مرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
’’صبح کا تارا‘‘ کیمرہ مین جان محمد جمن تھا جو کراچی سے لاہور شفٹ ہوا تھا
فلم ''دیا اور طوفان'' کی بے مثال کامیابی نے اداکار رنگیلا کو نہ صرف ایک باصلاحیت اداکار کے شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا بلکہ اسے ایک اداکار سے فلمساز،ہدایتکار اور مشہور ترین ہیرو بھی بنا دیا تھا اورہیرو بھی ایسا کہ وہ ایک وقت فلمی دنیا کا شہزادہ سلیم بن گیا تھا۔ اس کے فلم پروڈکشن آفس کے باہر فلمسازوں کی قطاریں لگی رہتی تھیں، ایک خاص دور ایسا بھی آیا کہ رنگیلا کی مصروفیت کی وجہ سے نام ور ہیرو محمد علی اور ندیم کی فلمی مصروفیات بھی ماند پڑ گئی تھیں۔
رنگیلا کے حوصلے اور عزائم بھی بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ اس کی فلم ''دل اور دنیا'' نے بھی فلمی دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیے تھے پھر رنگیلا نے بیک وقت دو فلموں کا آغاز کیا۔ ایک فلم کا نام تھا ''کبڑا عاشق'' جو مشہور انگریزی فلم ہنچ بیک آف ناسٹراڈیم کی کہانی پر مبنی تھی۔ اور رنگیلا اپنی اس فلم میں انتھونی کوئن کا کردار دہرا رہا تھا۔ دوسری فلم ''صبح کا تارا'' تھی جس میں سنگیتا کے ساتھ رنگیلا ہیرو تھا اورکبڑا عاشق کی ہیروئن نشو تھی۔
''صبح کا تارا'' کیمرہ مین جان محمد جمن تھا جو کراچی سے لاہور شفٹ ہوا تھا اور میری جان محمد سے کراچی کی فلم انڈسٹری ہی سے بڑی اچھی دوستی تھی جان محمد لاہور آکر رنگیلا پروڈکشن سے وابستہ ہوگیا۔ ایک دن میں نے جان محمد سے کہا۔ جان بھائی! رنگیلا نے ایک ساتھ دو فلمیں بنانے کا اعلان کیا ہے میں بھی رنگیلا سے مل کر اپنی شاعری کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ جان محمد بولے۔
یونس ہمدم! تم دیر نہ کرو، میرا تو مشورہ ہے تم آج ہی شام اس کے دفتر میں مل لو، کیونکہ آج شام اس کی کسی فلم کی شوٹنگ نہیں ہے۔ کل سے وہ پھر دن رات مصروف ہوجائے گا اور پھر اس کی شوٹنگ کی مصروفیت ایسی ہوتی ہے کبھی ایور نیو اسٹوڈیو،کبھی باری اسٹوڈیو،کبھی اے۔ایم اسٹوڈیو اورکبھی شاہ نور، آج کل سب سے زیادہ مصروف بس رنگیلا ہی ہے۔ اس کی مصروفیت کی وجہ سے فلمساز دفتر میں انتظار کرتے رہتے ہیں۔ میں نے یہ سن کر موقع غنیمت جانا اور اسی شام رنگیلا سے ملنے اس کے آفس پہنچ گیا۔
ابھی اس کے کمرے میں میز سجی نہیں تھی وہ فارغ بیٹھا تھا کہ میں پہنچ گیا بحیثیت نمایندہ نگار ویکلی میں بے دھڑک ہر پروڈکشن آفس میں چلا جاتا تھا۔ میں نے سلام کرنے کے بعد رنگیلا سے پوچھا وہ کب تک اپنی دونوں فلموں کو سیٹ پر لا رہے ہیں۔ رنگیلا نے بتایا بس اگلے مہینے دونوں فلمیں آگے پیچھے شروع کردوں گا۔
پھر میں نے اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے کہا۔ سعید صاحب (رنگیلا کا اصلی نام) میں فلمی صحافی کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی ہوں۔ اور میری یہ خواہش ہی مجھے لاہور لائی ہے کہ میں فلموں کے لیے بھی گیت لکھوں۔ آپ ایک ساتھ دو فلمیں شروع کر رہے ہیں۔ آپ کا بڑا نام ہے آپ جس شعبے میں بھی چاہیں کسی کو بھی چانس دے سکتے ہیں۔ آپ کی فلمی دنیا میں بڑی بات ہے مجھے بھی آپ کا تعاون چاہیے۔ پھر میں نے رنگیلا کی اجازت سے اپنے ایک دو گیت اور ایک غزل سنائی۔ غزل اسے بہت پسند آئی دو شعر قارئین کی بھی نذر کرتا ہوں۔
احساس کے نگر میں کوئی آشنا نہیں
رسم وفا کو آج کوئی جانتا نہیں
شاید خلوص و پیار ہے پرچھائیوں کا نام
پرچھائیوں کو کوئی بھی پہچانتا نہیں
رنگیلا نے بے ساختہ کہا یار! تم تو واقعی اچھے شاعر بھی ہو۔ مگر فلموں میں تو دھن پر گیت لکھنے پڑتے ہیں۔ میں تمہیں گیت کی سچویشن بتاتا ہوں۔ قتیل صاحب سے میں اپنی فلم کا انقلابی قسم کا گیت لکھواؤں گا۔ مگر تم فلم کی اس سچویشن پر گیت لکھو۔ سچویشن یہ ہے کہ ''صبح کا تارا'' میں میرا کردار ایک چونا سفیدی (قلعی گر) کرنے والے کا ہے۔
میں جس گھر میں بحیثیت مزدور چونا سفیدی کرنے جاتا ہوں، اس گھر کی لڑکی، بار بار کمرے کے قریب سے گزرتی ہے، میں کمرے میں سفیدی کرتے ہوئے اس کو کئی بار کن انکھیوں سے دیکھتا ہوں اور اس لڑکی کی خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہوں۔ پھر اپنے دل میں سوچتا ہوں کہ کیا ایسی چن ورگی میری زندگی میں بھی آسکتی ہے۔ پھر خود ہی اپنے دل سے کہتا ہوں اوئے پاگل خانیا کتھے توں کتھے اے چن ورگی کڑی۔ اوئے چونا سفیدی کرن والیا کبھی ریشمی کپڑے وچ ٹاٹ دا پیوند لگ سگدا اے۔ بس یہ سوچتے ہی میری آنکھوں میں اتھرو آجاندے نیں۔
یہی گیت کی سچویشن ہے۔ بس اب تم کوئی پھڑکتا ہوا گیت لکھ کر لے آؤ۔ تمہارا گیت میرے دل کو لگا۔ تو تمہارا گیت اوکے بس شرط یہی ہے گیت پسند آنا چاہیے۔ میں رنگیلا کی باتیں سن کر کچھ پرامید بھی ہوا اور کچھ پریشان بھی، میں رات بھر جاگتا رہا اورگیت کی سچویشن پر مکھڑے لکھتا رہا۔
دوسرے دن سرشام ہی ایورنیو اسٹوڈیو پہنچ گیا۔ کئی بار رنگیلا کے آفس گیا مگر رنگیلا کی ابھی آمد نہیں ہوئی تھی، میں اسٹوڈیو کے مختلف فلورز پر وقت گزارتا رہا۔ پھر جب میں رنگیلا کے دفتر میں پہنچا توکیمرہ مین جان محمد نے بتایا۔ سعید صاحب آگئے ہیں۔ مگر تم ابھی ان کے کمرے میں نہ جاؤ، تھوڑی دیر یہاں بیٹھ کر انتظار کرلو، تم ان کے کمرے میں آج اس وقت جانا جب ان کی میز لگی ہو اور ساتھیوں کی محفل سجی ہو کیونکہ وہ اس موڈ میں موسیقی اور شاعری کو اچھا سمجھتے ہیں پھر کچھ دیر کے بعد جان محمد نے مجھے اشارہ کیا۔ اب آجاؤ۔۔۔۔ میں نے کمرے میں داخل ہوکر سلام کیا اور ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
سعید صاحب کل جو آپ نے مجھے فلم ''صبح کا تارا'' کے گیت کی سچویشن دی تھی، اس پر میں نے کام کیا ہے اور چند خوبصورت مکھڑے لکھنے کی کوشش کی ہے۔
آپ کی اجازت ہو تو سناؤں۔ رنگیلا نے کہا اچھا اچھا۔ کچھ لکھا ہے۔ یار! تو پھر جلدی سے سناؤ۔ رنگیلا نے پھر اپنے چند اسٹنٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ او یار! میں نے کل اس نوجوان کو ایک گیت کی سچویشن دی تھی۔ تم لوگ بھی سنو! دیکھتے ہیں کیا لکھا ہے اس نے۔ پھر میں نے رنگیلا سے کہا۔ میں نے ویسے تو کافی مکھڑے لکھے ہیں۔ مگر جو دو مجھے بہت اچھے لگے وہ پہلے سناتا ہوں۔ پھر میں نے پہلے مکھڑا سنایا جس کے بول تھے:
جو مقدر میں نہ ہو اس کی تمنا کیوں ہے
چھوٹے سے دل میں مرے خوابوں کی دنیا کیوں ہے
یہ مکھڑا سن کر ہر طرف خاموش رہی پھر میں نے رنگیلا کو متوجہ کرتے ہوئے کہا اب یہ دوسرا مکھڑا سنیں۔ وہ جو آپ نے سچویشن بتائی تھی۔ وہ چن ورگی کڑی کہاں وہ کہاں میں۔ اور پھر میری آنکھوں میں اتھرو آجاتے ہیں۔
رنگیلا جو پہلا مکھڑا سن کر کسی سوچ میں گم تھا۔ چونک کر بولا۔ ہاں ہاں! سناؤ۔۔۔سناؤ۔ پھر میں نے اس اعتماد کے ساتھ کہ جو اللہ کرے گا وہ بہتر ہی کرے گا۔ دوسرا مکھڑا سنایا۔ جس کے بول تھے:
مرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
کبھی ہنساتا ہے مجھ کو کبھی رُلاتا ہے
یہ مکھڑا سنتے ہی رنگیلا نے بے ساختہ کہا۔ اوئے! فیر سنا۔ میں نے دوبارہ سنایا۔ رنگیلا بولا فیر سنا۔ میں نے ایک نظر جان محمد جمن کی طرف دیکھا اس نے بھی انگلی کے اشارے سے کہا۔ سناؤ سناؤ۔ پھر میں نے وہ مکھڑا پانچ، چھ بار سنایا پھر رنگیلا نے روہانسی آواز میں کہا اوئے کی لکھ دتا۔ میری زندگی وچ اے ہوئی ہوندا ریا اے (میری زندگی میں یہی ہوتا رہا ہے) پھر رنگیلا نے کہا۔ یار! تمہارا یہ مکھڑا میرے دل کو لگا۔
ایک اسسٹنٹ نے فوراً کہا۔ صاحب جی! یہ مکھڑا سچویشن پر ٹھا کر کے لگدا اے۔ پھر رنگیلا نے مجھے بڑی شفقت سے چند لمحوں تک دیکھا۔ اور پھر مسکراتے ہوئے کہا یار! توں تو امتحان وچ پاس ہوگیا ہے۔ پھر مجھ سے کہا۔ تم دوسرے کمرے میں جا کر اس گیت کے انترے بھی مکمل کرو، آج ہی اس گیت کی ریہرسل بھی ہوگی۔ رنگیلا نے اپنے ایک اسسٹنٹ سے کہا۔ جاؤ موسیقار کمال احمد کو لے کر آؤ۔ میں اس دوران دوسرے کمرے میں گیت لکھنے کے لیے چلا گیا۔
کچھ دیر بعد کیمرہ مین جان محمد نے ایک اسسٹنٹ کے ذریعے میرے لیے دودھ پتی کی چائے اور چند زیرے کے بسکٹ بھی بھجوا دیے کیونکہ جان محمد کو پتہ تھا کہ میں پینے کی چیزوں میں صرف چائے پینے کا عادی ہوں۔ دو گھنٹے کے اندر میں نے گیت کے تین چار انترے بھی لکھ لیے تھے وہ جب رنگیلا اور موسیقار کمال احمد کو سنائے تو وہ بھی پسند آئے اور انترے بھی فائنل ہوگئے۔ رنگیلا نے کمال احمد سے کہا۔
کل خاں صاحب مہدی حسن کو بھی بلالو اور ریہرسل رکھ لو اور پھر دوسرے دن مہدی حسن کی آواز میں گیت کی ریہرسل کی گئی اور تیسرے دن فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے میرا لکھا ہوا گیت مہدی حسن کی آواز میں اے۔زیڈ بیگ نے ریکارڈ کیا۔ لاہور کی کسی فلم کے لیے لکھا جانے والا یہ میرا پہلا گیت تھا۔
رنگیلا کے حوصلے اور عزائم بھی بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ اس کی فلم ''دل اور دنیا'' نے بھی فلمی دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیے تھے پھر رنگیلا نے بیک وقت دو فلموں کا آغاز کیا۔ ایک فلم کا نام تھا ''کبڑا عاشق'' جو مشہور انگریزی فلم ہنچ بیک آف ناسٹراڈیم کی کہانی پر مبنی تھی۔ اور رنگیلا اپنی اس فلم میں انتھونی کوئن کا کردار دہرا رہا تھا۔ دوسری فلم ''صبح کا تارا'' تھی جس میں سنگیتا کے ساتھ رنگیلا ہیرو تھا اورکبڑا عاشق کی ہیروئن نشو تھی۔
''صبح کا تارا'' کیمرہ مین جان محمد جمن تھا جو کراچی سے لاہور شفٹ ہوا تھا اور میری جان محمد سے کراچی کی فلم انڈسٹری ہی سے بڑی اچھی دوستی تھی جان محمد لاہور آکر رنگیلا پروڈکشن سے وابستہ ہوگیا۔ ایک دن میں نے جان محمد سے کہا۔ جان بھائی! رنگیلا نے ایک ساتھ دو فلمیں بنانے کا اعلان کیا ہے میں بھی رنگیلا سے مل کر اپنی شاعری کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ جان محمد بولے۔
یونس ہمدم! تم دیر نہ کرو، میرا تو مشورہ ہے تم آج ہی شام اس کے دفتر میں مل لو، کیونکہ آج شام اس کی کسی فلم کی شوٹنگ نہیں ہے۔ کل سے وہ پھر دن رات مصروف ہوجائے گا اور پھر اس کی شوٹنگ کی مصروفیت ایسی ہوتی ہے کبھی ایور نیو اسٹوڈیو،کبھی باری اسٹوڈیو،کبھی اے۔ایم اسٹوڈیو اورکبھی شاہ نور، آج کل سب سے زیادہ مصروف بس رنگیلا ہی ہے۔ اس کی مصروفیت کی وجہ سے فلمساز دفتر میں انتظار کرتے رہتے ہیں۔ میں نے یہ سن کر موقع غنیمت جانا اور اسی شام رنگیلا سے ملنے اس کے آفس پہنچ گیا۔
ابھی اس کے کمرے میں میز سجی نہیں تھی وہ فارغ بیٹھا تھا کہ میں پہنچ گیا بحیثیت نمایندہ نگار ویکلی میں بے دھڑک ہر پروڈکشن آفس میں چلا جاتا تھا۔ میں نے سلام کرنے کے بعد رنگیلا سے پوچھا وہ کب تک اپنی دونوں فلموں کو سیٹ پر لا رہے ہیں۔ رنگیلا نے بتایا بس اگلے مہینے دونوں فلمیں آگے پیچھے شروع کردوں گا۔
پھر میں نے اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے کہا۔ سعید صاحب (رنگیلا کا اصلی نام) میں فلمی صحافی کے ساتھ ساتھ ایک شاعر بھی ہوں۔ اور میری یہ خواہش ہی مجھے لاہور لائی ہے کہ میں فلموں کے لیے بھی گیت لکھوں۔ آپ ایک ساتھ دو فلمیں شروع کر رہے ہیں۔ آپ کا بڑا نام ہے آپ جس شعبے میں بھی چاہیں کسی کو بھی چانس دے سکتے ہیں۔ آپ کی فلمی دنیا میں بڑی بات ہے مجھے بھی آپ کا تعاون چاہیے۔ پھر میں نے رنگیلا کی اجازت سے اپنے ایک دو گیت اور ایک غزل سنائی۔ غزل اسے بہت پسند آئی دو شعر قارئین کی بھی نذر کرتا ہوں۔
احساس کے نگر میں کوئی آشنا نہیں
رسم وفا کو آج کوئی جانتا نہیں
شاید خلوص و پیار ہے پرچھائیوں کا نام
پرچھائیوں کو کوئی بھی پہچانتا نہیں
رنگیلا نے بے ساختہ کہا یار! تم تو واقعی اچھے شاعر بھی ہو۔ مگر فلموں میں تو دھن پر گیت لکھنے پڑتے ہیں۔ میں تمہیں گیت کی سچویشن بتاتا ہوں۔ قتیل صاحب سے میں اپنی فلم کا انقلابی قسم کا گیت لکھواؤں گا۔ مگر تم فلم کی اس سچویشن پر گیت لکھو۔ سچویشن یہ ہے کہ ''صبح کا تارا'' میں میرا کردار ایک چونا سفیدی (قلعی گر) کرنے والے کا ہے۔
میں جس گھر میں بحیثیت مزدور چونا سفیدی کرنے جاتا ہوں، اس گھر کی لڑکی، بار بار کمرے کے قریب سے گزرتی ہے، میں کمرے میں سفیدی کرتے ہوئے اس کو کئی بار کن انکھیوں سے دیکھتا ہوں اور اس لڑکی کی خوبصورتی دیکھ کر دنگ رہ جاتا ہوں۔ پھر اپنے دل میں سوچتا ہوں کہ کیا ایسی چن ورگی میری زندگی میں بھی آسکتی ہے۔ پھر خود ہی اپنے دل سے کہتا ہوں اوئے پاگل خانیا کتھے توں کتھے اے چن ورگی کڑی۔ اوئے چونا سفیدی کرن والیا کبھی ریشمی کپڑے وچ ٹاٹ دا پیوند لگ سگدا اے۔ بس یہ سوچتے ہی میری آنکھوں میں اتھرو آجاندے نیں۔
یہی گیت کی سچویشن ہے۔ بس اب تم کوئی پھڑکتا ہوا گیت لکھ کر لے آؤ۔ تمہارا گیت میرے دل کو لگا۔ تو تمہارا گیت اوکے بس شرط یہی ہے گیت پسند آنا چاہیے۔ میں رنگیلا کی باتیں سن کر کچھ پرامید بھی ہوا اور کچھ پریشان بھی، میں رات بھر جاگتا رہا اورگیت کی سچویشن پر مکھڑے لکھتا رہا۔
دوسرے دن سرشام ہی ایورنیو اسٹوڈیو پہنچ گیا۔ کئی بار رنگیلا کے آفس گیا مگر رنگیلا کی ابھی آمد نہیں ہوئی تھی، میں اسٹوڈیو کے مختلف فلورز پر وقت گزارتا رہا۔ پھر جب میں رنگیلا کے دفتر میں پہنچا توکیمرہ مین جان محمد نے بتایا۔ سعید صاحب آگئے ہیں۔ مگر تم ابھی ان کے کمرے میں نہ جاؤ، تھوڑی دیر یہاں بیٹھ کر انتظار کرلو، تم ان کے کمرے میں آج اس وقت جانا جب ان کی میز لگی ہو اور ساتھیوں کی محفل سجی ہو کیونکہ وہ اس موڈ میں موسیقی اور شاعری کو اچھا سمجھتے ہیں پھر کچھ دیر کے بعد جان محمد نے مجھے اشارہ کیا۔ اب آجاؤ۔۔۔۔ میں نے کمرے میں داخل ہوکر سلام کیا اور ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
سعید صاحب کل جو آپ نے مجھے فلم ''صبح کا تارا'' کے گیت کی سچویشن دی تھی، اس پر میں نے کام کیا ہے اور چند خوبصورت مکھڑے لکھنے کی کوشش کی ہے۔
آپ کی اجازت ہو تو سناؤں۔ رنگیلا نے کہا اچھا اچھا۔ کچھ لکھا ہے۔ یار! تو پھر جلدی سے سناؤ۔ رنگیلا نے پھر اپنے چند اسٹنٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ او یار! میں نے کل اس نوجوان کو ایک گیت کی سچویشن دی تھی۔ تم لوگ بھی سنو! دیکھتے ہیں کیا لکھا ہے اس نے۔ پھر میں نے رنگیلا سے کہا۔ میں نے ویسے تو کافی مکھڑے لکھے ہیں۔ مگر جو دو مجھے بہت اچھے لگے وہ پہلے سناتا ہوں۔ پھر میں نے پہلے مکھڑا سنایا جس کے بول تھے:
جو مقدر میں نہ ہو اس کی تمنا کیوں ہے
چھوٹے سے دل میں مرے خوابوں کی دنیا کیوں ہے
یہ مکھڑا سن کر ہر طرف خاموش رہی پھر میں نے رنگیلا کو متوجہ کرتے ہوئے کہا اب یہ دوسرا مکھڑا سنیں۔ وہ جو آپ نے سچویشن بتائی تھی۔ وہ چن ورگی کڑی کہاں وہ کہاں میں۔ اور پھر میری آنکھوں میں اتھرو آجاتے ہیں۔
رنگیلا جو پہلا مکھڑا سن کر کسی سوچ میں گم تھا۔ چونک کر بولا۔ ہاں ہاں! سناؤ۔۔۔سناؤ۔ پھر میں نے اس اعتماد کے ساتھ کہ جو اللہ کرے گا وہ بہتر ہی کرے گا۔ دوسرا مکھڑا سنایا۔ جس کے بول تھے:
مرے خیال نے کیسا صنم تراشا ہے
کبھی ہنساتا ہے مجھ کو کبھی رُلاتا ہے
یہ مکھڑا سنتے ہی رنگیلا نے بے ساختہ کہا۔ اوئے! فیر سنا۔ میں نے دوبارہ سنایا۔ رنگیلا بولا فیر سنا۔ میں نے ایک نظر جان محمد جمن کی طرف دیکھا اس نے بھی انگلی کے اشارے سے کہا۔ سناؤ سناؤ۔ پھر میں نے وہ مکھڑا پانچ، چھ بار سنایا پھر رنگیلا نے روہانسی آواز میں کہا اوئے کی لکھ دتا۔ میری زندگی وچ اے ہوئی ہوندا ریا اے (میری زندگی میں یہی ہوتا رہا ہے) پھر رنگیلا نے کہا۔ یار! تمہارا یہ مکھڑا میرے دل کو لگا۔
ایک اسسٹنٹ نے فوراً کہا۔ صاحب جی! یہ مکھڑا سچویشن پر ٹھا کر کے لگدا اے۔ پھر رنگیلا نے مجھے بڑی شفقت سے چند لمحوں تک دیکھا۔ اور پھر مسکراتے ہوئے کہا یار! توں تو امتحان وچ پاس ہوگیا ہے۔ پھر مجھ سے کہا۔ تم دوسرے کمرے میں جا کر اس گیت کے انترے بھی مکمل کرو، آج ہی اس گیت کی ریہرسل بھی ہوگی۔ رنگیلا نے اپنے ایک اسسٹنٹ سے کہا۔ جاؤ موسیقار کمال احمد کو لے کر آؤ۔ میں اس دوران دوسرے کمرے میں گیت لکھنے کے لیے چلا گیا۔
کچھ دیر بعد کیمرہ مین جان محمد نے ایک اسسٹنٹ کے ذریعے میرے لیے دودھ پتی کی چائے اور چند زیرے کے بسکٹ بھی بھجوا دیے کیونکہ جان محمد کو پتہ تھا کہ میں پینے کی چیزوں میں صرف چائے پینے کا عادی ہوں۔ دو گھنٹے کے اندر میں نے گیت کے تین چار انترے بھی لکھ لیے تھے وہ جب رنگیلا اور موسیقار کمال احمد کو سنائے تو وہ بھی پسند آئے اور انترے بھی فائنل ہوگئے۔ رنگیلا نے کمال احمد سے کہا۔
کل خاں صاحب مہدی حسن کو بھی بلالو اور ریہرسل رکھ لو اور پھر دوسرے دن مہدی حسن کی آواز میں گیت کی ریہرسل کی گئی اور تیسرے دن فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے میرا لکھا ہوا گیت مہدی حسن کی آواز میں اے۔زیڈ بیگ نے ریکارڈ کیا۔ لاہور کی کسی فلم کے لیے لکھا جانے والا یہ میرا پہلا گیت تھا۔