سیاسی عامل کامل اور بابے اچھے ہیں
عوام کی قسمت پر سوائے قرض کا بوجھ بڑھنے کے اور کچھ بھی نہیں ہے تو ان کے تو دل ہی پھٹ جائیں گے
عام پیشہ ور عاملوں، کاملوں، بابا بنگالی، پرتگالی، سنیگالی حتیٰ کہ کالی گالی ماہرین نجوم و عملیات و تعویزات و جنات وغیرہ کے بارے میں تو آپ سب کو معلوم ہے کہ آج کل ہر جگہ ان کے طوطے طوطی بول رہے ہیں اخباری سے لے کر دیواری ملفوظات تک ان کے اشتہار چلتے ہیں لیکن سیاسی عاملین کاملین اور بابوں اور ماہرین کے بارے میں آپ کی جان کاری کچھ زیادہ نہیں ہو گی۔
اس لیے آج ہم ''ان ہی'' ماہرین اور عاملین کاملین کے بارے میں بات کریں گے لیکن اس سے پہلے اس مشہور و معروف عامل کامل اعظم اور ماہر نجوم کے بارے میں کچھ کہنا ضروری ہے جس نے ایک نوجوان کا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا کہ چالیس سال تک تمہارے ستارے گردش میں رہیں گے اور زندگی بڑی کٹھن گزرے گی اس پر نوجوان نے یہ سمجھا کہ چالیس سال کے بعد میری قسمت کھل جائے گی اور یہی بات اس نے عامل کامل سے پوچھ بھی لی کہ چالیس سال کے بعد میرے دن پھر جائیں گے نا ۔۔۔ اس پر بابے نے بتایا کہ دن پھرنے کا تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا مجھے یقین ہے کہ تم اپنی بدنصیبوں اور مصیبتوں کے عادی ہو جاؤ گے ...
زندگی کی قید سے تم کیا نکالو گے اسے
موت جب آ جائے گی تو خود رہا ہو جائے گا
راویوں نے بعد کے حالات بالکل نہیں بتائے ہیں کہ وہ شخص عادی ہو گیا یا چالیس سال ہی میں مصیبتوں کی ''تاب'' نہ لا کر دوسرے جہاں کو فرار ہو گیا ان زخمیوں کی طرح جو اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی زخموں کی تاب نہ لا کر دنیا کے سب سے بڑے معالج جناب حضرت عزرائیل کو ریفر ہو جاتے ہیں، لیکن اس ''شخص'' کے بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں جسے نجومیوں نے چالیس سال کے بعد کی تاریخ دی تھی لیکن چالیس تو چالیس اٹھاسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی اس کا مرض بلکہ ''امراض'' ویسے کے ویسے ہی ہیں بے چارا نہ تو پوری طرح عادی ہو ا نہ فرار ہونے میں ''کام یاب'' ہو پایا ہے اور بدستور کڑھ رہا ہے ایڑیاں رگڑ رہا ہے اور درد سے چور چور ہو رہا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
اگر آپ غور سے موازنہ کریں تو ان عاملوں کاملوں پروفیسروں پامسٹوں اور بابے بنگالیوں یا ماہرین تعویزات عملیات کی طرح ہمارے ''سیاسی'' لیڈروں کا طریقہ واردات بھی ٹھیک ویسا ہی ہے وہی کہ دھیرج رکھو یہ تعویز لو یہ وظیفہ پڑھو عمل دہراؤ بہت جلد تیرے دن پھر جائیں گے یا ۔۔۔۔۔ فکر نہ کرو میں تیرے لیے چلہ کاٹ رہا ہوں عمل کر رہا ہوں ساری بلائیں دور ہو جائیں گی یا ۔۔۔۔ تمہارے ستارے گردش میں ہیں اپنے عمل سے تمہارے ستارے فلاں برج میں لے آؤں گا ... بس تھوڑی دیر اور ... چند روز اور میری جان فقط چند ہی روز ... بس تم شکرانہ دیتے رہو صدقات جاری رکھو، میں ہوں نا ۔۔۔ اب کے جو عمل میں کر رہا ہوں اس سے تمہارے اوپر منڈلانے والے سارے منحوس سائے ہٹ جائیں گے۔
حالانکہ وہ آفات وہ مصیبتیں وہ بلائیں وہ منحوس سائے یہ خود ہی ہوتے ہیں، وہ نجومی جس نے اس شخص کو چالیس کے بعد کا مژدہ سنایا تھا وہ بڑا نادان تھے سالوں کا تعین ہی غلط تھا ''بہت جلد'' یا کل پرسوں سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہے، یا یوں کہیے کہ وہ نجومی ترکھان کا بیٹا تھا۔ ترکھان کے بیٹے کو جب ایک شخص نے کرسی بنانے کو کہا تو اس نے کھجور کی گٹھلی کو ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا کہ تم فکر نہ کرو تمہاری کرسی بن جائے گی اس کھجور کی گٹھلی کے پھوٹنے' درخت بننے اور پھل دینے تک انتظار کرو۔
باپ آیا تو بیٹے نے اسے کارنامہ سمجھ کر یہ قصہ سنایا اور اپنی اس ہوشیاری کی داد چاہی جو اس نے کرسی بنوانے والے سے کی تھی، لیکن باپ نے اپنا اور اس کا سر پیٹتے ہوئے کہا کم بخت کھجور کی گٹھلی کا کیا بھروسہ یہ تو کبھی نہ کبھی پھوٹ کر اور درخت بن کر میوہ دینے لگے گی تم نے اسے کل کا وعدہ کیوں نہیں دیا کیونکہ ''کل'' کبھی نہیں آتی کیونکہ کل تو جب بھی آتی ہے آج بن جاتی ہے اور کل کو اگلے دن پھر دھکیل دیتی ہے۔
ہمارے ''نجومیوں'' نے بھی کبھی فکس ڈیٹ نہیں بتائی بلکہ ''کل'' اور ''بہت جلد'' کا تیر بہدف نسخہ استعمال کرتے ہیں' کل جو کبھی نہیں آتی، آتے ہی آج بن جاتی ہے اور ''بہت جلد'' تو ایک سمندر ہے جو کام ہفتے میں ہو جاتا ہے وہ بہرحال ایک مہینے کی نسبت بہت جلد ہو جاتا ہے اور اگر ایک کروڑ سال لگ جائیں تو بھی دو کروڑ سال سے تو ''بہت جلد'' ہو جاتا ہے اور پھر
آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
اور آہوں کا اثر دیکھا کس نے ہے کیونکہ اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب جاتا ہے اور روتے روتے بیٹھ جاتی ہے آواز رونے والے کی اور پھر ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ
مٹ گیا ذوق یقیں نقش گماں سا رہ گیا
رک گئیں آہیں فقط دل میںد ھواں سا رہ گیا
لیکن اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم ان عاملوں کاملوں اور ماہرین عملیات و تعویزات کو برا بھلا کہنا چاہتے ہیں یا ان سیاسی تعویز گھنڈوں والوں کے بخیے ادھیڑنے والے ہیں جو اٹھاسٹھ سال سے ہمیں قسموں، وعدوں اور بیانوں کے تعویزات پر بہلا رہے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں ہم تو ان سب کا ہر طرح کے تعویزات اور عملیات کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی ان تعویزات سے تو ہم زندہ ہیں آنے والے ''اچھے دنوں'' کی امید میں تو یہ برے دن گزار رہے ہیں ورنہ نہ جانے کب کے مر کھپ گئے ہوتے، چالیس سال اور ''بہت جلد'' والوں کا ہمیں مشکور ہونا چاہیے، ذرا سوچیے اگر کسی مریض کو بتا دیا جائے کہ تمہارے مرض کا کوئی علاج نہیں کسی بے اولاد کو کہا جائے کہ تم کبھی بھی اولاد کا سکھ نہیں پا سکتے۔
اگر کسی مجرم کے باپ کو بتایا جائے کہ تمہارے بیٹے کو موت سے کوئی نہیں بچا سکتا تو وہ تو اس وقت مایوسی سے مر جائیں گے لیکن کتنے اچھے ہیں وہ لوگ جو ان کے ہاتھ میں تعویز پکڑا کر یقین دلاتے ہیں کہ تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے تم باپ بن جاؤ گے اور تمہارے بیٹے کو رہائی ملے گی، تو مریض ٹھیک ہو نہ ہو اولاد پیدا ہو نہ ہو بیٹے کو رہائی ملے نہ ملے کم از کم اس کے اور متعلقین کی زندگی تو ''امید'' سے مالا مال ہو جاتی ہے اسی لیے تو کہتے ہیں کہ دو دن کے لیے کوئی ہمیں پیار کر لے جھوٹا ہی سہی یا ۔۔۔۔
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
اس لیے ہم تو ان عاملوں، کاملوں، نجومیوں، پروفیسروں اور ماہرین عملیات و تعویزات کے ممنون ہیں چاہے وہ عام ہوں یا سیاسی ۔۔۔۔ کہ لوگوں کو جھوٹے ہی سہی خوش خبریوں پر زندہ رکھے ہوئے ہیں اگر آج ہم یقین کر لیں کہ ان لیڈروں ان کے خاندانوں ان کے سپورٹ اسکیموں ان کی اللے تللے اور ان کے قرض کی ''مے'' نے ہمیں گور کنارے پہنچایا ہوا اور اس بدنصیب ملک پر اتنی لوٹ مار اور تباہی و بربادی نازل ہو چکی ہے کہ آیندہ سو سال میں بھی کسی بہتری کی امید نہیں قرضے بڑھتے جائیں گے لوٹ مار مچی رہے گی بندر بانٹ جاری رہے گی اور عوام کی قسمت پر سوائے قرض کا بوجھ بڑھنے کے اور کچھ بھی نہیں ہے تو ان کے تو دل ہی پھٹ جائیں گے اس لیے اچھا ایک کے بعد ایک عاملوں کے پاس جاتے رہیں مختلف تعویزات و عملیات کے سہارے زندہ رہیں۔
اس لیے آج ہم ''ان ہی'' ماہرین اور عاملین کاملین کے بارے میں بات کریں گے لیکن اس سے پہلے اس مشہور و معروف عامل کامل اعظم اور ماہر نجوم کے بارے میں کچھ کہنا ضروری ہے جس نے ایک نوجوان کا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا کہ چالیس سال تک تمہارے ستارے گردش میں رہیں گے اور زندگی بڑی کٹھن گزرے گی اس پر نوجوان نے یہ سمجھا کہ چالیس سال کے بعد میری قسمت کھل جائے گی اور یہی بات اس نے عامل کامل سے پوچھ بھی لی کہ چالیس سال کے بعد میرے دن پھر جائیں گے نا ۔۔۔ اس پر بابے نے بتایا کہ دن پھرنے کا تو میں نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا مجھے یقین ہے کہ تم اپنی بدنصیبوں اور مصیبتوں کے عادی ہو جاؤ گے ...
زندگی کی قید سے تم کیا نکالو گے اسے
موت جب آ جائے گی تو خود رہا ہو جائے گا
راویوں نے بعد کے حالات بالکل نہیں بتائے ہیں کہ وہ شخص عادی ہو گیا یا چالیس سال ہی میں مصیبتوں کی ''تاب'' نہ لا کر دوسرے جہاں کو فرار ہو گیا ان زخمیوں کی طرح جو اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی زخموں کی تاب نہ لا کر دنیا کے سب سے بڑے معالج جناب حضرت عزرائیل کو ریفر ہو جاتے ہیں، لیکن اس ''شخص'' کے بارے میں ہم اچھی طرح جانتے ہیں جسے نجومیوں نے چالیس سال کے بعد کی تاریخ دی تھی لیکن چالیس تو چالیس اٹھاسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی اس کا مرض بلکہ ''امراض'' ویسے کے ویسے ہی ہیں بے چارا نہ تو پوری طرح عادی ہو ا نہ فرار ہونے میں ''کام یاب'' ہو پایا ہے اور بدستور کڑھ رہا ہے ایڑیاں رگڑ رہا ہے اور درد سے چور چور ہو رہا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
اگر آپ غور سے موازنہ کریں تو ان عاملوں کاملوں پروفیسروں پامسٹوں اور بابے بنگالیوں یا ماہرین تعویزات عملیات کی طرح ہمارے ''سیاسی'' لیڈروں کا طریقہ واردات بھی ٹھیک ویسا ہی ہے وہی کہ دھیرج رکھو یہ تعویز لو یہ وظیفہ پڑھو عمل دہراؤ بہت جلد تیرے دن پھر جائیں گے یا ۔۔۔۔۔ فکر نہ کرو میں تیرے لیے چلہ کاٹ رہا ہوں عمل کر رہا ہوں ساری بلائیں دور ہو جائیں گی یا ۔۔۔۔ تمہارے ستارے گردش میں ہیں اپنے عمل سے تمہارے ستارے فلاں برج میں لے آؤں گا ... بس تھوڑی دیر اور ... چند روز اور میری جان فقط چند ہی روز ... بس تم شکرانہ دیتے رہو صدقات جاری رکھو، میں ہوں نا ۔۔۔ اب کے جو عمل میں کر رہا ہوں اس سے تمہارے اوپر منڈلانے والے سارے منحوس سائے ہٹ جائیں گے۔
حالانکہ وہ آفات وہ مصیبتیں وہ بلائیں وہ منحوس سائے یہ خود ہی ہوتے ہیں، وہ نجومی جس نے اس شخص کو چالیس کے بعد کا مژدہ سنایا تھا وہ بڑا نادان تھے سالوں کا تعین ہی غلط تھا ''بہت جلد'' یا کل پرسوں سے بہتر کوئی نسخہ نہیں ہے، یا یوں کہیے کہ وہ نجومی ترکھان کا بیٹا تھا۔ ترکھان کے بیٹے کو جب ایک شخص نے کرسی بنانے کو کہا تو اس نے کھجور کی گٹھلی کو ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا کہ تم فکر نہ کرو تمہاری کرسی بن جائے گی اس کھجور کی گٹھلی کے پھوٹنے' درخت بننے اور پھل دینے تک انتظار کرو۔
باپ آیا تو بیٹے نے اسے کارنامہ سمجھ کر یہ قصہ سنایا اور اپنی اس ہوشیاری کی داد چاہی جو اس نے کرسی بنوانے والے سے کی تھی، لیکن باپ نے اپنا اور اس کا سر پیٹتے ہوئے کہا کم بخت کھجور کی گٹھلی کا کیا بھروسہ یہ تو کبھی نہ کبھی پھوٹ کر اور درخت بن کر میوہ دینے لگے گی تم نے اسے کل کا وعدہ کیوں نہیں دیا کیونکہ ''کل'' کبھی نہیں آتی کیونکہ کل تو جب بھی آتی ہے آج بن جاتی ہے اور کل کو اگلے دن پھر دھکیل دیتی ہے۔
ہمارے ''نجومیوں'' نے بھی کبھی فکس ڈیٹ نہیں بتائی بلکہ ''کل'' اور ''بہت جلد'' کا تیر بہدف نسخہ استعمال کرتے ہیں' کل جو کبھی نہیں آتی، آتے ہی آج بن جاتی ہے اور ''بہت جلد'' تو ایک سمندر ہے جو کام ہفتے میں ہو جاتا ہے وہ بہرحال ایک مہینے کی نسبت بہت جلد ہو جاتا ہے اور اگر ایک کروڑ سال لگ جائیں تو بھی دو کروڑ سال سے تو ''بہت جلد'' ہو جاتا ہے اور پھر
آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
اور آہوں کا اثر دیکھا کس نے ہے کیونکہ اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب جاتا ہے اور روتے روتے بیٹھ جاتی ہے آواز رونے والے کی اور پھر ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ
مٹ گیا ذوق یقیں نقش گماں سا رہ گیا
رک گئیں آہیں فقط دل میںد ھواں سا رہ گیا
لیکن اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم ان عاملوں کاملوں اور ماہرین عملیات و تعویزات کو برا بھلا کہنا چاہتے ہیں یا ان سیاسی تعویز گھنڈوں والوں کے بخیے ادھیڑنے والے ہیں جو اٹھاسٹھ سال سے ہمیں قسموں، وعدوں اور بیانوں کے تعویزات پر بہلا رہے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں ہم تو ان سب کا ہر طرح کے تعویزات اور عملیات کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی ان تعویزات سے تو ہم زندہ ہیں آنے والے ''اچھے دنوں'' کی امید میں تو یہ برے دن گزار رہے ہیں ورنہ نہ جانے کب کے مر کھپ گئے ہوتے، چالیس سال اور ''بہت جلد'' والوں کا ہمیں مشکور ہونا چاہیے، ذرا سوچیے اگر کسی مریض کو بتا دیا جائے کہ تمہارے مرض کا کوئی علاج نہیں کسی بے اولاد کو کہا جائے کہ تم کبھی بھی اولاد کا سکھ نہیں پا سکتے۔
اگر کسی مجرم کے باپ کو بتایا جائے کہ تمہارے بیٹے کو موت سے کوئی نہیں بچا سکتا تو وہ تو اس وقت مایوسی سے مر جائیں گے لیکن کتنے اچھے ہیں وہ لوگ جو ان کے ہاتھ میں تعویز پکڑا کر یقین دلاتے ہیں کہ تم بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے تم باپ بن جاؤ گے اور تمہارے بیٹے کو رہائی ملے گی، تو مریض ٹھیک ہو نہ ہو اولاد پیدا ہو نہ ہو بیٹے کو رہائی ملے نہ ملے کم از کم اس کے اور متعلقین کی زندگی تو ''امید'' سے مالا مال ہو جاتی ہے اسی لیے تو کہتے ہیں کہ دو دن کے لیے کوئی ہمیں پیار کر لے جھوٹا ہی سہی یا ۔۔۔۔
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
اس لیے ہم تو ان عاملوں، کاملوں، نجومیوں، پروفیسروں اور ماہرین عملیات و تعویزات کے ممنون ہیں چاہے وہ عام ہوں یا سیاسی ۔۔۔۔ کہ لوگوں کو جھوٹے ہی سہی خوش خبریوں پر زندہ رکھے ہوئے ہیں اگر آج ہم یقین کر لیں کہ ان لیڈروں ان کے خاندانوں ان کے سپورٹ اسکیموں ان کی اللے تللے اور ان کے قرض کی ''مے'' نے ہمیں گور کنارے پہنچایا ہوا اور اس بدنصیب ملک پر اتنی لوٹ مار اور تباہی و بربادی نازل ہو چکی ہے کہ آیندہ سو سال میں بھی کسی بہتری کی امید نہیں قرضے بڑھتے جائیں گے لوٹ مار مچی رہے گی بندر بانٹ جاری رہے گی اور عوام کی قسمت پر سوائے قرض کا بوجھ بڑھنے کے اور کچھ بھی نہیں ہے تو ان کے تو دل ہی پھٹ جائیں گے اس لیے اچھا ایک کے بعد ایک عاملوں کے پاس جاتے رہیں مختلف تعویزات و عملیات کے سہارے زندہ رہیں۔