عزت بچانے کی ناکام کوشش

لباس کو نیلام کرنے اوروصول شدہ رقم گنگا کی صفائی پر خرچ کرنے کا اعلان دراصل سیاسی شرمندگی چھپانے کی کوشش ہے۔

لباس کو نیلام کرنے اوروصول شدہ رقم گنگا کی صفائی پر خرچ کرنے کا اعلان دراصل سیاسی شرمندگی چھپانے کی کوشش ہے۔ فوٹو اے ایف پی

WASHINGTON:
شری نریندر مودی جی نے شاید کبھی بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ایک دن وہ بھارت، جسے دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک بھی کہا جاتا ہے، کے وزیر اعظم بن جائیں گے۔

غریبی کے دنوں میں جب وہ گجرات کی ایک کچی آبادی میں چائے بنا کر فروخت کیا کرتے تھے، اُس دور میں مہنگی گاڑیاں، مہنگے سوٹ، اونچے شاندار مکان اور امیروں کے دیگر چونچلے دیکھ کر وہ کیا سوچتے ہونگے یہ کہنا مشکل ہے، لیکن شاید میری طرح اُن کے دماغ میں بھی یہ سوال کبھی کبھار ضرور مچلتا ہوگا کہ یہ امیر لوگ کم محنت کے باوجود آخر اتنے سارے پیسے کیسے کمالیتے ہیں؟ اور ہم غریب لوگوں کے پاس تمام محنت و مشقت کے باوجود اتنے پیسے کیوں جمع نہیں ہوتے؟

نریندر مودی صاحب کے بارے میں مزید گفتگو کرنے سے پہلے میں یہاں واضح کردوں کہ ذات پات اور چھوت اچھوت جیسے نظریات سے مجھے سخت اختلاف ہے۔ میرا ایمان ہے کہ سب انسان برابر ہیں اورمناسب موقع ملنے پر ہر ایک اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بڑے سے بڑا کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے۔ سماجی تقسیم مصنوعی ہے، ہمارے خالق نے کسی بھی خاندان یا نسل کو کوئی خاص آبائی پیشہ اختیار کرنے کے لئے پیدا نہیں کیا ہے۔

بہرحال سماجی تقسیم کے نظام کے مطابق ذات کے حوالے سے ان کی پیدائش بطور گھانچی ہوئی۔ مودی کے والد صاحب گجرات میں ایک ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچتے تھے اور نریندر مودی صاحب بھی اُس کام میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ ان کی برادری کے زیادہ تر افراد خوردنی تیل نکالنے اور بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ گجرات سے باہر یہ پیشہ اختیار کرنے والوں کو تیلی بھی کہا جاتا ہے۔

تنگدستی کی گود میں آنکھ کھولنے والے نریندر مودی اپنی قائدانہ صلاحتیوں کے بل بوتے اور اپنے ساتھیوں کے اعتماد کی وجہ سے سیاسی منازل طے کرتے ہوئے بھارتی ریاست گجرات کے وزیراعلٰی بنے۔ گجرات میں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے شہرت پانے کے بعد انہوں نے نظریں دہلی پر جمادیں اور چند سالوں میں وہ منتخب ہوکر ایک ارب سے زائد آبادی والے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔

مودی نے ترقی کی ہے اور خوب کی ہے۔ ان پر مختلف الزامات بھی لگے ہیں، جن میں سب سے زیادہ گھناونا الزام گجرات میں ہندو مسلم فسادات کے دوران ہزاروں افراد کی ہلاکتوں کے باوجود بلوائیوں کو نہ روکنا اور اُن کیخلاف کوئی کارروائی نہ کرنے کا الزام تھا۔ لیکن یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان کی بڑی عدالتوں نے انہیں اس سازش کے الزام سے بری کردیا۔

خیر یہ ہمارے آج کا موضوع نہیں ہے۔ آج ہم بات کررہے ہیں ایک بند گلا لباس کی جس پر صاحب کا مکمل نام ''نریندر دمودر داس مودی'' سنہرے حروف میں باریک اور نفیس لکیروں کی صورت میں لکھا گیا تھا۔ یہ لباس خاص طور پر اُن کی امریکی صدر اوباما سے ملاقات کے لئے تیار کیا گیا تھا اور بعض ذرائع کے مطابق ان کے کسی معتقد نے یہ سوٹ انہیں تحفے میں پیش کیا تھا۔



امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد جب اُن کے لباس کی خبریں میڈیا کی زینت بنی تو اس لباس کے انتخاب کی بنیاد پر مودی کو ایک بوکھلا دینے والی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ناقدین نے شری نریندر مودی جی کو انتہا درجے کا خود پسند کہا، جبکہ بعض نے الزام لگایا کہ وہ بڑائی کے جنوں میں مبتلا ہیں اوربعض نے کہا کہ وہ نرگسیت کا شکارہیں، یعنی اپنے آپ سے ان کو سخت محبت ہے اور اِسی لئے انہوں نے ایک ایسے سوٹ کا انتخاب کیا جس پر ایک خاص دیدہ زیب ترتیب سے انہی کا نام مکرر لکھا گیا تھا۔ میڈیا کے مطابق اس سوٹ کی کم از کم قیمت دس لاکھ بھارتی روپے تھی۔




اِس خبر پر بھارت اور دنیا بھر میں کافی شور مچا اور مودی جی کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ تجزیہ کاروں اور مبصرین نے کہا کہ ایک ایسے ملک کے سربراہ کو جہاں نصف سے زائد آباد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اتنا قیمتی لباس زیب تن کرنا زیب نہیں دیتا۔

سخت تنقید کے کچھ ہی دنوں بعد نریندر مودی صاحب کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ اس سوٹ کو نیلام کر کے وصول شدہ رقم ہندووں کے لئے تقدس رکھنے والے دریائے گنگا کی صفائی پر خرچ کریں گے۔ اس اعلان پر بھی تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ چونکہ یہ تحفہ انہیں بطور وزیر اعظم دیا گیا ہے اس لئے قانون کے مطابق اسے سرکاری خزانے میں جمع ہونا چاہیے۔ یعنی مودی کو یہ لباس نیلام کرنے کا قانونی طور پر اختیار نہیں ہے۔ نیلامی کے اعلان نے ایک اور بحث چھیڑدی۔ کہا گیا کہ لباس کو نیلام کرنے اوروصول شدہ رقم گنگا کی صفائی پر خرچ کرنے کا اعلان دراصل سیاسی شرمندگی چھپانے کی کوشش ہے۔

یاد رہے کہ حزب اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس کے رہنماوں نے اِس قدر مہنگا سوٹ پہننے پر نریندر جی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ دوسری جانب عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال نے بھی مودی پر ملک کی بنیادی حقائق سے نابلد ہونے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں غربت عروج پر ہے اور حکمران مہنگے لباس کی نمائش میں مصروف ہیں۔

خیر، الزام، تنقید اور سخت تنقید کے باوجود، مودی جی کا سوٹ نیلام ہوگیا اورانہی کی ریاست سے تعلق رکھنے والے ہیروں کے ایک تاجر نے وہ سوٹ تقریباً 6 لاکھ 93 ہزار امریکی ڈالرز میں خرید لیا۔ یعنی محض 10 لاکھ کے سوٹ کے عوض تقریباً 4 کروڑ بھارتی روپے ملے۔خالص کاروباری نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو سودا اچھا ہی نہیں، بلکہ بہت اچھا ہے۔

یہ بحث الگ ہے کہ بھارت میں غربت کے مارے بہت سارے لوگ ہیروں کے اس سوداگر کے بارے میں شاید یہ سوال اب بھی پوچھ رہے ہوں گے کہ آخر اِن امیروں کے پاس اتنے پیسے آتے کہاں سے ہیں کہ وہ ایک لباس 6 لاکھ ڈالرمیں خرید سکیں جبکہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی کو کھانے اور پینے کے لالے پڑے ہوے ہیں ۔

سوال یہ بھی ہے کہ منتخب حکمران کو جمہور کا آئینہ ہونا چاہیے یا پھر اس کی طرز زندگی اور طرز شاہانہ بودوباش ہونا چاہیے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ مہنگے سوٹ زیب تن کرکے نریندر مودی اپنے اور اپنے ملک کے غریب لوگوں کے درمیان فاصلہ بڑھا رہے ہیں؟

یاد رکھیں کہ یہ سوالات صرف ہندوستان ہی میں نہیں، بلکہ وطنِ عزیز میں بھی کروڑوں غریب عوام اپنے رہنماؤں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ آخر ان کے پاس اتنے پیسے آتے کہاں سے ہیں؟ اور وہ تمام تر محنت و مشقت کے باوجود کیوں کچھ پیسے جمع نہیں کرپاتے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story