دہشت گردی میں بیرونی کردار

روس اور امریکا کے درمیان سرد جنگ میں پاکستان امریکا کا اہم اتحادی رہا۔

روس اور امریکا کے درمیان سرد جنگ میں پاکستان امریکا کا اہم اتحادی رہا۔ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ہونے والی جنگ میں جس کو جہاد کا نام دیا گیا امریکا کا کردار انتہائی اہم تھا۔ تمام جنگجوؤں کو مسلح کرنے اور مدد کرنے میں امریکا ہمیشہ پیش پیش رہا۔ تا کہ سوویت یونین کو افغانستان سے شکست دے کر باہر نکالا جا سکے۔

آخرکار یہ جنگ سوویت یونین کی شکست پر منتج ہوئی اور پھر سوویت یونین ٹوٹ کر مختلف ریاستوں میں بٹ گیا اور امریکا بلاشرکت غیرے دنیا کا بے تاج بادشاہ بن گیا۔ آج بھی روس اور امریکا ایک طرح کی سرد جنگ میں مصروف ہیں اور تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کو بھی امریکی منصوبہ بندی کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے تا کہ روس جس کی معیشت تیل کی برآمدات پر انحصار کرتی ہے اس کو نقصان پہنچایا جائے۔

بہرحال امریکا جو اپنی پالیسیاں بنانے میں ہمیشہ اپنے مفادات کا غلام رہا ہے اس کے لیے کسی بھی وقت اصول پرستی پالیسی سازی میں کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جہادی جو پہلے امریکا کا مطمع نظر تھے اب امریکا کو کھٹکنے لگے۔

9/11 کے واقعے کے بعد امریکا نے جس طرح مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولا وہ سب کے سامنے ہے اور مسلمانوں کے لیے دنیا بھر میں عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی گئی جس کا سب سے بڑا نشانہ پاکستان بنا اور وطن عزیز کو اس جنگ میں بالواسطہ طور پر جھونک دیا گیا۔ جس کا ناقابل تلافی نقصان ہمارے ملک کو اٹھانا پڑا۔

طالبان کے خلاف کارروائی کے نام پر جس طرح ہمارے قبائلی علاقوں میں پے درپے ڈرون حملے کیے گئے اس سے انتہا پسندی میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ہمارے حکمرانوں کی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں رہنے والے لوگوں اور انتہا پسندوں نے پاکستان کی ریاست کو امریکا کا ہمنوا قرار دے دیا اور ملک میں کشت و خون کا وہ کھیل شروع ہوا جو آج تک جاری ہے اور تھمنے کا نام بھی نہیں لے رہا۔

انتہا پسندوں نے پوری ریاست پاکستان کو اپنا دشمن سمجھ کر کارروائیاں شروع کر دیں۔ ان حملوں کی وجہ سے امریکا کے مفادات کو تو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا البتہ پاکستان شدید مالی اور جانی نقصانات سے دوچار ہو گیا۔ دوسری طرف امریکا پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام بھی لگاتا رہا اور ''ڈو مور'' کا مطالبہ جا بجا کرتا رہا۔ تا کہ ریاست پاکستان کو مسلسل دباؤ میں رکھا جا سکے۔ اس کے ساتھ دی جانے والی تمام امداد کو اس کے مطالبات پر عمل کرنے سے مشروط کر دیا گیا۔

افغانستان میں ہونے والی ناکامیوں کا ملبہ امریکا ہمیشہ پاکستان پر گراتا رہا اور وہاں ہونے والی طالبان کی کامیابیوں کو پاکستان کے مبینہ تعاون سے مشروط کرتا گیا۔ جب کہ امریکا نواز کرزئی حکومت بھی جو کہ ویسے بھی کٹھ پتلی تھی یہی راگ الاپنے میں مصروف رہی۔

اس دوران پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور انتہا پسندی نے تمام حدوں کو پار کر لیا۔ تو پاکستانی فوج نے بالآخر وزیرستان اور اس کے ملحقہ علاقوں میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا جس میں بلاتفریق تمام گروپوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ان تمام حالات میں بھی امریکا مطمئن نہ ہوا اور پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھاتا رہا اور کچھ عرصے پہلے امریکی محکمہ دفاع اور سی آئی اے کی رپورٹ میں ایک دفعہ پھر پاکستان پر طالبان کی درپردہ حمایت کا الزام لگایا گیا۔


ان تمام حالات میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کچھ عرصے میں امریکا کا دورہ کیا۔ جسے سفارتی امور کے ماہرین ایک کامیاب دورہ قرار دے رہے ہیں۔ اس دورے کے نتیجے میں بہت سی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوا اور امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔ آرمی چیف کی امریکا کے اعلیٰ حکام کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئیں جن کو کافی کامیاب قرار دیا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں بارک اوباما نے وزیر اعظم نواز شریف کو فون بھی کیا اور کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔

اس دوران امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور دفتر خارجہ کے کچھ بیانات بھی سامنے آئے جن سے یہ بات واضح ہوئی کہ امریکا خطے کے بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا احساس کرنے پر مجبور ہوا ہے، شاید اس تمام تر تبدیلی کی وجہ پھر امریکی مفاد ہے کیونکہ امریکا عنقریب افغانستان سے باعزت انخلا چاہتا ہے۔

جس کے لیے اس کو پاکستان کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ امریکا خود یہ بات جانتا ہے کہ برسوں جاری رہنے والی اس لاحاصل جنگ نے اس کو کوئی کامیابی نہیں دی۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی سی آئی اے کی خفیہ رپورٹ میں اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا کہ ڈرون حملوں کے نتیجے میں امریکا کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ لیکن اس لاحاصل جنگ نے پاکستان کو اندرونی انتشار اور تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا۔

اس دوران امریکا کی آشیرباد سے آنے والی اشرف غنی کی نئی افغان حکومت نے بھی اپنی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلیاں لانے کا اشارہ دیا اور افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر و رسوخ کو کم کرنے کا اعادہ بھی کیا۔ پاکستانی حکومت کے اعلیٰ حلقوں کی طرف سے اشرف غنی کی ان یقین دہانیوں پر خوشی کا اظہار کیا گیا یہی وجہ ہے کہ اشرف غنی نے جب پچھلے مہینے پاکستان کا دورہ کیا تو اس میں وہ اپنے ساتھ افغان فوج کے سربراہ اور دوسرے اعلیٰ حکام کو بھی لائے تھے کیونکہ پاکستان کو ہمیشہ افغان آرمی اور انٹیلی جنس حکام کی سرگرمیوں پر تشویش رہی ہے۔ افغان حکومت کی طرف سے پاکستان کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف کسی کارروائی میں استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔

یہ بات ایک کھلی حقیقت ہے کہ جب پاکستانی فوج نے طالبان کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کا آغاز کیا تو طالبان کی مرکزی قیادت اور کئی ہزار جنگجوؤں نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ لے لی۔ حالیہ سانحہ پشاور کے بعد بھی یہ اعلانات سامنے آئے کہ دہشت گردی کا یہ منصوبہ بھی سرحد پار بنایا گیا اسی وجہ سے اس سانحے کے فوری بعد آرمی چیف نے افغانستان کا دورہ کیا اور افغان قیادت کو وہ تمام ثبوت فراہم کیے جس سے اس سانحے کے مرکزی کرداروں پر گرفت مضبوط کرنا مقصد تھا۔

چنانچہ حالیہ دنوں میں ایساف کمانڈر اور افغان آرمی چیف نے پاکستان کا جوابی دورہ کیا اور پاکستان کی جائز شکایات کا ازالہ کرنے کی پھر یقین دہانی کرائی۔ میڈیا کی اطلاعات ہیں کہ افغانستان کے صوبے کنڑ میں افغان فوج نے شدت پسندوں پر کریک ڈاؤن شروع کیا، جس میں کئی جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کی اطلاعات ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ کریک ڈاؤن ایک قریبی گاؤں میں شدت پسندوں کے حملے کے جواب میں کیا گیا ہے۔

بہرحال یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کیا واقعی افغان حکومت ان جنگجوؤں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کی واقعی صلاحیت بھی رکھتی ہے؟ لیکن اس وقت یہ بات بہت اہم ہے کہ دونوں امریکا اور افغانستان پاکستان میں قیام امن بحال کرنے میں ہماری مدد کریں۔ کیونکہ افغانستان ان تمام انتہا پسند گروہوں اور جنگجوؤں کے لیے ایک جنت بن گیا ہے جنھوں نے آپریشن ضرب عضب کے بعد سے وہاں پناہ لے رکھی ہے۔ اس سلسلے میں امریکا اور افغانستان دونوں پر ہی بہت بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

اگرچہ دونوں حکومتیں پاکستان کی طرف سے دی جانے والی قربانیوں کی معترف ہیں لیکن وہ کس حد تک عملی طور پر پاکستان کی جائز شکایات کا ازالہ کریں گی اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا کیونکہ پاکستان میں قیام امن کے لیے دونوں ممالک پر اب بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔
Load Next Story