے۔ سو نوازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ نے اپنے داماد کو میدان میں اتارا ہے تو دوسرے صوبے کے ایک سیاسی جماعت کے صوبائی صدر اپنے دو عزیزوں کو سینیٹ کا امیدوار نام زد کروا چکے ہیں۔

سیاست داں ایک اور طریقے سے بھی قواعد و ضوابط کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں۔ ایک جماعت کے سندھ سے تعلق رکھنے والے تین رہنماؤں کو پنجاب سے سینیٹ کا رکن بنوانے کے لیے نامزد کیا گیا ہے، جو ظاہر ہے آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق سینیٹ صوبوں کا نمایندہ ایوان ہے۔

جس میں کسی صوبے کے لیے مختص نشست پر اسی صوبے کا شہری نامزد اور منتخب ہونا چاہیے۔ اس سے پہلے بلوچستان اور خیبرپختون خوا کی نشستیں بھی صوبے سے باہر کے افراد کی جھولی میں ڈالی جا چکی ہیں۔

دولت، طاقت اور اقرباء پروری کی اس دوڑ میں سیاسی جماعتوں نے اپنے کتنے ہی اہل، سنیئر اور اپنی جماعت سے ہر دور میں وفا نبھانے والے رہنماؤں اور کارکنوں کے نظر انداز کر دیا ہے، جس کی وجہ سے لگ بھگ ہر بڑی جماعت میں اختلافات کا سلسلہ جنم لے چکا ہے۔ اس طرح سینیٹ کے الیکشن کا عمل ہمارے سیاسی نظام اور ہماری سیاست کی ساری سیاہیوں کو آشکار کر رہا ہے۔

خرید و فروخت اور اقرباپروری کے نتیجے میں جو سینیٹ مکمل ہو گی اس میں آنے والے اس ادارے کی کارکردگی اور اس کے وقار کے حوالے سے کیسے ثابت ہوں گے؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
Load Next Story