ہارس ٹریڈنگ
آج کل گھوڑوں کا چرچا عام ہے اور ان کے دام بھی زیر بحث ہیں،
آج کل گھوڑوں کا چرچا عام ہے اور ان کے دام بھی زیر بحث ہیں، مگر یہ سچ کوئی بھی نہیں کہتا کہ گھوڑے بے چارے خرید و فروخت کے لیے ہوتے ہیں۔
اس اصطلاح کی بنیادیں گھوڑوں کے بازار میں چھپے وہ نسخے تھے جس سے شفافیت کو قائم رکھنا ممکن نہ تھا۔ گھوڑے دیکھنے کے تو بہت اچھے مگر جب میدان میں لاؤ تو اس کے برعکس۔ گھوڑے کوئی بکری و گائے نہیں جس کی خرید و فروخت اس کے دودھ یا گوشت نکالنے کے پس منظر میں ہوتی ہو۔
تبھی تو کسی نہ کہا ''گھوڑا تھا گھمنڈی، گیا سبزی منڈی، سبزی منڈی میں برف پڑی تھی لگ گئی اس کو ٹھنڈی'' پھر بازار نے کہا کہ گھوڑے کی خرید و فروخت کو شفاف بنایا ہی نہیں جاسکتا، ایسا کرنا خرید و فروخت کے اصولوں کی نفی کرے گا اور مارکیٹ اکانومی میں ایسا نہیں کیا جاسکتا۔
اور بھی ہارس ٹریڈنگ Horse Tradingکے ایسے جوہر پارلیمنٹ کے جوڑ توڑ کے اندر بھی دیکھے گئے تو اس طرح یہ اصطلاح سیاست کے داؤ پیچ میں بڑے حقائق کی ترجمانی کرنے لگی۔ یعنی ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، اور کھانے کے اور۔ دیکھنے کو ممبر ایوان میرا ہے، لیکن میرا ہے کے نہیں ہے کچھ پتا نہیں۔
مجھے افتخار عارف کی غزل جس کو نورجہاں نے گایا ہے امڈ کے کانوں میں سرگوشیوں کی طرح بج رہی ہے۔ ''میں اس سے جھوٹ بھی بولوں وہ مجھ سے سچ بولے، مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو ۔'' اگر پارلیمنٹ میں ہارس ٹریڈنگ کو روکا جائے گا تو پھر ایسی پارٹی کا سربراہ فرعون بن جاتا ہے۔
ہوتا کیا ہے کہ نبیل گبول صاحب کی طرح یا تو پھر استعفیٰ یا پھر اللہ اللہ خیر صلہ۔ یہ بھی ہوا کہ اکیسویں ترمیم کے لیے سینیٹ میں بات کرتے ہوئے رضا ربانی اپنے آنسو نہ روک سکے اور چوہدری اعتزاز کو عاصمہ جہانگیر سے کراچی کے لٹریری فیسٹیول میں سخت جملے سننے کو ملے۔ لیکن کون جانے کہ اکیسویں ترمیم پر حامی بھرتے ہوئے پیپلز پارٹی نے اپنے منشور سے انحراف کیا تھا۔ مگر منشور کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔
جب کہ پارٹی کی قیادت کا ایسا فیصلہ سر تسلیم خم اگر کوئی نہ کرے تو پھر اس پر تہمت لگائی جاتی ہے کہ وہ فلور کراس کرگئے۔ اور پھر پارٹی اسے شوکاز نوٹس دے کر پارٹی سے خارج کرسکتی ہے اور ایسے خارج ہونے کی آئینی حیثیت کچھ اس طرح سے بنتی ہے کہ وہ صاحب اپنی سیٹ قومی اسمبلی وغیرہ کی کھو چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے آج کل برطانیہ وغیرہ میں ہارس ٹریڈنگ اخلاقی و غیر اخلاقی حقیقت سے بڑھ کر زمینی حقائق پر دیکھی جاتی ہے۔ اور وہ برطانیہ کی سیاست کے اندر روایت یا Norm ہے۔ کوئی اسے برا یا بھلا نہیں سمجھتا۔
پچھلے سینیٹ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے کچھ ممبران پنجاب اسمبلی نے پارٹی کے کہنے کے مطابق ووٹ نہیں دیے تھے۔ وہ بات سامنے اس لیے نہیں آئی کہ ووٹ سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ہوا نہ کہ ہاتھ اوپر اٹھا کر سب کے سامنے۔ اب ایسا بندہ پارٹی کے لیڈر کے حکم سے کیسے نافرمانی کرسکتا ہے۔ تو پھر یہ ایوان تو نہ ہوا کوئی بھیڑ بکریاں ہوگئیں۔
ہم نے کبھی بھی حکمراں پارٹی کے ممبران کو اپنی پارٹی کی کارکردگی پر ایوان میں تنقید کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب کہ مہذب ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ بلکہ قانون سازی ہوتے ہوئے حکمراں جماعت کے کچھ ارکان پارٹی کے فیصلے کے برعکس ووٹ دیتے ہیں اور اسے جمہوری اقدار کے عین مطابق سمجھا جاتا ہے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسی پارٹیوں کے سربراہان ایک ہی خاندان سے ہوتے ہیں اور ان پارٹیوں کے اندر انتخابات وغیرہ نہیں ہوتے۔ جسے چاہے صوبائی صدر بنا دو، اور جسے چاہو اتار دو۔ ہماری بے نظیر صاحبہ، انتہائی ادب و احترام کے ساتھ یہ حقیقت یہاں رکھوں کہ وہ سینٹرل کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ساری زندگی کے لیے چیئر پرسن تھیں۔
یہ اور بات ہے کہ اس عظیم لیڈر کی زندگی بہت مختصر تھی۔ یوں کہیے کہ ایسے خاندان اگر ملک کے بادشاہ نہیں تو کم ازکم اپنی پارٹیوں کے شاہی خاندان تو یقینی ہیں۔ 21 ویں ترمیم جس کو لانے کے لیے آج کل بہت کام ہو رہا ہے، اصولی طور پر جمہوری روح کے منافی ہے۔ کیونکہ اس سے سیکرٹ بیلٹ کے آفاقی اصول کی نفی ہوتی ہے۔ کیونکہ سیکرٹ بیلٹ ووٹ دینے والے فرد کو فریڈم دیتا ہے کہ وہ اپنے ضمیر یا حساب سے جسے چاہے ووٹ دے دے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں سینیٹ کا انتخاب کروڑوں کا کاروبار ہے۔ اور اب ایسا کوئی کام ایک ممبر نہیں بلکہ پارٹی کا لیڈر کرسکتا ہے۔ یعنی وہ اگر چاہے تو سیٹ کی خرید و فروخت کرسکتا ہے اور اگر نہ چاہے تو ضمیر کے مطابق یہ سیٹ کسی کو دے سکتا ہے۔ یعنی ہارس ٹریڈنگ اب بھی ہوگی لیکن اس پر مونوپلی پارٹی کے سربراہ کی ہوگی۔ اس مرتبہ پیپلز پارٹی نے بھی کسی کارکن کو سینیٹ کی سیٹ نہیں دی۔ مسلم لیگ ن میں تو کارکن والا حساب کتاب ہے ہی نہیں۔
رہا خان صاحب کا معاملہ وہ نہ جانے کیوں اس بحث میں خواہ مخواہ الجھ پڑے۔ اگر فلور کراسنگ کی اجازت ہوتی، فارورڈ بلاک بنانے سے اسمبلی کی ممبرشپ نہ جاتی تو آج بھی بہت سے بلاک بنتے اور ایوان کے اندر تبدیلی لانا ممکن ہوتی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسا کرنے سے ایجنسیاں وہی کام شروع کردیتیں جب انھوں نے بے نظیر کے پہلے دور میں آپریشن ''مڈنائٹ جیکال'' کے نام سے کیا تھا۔
ہماری بڑی سیاسی پارٹیوں کے شاہی خاندانوں نے کون سی جمہوریت کے لیے گراں قدر خدمات دی ہیں جو ہم کہیں کہ یہ بہت اصول والے ہیں، اس لیے ہارس ٹریڈنگ نہیں ہونی چاہیے اور پارٹی قیادت کی مونوپلی ہونی چاہیے۔ یوں لگتا ہے کہ اب ایوان اسمبلی نہ ہو بلکہ ایوان شاہی خاندان پارٹیاں ہو۔ سب جیسے وہ طوطے ہوں جو بولی ساجن بولے وہ بولی یہ بھی رٹ لیں۔ اب یہ ایوان یوں لگتا ہے کہ جیسے درباریوں کا بازار ہو، جس میں وفاداریاں پارٹی کے شاہی خاندان کے ساتھ ہیں اور جو اس کا موقف ہے وہ ان کا موقف۔ وہ اچھا کہیں تو یہ بھی اچھا کہیں اور برا کہے تو یہ بھی وہی کہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم جدید جاگیرداری نظام کی عکاسی کرتے ہوئے مختلف بیٹھکوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ پارٹیوں کے اندر جمہوری طرز نہیں اور ایسے غیر جمہوری طرز نے جمہوری اداروں پر اپنے بد اثرات چھوڑے ہیں۔ یوں کہیے کہ اب یہ جاگیردارانہ جمہوریت ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔
جمہوریت کو ایسے اخلاقی و غیر اخلاقی پیمانوں میں تبدیل کر کے ہم دراصل اس اخلاقی بحث میں الجھ رہے ہیں جس سے بہت سے علما و مدارس نے اپنا سکہ جمانے کی کوشش کی۔
بات مختصراً یہ ہے کہ آپ ہارس ٹریڈنگ کو روک ہی نہیں سکتے۔ پہلے یہ فرد کرتا تھا اور اب یہ پارٹی کا شاہی خاندان کرے گا۔ پہلے اگر فرد کرتا تھا تو نظر نہیں آتا تھا اس لیے پارٹی والے اس کی ممبر شپ معطل نہیں کرسکتے تھے اور اس طرح وہ اپنی سیٹ نہیں کھو سکتا تھا۔ لیکن اب ایسا ہونا ممکن ہے، اور اس طرح طاقت اس بندے کے پاس ہے جو ایسے ممبر کی پارٹی رکنیت ختم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائم علی شاہ کپاس کے پتلے کی مانند وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے ہیں ۔
وہ چاہے کتنا بھی De Jure وزیراعلیٰ کیوں نہ ہوں ، لیکن De fecto وزیراعلیٰ پارٹی کا شاہی خاندان ہے۔ اور اگر ایسا ممبر ایسے دستور کو نہ ماننے کے لیے اٹھ کھڑا ہو وہ فارورڈ بلاک یا ہارس ٹریڈنگ میں آجائے گا، غیر اخلاقی حرکت کرنے کا مرتکب پایا جائے گا۔ ''جو چاہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا'' فیض صاحب کا بھی ایک بازار تھا، وہ بازار جہاں وہ پا بہ جولاں چلنے کو کہتے تھے، عوام کے پاس جانے کو کہتے تھے، ان کے درد کو اپنے سینے سے لگانے کو کہتے تھے۔ وہ روز ناکام و صبح ناشاد کو پانے سے آزاد ہوکے سچ کی تلاش کے لیے مگن رہنے کو کہتے تھے۔
اس لیے ہم گھوڑوں کے اس بازار سے بالاتر ہوکر دور افق پر اس امید سے دیکھتے ہیں جب ایک دن ایسا بھی ہوگا:
رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہوں، آئیں یارو چلو
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
اس اصطلاح کی بنیادیں گھوڑوں کے بازار میں چھپے وہ نسخے تھے جس سے شفافیت کو قائم رکھنا ممکن نہ تھا۔ گھوڑے دیکھنے کے تو بہت اچھے مگر جب میدان میں لاؤ تو اس کے برعکس۔ گھوڑے کوئی بکری و گائے نہیں جس کی خرید و فروخت اس کے دودھ یا گوشت نکالنے کے پس منظر میں ہوتی ہو۔
تبھی تو کسی نہ کہا ''گھوڑا تھا گھمنڈی، گیا سبزی منڈی، سبزی منڈی میں برف پڑی تھی لگ گئی اس کو ٹھنڈی'' پھر بازار نے کہا کہ گھوڑے کی خرید و فروخت کو شفاف بنایا ہی نہیں جاسکتا، ایسا کرنا خرید و فروخت کے اصولوں کی نفی کرے گا اور مارکیٹ اکانومی میں ایسا نہیں کیا جاسکتا۔
اور بھی ہارس ٹریڈنگ Horse Tradingکے ایسے جوہر پارلیمنٹ کے جوڑ توڑ کے اندر بھی دیکھے گئے تو اس طرح یہ اصطلاح سیاست کے داؤ پیچ میں بڑے حقائق کی ترجمانی کرنے لگی۔ یعنی ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، اور کھانے کے اور۔ دیکھنے کو ممبر ایوان میرا ہے، لیکن میرا ہے کے نہیں ہے کچھ پتا نہیں۔
مجھے افتخار عارف کی غزل جس کو نورجہاں نے گایا ہے امڈ کے کانوں میں سرگوشیوں کی طرح بج رہی ہے۔ ''میں اس سے جھوٹ بھی بولوں وہ مجھ سے سچ بولے، مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو ۔'' اگر پارلیمنٹ میں ہارس ٹریڈنگ کو روکا جائے گا تو پھر ایسی پارٹی کا سربراہ فرعون بن جاتا ہے۔
ہوتا کیا ہے کہ نبیل گبول صاحب کی طرح یا تو پھر استعفیٰ یا پھر اللہ اللہ خیر صلہ۔ یہ بھی ہوا کہ اکیسویں ترمیم کے لیے سینیٹ میں بات کرتے ہوئے رضا ربانی اپنے آنسو نہ روک سکے اور چوہدری اعتزاز کو عاصمہ جہانگیر سے کراچی کے لٹریری فیسٹیول میں سخت جملے سننے کو ملے۔ لیکن کون جانے کہ اکیسویں ترمیم پر حامی بھرتے ہوئے پیپلز پارٹی نے اپنے منشور سے انحراف کیا تھا۔ مگر منشور کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔
جب کہ پارٹی کی قیادت کا ایسا فیصلہ سر تسلیم خم اگر کوئی نہ کرے تو پھر اس پر تہمت لگائی جاتی ہے کہ وہ فلور کراس کرگئے۔ اور پھر پارٹی اسے شوکاز نوٹس دے کر پارٹی سے خارج کرسکتی ہے اور ایسے خارج ہونے کی آئینی حیثیت کچھ اس طرح سے بنتی ہے کہ وہ صاحب اپنی سیٹ قومی اسمبلی وغیرہ کی کھو چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے آج کل برطانیہ وغیرہ میں ہارس ٹریڈنگ اخلاقی و غیر اخلاقی حقیقت سے بڑھ کر زمینی حقائق پر دیکھی جاتی ہے۔ اور وہ برطانیہ کی سیاست کے اندر روایت یا Norm ہے۔ کوئی اسے برا یا بھلا نہیں سمجھتا۔
پچھلے سینیٹ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے کچھ ممبران پنجاب اسمبلی نے پارٹی کے کہنے کے مطابق ووٹ نہیں دیے تھے۔ وہ بات سامنے اس لیے نہیں آئی کہ ووٹ سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ہوا نہ کہ ہاتھ اوپر اٹھا کر سب کے سامنے۔ اب ایسا بندہ پارٹی کے لیڈر کے حکم سے کیسے نافرمانی کرسکتا ہے۔ تو پھر یہ ایوان تو نہ ہوا کوئی بھیڑ بکریاں ہوگئیں۔
ہم نے کبھی بھی حکمراں پارٹی کے ممبران کو اپنی پارٹی کی کارکردگی پر ایوان میں تنقید کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب کہ مہذب ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ بلکہ قانون سازی ہوتے ہوئے حکمراں جماعت کے کچھ ارکان پارٹی کے فیصلے کے برعکس ووٹ دیتے ہیں اور اسے جمہوری اقدار کے عین مطابق سمجھا جاتا ہے۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایسی پارٹیوں کے سربراہان ایک ہی خاندان سے ہوتے ہیں اور ان پارٹیوں کے اندر انتخابات وغیرہ نہیں ہوتے۔ جسے چاہے صوبائی صدر بنا دو، اور جسے چاہو اتار دو۔ ہماری بے نظیر صاحبہ، انتہائی ادب و احترام کے ساتھ یہ حقیقت یہاں رکھوں کہ وہ سینٹرل کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ساری زندگی کے لیے چیئر پرسن تھیں۔
یہ اور بات ہے کہ اس عظیم لیڈر کی زندگی بہت مختصر تھی۔ یوں کہیے کہ ایسے خاندان اگر ملک کے بادشاہ نہیں تو کم ازکم اپنی پارٹیوں کے شاہی خاندان تو یقینی ہیں۔ 21 ویں ترمیم جس کو لانے کے لیے آج کل بہت کام ہو رہا ہے، اصولی طور پر جمہوری روح کے منافی ہے۔ کیونکہ اس سے سیکرٹ بیلٹ کے آفاقی اصول کی نفی ہوتی ہے۔ کیونکہ سیکرٹ بیلٹ ووٹ دینے والے فرد کو فریڈم دیتا ہے کہ وہ اپنے ضمیر یا حساب سے جسے چاہے ووٹ دے دے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں سینیٹ کا انتخاب کروڑوں کا کاروبار ہے۔ اور اب ایسا کوئی کام ایک ممبر نہیں بلکہ پارٹی کا لیڈر کرسکتا ہے۔ یعنی وہ اگر چاہے تو سیٹ کی خرید و فروخت کرسکتا ہے اور اگر نہ چاہے تو ضمیر کے مطابق یہ سیٹ کسی کو دے سکتا ہے۔ یعنی ہارس ٹریڈنگ اب بھی ہوگی لیکن اس پر مونوپلی پارٹی کے سربراہ کی ہوگی۔ اس مرتبہ پیپلز پارٹی نے بھی کسی کارکن کو سینیٹ کی سیٹ نہیں دی۔ مسلم لیگ ن میں تو کارکن والا حساب کتاب ہے ہی نہیں۔
رہا خان صاحب کا معاملہ وہ نہ جانے کیوں اس بحث میں خواہ مخواہ الجھ پڑے۔ اگر فلور کراسنگ کی اجازت ہوتی، فارورڈ بلاک بنانے سے اسمبلی کی ممبرشپ نہ جاتی تو آج بھی بہت سے بلاک بنتے اور ایوان کے اندر تبدیلی لانا ممکن ہوتی۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسا کرنے سے ایجنسیاں وہی کام شروع کردیتیں جب انھوں نے بے نظیر کے پہلے دور میں آپریشن ''مڈنائٹ جیکال'' کے نام سے کیا تھا۔
ہماری بڑی سیاسی پارٹیوں کے شاہی خاندانوں نے کون سی جمہوریت کے لیے گراں قدر خدمات دی ہیں جو ہم کہیں کہ یہ بہت اصول والے ہیں، اس لیے ہارس ٹریڈنگ نہیں ہونی چاہیے اور پارٹی قیادت کی مونوپلی ہونی چاہیے۔ یوں لگتا ہے کہ اب ایوان اسمبلی نہ ہو بلکہ ایوان شاہی خاندان پارٹیاں ہو۔ سب جیسے وہ طوطے ہوں جو بولی ساجن بولے وہ بولی یہ بھی رٹ لیں۔ اب یہ ایوان یوں لگتا ہے کہ جیسے درباریوں کا بازار ہو، جس میں وفاداریاں پارٹی کے شاہی خاندان کے ساتھ ہیں اور جو اس کا موقف ہے وہ ان کا موقف۔ وہ اچھا کہیں تو یہ بھی اچھا کہیں اور برا کہے تو یہ بھی وہی کہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم جدید جاگیرداری نظام کی عکاسی کرتے ہوئے مختلف بیٹھکوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ پارٹیوں کے اندر جمہوری طرز نہیں اور ایسے غیر جمہوری طرز نے جمہوری اداروں پر اپنے بد اثرات چھوڑے ہیں۔ یوں کہیے کہ اب یہ جاگیردارانہ جمہوریت ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔
جمہوریت کو ایسے اخلاقی و غیر اخلاقی پیمانوں میں تبدیل کر کے ہم دراصل اس اخلاقی بحث میں الجھ رہے ہیں جس سے بہت سے علما و مدارس نے اپنا سکہ جمانے کی کوشش کی۔
بات مختصراً یہ ہے کہ آپ ہارس ٹریڈنگ کو روک ہی نہیں سکتے۔ پہلے یہ فرد کرتا تھا اور اب یہ پارٹی کا شاہی خاندان کرے گا۔ پہلے اگر فرد کرتا تھا تو نظر نہیں آتا تھا اس لیے پارٹی والے اس کی ممبر شپ معطل نہیں کرسکتے تھے اور اس طرح وہ اپنی سیٹ نہیں کھو سکتا تھا۔ لیکن اب ایسا ہونا ممکن ہے، اور اس طرح طاقت اس بندے کے پاس ہے جو ایسے ممبر کی پارٹی رکنیت ختم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قائم علی شاہ کپاس کے پتلے کی مانند وزارت اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھے ہیں ۔
وہ چاہے کتنا بھی De Jure وزیراعلیٰ کیوں نہ ہوں ، لیکن De fecto وزیراعلیٰ پارٹی کا شاہی خاندان ہے۔ اور اگر ایسا ممبر ایسے دستور کو نہ ماننے کے لیے اٹھ کھڑا ہو وہ فارورڈ بلاک یا ہارس ٹریڈنگ میں آجائے گا، غیر اخلاقی حرکت کرنے کا مرتکب پایا جائے گا۔ ''جو چاہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا'' فیض صاحب کا بھی ایک بازار تھا، وہ بازار جہاں وہ پا بہ جولاں چلنے کو کہتے تھے، عوام کے پاس جانے کو کہتے تھے، ان کے درد کو اپنے سینے سے لگانے کو کہتے تھے۔ وہ روز ناکام و صبح ناشاد کو پانے سے آزاد ہوکے سچ کی تلاش کے لیے مگن رہنے کو کہتے تھے۔
اس لیے ہم گھوڑوں کے اس بازار سے بالاتر ہوکر دور افق پر اس امید سے دیکھتے ہیں جب ایک دن ایسا بھی ہوگا:
رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہوں، آئیں یارو چلو
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو