ہائیکورٹ میں آگ بجھانے کے انتظامات سے متعلق درخواست پر نوٹس
سندھ ہائیکورٹ نے ڈی آئی جی جیل خانہ جات کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر نوٹس جاری کردیے، جواب بھی طلب
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے
سندھ ہائیکورٹ کے دفاتر میں آگ بجھانے کے آلات کی عدم موجودگی اور عملے کوشہری دفاع کی تربیت دینے کے حوالے سے دائر درخواست پر حکومت پاکستان،ڈپٹی اٹارنی جنرل،ایڈوکیٹ جنرل سندھ، سیکریٹری خزانہ،سیکریٹری لوکل گورنمنٹ،سیکریٹری قانون، رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ اور رجسٹرار وفاقی شرعی عدالت سمیت دیگر کو نوٹس جاری کردیے ہیں، عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا ہے کہ یہ مفاد عامہ کا اہم معاملہ ہے اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔
حاجی محمداقبال کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے ریکارڈ روم،کریمنل برانچ،رٹ برانچ ،اپیلٹ برانچ اور دیگر دفاتر میں آگ بجھانے کے آلات نہیں،سندھ ہائی کورٹ کے دفاتر میں اہم ریکارڈ اور فائلیں موجود ہیں ،ان کی حفاظت کیلیے مناسب انتظام اور عملے کا تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے،اس کے علاوہ یہاں بڑی تعداد میں وکلااور سائلین بھی آتے ہیں ، غیر مناسب انتظامات کی وجہ سے انکی جانوںکو بھی نقصان ہوسکتا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے نوٹیفکیشن معطل کیے جانے کے باوجود بحیثیت ڈی آئی جی کام کرنے پر جیل سپرٹینڈنٹ نصرت مگن کے خلاف دائرتوہین عدالت کی درخواست پر چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری سروسز، آئی جی جیل خانہ جات اور نصرت مگن کو 23 اکتوبرکیلیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا،درخواست گزار اشرف نظامانی کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فاضل عدالت نے 18اپریل کو نصرت مگن کی بحیثیت ڈی آئی کی تقرری کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا اس کے باوجود وہ بحیثیت ڈی آئی جی جیل کام کررہے ہیں جو کہ توہین عدالت ہے۔
بینچ نے ابتدائی سماعت کے بعد مدعا علیہان کو نوٹس جاری کردیے، اشرف نظامانی نے نصرت منگن کی ڈی آئی جی کے عہدے پر ترقی کو چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ سنیارٹی لسٹ میں ان کا نام اوپر ہونے کے باوجودنصرت منگن کو ترقی دے دی گئی اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار اشرف نظامانی کی بحیثیت سپرٹینڈنٹ جیل حیدرآباد تقرری کے دوران قیدی جاں بحق ہوگیا تھا جبکہ تحقیقاتی رپورٹ میں واضح کردیا گیا ہے کہ قیدی کی ہلاکت میں کوئی جیل اہلکار ملوث نہیں۔
سندھ ہائیکورٹ کے دفاتر میں آگ بجھانے کے آلات کی عدم موجودگی اور عملے کوشہری دفاع کی تربیت دینے کے حوالے سے دائر درخواست پر حکومت پاکستان،ڈپٹی اٹارنی جنرل،ایڈوکیٹ جنرل سندھ، سیکریٹری خزانہ،سیکریٹری لوکل گورنمنٹ،سیکریٹری قانون، رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ اور رجسٹرار وفاقی شرعی عدالت سمیت دیگر کو نوٹس جاری کردیے ہیں، عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا ہے کہ یہ مفاد عامہ کا اہم معاملہ ہے اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔
حاجی محمداقبال کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے ریکارڈ روم،کریمنل برانچ،رٹ برانچ ،اپیلٹ برانچ اور دیگر دفاتر میں آگ بجھانے کے آلات نہیں،سندھ ہائی کورٹ کے دفاتر میں اہم ریکارڈ اور فائلیں موجود ہیں ،ان کی حفاظت کیلیے مناسب انتظام اور عملے کا تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے،اس کے علاوہ یہاں بڑی تعداد میں وکلااور سائلین بھی آتے ہیں ، غیر مناسب انتظامات کی وجہ سے انکی جانوںکو بھی نقصان ہوسکتا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے نوٹیفکیشن معطل کیے جانے کے باوجود بحیثیت ڈی آئی جی کام کرنے پر جیل سپرٹینڈنٹ نصرت مگن کے خلاف دائرتوہین عدالت کی درخواست پر چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری سروسز، آئی جی جیل خانہ جات اور نصرت مگن کو 23 اکتوبرکیلیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا،درخواست گزار اشرف نظامانی کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فاضل عدالت نے 18اپریل کو نصرت مگن کی بحیثیت ڈی آئی کی تقرری کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا اس کے باوجود وہ بحیثیت ڈی آئی جی جیل کام کررہے ہیں جو کہ توہین عدالت ہے۔
بینچ نے ابتدائی سماعت کے بعد مدعا علیہان کو نوٹس جاری کردیے، اشرف نظامانی نے نصرت منگن کی ڈی آئی جی کے عہدے پر ترقی کو چیلنج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ سنیارٹی لسٹ میں ان کا نام اوپر ہونے کے باوجودنصرت منگن کو ترقی دے دی گئی اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار اشرف نظامانی کی بحیثیت سپرٹینڈنٹ جیل حیدرآباد تقرری کے دوران قیدی جاں بحق ہوگیا تھا جبکہ تحقیقاتی رپورٹ میں واضح کردیا گیا ہے کہ قیدی کی ہلاکت میں کوئی جیل اہلکار ملوث نہیں۔